آسمان پر چھائے کالے بادلوں میں ماہتاب کہیں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ صبح کے برعکس اب سردی شدت پکڑ چکی تھی۔ ایسے میں دوسرے کمرے میں موجود کردم شراب نوشی کے مزے سے لطف اندوز ہو رہا تھا، جب آئینور نماز ادا کرنے کے لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ کردم کے ہاتھ میں شراب کا گلاس دیکھ آئینور کے قدم وہیں تھم گئے۔ وہ جو اپنی خواب گاہ میں آئینور کے آنے سے پہلے یا اس کے سونے کے بعد ہی شراب پیتا تھا۔ اب دوسرے کمرے میں، اس کے سامنے پی رہا تھا۔ وہ واپس کمرے سے نکلنے لگی کہ کردم کی آواز پر ناچار مڑ کر اس کی طرف دیکھا جو شراب کا گلاس ہونٹوں سے لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کردم کی نظر سیدھا اس کے ماتھے پر بندھی پٹی کی طرف گئی۔ کردم کو اپنے غلطی پر ندامت محسوس ہوئی۔
" مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"
"بولیں !! "
" پہلے بیٹھ جاؤ۔"
کردم کے کہنے پر نا چاہتے ہوئے بھی آئینور بیڈ پر بیٹھ گئی۔
" تم جانتی ہو نا تمہیں یہاں کیوں اور کس حیثیت سے لایا گیا تھا؟ "
" جی۔" آئینور نے آنکھیں گھوما کر کہا۔
" کس حیثیت سے؟ " وہ دلچسپی سے اسے دیکھتا پوچھنے لگا۔
" تاوان !! "
مختصر سا جواب دیا۔۔۔ مگر کردم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلا گیا۔
" اب میں اس میں کچھ ردوبدل کرنا چاہتا ہوں۔"
" کیا مطلب؟ " اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
گلاس رکھ کر کردم چلتا ہوا اس کے سامنے آیا اور شانوں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔
" اب میں تمہیں اپنی بیوی کی حیثیت سے یہاں رکھنا چاہتا ہوں اور ہاں انکار کی گنجائش نہیں۔" فیصلے کے ساتھ حکم بھی نازل ہوا۔
" کیوں؟ "
آئینور نے اچنبھے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"کیونکہ مجھے تم چاہیئے ہو صرف تم۔ تم میری عادت بن گئی ہو یا شاید محبت، لیکن میں بس اب تمہیں اپنے پاس چاہتا ہوں۔" کردم اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
" ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں اور آپ دو الگ راستوں کے مسافر ہیں، جن کی منزل کبھی ایک نہیں ہو سکتی۔" آئینور سرد لہجے میں بولی۔ جو وہ نہیں چاہتی تھی وہ ہو گیا تھا۔
"میں یہ سب نہیں جانتا۔ اس لیے اب یہ تم پر ہے کہ اپنی مرضی سے یہاں رہو یا زبردستی مگر تمہیں اب ادھر ہی رہنا ہے ہمیشہ میرے ساتھ، میرے پاس۔" کردم نے کہتے ہوئے اسے بازوؤں میں اُٹھا لیا۔
"چھوڑو مجھے۔" آئینور نے خود کو چھڑوانے کیلئے ہاتھ پیر چلائے۔ اس کی مزاحمت کا اثر لیے بنا وہ کمرے سے نکل کر اپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔
اور ادھر نیچے کھڑی سیما خالہ کا چہرہ ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر کھل اُٹھا۔
"ماشاءاللّٰه !! یونہی اللّٰه دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔"
وہ دل سے دعا دیتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
اللّٰه نے دل پھیر دیا تھا۔ وہ نکاح جیسے حلال رشتے میں بندھ گیا تھا تو حرام میں اب سکون کہاں ملتا۔
"بے شک نکاح کر کے انسان اپنا آدھا ایمان شیطان سے بچا لیتا ہے۔"
۔************۔
کانوں میں پڑتی شور کی آواز نے اسے نیند سے بیدار کردیا۔ نظریں گھما کر دیکھا تو آئینور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی نظر آئی۔ اسے غصّے سے چیزوں کو پٹختا دیکھ کردم چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
