وہ واپس کمرے میں آئی تو کردم کھانا ختم کر اب باہر جانے کی تیاری میں تھا۔ آئینور صوفے پر بیٹھ کر اس کے تیار ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
کردم جو سر جھکائے ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہاتھ پر گھڑی باندھ رہا تھا۔۔۔ آئینور کی نظریں خود پر محسوس کرتا سر اُٹھا کر آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھا۔
وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
" کیا ہوا۔۔؟ " کردم نے آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" کچھ نہیں۔۔۔ کیا ہونا ہے؟ " آئینور نے کندھے اچکائے۔
کردم جانچتی نظروں سے اس کے عکس کو دیکھنے لگا۔ کہ تبھی کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو اسے یاد آئی۔ (مطلب وہ بیویوں کی طرح اس کے تیار ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔)
" کتنے سال کی ہو تم؟ " کردم اس کی طرف مڑتے ہوئے گویا ہوا۔
" ہیںں !! کیا؟ " آئینور نے اچنبھے سے پوچھا۔
" بہری ہو جو سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔؟ میں نے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے؟" کردم نے پھر پوچھا۔
" آپ سو رہے تھے۔۔۔؟ آپ کے سامنے تو نکاح نامے پر عمر لکھوائی تھی۔" آئینور اسی کے انداز میں بولی۔
" تم۔۔۔" کردم غصے سے اس کی طرف بڑھا۔
کردم کو اپنی طرف آتا دیکھ آئینور کھانے کی ٹرے اُٹھا کر ہنستی ہوئی کمرے سے باہر بھاگ گئی۔
اسے باہر جاتے دیکھ کردم موٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔ آئینور کی بات پر اسے یاد آیا تھا۔ اُس نے نکاح نامے پر اپنی عمر انیس سال لکھوائی تھی۔ جب کہ کردم پینتیس سال کا تھا۔ وہ پورے سولہ سال چھوٹی تھی۔ مگر پہلی گفتگو کے دوران اسے کوئی پچیس سالہ لڑکی ہی لگی تھی۔ جو اپنے باپ کی جان بچانے کے لیے بےخوفی سے اس سے بات کر رہی تھی۔
کردم نفی میں سر ہلاتے خود بھی کمرے سے نکلتا سیڑھیاں اُتر کر لاؤنج میں آگیا۔۔۔ لاؤنج میں آکر اس کی نظر آئینور پر پڑی جو سیما خالہ کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ اس مسکراہٹ میں بےپناہ معصومیت تھی۔
وہ ایک نظر اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔
کردم کو باہر جاتے دیکھ آئینور بھی اس کے پیچھے لپکی۔
غفار گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ کردم گاڑی میں بیٹھنے لگا جب اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس کرتے چہرہ موڑ کر دیکھا۔۔۔ داخلی دروازے پر دوپٹے سے چہرہ چھپائے آئینور کھڑی تھی۔
کردم سرسری سی نظر اس پہ ڈالتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی آگے بڑھی تو ایک بار پھر کردم نے کسی احساس کے تحت مڑ کر پیچھے دیکھا۔
مگر !! اب وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ اند جا چکی تھی۔ اس کہ جانے کا انتظار کیے بغیر۔ گاڑی گھر سے باہر نکل گئی۔
کردم بھی سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر آئینور نے انجانے میں اسے سمجھا دیا کہ۔۔۔ وہ یہ سب اس نکاح کے احترام میں کر رہی ہے۔ کردم کے لیے نہیں۔
۔*************۔
"مجھے معاف کر دینا آئینور !! ماہا کا ذکر کرنا تمہیں تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔ تمارے جانے کے بعد کل رات میں سکون سے سو نہیں سکی۔
مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ۔۔۔ کہ ایک ہی دن میں یہ سب یوں اچانک کیسے ہوسکتا ہے؟ ساری رات سوچنے کے بعد میں ایک ہی نتیجے پر پہنچی سکی۔۔۔
