وہ اس وقت کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔ باہر چلتی ہوا سیدھا اس کے چہرے کو چھو رہی تھی۔ جس سے اس کا کالا دوپٹہ پھڑپھڑا رہا تھا۔ چند شرارتی لٹیں اس کے چہرے پر اٹکلیاں کر رہی تھیں۔ اس نے ان شرارتی لٹوں کو ہٹانے کی زرا سی بھی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے آج کے بارے ميں سوچ رہی تھی۔
" ایک ہی دن بس ایک ہی دن میں اس کی زندگی نے کس طرح پلٹا کھایا تھا۔ جس رشتے سے اسے سب سے زیادہ نفرت تھی آج اسی رشتے میں ایک ان چاہے مرد کے ساتھ بندھ گئی تھی۔ اسے بس آج کی رات کے گزر جانے کا انتظار تھا۔ انتظار کی سولی پر لٹکنا کتنا مشکل ہوتا ہے اسے آج معلوم ہو رہا تھا۔ وہ گھڑیاں گنتی اس رات کے گزر جانے کے انتظار میں تھی۔ کہ شاید کل کی صبح اس کی زندگی کو پھر سے معمول پر لے آئے۔ شاید ایک ہی رات میں کردم اس سے بیزار ہو جائے۔ "شاید" مگر وہ نہیں جانتی تھی قسمت نے ابھی اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلنا تھا۔"
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم کھڑی تھی۔ جب کردم دروازہ کھول کر اندر آیا۔
اس کی نظر سیدھا آئینور پر پڑی۔ جو اس کی آمد سے بےخبر دروازے کی طرف پُشت کیے کھڑی تھی۔ کردم نے صوفے پر پڑی اس کی چادر کو دیکھا جو کمرے میں آکر وہ اُتار چکی تھی۔
کردم نے گلا کھنکھار کر اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ مگر وہ اس کے گلا کھنکھارنے پر بھی نہ مڑی تو وہ غصّے سے اپنے کمرے میں موجود کیبنٹ کی طرف بڑھا اور شراب کی بوتلیں نکال کر اتنی زور سے کیبنٹ کا دروازہ بند کیا کہ آئینور کو متوجہ ہونا ہی پڑا۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو کردم ٹیبل پر جھکا شراب کی بوتلیں رکھ رہا تھا۔ شراب کو دیکھتے ہی آئینور کے چہرے پر ناگواری اُتر آئی۔
کردم جیسے ہی شراب کی بوتلیں ٹیبل پر رکھ کر سیدھا کھڑا ہوا اس کی نظر سیدھا آئینور کے چہرے پر پڑی۔ جو اسی کی جانب متوجہ تھی۔
سامنے کھڑے شباب نے شراب کو بھلا دیا۔ کردم کی نظریں اس کے چہرے سے پلٹنا بھول گئیں۔
"کیا کوئی اتنا معصوم بھی ہوتا ہے؟ " اس کے دل نے سوال کیا۔
وہ اب تک آئینور سے نکاح کے فیصلے کو اپنی بیوقوفی اور محض وقتی کشش سمجھ رہا تھا۔ وہ نہیں سمجھ پارہا تھا اس نے یہ فیصلہ کیوں اور کس لیے کیا؟۔۔۔حالانکہ کسی کی جان لینا ان کے لیے مشکل تو نہ تھا پھر کیوں اس لڑکی کے ساتھ سودا کر بیٹھا، کیوں اس کی نکاح کی بات پر ہامی بھری "کیوں"۔۔؟
" کیونکہ یہ لڑکی سات پردوں میں بھی ایسی کشش رکھتی تھی کہ مقابل کی توجہ اپنی طرف مبذول کر سکے۔ اس کی نظروں میں ہی ایسی کشش تھی کہ چہرہ دیکھے بغیر کردم جیسے انسان کو اس سے نکاح کرنے پر مجبور کر دیا۔"
"وہ عام سے نقوش کی لڑکی کتنی پُرکشش اور خوبصورت لگتی تھی۔ کوئی اس وقت اگر کردم سے پوچھتا تو وہ بتاتا اُس نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ اوپر سے گوری دمکتی رنگت پر کالا لباس اس پر چارچاند لگا رہا تھا۔ وہ کالے کپڑوں میں اور بھی جازب نظر لگتی تھی۔ پھر اس وقت تو وہ کردم کی منظورِ نظر بنی ہوئی تھی۔ جس کے بس ایک ہی اشارے کی لڑکیاں منتظر رہتی تھیں۔"
مگر !! سامنے کھڑی لڑکی بھی آئینور تھی۔ جسے کردم جیسے وجیہٰہ شخص میں زرا بھی دلچسپی نہ تھی۔