" کل رات کا غصّہ ان بے جان چیزوں پر کیوں اُتار رہی ہو؟ " کردم کہتا ہوا بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
آئینور تیکھی نظروں سے آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو گھورتی بغیر کوئی جواب دیئے کمرے سے باہر نکل گئی۔ کردم بھی ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے باتھ روم میں چلا گیا۔
آئینور ناشتے کی ٹرے لیے دوبارہ کمرے میں آئی تو کردم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ آئینور ایک نظر اس پر ڈالتی آگے بڑھ گئی۔ ناشتے کی ٹرے صوفے کے سامنے لگی ٹیبل پر رکھ کر وہ جانے لگی کہ کردم پکار بیٹھا۔
" سنو !! "
آئینور نے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
" ادھر آؤ۔" حکم صادر ہوا۔ آئینور بے تاثر چہرہ لیے اس کی جانب بڑھی۔
"یہ ٹائی باندھ دو۔" کردم نے کہتے ہوئے ٹائی اس کی جانب بڑھائی۔
آئینور نے حیران ہوتے ہوئے ٹائی ہاتھ میں تھام لی۔ اب کہاں وہ چار فٹ آٹھ انچ کی لڑکی اور کہاں وہ دراز قامت مرد۔
"ہنہہ !! ان کے ٹائی باندھنے کے لیے ایک عدد اسٹول کی ضرورت پڑے گی۔"
آئینور بڑبڑاتے ہوئے ٹائی کو دیکھنے۔ اس کی بڑبڑاہٹ کردم نے بخوبی سن لی تھی۔ مسکراتے ہوئے ایک ہاتھ آئینور کی کمر میں ڈال کر اسے ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھا دیا۔
" اب باندھ لو۔"
آئینور اسے گھوری سے نوازتی ٹائی باندھنے لگی۔
" کس سے سیکھا ٹائی باندھنا ؟ " کردم اس کے چہرے پر نظریں جمائے گویا ہوا۔
"ماما جب پاپا کے باندھا کرتی تھیں تو اُن کو دیکھ کے مجھے بھی آ گیا۔"
آئینور کا چہرہ بے تاثر تھا۔ مگر آنکھوں میں کرب کی داستان رقم تھی، جو کردم سے چھپی نہیں تھی۔ ٹائی باندھتے ہی وہ ٹیبل سے اُتر کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
" تمہاری ہر تکلیف کو تم سے دور کردوں گا نور۔"
کردم اس کو جاتے دیکھ بڑبڑایا۔ ہاتھ میں گھڑی باندھتا ناشتے کے لیے صوفے پر بیٹھ گیا۔
۔************۔
موبائل کان سے لگائے وہ مسلسل کسی کو کال ملانے میں مصروف تھا۔ مگر مقابل نے بھی گویا قسم کھائی ہوئی تھی فون نہ اُٹھانے کی۔
" اوے !! عادی تیری گرل فرینڈ پھر کال نہیں اُٹھا رہی کیا؟ " عمران بیڈ پر لیٹتا ہوا اسے چڑانے لگا۔
" بکواس بند کرو اپنی۔" عادی اسے گھوری سے نوازتا پھر فون کی جانب متوجہ ہوگیا۔
"رہنے دے عمران بچے کو کیوں تنگ کر رہا ہے۔ عادی تو آرام سے اپنی گرل فرینڈ کو فون ملا۔" سمیر مسکراہٹ دباتے ہوئے گویا ہوا۔
تم دونوں بکواس بند کرلو ورنہ میں ہاسٹل کے وارڈن سے کہہ کر دوسرے روم میں چلا جاؤں گا۔
وہ دانت پیستے ہوئے بولا اور بیڈ سے اُٹھ کر روم سے باہر نکل گیا۔ اور اُن دونوں کے قہقہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا۔
۔************۔
کردم دروازے کو دھکیلتا اندر داخل ہوا تو بیٹھک میں سب ہی نفوس اپنی جگہ براجمان تھے۔ وہ بنا کسی پر نظر ڈالے آگے بڑھتا اپنی نشست سنبھال کے بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی پاشا اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے گویا ہوا۔
"میں اپنے رویے کے لیے شرمندہ ہوں اس لیے تم سب سے معافی مانگتا ہوں، اور اُمید کرتا ہوں کہ تم سب اپنا دل بڑا کر کے مجھے معاف کر دو گے۔ آج یہ بیٹھک بھی خاص اسی لیے آغا حسن سے کہہ کر رکھوائی ہے، امید کرتا ہوں اسے میری پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر سب اپنا بڑاپن دکھاتے ہوئے معاف کر دینگے۔"
پاشا کہہ کر اپنی نشست پر واپس بیٹھ گیا تو آغا حسن گلا کھنکھار کر گویا ہوا۔
