" تم نے سونیا کہ ساتھ ٹھیک نہیں کیا کردم دادا۔ "
کردم اس وقت آغا حسن کے گھر پر موجود تھا۔ پاشا کی حرکت کے بعد آغا اس موضوع پر کردم سے بات کرنا چاہتا تھا اس لیے صبح ہی فون کر کے اُسے ملاقات کا وقت طے کر لیا تھا۔
" یہ سب پاشا نے شروع کیا تھا۔ ویسے بھی تم اچھے سے جانتے ہو، میں کسی کڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا۔ سونیا کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی، صرف گولی ہی تو چھو کر گزری ہے۔۔۔ میں نے تھوڑی اُسے چھوا ہے جو وہ آگ بگولہ ہو رہا ہے۔" کردم کہتا ہوا ہولے سے مسکرایا۔
" ہاں جانتا ہوں۔۔۔ لیکن پھر بھی تمہیں سونیا کو بیچ میں نہیں لانا چاہیے تھا۔ یوں گینگ کے بندوں کا آپس میں لڑنا ٹھیک نہیں۔ دادا تک اگر اس بات کی خبر پہنچ گئی تو ہم سب کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔" آغا حسن نے آگاہ کرنا چاہا۔
" ہنہہ !! جانتا ہوں۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اس نے میرے جہاز پر قبضہ کیا تو ہی میں نے سونیا کو اُٹھایا۔ اگر ایسا نہ کرتا تو وہ مجھے کمزور سمجھتا جو مجھے ہرگز قبول نہیں۔" کردم ہنکار بھرتے ہوئے بولا۔
" اس نے تمہارے جہاز پر قبضہ اس لیے کیا کیونکہ تم نے اس کی رکھیل کو اُٹھا لیا تھا۔" آغا حسن جتاتے ہوئے بولا۔
میں نے نہیں اُٹھایا۔ پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہہ رہا ہوں، وہ خود آئی تھی۔ میں کسی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا کہ ان کو اُٹھاتا پھروں۔" آغا کی بات نے کردم کو تیش دلا دیا۔
" اچھا غصّہ کیوں کرتے ہو، بس اب کوشش کرنا کہ پاشا اور تمہارے درمیان مزید بدمزگی پیدا نہ ہو۔" آغا نے سمجھانا چاہا۔
" یہ بات تم مجھے نہیں اس پاشا کو بولو اور اب میں چلتا ہوں سارے کام چھوڑ کر تمہاری یہ فضول باتوں کو سنے آیا تھا۔" کردم سر جھٹکتا کھڑا ہوگیا۔ آغا سے بغل گیر ہو کر وہ باہر کی جانب چل دیا۔
آغا تاسف سے نفی میں سر ہلاتا اسے جاتے دیکھتا رہا۔
۔************۔
آئینور ڈریسنگ روم میں کھڑی کردم کے کپڑے ترتیب سے رکھ رہی تھی جب باہر سے آتی گولی کی آواز پر ایک پل کے لیے سُن ہوگئی۔
کپڑوں کو وہیں پھینکتی وہ کھڑکی کی طرف آئی جہاں سے گھر کے پیچھے کا منظر نظر آتا تھا۔
نیچے جھانک کر دیکھا تو زمین پر ایک بے جان وجود پڑا ہوا تھا، جس کے خون سے زمین بُری طرح رنگ چکی تھی۔
کردم اپنے ماتحتوں کے ساتھ کھڑا لاش کو ٹھکانے لگانے کی ہدایت دے رہا تھا۔ آج وہ پھر جلدی گھر آگیا تھا اور آتے ہی ایک کارنامہ انجام دے دیا تھا۔
آئینور پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی خون کو تو کبھی کردم کو دیکھ رہی تھی کہ تبھی کسی احساس کے تحت کردم نے سر اُٹھا کر اوپر دیکھا۔
مگر !! وہاں کوئی ذی روح کو موجود نہ پایا۔ سر جھٹک کر وہ پھر سے ہدایت دینے لگا۔
آئینور فوراً کمرے میں واپس آئی۔ ایک سنسناہٹ سی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ رہی تھی۔ وہ سر سے لے کر پاؤں تک کمبل تانے بیڈ پر لیٹ گئی۔
کردم کمرے میں داخل ہوا تو نظر سیدھا کمبل میں چھپے وجود پر پڑی۔ کمبل میں پیدا ہوتا رہا ارتعاش آئینور کے جاگنے کی گواہی دے رہا تھا۔
کردم کے چہرے پر مدہم سی مسکراہٹ در آئی۔ اس کا شک یقین میں بدل گیا۔
" اچھا ہے !! بہت زبان چلتی ہے، اب میرے سامنے تھوڑا ڈر کے تو رہے گی۔"