مجھے یقین ہے نور !! ماہا کہ ساتھ جو ہوا وہ تمہارے ساتھ نہیں ہوگا۔ وقت پھر اپنے آپ کو نہیں دھورائے گا۔ کیونکہ تم۔۔۔۔ تم ماہا نہیں نور ہو۔
تم سمجھتی ہو یہ تمہارے باپ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ لیکن !! مجھے لگتا ہے یہ اللّٰه کا کوئی اور ارادہ ہے۔
شاید !! اللّٰه نے تمہیں کسی خاص مقصد کے لیے چنا ہے۔"
رخسار بیگم کرسی پر بیٹھی اپنی سوچوں میں آئینور سے مخاطب تھیں۔ نظریں کھڑکی سے باہر اُفق پہ نظر آتے مہتاب پر جمی تھیں۔ اس کے جانے کے بعد ایک پل بھی تو سکون سے نہیں رہے سکی تھیں۔ کیونکہ اچھے سے جانتی تھیں۔ انہوں نے آئینور کی دُکھتی رگ پہ پاؤں رکھ دیا ہے۔
۔*************۔
ماحول میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اوپر سے لاہور میں بڑھتی ٹھنڈ نے اور سناٹا سا پیدا کر دیا تھا۔
اپنے گرد شال لپیٹے، وہ ٹیرس میں لگے جھولے پر بیٹھی فلک پر نظر آتے چودہویں کے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں ہر تاثر سے پاک تھیں۔ لاشعوری طور پر وہ اپنے ماضی کو سوچتی اپنے رب سے مخاطب تھی۔
"میں نے جتنا ممکن ہوسکا خود کو نامحرم مردوں کی نظروں سے چھپا کر رکھا، بچا کر رکھا۔ مگر پھر بھی میں اس دلدل میں پھنس گئی۔ آخر یہ کیسے ممکن تھا۔۔۔ کہ جو شخص دوسری عورتوں کو بےآبرو کرے اس کی اپنی اولاد محفوظ رہے۔
سب سمجھتے ہیں، اس مسکراہٹ کے پس منظر میں خوشگوار لمحات پوشیدہ ہیں۔ مگر !!
اس کھوکھلی مسکراہٹ کے پیچھے کچھ تلخ حقیقتوں کا پہرا ہے۔
بظاہر ہنستی مسکراتی نظر آنے والی زندگی کا مطلب یہ تو نہیں انسان بھرپور طریقے سے اپنی زندگی کو جی رہا ہے۔زندگی گزارنے کو زندگی جینا تو نہیں کہتے۔
میری زندگی کے گزرے چند سال مجھے صدیوں پر مُحیط لگے۔ اس بےمقصد سی زندگی کا مقصد سمجھ نہیں آتا میرے مولا۔ بے رنگ زندگی میں سکون تو ہے۔ لیکن۔۔۔ پھر بھی مزید جینے کی خواہش نہیں۔
یااللّٰه !! یا تو اس زندگی کی کوئی منزل دکھا دے۔ یا اس زندگی کو اصل منزل تک پہنچا دے۔"
آئینور سر اُٹھائے فلک پر نظر آتے چاند کو دیکھتی رہی۔ یہاں بیٹھے اسے کافی وقت گزر چکا تھا۔ یونہی بیٹھے سردی کا احساس بڑھنے لگا تو وہ اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ وہ کراچی کی رہنے والی، لاہور کی سردی کیسے برداشت کرتی۔۔۔ اور لاہور تو ویسے بھی اسے کبھی راس نہ آیا تھا۔ بقول آئینور کردم کی صورت اب بھی وہ اس کی زندگی میں طوفان لے آیا تھا۔
۔************۔
وہ سب اس وقت بیٹھک میں موجود تھے۔ مرکزی نشست پر آغا حسن بیٹھا اڈوں پر موجودہ صورتحال سے آگاہی حاصل کرتا کردم سے مخاطب ہوا۔
" تمہارے اور پاشا کے درمیان یہ سب کیا چل رہا ہے۔ جمشید بتا رہا تھا۔ اس نے جہاز پر قبضہ کر لیا تھا۔" آغا حسن نے ایک نظر جمشید پر ڈال کر کردم سے پوچھا۔
" جب جمشید سے معلوم ہوگیا تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟" اس نے کڑی نظر جمشید پر ڈال کر سخت لہجے میں کہا۔
" مگر تمہارے اور پاشا کے درمیان ایسا کیا ہوگیا ہے جو یوں دشمنی پر اُتر آئے؟۔۔۔ یوں گینگ کے بندوں کا ایک دوسرے سے دوشمنی مول لینے میں ہم سب کا ہی نقصان ہے۔" اب کی بار وہاں بیٹھا خاقان ابراہیم گویا ہوا۔
"بالکل !! " راشد ملک نے بھی لقمہ دیا۔
"مجھے نہیں معلوم اس نے یہ سب کیوں اور کس لیے کیا۔۔۔"
" میں بتاتا ہوں۔" پاشا اندر آتا کردم کی بات کاٹتے ہوئے گویا ہوا۔ سب لوگ چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگے۔ وہ کردم کے فوراً قریب پہنچا اور کمر کے پیچھے چھپا خنجر نکال کر اس پہ وار کیا۔