" اب اگر پاشا اپنی غلطی پر شرمندہ ہے تو ہمیں بھی اسے معاف کر دینا چاہیے۔ مجھے اب اس سے کوئی گلہ نہیں، باقی آپ سب کیا کہتے ہیں، پاشا کو ایک اور موقع دینا چاہیے کیا نہیں؟ " آغا نے کہتے ہوئے سب کی طرف دیکھا۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں۔" سب سے پہلے خاقان ابراہیم نے بولا۔
"مجھے بھی لگتا ہے ایک موقع دینا چاہیے۔" راشد ملک نے کہا جس پر جمشید نے بھی تائید کی۔
"بالکل۔"
" کردم دادا تم کیا کہتے ہو؟ " آغا حسن نے خاموش بیٹھے کردم سے پوچھا۔
" بالکل !! تم لوگوں کو معاف کر دینا چاہیے، کیونکہ وہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔
مگر !! میرا اور پاشا کا معاملہ الگ ہے اس لیے جب تک وہ مجھ سے اپنے عمل کی معافی نہیں مانگتا میرے اور پاشا کے درمیان اختلاف قائم رہے گا۔"
وہ بھی کردم تھا مقابل کو جھکانا جانتا تھا۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ اس کی بات پر جمشید نے ایک جتاتی نظر پاشا پر ڈالی، جو صبط کیے بیٹھا تھا۔
" اب پاشا نے معافی مانگ تو لی ہے۔ بہتر ہو گا کردم دادا تم بھی اپنی ضد چھوڑ دو۔" جمشید کردم کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
" تم سے کسی نے رائے نہیں مانگی۔ بہتر ہے اپنی رائے اپنے پاس رکھو۔" کردم سخت لہجے میں بولا۔ اپنی توہین پر جمشید بس ضبط کر کے رہ گیا۔
" کردم دادا اگر چاہتا ہے کہ پاشا اس سے معافی مانگے تو مجھے لگتا ہے پاشا کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔" آغا حسن پاشا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
"ہاں !! یہ کوئی بڑی بات نہیں ویسے بھی اس جھگڑے سے پہلے دونوں بہت اچھے دوست تھے۔" خاقان ابراہیم نے بھی آغا کی بات سے اتفاق کیا۔
" تم کیا کہتے ہو راشد؟ " کردم راشد کی جانب رخ موڑ کر پوچھنے لگا۔
"مجھے بھی لگتا ہے پاشا کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے معافی مانگنے میں۔" راشد ملک بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ جس پر کردم نے فاتحانہ مسکراہٹ سے پاشا کی جانب دیکھا۔
پاشا نے ایک نظر سب پر ڈالی۔ سب اسی کی جانب متوجہ تھے۔ جب کوئی چارہ نظر نہ آیا تو کردم کی طرف دیکھتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ جس کی نظریں پاشا پر ہی جمی تھیں۔
"میں اپنے ہر عمل کی معافی چاہتا ہوں کردم دادا۔"
" ٹھیک ہے۔ امید کرتا ہوں آئندہ تم ایسا نہیں کرو گے۔" کردم مسکراتے چہرے سے بولا۔
پاشا اثبات میں سر ہلاتا واپس بیٹھ گیا مگر۔۔۔ دل میں پکا ارادہ باندھ چکا تھا، اپنی توہین کے بدلہ لینے کا۔
۔*************۔
"میں کہتی تھی نا۔ بیوی کی قربت بہت زورآور ہوتی ہے، جو برے سے برے مرد کو بدل نے پر مجبور کر دیتی ہے۔ تمہاری محبت نے بھی کردم کو بدل کر رکھ دیا۔" سیما خالہ خوشی سے نہال ہوتے ہوئے بولیں۔
وہ اس وقت کچن میں کھڑی کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔آئینور بھی ان کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ ساتھ میں ان کی باتوں پر عجیب و غریب منہ بھی بنا رہی تھی۔
" ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر بیوی کی محبت و قربت اتنی زورآور ہوتی تو پاپا آج ایک اچھے انسان ہوتے۔" آئینور دوکھ سے بولی۔
"بچے فکر کیوں کرتی ہو۔ دیکھنا اللّٰه سب ٹھیک کر دے گا۔" سیما خالہ اسے گلے لگاتے ہوئے بولی۔ وہ یہی سمجھی تھیں کہ اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کے سبب آئینور افسرده ہے، لیکن وہ نہیں جانتی تھیں، کیا غم وہ اپنے اندر لیے بیٹھی ہے۔
ادھر آئینور کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی تھی۔ وہ خود پر ضبط کرتی ان سے الگ ہوئی اور بغیر کوئی جواب دیئے واپس کام میں لگ گئی۔