کردم کو یوں اپنی طرف تکتا پاکر آئینور نہ چاہتے ہوئے بھی گویا ہوئی۔
" اگر آپ یہ سوچ کے مجھے یہاں لائے ہیں کہ آپ کی ایلیٹ کلاس کی بیہودہ لڑکیوں کی طرح میں آپ کا اس شراب نوشی میں ساتھ دونگی اور بیہودہ اداؤں سے آپ کا دل لبھاؤں گی تو آپ کی سوچ غلط ہے۔ اگر آپ کو شراب پینی ہے تو مجھے کوئی اور کمرہ بتادیں میں وہاں چلی جاتی ہوں۔" آئینور کو شراب نوشی سے بے انتہا نفرت تھی اور کردم سے یہ بات کہتے ہوئے بھی اس نے اپنے چہرے پر آئی ناگواری چھپائی نہیں تھی۔
کردم جو آئینور کو دیکھتے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ آئینور کی بات نے اُسے فوراً حال میں لاپٹکھا تھا۔ اسے یکدم غصّہ چڑھا۔ ہونٹ بھینچے وہ لمبے لمبے قدم اُٹھاتا لمحوں میں آئینور اور اپنے درمیان کا فاصلہ طے کرتا اس تک پہنچا تھا۔
کردم کو اپنے قریب آتا دیکھ وہ ڈر کر ہٹی نہیں وہیں کھڑی سر اُٹھائے اُسے دیکھ رہی تھی۔ کردم کا قد آئینور سے کافی لمبا تھا اس لیے سر اُٹھا کر اُسے دیکھنا پڑ رہا تھا۔
کردم نے غصّے سے آئینور کا بازو دبوچ کر بیڈ پر پھینکا۔
بیڈ پر گرنے کی وجہ سے آئینور کے بال آگے کو آگئے۔ دوپٹہ بھی سر سے اُتر چکا تھا۔
اس نے چہرہ موڑ کے کردم کی طرف دیکھا جو غصّے سے مٹھیاں بھیچے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ کردم نے آگے بڑھ کر ایک بار پھر اس کا بازو دبوچا۔
"میں نے کہا تھا نا۔۔۔ اپنی حد نہیں بھولنا۔"
" تم میری بیوی بن کر یہاں نہیں آئی ہو۔ اپنی زبان کو لگام دو آئندہ میرے سامنے نہ چلے۔" کردم اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
آئینور کی آنکھوں میں خوف نہیں تھا۔ بےبسی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ بےبسی کے مارے آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ لڑکی ہونے کے باوجود اس کو رونے سے سخت چڑ تھی۔ مگر چاہتے ہوئے بھی وہ آنکھوں میں اُترتی نمی کو روک نہیں پارہی تھی۔ اس لیے بار بار پلکیں جھپکا کر چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آنکھوں میں آئی نمی کی وجہ سے گہری بھوری آنکھیں کانچ کی طرح چمکنے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں آئی نمی کردم سے چھپی نہیں تھی۔ وہ اس کا بازو چھوڑتا پیچھے ہوا۔
" سو جاؤ۔" سخت لہجے میں کہتا وہ ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ آئینور خاموشی سے اس کی پُشت کو بس گھورتی رہے گئی۔
کردم ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو آئینور واقعی اُسے بیڈ پر سوتی ملی۔ وہ پورے دن کی تھکی ہاری تھی۔ اس لیے اُسے زرا وقت نہیں لگا نیند کی آغوش میں اُترنے کیلئے۔
کردم خاموشی سے آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ شراب کا گلاس لبوں سے لگائے نظریں سامنے موجود بیڈ پر سوئے وجود پر جمی تھیں۔ وہ اس کی طرف ہی چہرہ کیے بیڈ پر دائیں جانب لیٹی تھی۔ سائڈ لیمپ کی روشنی میں نظر آتا اس کا دمکتا چہرہ اور دمک اٹھا تھا۔
آئینور کا معصوم چہرہ سوتے ہوئے اور بھی معصوم لگ رہا تھا۔ کردم کا سارا غصّہ اس کی معصوم صورت دیکھ کر کہاں جا چھپا تھا وہ خود نہیں سمجھ سکا۔ وہ گلاس ٹیبل پر رکھتا اُٹھ کر بیڈ پر بائیں جانب آ بیٹھا۔