کردم مسکراتے ہوئے سوچتا باتھ روم میں چلا گیا۔
۔************۔
" اسلم کب تک ایسے ہی رہو گے تم۔۔۔؟ کبھی تم نے اپنے بچوں کا بھی نہیں سوچا۔ یہ خودغرضی چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ " اسلم شراب کے نشے میں کل رات کا نکلا آج شام کو گھر میں آیا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر رخسار بیگم پھٹ ہی پڑی۔
" کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟ " اسلم بیزاری سے بولا۔
" ہاں تم کیا کرو گے، آخر تم کر ہی کیا سکتے ہو۔۔۔؟ سوائے جوئے بازی اور شراب نوشی کے۔ رخسار بیگم زہر خند لہجے میں بولیں۔
" اب تو ہوش کے ناخن لے لو اسلم۔ ماہا نے تمہاری وجہ سے موت کو گلے لگا لیا۔ نور بھی تمہاری وجہ سے ایک غنڈے کے نکاح میں بند گی، مگر۔۔۔ مگر تمہیں اپنے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں۔ کتنے ارمان تھے نور کی شادی کو لے کر مگر سب ختم ہوگیا، وہ بھی صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔ صرف اور صرف تمہاری وجہ سے۔" اب کے رخسار بیگم کہتے ہوئے رو پڑی۔ لہجے میں بےبسی اُتر آئی تھی۔ اسلم کی خودغرضی ان کا دل جلاتی تھی۔ اب بھی ان کی بات کو سنی ان سنی کرتا وہ کمرے میں چلا گیا۔ رخسار بیگم بھی دوپٹے سے آنکھیں رگڑتی کچن کی طرف بڑھ گئیں۔
۔************۔
وہ بیڈ پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، بس کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی سیدھا اس کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ ماحول میں خاموشی کا راج تھا، جسے اس کی آواز نے توڑا تھا۔
" کردم ؟ "
آئینور نے اس کو مخاطب کیا جو بائیں جانب آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا۔
" ہممم !! "
" اور کتنے دن مجھے یہ جرمانہ ادا کرنا ہوگا ؟ " آئینور کی بات پر کردم نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اس کی جانب چہرہ موڑا، وہ ابھی بھی چھت کو گھور رہی تھی۔
کردم کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر سخت لہجے میں گویا ہوا۔
" میں اس بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا، جب مجھے لگے گا تمہارا کام اب ختم ہوگیا تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا، اس لیے آئندہ مجھ سے یہ سوال مت کرنا۔" کردم کہہ کر خاموش ہو گیا۔
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ وہ کچھ دیر آئینور کو یونہی دیکھتا رہا، اسے لگا تھا اس کی بات پر وہ کچھ اُلٹا بولے گی مگر۔۔۔ وہ خاموش رہی شاید سوگئی تھی۔ کردم بھی آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا اور جلد ہی نیند کی آغوش میں اُترتا چلا گیا۔
۔************۔
وقت دن اور دن ہفتوں میں بدل رہا تھا۔ آئینور گھر میں قید ہو کر رہ گئی تھی اور اس قید کے باعث دن بدن چڑ چڑی ہوتی جا رہی تھی۔
ابھی بھی وہ کمرے میں موجود ٹی وی پر کوئی نیوز چینل لگائے بیٹھی تھی۔ جب کردم باتھ روم سے باہر نکلا۔ ایک اُچٹتی نظر اس پر ڈال کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
" آج اپنے کچھ ڈھنکے کپڑے لے آنا۔ رات ہمیں کہیں دعوت پر جانا ہے۔" کردم آئینے میں نظر آتے آئینور کے عکس کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔ جو اس کی موجودگی کو نظر انداز کرے ہوئے تھی۔