جس رشتے سے دور بھاگتی تھی۔ اب وہ ہی اس کا مقدر بن گیا تھا۔ پہلے ایک اُمید تھی کردم اُسے آزاد کر دے گا لیکن۔۔۔ اب تو وہ بھی ختم ہو گئی۔ تاہم اس نے صبح ہی فیصلہ کر لیا تھا، کہ جیسے بھی صحیح اسے اس رشتے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی ہوگا۔
۔*************۔
"دنیا چھونا چاہے مجھ کو یوں
جیسے ان کی ساری کی ساری میں
دنیا دیکھے روپ میرا
کوئی نہ جانے بیچاری میں
ہائے، ٹوٹی ساری کی ساری میں
تیرے عشق میں ہوئی آواری میں
ہائے، ٹوٹی ساری کی ساری میں
تیرے عشق میں ہوئی آواری میں۔۔۔
نائٹ کلب میں جلتی بجھتی مدہم سی روشنی میں گانے کے بول پر رقصں کرتی لڑکیاں ہر نظر کو دیوانہ بنا رہی تھیں، کچھ شراب کا اثر تھا تو کچھ سامنے رقص کرتے شباب کا۔
کوئی شام بلائے
کوئی دام لگائے
میں بھی اوپر سے ہنستی
پر اندر سے ہائے۔۔۔
کیوں درد چھپائے بیٹھی ہے
کیوں تو مجھ سے کہتی ہے
میں تو خود ہی بکھرا ہوا۔۔۔
ہائے، اندر اندر سے ٹوٹا میں
تیرے عشق میں خود ہی سے روٹھا میں
ہائے، اندر اندر سے ٹوٹا میں
تیرے عشق میں خود ہی سے روٹھا میں۔۔۔"
ان میں سے ایک لڑکی رقص کرتی صوفے پر بیٹھے کردم کے پیچھے آگئی۔ بانہیں پیچھے سے گردن میں ڈال کر چہرہ کردم کے کندھے پر رکھ دیا۔ اس سب سے بے نیاز کردم وائن پیتا سامنے کھڑے ویٹر پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
بغل میں بیٹھا آغا حسن مسکرا کر انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ لڑکی کردم کو چھوڑ کر اب آغا حسن کی گود میں آ بیٹھی، چہرے پر ہاتھ پہرتی واپس اُٹھ کر اپنی ساتھیوں کے ساتھ رقص کرنے میں مشغول ہوگئی۔
" تم کیا سوچ رہے ہو؟ اب تو تمہیں خوش ہونا چاہیئے پاشا نے تم سے معافی مانگ لی۔" آغا حسن اب اس کی جانب دیکھتا گویا ہوا۔
"میں خوش ہوں آخر اسے معافی مانگنی پڑی۔ اسے لگا تھا، تم سب سے معافی مانگ کر وہ اپنی اور میری لڑائی کو دبا جائے گا۔۔۔ تو وہ شاید بھول گیا، جہاں اس کی سوچ ختم ہوتی ہے وہیں سے میری شروع ہوتی ہے۔ کسے کہاں لا کر مارنا ہے میں اچھے سے جانتا ہوں۔" کردم نے کہہ کر گلاس ہونٹوں سے لگایا۔
" اچھا اب تو اس نے معافی مانگ لی نا، اب چھوڑو اور آج رات کے اس جشن کا بھرپور انداز سے فائدہ اٹھاؤ۔" آغا حسن نے کہہ کر گلاس اس کے سامنے کیا۔
کردم نے اپنا گلاس اس کے گلاس سے ٹکرا کر واپس ہونٹوں سے لگا لیا۔ نظریں ابھی بھی سامنے کھڑے ویٹر پر جمی تھیں۔
۔*************۔
ہوٹل کے روم میں موجود وہ جہازی سائز بیڈ پر مسلسل چھت کو گھور رہا تھا، جب دروازہ کھلنے کی آواز اس کی سماعتوں میں ٹکرائی۔
اسی طرح لیٹے آنکھیں گھما کر دروازے کی سمت دیکھا جہاں جمشید کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی پاشا کے چہرے پر ناگواری اُتر آئی۔
" اور کیسا لگا تمہیں کردم سے معافی مانگ کر؟ " جمشید جلانے والی مسکراہٹ لیے اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
" تم میرا دماغ کہانے کیوں چلے آتے ہو۔" بیزاری سے کہتے وہ اُٹھ بیٹھا۔
" ہاں !! اب تو تمہیں میری موجودگی سے بیزاری ہی محسوس ہوگی۔ آخر منہ کی جو کھا کر آئے ہو۔"
"مجھے اس بارے ميں بات نہیں کرنی۔" پاشا سخت لہجے میں بولا۔
" ظاہر ہے۔ اب تم کچھ بولنے لائق جو نہیں رہے۔ سارے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ یہ کردوں گا، وہ کردوں گا، وغیرہ وغیرہ۔" جمشید کے چہرے پر ہنوز مسکراہٹ قائم تھی۔
"ہنہہ !! اس بار وہ بھلے ہی جیت گیا ہو۔ مگر اگلی بار جیت میری ہی ہونی ہے۔" پاشا ہنکار بھرتے ہوئے بولا۔
"چلو اگلی بار بھی دیکھ ہی لینگے۔"