کردم نے بروقت کھڑے ہوتے خنجر کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اس کے حملے کو ناکام بنا تھا۔ سارے نفوس کھڑے اپنی جگہ ششدر رہ گئے۔
خاقان ابراہیم اور جمشید پہلے ہوش میں آئے۔ وہ فوراً آگے بڑھے اور پاشا کو پیچھے سے پکڑ کر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس لیے نہیں کہ کردم پر حملہ کیا تھا۔۔۔ بلکہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے، کردم دادا اس کو موت کے گھاٹ اتارنے میں زرا دیر نہ لگاتا۔ کردم دادا جیسی طاقت ان میں سے کسی میں نہ تھی۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی کردم دادا سے الجھتا نہیں تھا۔ مگر پاشا سے یہ غلطی سرزد ہو گئی تھی۔
" کردم دادا میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔ تو نے سونیا پر گولی چلا کر اچھا نہیں کیا۔" وہ خود کو چھڑوانے کی سعی کرتا ساتھ میں چیخ بھی رہا تھا۔
کردم جو مٹھیاں بھیچے کھڑا تھا۔ پاشا کی بات سنتے ہی گویا ہوا۔
"شروعات تم سے ہوئی اور اختتام میں نے کر دیا۔"
"میں نے نہیں۔۔۔ تم نے شروع کیا ہے سب۔ میری رکھیل کو اُٹھالیا۔۔۔ تو میں نے تمہارے جہاز پر قبضہ کر لیا۔" پاشا چلایا۔
" ہنہہ !! میں نے اُسے نہیں اُٹھایا۔ وہ خود چل کر میرے پاس آئی تھی۔" کردم ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
" کردم دادا !! میں چھوڑوں گا نہیں۔ سونیا پر گولی چلانے کی تمہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اور جہاں تک رہی میری رکھیل کی بات تو۔۔۔ ہر اس لڑکی کو تم سے چھین لوں گا جو تمہاری منظورِ نظر بنے گی۔" خود کو چھڑوا کر وہ کردم کے مقابل کھڑا ہوا۔
پاشا کی بات پر کردم کی نظروں کے سامنے آئینور کا سراپا لہرایا۔ سر جھٹک کر پاشا کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے بولا۔
" تم صرف باتیں کر سکتے ہو۔ کردم دادا کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔" کردم نے کہہ کر ایک نظر سب کی طرف دیکھا پھر ایک کہر آلود نظر اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔
" یہ تو وقت بتائے گا کردم دادا۔۔۔ کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ کیا نہیں۔" کردم کو باہر جاتے دیکھ پاشا نے کدورت سے سوچا۔
باقی سارے نفوس افسوس سے اسے دیکھتے خود بھی باہر نکل گئے۔
۔************۔
آئینور لاؤنج میں بیٹھی کتابوں میں سر دے ہوئے تھی۔ (جن کو وہ کراچی سے اپنے ساتھ ہی لے آئی تھی) ساتھ ہی چائے سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔
سیما خالہ سونے جا چکی تھیں۔ اس لیے وہ اپنی بوریت کو ختم کرنے کے لیے کتابیں لے کر بیٹھ گئی۔
کافی دیر یونہی کتابوں سے مغز ماری کرنے کے بعد آئینور نے سر اُٹھا کر دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھا تو بارہ بج رہے تھے۔ کتابیں سمیٹ کر وہ اٹھنے لگی کہ تبھی پورچ سے اسے گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئی۔
کتابوں کو وہیں چھوڑ آئینور چائے کا کپ اُٹھا کر کچن میں رکھنے چلی گئی۔ واپس آ کر کتابیں ہاتھوں میں اُٹھا کر مڑی ہی تھی کہ کردم گھر میں داخل ہوتا نظر آیا۔
کردم نے چہرہ موڑ کر ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر سیدھا سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔
آئینور بھی کتابیں اُٹھائے سیڑھیاں چڑھتی کمرے کی جانب آگئی۔
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو کردم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا گلے میں بندھی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر رہا تھا۔ آئینور نے اندر آکر کتابیں ٹیبل پر رکھیں۔ مڑ کر کردم کی طرف دیکھا جو اب ہاتھ پر بندھی گھڑی اُتار رہا تھا۔