" اول تو میرے پاس کپڑے موجود ہیں، مجھے آپ کی حرام کمائی کے کپڑے نہیں چاہیئے اور دوئم یہ کہ میں کسی بیہودہ محفل کا حصّہ بن کر کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتی۔" آئینور ٹی وی پر نظریں جمائے بولی۔ اس کی بات پر جبڑے بھینچے کردم اس کی طرف مڑا۔
" تمہیں کیا لگتا ہے، بہت خوبصورت ہو۔۔۔؟ کہ ہر مرد تمہیں دیکھے گا؟ " کرخت لہجے میں کہتے وہ اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔
" خوبصورت کا تو پتا نہیں مگر عورت ضرور ہوں، اور آپ سے زیادہ اس بات کو کون اچھے سے جان سکتا ہے۔۔۔؟ جو بنا دیکھے مجھے حاصل کرنا چاہتا تھا۔"
آئینور کہتے ہوئے ٹی وی بند کرتی اُٹھ گئی۔ کردم مٹھیاں بھینچے اس کی جانب بڑھا اور بازوؤں سے دبوچ کر اپنی خونخوار نظریں اس کے چہرے پر جمائے بولا۔
" آج تو بول دیا اور میں نے سن لیا، مگر !! آئندہ یہ بکواس کی تو زندہ زمین میں گاڑ دونگا، اپنی اوقات مت بھولو۔۔۔ سمجھی۔"
اس کو صوفے پر پھینکتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ آئینور ناگواری سے اس کی پشت کو دیکھتی اُٹھ کر باتھ روم میں چلی گئی۔
۔************۔
اس وقت تمام نفوس بیٹھک میں موجود تھے۔ سب کردم اور پاشا کے مسئلے کو کافی دنوں سے زیرِ بحث لانا چاہتے تھے اور بالآخر آج یہ موقع ہاتھ آ ہی گیا۔ سب اپنی نشست سنبھالے بیٹھے تھے جب کردم دروازہ دھکیلتا اندر آیا اور اپنی نشست کو سنبھالتا اس پر براجمان ہوا۔
پاشا نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی اس دن کے بعد سے آج ان کا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔ چمشید نے ایک نظر کردم پر ڈال کر چہرہ پاشا کی طرف موڑا چہرے پر محظوظ سی مسکراہٹ تھی۔
" کردم تمہارا ہی انتظار تھا۔ مجھے لگتا ہے اب اُس مسئلے پر بحث شروع کرنی چاہیے۔" آغا حسن دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملائے ٹیبل پر رکھتے آگے کو آیا اور ایک نظر سب پر ڈالتے گویا ہوا۔
" اگر دیکھا جائے تو۔۔۔۔" آغا روکا ایک نظر پاشا پر ڈالی پھر دوبارہ سے گویا ہوا۔
"سب اس بات کو اچھے سے جانتے ہیں کہ کردم دادا لڑکیوں کے معاملے میں زبردستی کا قائل نہیں ہے۔ اگر وہ کہہ رہا ہے کہ "رمشا " (پاشا کی رکھیل) خود اس کے پاس آئی تھی تو یقیناً یہ بات درست ہوگی، اور غلطی پاشا کی ہے، جو اتنی سی بات۔۔۔" آغا بول ہی رہا تھا جب پاشا بھڑک اُٹھا۔
" اگر یہ اتنی سی بات ہے تو ٹھیک ہے آج رات میرے گھر "روبینہ" (آغا حسن کی بیوی) کو بھیج دینا۔"
" زبان سنبھال کے بات کرو۔" آغا غرایا۔
" پاشا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تم نے بھی تو راشد کی رکھیل کو اپنے پاس رکھا تھا، اس نے تو یوں ہنگامہ برپا نہیں کیا۔ تم بس رائی کا پہاڑ بنا رہے ہو۔" خاقان ابراہیم نے ماحول کی نزاکت کو دیکھتے سمجھانا چاہا مگر پاشا کو اس کی بات نے مزید بھڑکا دیا۔
" تم تو اپنی بکواس بند ہی رکھو، ورنہ "صوفیہ" (خاقان کی بیٹی) کو لے جا کر کوٹھے پر بیٹھا دونگا۔"
" تم حد پار کر رہے ہو اپنی اوقات مت بھولو۔" خاقان اس سے بھی تیز دھاڑا۔
" اچھا تو کیا کرو گے تم؟" پاشا ٹیبل پر ہاتھ مارتا کھڑا ہو گیا۔
" سونیا کو گولی صرف چھو کر گزری تھی، ایسا نہ ہو صوفیہ کی جگہ وہ کوٹھے پر دکھائی دے۔" خاقان خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