" اب اگر تمہاری بکواس پوری ہوگئی ہو تو جاؤ یہاں سے ویسے بھی میری مہمان آتی ہی ہوگی۔" پاشا گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔
" اووو !! لگتا ہے بہت ہی کوئی خوبصورت رات گزرنے والی ہے۔ جبھی اتنی بے صبری کا مظاہرہ کر رہے ہو۔" جمشید کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
" تم جا رہے ہو یا دھکے دے کر نکالوں؟ "
" بہت ہی کوئی بے مروت ہو۔ جا رہا ہوں کل ملاقات ہوگی۔ شب بخیر۔" جمشید منہ بنا کر کہتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
" تم نے اچھا نہیں کیا کردم دادا۔ اس بے عزتی کی قیمت تم بہت جلد ادا کرو گے۔" پاشا اس کی پشت کو گھورتا ہوا بڑبڑایا۔ پھر سر جھٹکتا واپس بیڈ پر لیٹ گیا۔
۔************۔
وہ بیڈ پر لیٹی نیند کی وادیوں میں گم تھی۔ کراچی میں وہ روز دس بجے ہی سو جایا کرتی تھی، پر لاہور آ کر کردم سے نکاح کے بعد اس کی زندگی بدل کر رہ گئی تھی۔ گو کردم جلدی گھر آ جاتا تھا، مگر جب کبھی اسے دیر ہو جاتی تو آئینور کو جاگ کر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ لیکن آج اس نے کردم کا انتظار کرنے جیسی غلطی نہیں کی تھی۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی سو گئی تھی۔ مگر یہ قسمت کہاں اتنی مہربان ہوتی ہے۔
ابھی وہ اور بھی نیند کے مزے لیتی کہ خواب گاہ کا دروازہ کھولتا کردم اندر داخل ہوا۔ کسی کی آمد کو محسوس کرتے ہی آئینور نے نیند سے خمار آلود آنکھیں کھول دیں۔ چہرہ موڑ کر خالی خالی نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں کردم کھڑا اپنی نشیلی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
آئینور اس کو دیکھتی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ بھی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس آ بیٹھا۔ کردم کے پاس سے آتی شراب کی بدبو پر آئینور نے ناگواری سے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔
" آج تم نے میرا انتظار نہیں کیا۔" کردم دو انگلیوں سے اس کا چہرہ اپنی جانب کرتا نشیلی آواز میں بولا۔
" کیوں !! تم کوئی پبلک ٹرانسپورٹ ہو جو تمہارا انتظار کرتی؟ " آئینور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جل کر کہا، جس پر کردم کا قہقہہ ابل پڑا۔
"مجھے اچھا لگتا ہے جب تم یوں میرا انتظار کرتی ہو، میرا خیال کرتی ہو، ماما بھی کرتی تھیں لیکن۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔" کردم کہہ کر خاموش ہوگیا اور اپنا سر آئینور کی گود میں رکھ کر لیٹ گیا۔
آئینور نے اسے ہٹایا نہیں۔ وہ چہرے پر الجھن لیے اس کی باتوں پر غور کر رہی تھی، جب ایک بار پھر کردم گویا ہوا۔
" نور !! تم۔۔۔ مجھے چھوڑ کر مت جانا۔"
کردم نے کہہ کر اس کا بائیں ہاتھ تھاما اور اپنے سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔
آئینور خاموشی سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
" کہاں گئیں اس کی ماما؟ "
خود کلامی کرتے اس نے نظر اُٹھا کر گھڑی کی جانب دیکھا۔ دو بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ پھر کردم کی طرف دیکھا جو نشے کے باعث جلدی ہی سو گیا تھا۔ دھیرے سے اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروا کر، آرام سے سر کے نیچے تکیہ رکھتی، اُٹھ کر باتھ روم میں چلی گئی۔
وضو بنا کر واپس آئی، ایک نظر کردم پر ڈالی جو سوتے ہوئے بھی کہیں سے معصوم نہیں لگ رہا تھا۔ وہ اس وقت بھی ایک مغرور دیوتا ہی ثابت ہو رہا تھا۔ نظریں اس پر سے ہٹاتی، وہ لائٹ بند کر کے خواب گاہ سے باہر نکل گئی۔