آئینور کی نظر سیدھا اس کے دائیں ہاتھ پر پڑی جس کی ہتھیلی پر خون جما ہوا تھا۔
ماتھے پر یکدم بل پڑے، تیزی سے کردم کی طرف بڑھی، اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر متفکر سی گویا ہوئی۔
" یہ کیسے ہوا؟ آپ۔۔۔ آپ ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں گئے؟ دیکھیں تو کتنا گہرا کٹا ہے۔ کتنا خون بہہ گیا ہوگا۔ اگر کچھ ہوجاتا تو؟ " آئینور بولتی ہی چلی جارہی تھی۔ چہرے پر پریشانی، فکر مندی صاف ظاہر تھی۔
کردم کو اس وقت وہ اپنے ہواسوں میں نہیں لگی۔
" اتنی سی چوٹ سے کوئی مرتا نہیں ہے۔" کردم اس کے چہرے پر نظریں جمائے گویا ہوا۔
کردم کی بات پر آئینور یکدم اپنے ہواسوں میں لوٹتی اس کا ہاتھ چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہوئی۔
" سوری !! وہ میں۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔" آئینور کو سمجھ نہ آیا کیا بولے۔
" آپ کچھ لگا لیں ہاتھ پر سردی کی چوٹ زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ میں۔۔۔ میں فرسٹ ایڈ باکس لاتی ہوں۔" آئینور نظریں جھکائے بولتی مڑ کر کمرے سے جانے لگی کہ کردم کی آواز پر رک گئی۔
" ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں ہی رکھا ہے۔" کردم کہتا ہوا کپڑے بدلنے ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ آئینور یونہی کھڑی ڈریسنگ روم کے بند دروازے کو دیکھتی رہی۔ اسی لمحے میں ماضی کی کئی تلخ یادیں تازہ ہوئیں۔
وہ سر جھٹکتی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آئی۔ جھک کر فرسٹ ایڈ باکس دراز سے نکال کے بیڈ پر جاکے بیٹھ گئی۔
کردم ڈریسنگ روم سے نکلا تو اسے بیڈ پر بیٹھے اپنا منتظر پایا۔
" لاؤ مجھے دو۔" اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
آئینور نے خاموشی سے فرسٹ ایڈ باکس کھولا اور کردم کا ہاتھ پکڑ کر خود ہی دوا لگانے لگی۔
کردم حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مگر مقابل کا چہرہ ہر تاثر سے پاک تھا۔
آئینور خود پر اس کی نظروں کو محسوس کر رہی تھی۔ مگر نظر انداز کیے اپنے کام میں لگی رہی۔ دوا لگانے کے بعد وہ اب پٹی باندھ رہی تھی۔
کردم اسی کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا جب اس کی نظر آئینور کی ناک میں چمکتی چھوٹی سی لونگ پر پڑی۔ لونگ میں لگا ہیرا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ زیور کے نام پہ بس ایک یہی چیز پہنی ہوئی تھی۔
" کل تک تو نہیں تھی۔ یقیناً آج اپنے گھر سے پہن کر آئی ہے۔" کردم اسے دیکھ کر سوچنے لگا۔
آئینور پٹی باندھ کر اُٹھنے لگی تو کردم نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔
" تم ڈاکٹر بن رہی ہو؟ " وہ ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھتے ہوئے بولا۔ پٹی کو دیکھ کر یہ ہی لگ رہا تھا کہ کسی ڈاکٹر نے باندھی ہے۔
" نہیں۔" بےتاثر چہرے سے جواب دیا۔
کردم نے ٹیبل پر رکھی کتابوں کو ایک نظر دیکھا پھر آئینور کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" پھر کس سے سیکھا پٹی باندھنا؟ "
آئینور جواب دیے بغیر اُٹھ گئی۔ فرسٹ ایڈ باکس کو اس کی جگہ پر رکھا پھر مڑ کر کردم کو دیکھتی گویا ہوئی۔
" جب مرہم لگانے والے ہاتھ نہ ہوں۔۔۔ تو خود ہی زخموں پر مرہم رکھنا پڑتا ہے۔" سنجیدگی سے کہتے وہ باتھ روم میں چلی گئی۔
آئینور کے جواب میں الجھا، وہ ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھتا رہ گیا۔
۔************۔