ماحول میں تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ کردم خاموش بیٹھا انہیں دیکھ رہا تھا۔ جو ایک دوسرے کی عزتوں کو اچھالنے میں لگے تھے۔ بات کردم اور پاشا کی تھی جو رخ بدل کر گھر کی عورتوں پر چلی گئی تھی۔ یہاں سب کا ذکر تھا، بس نہیں تھا تو آئینور کا نہیں تھا۔ سب کی عزتوں کو پامال کیا جارہا تھا، اگر کسی کی عزت محفوظ تھی تو وہ کردم کی تھی۔
وہ جو کچھ دیر پہلے آئینور پر دعوت میں شرکت نہ کرنے پر غصّہ تھا، اب اُس کا کسی کی نظروں میں نہ آنے والا فیصلہ درست لگ رہا تھا۔ گو یہ پہلی بار نہیں دیکھ رہا تھا کہ یوں گھروں کی عزتوں کو محفل میں اچھالا جارہا تھا۔ لیکن آج آئینور کے وجود نے اسے یہ سب محسوس کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ اور بھی ناجانے کیا سوچتا کہ جمشید کے مخاطب کرنے پر اپنی سوچوں سے باہر آیا۔
" کردم دادا آپ ان کو روکتے کیوں نہیں؟ " جمشید اس کی طرف جھکا ہوا بول رہا تھا۔ کردم بغیر کوئی جواب دیئے اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔
" پہلے تم لوگ یہ طے کر لو آج رات کس کی عورت کس کے ساتھ رہ گی، پھر دوسروں کے مسائل حل کرنے بیٹھنا۔" کردم ناگواری سے کہتا باہر نکل گیا۔
اس کی بات پر ماحول میں خاموشی چھا گئی۔ سب خاموشی سے اسے جاتے دیکھتے رہے۔
" لو جس کے لیے بیٹھک میں جما تھے، وہ تو چلا گیا۔" جمشید نفی میں سر ہلاتا بڑبڑانے لگا۔
۔************۔
" کیا ہوا اتنی خاموش کیوں بیٹھی ہو؟ " آئینور جو کچن میں اُداس بیٹھی تھی، اس کو خاموش پا کر سیما خالہ نے پوچھا۔
"میں تنگ آ گئی ہوں اس قید سے، اُس دن کے بعد سے میں رخسار ماما سے ملنے نہیں گئی، فون پر بات ہوتی ہے مگر۔۔۔ اب میرا دل اُن سے ملنے کو چاہتا ہے۔" آئینور آہ بھرتے ہوئے بولی۔
" تو مل آؤ جا کر اُن سے۔" سیما خالہ سبزی کاٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں بولی۔
" کیسے مل آؤں؟ وہ کھڑوس لاڈ صاحب جانے دیں تو مل کر آؤں نا۔" آئینور منہ بسور کر بولی۔
"شرم کرو لڑکی شوہر ہے، کچھ تو عزت کر لو۔" سیما خالہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے رعب جمانے کی کوشش کی۔
" کم از کم اُس غنڈے کو میرا شوہر بول کر بار بار اس تلخ حقیقت کا تو سامنہ مت کریں۔" کردم کے لیے شوہر لفظ سنتے ہی آئینور کے چہرے پر ناگواری اُتر آئی۔
" لڑکی تم اس کے بارے ميں کچھ نہیں جانتی۔ میرا کردم دل کا بُرا نہیں ہے، بس حالات نے اُسے ایسا کر دیا۔" سیما خالہ تاسف سے اسے دیکھتی ہوئی بولیں۔
"کیوں ؟ ایسا کیا ہوا تھا ان کے ماضی میں جو یوں غلط راستے پر نکل پڑے؟ " آئینور نے بھنویں اُچکا کر پوچھا۔
آئینور کے سوال پر سیما خالہ کا سبزی کاٹتا ہاتھ رکا، وہ یکدم شش وپنج میں مبتلا ہوگئی، آیا کہ بتانا چاہیئے یا نہیں۔
آئینور غور سے ان کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی، ان کو پریشان دیکھ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھتی گویا ہوئی۔
"اگر آپ نہیں بتانا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔"
"نہیں وہ دراصل۔۔۔" سیما خالہ بول ہی رہی تھیں کہ وہ ان کی بات کے درمیان میں بولی۔
"جب ہم کسی کے " ہم راز " بن جائیں، تو اُس راز کو راز رکھنا ہمارا فرض ہے۔" آئینور مسکرا کر کہتی وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔ سیما خالہ گہرا سانس ہوا کہ سپرد کرتی پھر سے سبزی کاٹنے لگیں۔
۔************۔