ابھی اُس کو گئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی جب سائڈ ٹیبل پر پڑا آئینور کا موبائل بجنے لگا۔ کردم جو نیند کی آغوش میں تھا موبائل پر آتی کال کے باعث آنکھیں کھولنے پر مجبور ہو گیا۔
"نور فون اُٹھاؤ۔" مسلسل بجتی بیل پر کردم جھنجھلا کر بولا۔ اندھیرے کے باعث کچھ نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔ بس موبائل کی روشنی تھی، جو خواب گاہ میں اجالا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔ جب کافی دیر آئینور کا کوئی جواب نہ ملا تو کردم نے ہاتھ بڑھا کر سائڈ ٹیبل پر پڑا فون اُٹھایا۔
نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں سے موبائل کی اسکرین پر جگمگاتا نام دیکھا تو ساری نیند بھک سے اڑھ گئی۔ اس نے فون کان سے لگا کر مقابل کی آواز سنی چاہی۔
" ہیلو !! "
دوسری طرف سے آتی مردانہ آواز نے کردم کا دماغ ہی گھما دیا۔
" کون؟ "
کردم غصّہ ضبط کرتا اپنی بھاری آواز میں پوچھنے لگا۔ لیکن مقابل نے بھی جواب دینے کے بجائے کال ہی کاٹ دی۔ کردم نے اب کی بار خود اس نمبر پر کال کی۔ بیل جا رہی تھی۔ مگر مقابل نے فون اُٹھانا ضروری نہ سمجھا۔ اس کا سارا نشہ ہوا ہوگیا تھا۔ وہ غصّے سے موبائل کو گھور رہا تھا کہ اسی وقت خواب گاہ کا دروازہ کھلا۔
موبائل کی مدھم روشنی میں کردم کو جاگتا دیکھ، آئینور نے آگے بڑھ کر کمرے کی لائٹ جلا دی۔ مڑ کر کردم کی طرف دیکھا جو لال انگارا ہوتی آنکھوں سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
" کہاں تھی تم؟ " کردم نے سخت لہجے میں پوچھا۔
"وہ میں تہجد پڑھ ۔۔۔" آئینور کے بات پوری کرنے سے پہلے ہی وہ اس کی بات کاٹ گیا۔
" یہ عادی کون ہے؟ " وہ جو حیران ہوتی اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے سوال پر یکدم ہی چہرے کے تاثر بدل گئے۔
اس کو خاموش کھڑا دیکھ کردم اٹھ کر اس کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔
" کچھ پوچھا ہے میں نے۔" کردم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔"
آئینور بے تاثر چہرے سے کہتی سائڈ سے نکلنے لگی کہ کردم نے بازو سے دبوچ کر اپنے سامنے کیا۔
"جو پوچھا ہے بس اس کا جواب دو۔"
"میری ذات کا معاملہ میرے اور میرے اللّٰه کے درمیان ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں یہ پوچھنے والے؟ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
"میں کون ہوں؟ ابھی بتاتا ہوں۔"
کردم اس کا بازو تھامے خواب گاہ سے باہر لے آیا، اور گھسیٹنے کے سے انداز میں اسے لیے تیزی سے سڑھیاں اُترنے لگا۔
"چھو۔۔۔ چھوڑو۔۔۔ چھوڑو مجھے۔"
آئینور خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی ساتھ میں چلا بھی رہی تھی۔ کردم اس کی چیخ و پکار کا اثر لیے بنا آگے بڑھتا رہا۔
سیما خالہ جو اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں۔ شور کی آواز سنتے ہی کمرے سے باہر نکل آئیں۔ سامنے دیکھا تو کردم آئینور کو کھینچتا ہوا سٹور روم کی طرف لے جا رہا تھا۔
"بیٹا !! بیٹا چھوڑ دو اسے کیا کر رہے ہو، اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں سمجھا دوں گی۔ بچی ہے کر دی ہوگی کوئی نادانی۔" سیما خالہ ان کے پیچھے چلتی بے بسی سے بولیں۔
آئینور بھی خود کو چھڑوانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ مگر کردم کسی کی بھی سنے بغیر سٹور روم کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ ایک ہاتھ سے کنڈی کھول کر دروازے کو دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ اندر گھوپ اندھیرے کا راج تھا۔