آئینور کی آنکھ کھلی تو کردم کو برابر میں سوتا پایا۔ وہ اُٹھ بیٹھی۔ ایک نظر گھڑی پر ڈالتی، وہ اپنے اور کردم کے کپڑے نکال کر باتھ روم چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر آئی تو کردم کو یونہی سوتا دیکھ آئینور بیڈ کی طرف بڑھی اور کندھے سے ہلا کر اُٹھانے لگی۔
کردم نے آنکھیں کھول کر ایک نظر اسے پھر گھڑی کو دیکھا جس میں آٹھ بج رہے تھے۔
" آپ تیار ہو جائیں میں ناشتہ لاتی ہوں۔" آئینور کہہ کر کمرے سے نکلتی کچن میں چلی آئی۔
" سیما خالہ ناشتہ تیار ہے؟ " ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر پیار سے پوچھا۔
" ہاں کردم کو اُٹھا دیا۔ " سیما خالہ نے پیار سے اسکے گال تھپکے۔
"جی !! اُٹھا دیا اُس کھڑوس کو۔" آئینور نے منہ بسور کر کہا۔
" لڑکی !! شوہر کو کھڑوس کہہ رہی ہو شرم کرو۔" سیما خالہ نے اسے گھوری سے نوازا۔
" اچھا اب ناشتہ دے دیں ورنہ وہ ہٹلر پھر شروع ہو جائے گا۔" آئینور نے منہ بنا کر کہا۔
سیما خالہ نے تاسف سے سر ہلایا اور ناشتے کی ٹرے اسے پکڑا دی۔
"چلو اب جلدی جاؤ۔"
"جی۔" آئینور اثبات میں سر ہلاتی ٹرے تھامے کمرے کی جانب چل دی۔
کمرے میں داخل ہوئی تو کردم تیار کھڑا تھا۔ آئینور نے ناشتہ ٹیبل پر رکھ دیا۔
" ناشتہ کر لیں۔" آئینور کہہ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کردم بھی ناشتے کے لیے صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔ مگر دائیں ہاتھ پر پٹی بندھی ہونے کے باعث کردم بائیں ہاتھ کا استعمال کرنے لگا۔
آئینور ناگواری سے اسے دیکھتی رہی پھر جب برداشت سے باہر ہوگیا تو اُٹھ کر اس پاس آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔
" لائیں میں آپ کی مدد کر دوں۔" آئینور اس کی طرف نوالہ بڑھاتی ہوئی بولی۔
" مجھے ہمدردی نہیں چاہیئے۔۔۔ میں خود کھا سکتا ہوں۔۔۔ اور تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں جب مجھے لگے گا میری قیمت وصول ہوگئی تو تمہیں یہاں سے چلتا کردوں گا۔" کردم اس کا ہاتھ ہٹاتا کوفت سے بولا۔
" اول تو یہ۔۔۔ مجھے بے صبری سے انتظار رہے گا اس دن کا۔ اور دوئم یہ کہ۔۔۔ بائیں ہاتھ سے کھانا ممنوع ہے۔ اس لیے آج میرے ہاتھ سے کھا لینگے تو زہر نہیں مل جائے گا اس میں۔"
آئینور نے کہہ کر پھر نوالہ کردم کی طرف بڑھایا۔ اس بار کردم نے بغیر کسی چوں چرا کے اس کے ہاتھ سے کھا لیا۔ کردم کی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔ خود پر اس کی نظروں کو محسوس کرتی وہ جلدی جلدی کھلانے لگی۔
کردم کو یکدم پھندا لگا۔ ہاتھ سے نوالہ چھوڑتے، آئینور نے پانی کا گلاس اُٹھا کر اس کے ہونٹوں سے لگا دیا ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اس کی کمر بھی سہلا رہی تھی۔
" تم نے کسی ریس میں حصّہ لے رکھا ہے جو ایک کے بعد ایک نوالہ منہ میں ڈال رہی ہو۔۔۔؟ کھلا رہی ہو تو صحیح سے کھلاؤ۔" کردم اسے گھورتے ہوئے گویا ہوا۔
" سوری !! " آئینور نے منہ بسور کر کہا۔ کردم سر جھٹک کر رہ گیا۔
" ہنہہ !! ایک تو کھلا رہی ہوں اوپر سے لاڈ صاحب کے نخرے ختم نہیں ہو رہے۔" اس نے جل کر سوچا ساتھ ہی گھوری سے نوازنا نہیں بھولی۔
۔************۔
" تم نے کردم دادا سے پنگا لے کر اچھا نہیں کیا۔ یوں تم نے کردم دادا کے ساتھ ساتھ باقی گینگ کے بندوں کو بھی اپنے خلاف کر لینا ہے۔"
پاشا اپنے گھر پر موجود تھا جب جمشید اس کے پاس چلا آیا۔۔۔ اور اب وہ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھا کل رات کے حوالے سے بات کا آغاز کر رہا تھا۔
" تم صبح صبح صرف یہ کہنے آئے ہو؟ " پاشا چڑتے ہوئے گویا ہوا۔
" ارے یار !! میں تو تمہارے فائدے کی بات کرنے آیا ہوں۔ تم اس طرح دن دھاڑے کردم سے دشمنی مول لے کر اپنے لیے مشکل پیدا کر رہے ہو۔ کوئی ایسا راستہ تلاش کرو کہ سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔" جمشید چہرے پر مکرو مسکراہٹ سجائے بولا۔
" مطلب کہنا کیا چاہتے ہو اور اس سب سے تمہیں کیا فائدہ؟ " پاشا نے اچنبھے سے پوچھا۔
" کردم دادا کی طرف میرے بھی بہت سے حساب کتاب نکلتے ہیں۔ میری بھی کئی منظورِ نظر کو اس نے اپنا دیوانہ بنا کر ان کو چھوڑ دیا۔ اوپر سے دادا کا چہیتا بھی ہے۔ کئی دفعہ کردم دادا کی وجہ سے دادا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔ بس تب سے میں نے بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔ مگر اکیلے اس کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا۔ اس لیں میں صحیح موقعے کی تلاش میں تھا۔ تاہم اب تم ہو نا میرے ساتھ، ایک سے بھلے دو۔" جمشید نے تفصیل بتا کر پاشا کی طرف دیکھا جو غور سے اسے سن رہا تھا۔
" اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے میں تمہارا ساتھ دونگا ؟" پاشا نے بھنویں اچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
" وہ اس لیے کہ اکیلے تو تم بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چونکہ تمہیں اپنی بھانجی کا بدلہ لینا ہے تو تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں نا دشمن کا دشمن دوست بس وہی کہانی ہے۔" جمشید مسکراتے ہوئے بولا۔
پاشا اس کی بات سے محظوظ ہوتا دھیرے سے مسکرا دیا۔
" مگر کردم دادا کو نقصان پہنچانا اتنا آسان نہیں۔ اس کے تو آگے پیچھے بھی کوئی نہیں کہ ہم اس کی دُکھتی رگ پر پاؤں رکھ سکیں۔
اور دوسرے طریقوں سے نقصان پہنچانے میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ ابھی سونیا کو اُٹھایا تھا کل کو پھر کسی کو اُٹھالے گا۔" پاشا نے اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا۔
" کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہوگا۔ جس سے ہم کردم دادا کو گھٹنوں کے بل لاسکیں۔ بس ہمیں صحیح موقعے اور وجہ کی تلاش میں رہنا ہے۔" جمشید پُر سوچ انداز میں بولا۔
" ٹھیک کہتے ہو۔" پاشا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
" چلو اب میں چلتا ہوں اور بھی بہت کام ہیں۔" جمشید کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ مگر جاتے جاتے پاشا کو گہری سوچ میں مبتلا کر گیا۔
۔************۔
" افففف !! حد ہے، یہ نہیں کے کپڑوں کو اُٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ دیں۔ اُتار کر فرش پر ہی پھینک دیے۔"
کردم کو دروازے تک چھوڑ کر آئینور واپس کمرے میں آئی تھی۔ بوریت کے باعث وہ کمرے کا سامان ترتیب سے رکھتی ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی تھی۔
اس نے ڈریسنگ روم میں قدم رکھا ہی تھا جب کردم کا شب خوابی کا لباس نیچے پڑا دیکھا۔ وہ منہ بناتی کپڑے اُٹھانے لگی۔ ساتھ میں بڑبڑا بھی رہی تھی۔
"ویسے ماما ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ اگر میں تھوڑا گھر کا کام کاج سیکھ لیتی تو آج مجھے اتنی بوریت نہ ہوتی یوں گھر میں رہ کر وقت گزر جاتا۔"
" خیر !! اب کچھ تو اپنی بوریت ختم کرنے کے لیے کرنا ہی ہوگا۔ چلیے آئینور صاحبہ آج ان لاڈ صاحب کے کپڑے دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ جانے کتنے کتنے دن پُرانی جرابیں اور بنیان پہنی رکھتے ہیں۔" آئینور خود کلامی کرتی کردم کے میلے کپڑے اُٹھا کر باتھ روم میں چلی گئی۔ اب جو بھی تھا، رخسار بیگم کی نصیحت پر عمل پیرا ہونا ہی تھا۔
۔************۔