کردم نے مڑ کر آئینور کو دیکھا جو خود کو چھڑانے کی نام کوشش میں آدھی ہوگئی تھی۔ بازو سے اسے کھینچ کر سٹور کے اندر دھکیل دیا۔ وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی سیدھا فرش پر جا گری تھی۔
" اب تمہیں معلوم ہوگا کہ کون ہوں میں۔" کردم نے شعلہ بار آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔ باہر سے کنڈی لگا کر وہ سیما خالہ کی طرف مڑا۔
" اب یہ صبح سے پہلے یہاں سے باہر نہ نکلے۔" اتنا کہہ واپس اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔
سیما خالہ بے بسی سے بند دروازے کو دیکھ رہی تھیں، جہاں وہ دروازہ پیٹنے میں لگی تھی۔
سیما خالہ آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتیں وہاں سے چلی گئیں۔ وہ چاہ کر بھی اس کی مدد نہیں کر سکتی تھیں۔
ادھر آئینور جب دروازہ پیٹتے پیٹتے تھک گئی تو وہیں دیوار سے لگ کر بے آواز آنسو بہانے لگی۔ اسے اندھیرے سے نہیں اپنی قسمت پر رونا آ رہا تھا۔ اس سٹور کی طرح وہ اپنی زندگی میں بھی تنہا رہ گئی تھی۔
۔*************۔
"مجھے دھوکہ دینے چلی تھی سالی۔" کمرے میں آتے ہی کردم نے غصّے سے ٹیبل کو ٹھوکر ماری۔ غصّے کے مارے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔
"شکل سے کتنی شریف لگتی ہے لیکن۔۔۔ وہ بھی باقی عورتوں کی طرح ہی نکلی۔ اچھا ہوا وقت رہتے اس کا اصلی چہرہ میرے سامنے آ گیا۔" صوفے پر بیٹھ کر سگریٹ سلگائی۔ اندر کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔
"مجھے دھوکہ دینے چلی تھی مجھے۔۔ کردم دادا کے نام سے ابھی پوری طرح آشنا نہیں ہوئی۔ مجھے دھوکہ دینے والے کا میں وہ حال کرتا ہوں کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔ مجھ سے بے وفائی کی ایسی سزا دونگا کہ ساری زندگی یاد رکھے گی۔"
رقیب کا سوچتے ہی اس کی کنپٹی سلگنے لگی تھی۔ ابھی ابھی تو وہ محبت جیسے جذبے سے آشنا ہوا تھا کجا کہ یہ بے وفائی۔
" تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا نور۔ اس کی سزا تمہیں بھگتنی ہوگی۔ وہاں لے جاکے ماروں گا کہ ساری زندگی محبت کو، اپنوں کو ترسوں گی۔" کردم سگریٹ کا دھواں اڑاتا تصورات میں آئینور سے مخاطب تھا۔
پوری رات اس کی اب یونہی گزر جانی تھی۔ کچھ ٹوٹا تھا اس کے اندر جس کی تکلیف محسوس کرتا وہ اندر ہی اندر سلگ رہا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی تپش سے آئینور کو بھی جھلسا رہا تھا۔
۔*************۔
"دیکھ سب ٹھیک سے ہونا چاہیے۔ وہ بس آنے والا ہوگا۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی نا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔"
" تم بس بے فکر رہو اسد میاں !! کام ہو جائے گا۔ اور کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔" جوئے کے اڈے میں موجود ملازم شراب کی بوتل اور گلاس اسد کے سامنے رکھ کر کمینگی سے مسکراتے ہوئے بول رہا تھا۔ کہ عین اسی سمے سامنے سے آتے اسلم پر نظر پڑی تو ٹرے ہاتھ میں اُٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
اسلم نے دور سے ہی ایک ٹیبل پر اسد کو بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ اس لیے قدم بڑھاتا اسی سمت چلا آیا۔ اس کو دیکھتے ہی اسد مسکرانے لگا۔
" آؤ آؤ !! یقیناً آج میرا پیسہ مجھے سود سمیت لوٹا دو گے۔"
" ہاں ہاں !! دے دونگا پر اس سے پہلے ایک ایک بازی ہو جائے۔" اسد کی بات پر پہلے تو اسلم بھوکلا گیا پھر خود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوا۔
" ہاں کیوں نہیں !! شروع کرو۔" اسد نے کہتے ہوئے اپنے دائیں سمت دیکھا جہاں سے وہی ملازم مسکراتا ہوا ہاتھ میں ٹرے اُٹھائے ان ہی کی طرف آ رہا تھا۔
" یہ لو اسلم میاں !! آج تمہارے لیے خاص انگریزی شراب لایا ہوں۔" ملازم اس کے پاس آ کر مسکراتے ہوئے بولا۔
" ارے واہ !! دل خوش کر دیا آج تو نے۔" اسلم نے کہہ کر گلاس اُٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔
اسد نے فاتحانہ مسکراہٹ سے ملازم کی طرف دیکھا۔ جو مسکرا کر سر کو اثبات میں جنبش دیتا وہاں سے واپس چلا گیا۔
۔**************۔
جہاں صبح کے اجالے چاروں طرف پہل چکے تھے۔ وہیں سٹور روم میں ابھی بھی اندھیرے کا راج تھا۔ باہر سے آتی چہل پہل کی آواز وہ بخوبی سن سکتی تھی۔
رات اس کی آنکھوں میں کٹی تھی۔ ابھی بھی دیوار سے ٹیک لگائے وہ سوچوں میں گم تھی کہ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر متوجہ ہوتے دروازے کی طرف دیکھا۔
سیما خالہ دروازے کھولے چوکھٹ پہ کھڑی تھیں۔ بےبسی سے اسے دیکھتی آگے آئیں اور اس کے پاس ہی دو زانو ہو کر بیٹھ گئیں۔
آئینور کے چہرے پر نظریں جمائے، وہ جو اس سے رات کے بارے ميں پوچھنا چاہ رہی تھیں، اس کی حالت دیکھ کر زہن میں اُٹھتے سارے سوالوں کو دبا کر بس اتنا ہی بولیں۔
"چلو اُٹھو باہر چل کر ناشتہ کر لو، چلو شاباش۔"
سیما خالہ کے کہنے پر بھی اس کے وجود میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ بس خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھتی رہی۔
" تمہیں اپنے گھر جانا تھا نا۔ کردم نے کہا ہے تم آج اپنے گھر چلی جاؤ۔"
اب کی بار آئینور نے حیرت سے انھیں دیکھا۔ اگلے ہی لمہے یہ حیرت خوشی میں بدل گئی۔
" سچ !! آپ سچ کہہ رہی ہیں؟ اس نے واقعی ایسا کہا ہے؟ کیا۔۔۔ کیا اس نے مجھے آزاد کردیا؟ "
آئینور نے خوش ہوتے ہوئے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔
سیما خالہ کو سمجھ نہ آیا کیا جواب دیں۔ اس لیے بس اثبات میں گردن ہلا دی۔
"دیکھا میں نے کہا تھا نا۔ ایک دن میری دعائیں ضرور رنگ لائیں گی۔ بالآخر آج میری جان چھوٹ گئی۔"
آئینور خوشی سے کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اور قدم سٹور روم سے باہر کی جانب بڑھا دیے۔
سیما خالہ بھی اس کے پیچھے ہی چل رہی تھیں۔ اس کے چہرے سے جھلکتی خوشی کو دیکھ کر، اس کے لیے زندگی بھر کی خوشیوں کے لیے دعائیں کرنے لگی۔
" ناشتہ کر لو پھر رحیم کے ساتھ اپنے گھر چلی جانا۔" سیما خالہ اسے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر بولیں۔
" نہیں آج تو میں ماما کے ہاتھوں کا بنایا ناشتہ کروں گی۔ مہینہ ہونے کو آیا۔ اُن کے ہاتھوں کا ناشتہ کئے بغیر۔"
وہ اپنی ہی دھن میں بولی جا رہی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ کسی اور کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی ہے۔
" آج میرے ہاتھ کا کر لو پھر کل سے اپنی ماما کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کر لینا۔ میری پیاری بیٹی نہیں ہو؟ "
ان کی بات پر آئینور کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔ مڑ کر سیما خالہ کے پاس آئی اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر محبت بھرے لہجے میں بولی۔
"چلیں ٹھیک ہے۔ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ آج آخری بار آپ کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کرنا چاہیے۔ آپ ناشتہ تیار کریں میں بس ابھی فریش ہو کر آئی۔"
ان کے گال پر بوسہ دیتی وہ مسکراتے ہوئے اوپر کمرے میں چلی گئی۔ سیما خالہ افسوس سے اسے جاتے دیکھتی رہیں۔
وہ خوش تھی کہ آج وہ واپس جا رہی ہے۔ مگر۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی، کیا قیامت کی گھڑی وہاں اس کا انتظار کر رہی ہے۔
۔*************۔