اس کے بیڈ پر بیٹھتے ہی آئینور نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ بہت حساس تھی۔ کسی کی موجودگی محسوس کرتے ہی آنکھیں کھول لیں۔
کردم نے اس کی طرف دیکھا نیند سے سرخ ہوتی آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ کردم خاموشی سے برابر میں لیٹ گیا۔
اس کو لیٹتے دیکھ آئینور نے بھی واپس آنکھیں بند کرلیں۔ آئینور کی نیند سے بھاری ہوتی سانسوں کی آواز کردم کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔
کردم نے اس کی طرف کروٹ لی۔ تکیے پر دھرا آئینور کا ہاتھ اُٹھا کر اپنی کمر پر رکھ لیا۔
آئینور اس کی ساری حرکتیں محسوس کر رہی تھی۔ وہ نیند کی کچی تھی۔ کردم اس کی نیند میں خلل پیدا کر رہا تھا۔ اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگی مگر آنکھیں بند کیے لیٹی رہی کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ کردم سے دوبارہ الجھنا نہیں چاہتی تھی۔
ادھر کردم کی نظریں آئینور کے چہرے کے ایک ایک نقوش سے ہوتی گز رہی تھیں۔ جیسے کچھ " کھوج " رہی ہو۔
" کیا ہے آخر اس عام سے چہرے میں؟۔۔۔ جو اسے اتنا پُرکشش، اتنا جازب نظر بنا رہا ہے !! آخر کیا؟ "
وہ سوچتا ہوا آئینور کے چہرے پر نظر جمائے خود بھی نیند کی آغوش میں اُترتا چلا گیا۔
۔***********۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو خالی خالی نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگی۔ اسے سمجھ نہیں آیا وہ کہاں ہے؟۔۔۔ مگر !! جیسے ہی نیند کا خمار اُترا تلخ حقیقت زہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح اُبھری۔ وہ اُٹھ بیٹھی اور سر جھکائے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ اس کے سر جھکانے سے اس کے کالے سیاہ سلکی بال کسی آبشار کی طرح آگے کو آگئے تھے۔ چہرہ مزید چھپ گیا تھا۔
ادھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے تیار ہوتے کردم کی نظریں آئینے میں نظر آتے آئینور کے عکس پر جمی تھیں۔ سیاہ کالے سلکی بالوں کے اس منظر کو اس نے بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا۔
رات بھر سونے کے باوجود اس کے بال خراب نہیں ہوئے تھے۔ چہرہ اُٹھا کر وہ بال ہاتھوں سے سمیٹتی جوڑے کی شکل میں لانے کی کوشش کر رہی تھی مگر بال بار بار کھل کر اس کی کمر پر بکھر جاتے۔
کردم آئینے میں اسے دیکھتا اندازہ لگا سکتا تھا۔ اس کے بال بہت سلکی ہیں۔ تبھی رات بھر سونے کے باوجود خراب نہیں ہوئے۔
تنگ آکر آئینور نے کوشش ترک کردی بال بندنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بیزاری سے نظریں کمرے میں گھماتی اس کی نظر کردم پر پڑی جو آئینے کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔
آئینور کے دیکھنے پر کردم نے اس کی جانب سے فوراً نظریں پھیر لیں۔
اس کو تیار ہوتا دیکھ آئینور نے گھڑی پر نظر ڈالی جس میں نو بج رہے تھے۔ وہ کبھی اتنی دیر تک نہیں سوتی تھی لیکن کل کی بھاگ دوڑ نے کچھ زیادہ ہی تھکا دیا تھا۔ اس کی نظر سامنے ٹیبل پر پڑی جہاں ناشتے کے خالی برتن رکھے تھے۔ مطلب وہ ناشتہ کر چکا تھا۔ وہ اُٹھ کر باتھ روم چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ باتھ روم سے باہر آئی تو کردم باہر جانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔
" کیا یہ مجھے گھر نہیں بھیجے گا؟۔۔ کیا کروں خود پوچھوں؟ " وہ اسے دیکھتی ابھی اسی تذبذب میں تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
" آجائیں۔"
کردم نے کہا تو ایک ادھیڑ عمر خاتون اندر آئیں اور کھانے کے برتن سمیٹنے لگیں۔ برتن اُٹھا کر انہوں نے ایک نظر آئینور پر ڈالی ان کی آنکھوں میں حقارت صاف واضح تھی۔
آئینور ان کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ ان کی نظروں کا مطلب وہ سمجھ گئی تھی۔ لیکن اسے غصّہ نہیں آیا۔ اسے یہ ادھیڑ عمر خاتون اچھی لگی تھیں۔ آئینور ان کی طرف دیکھتی دھیرے سے مسکرا دی۔
کردم اس کی ساری حرکتیں آئینے میں سے دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ میں بریف کیس اُٹھائے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ جو کچھ دیر پہلے آئینور کو حقارت سے دیکھ رہی تھیں۔ آئینور کے چہرے پر مسکراہٹ کو دیکھ۔۔۔ اپنی آنکھوں میں حیرت لیے برتن اُٹھاتی باہر چلی گئیں۔
اُن کے جاتے ہی آئینور نے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف دیکھا کردم وہاں تو کیا۔۔۔ کمرے میں ہی موجود نہیں تھا۔ اس کی ساری توجہ اُن خاتون کی طرف تھی۔ اس لیے کردم کو کمرے سے باہر نکلتے نہیں دیکھا۔
" افففف !! وہ تو چلا گیا۔ اب میں یہاں اکیلی کیا کروں؟ "
آئینور منہ بسورتی بند دروازے کو دیکھنے لگی۔
۔***********۔
کردم لاؤنج میں آیا تبھی اس کی نظر کمرے سے نکل کر برتن ہاتھ میں لیے کچن میں جاتی خاتون پر پڑی تو اُنہیں پکار بیٹھا۔
" سیما خالہ !! " کردم چل کر اُن کے پاس آیا۔
" جی بیٹا !! " وہ حیران ہوتی اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔۔کیونکہ کردم کم ہی ان سے مخاطب ہوتا تھا جب کوئی ضروری کام ہو ورنہ اس کے کھانے پینے کا انہیں پتا تھا۔ اس لیے کردم کو انہیں مخاطب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔
" اُسے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو پوچھ لے گا۔ جو مانگے دے دے گا۔" کردم بےتاثر چہرے سے کہتا لاؤنج سے نکل گیا۔
سیما خالہ حیرت سے اسے جاتے دیکھتی رہیں۔ اُنھیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا یوں لگا شاید کچھ غلط سنا ہے۔ آج تک اس کی خواب گاہ میں جتنی لڑکیاں آئیں ان سے اس کا تعلق بس رات گزارنے تک ہوتا۔ اس کے بعد " وہ کب گئیں؟۔۔۔کیسے گئیں؟۔۔۔ کیا کر رہی تھیں۔" کبھی کردم نے کسی کے بارے میں نہ پوچھا نہ کچھ بولا۔
" یہ پہلی لڑکی تھی !! جس کے بارے ميں کردم نے انہیں کہا تھا۔" اپنی حیرت کو قابو کرتیں وہ کچن میں چلی گئیں۔
۔***********۔
آئینور کچن میں آئی تو سیما خالہ برتن دھو رہی تھیں۔ اس نے اُن کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے لیے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔
" اسلام علیکم !! " سیما خالہ جو برتن دھونے میں مصروف تھیں اس آواز پر حیران ہوتے ہوئے پلٹیں۔
" وعلیکم اسلام !! " بےتاثر چہرے سے سلام کا جواب دیتیں وہ اب اسے کھوجتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
کالا لباس زیب تن کیے وہ انتہا کی سادگی پسند، معصوم سی لڑکی کہیں سے بھی بناوٹی نہیں لگ رہی تھی۔
" یہ پہلی لڑکی تھی جو اتنے خلوص سے سلام کر رہی تھی"۔۔۔ ورنہ یہاں آنے والی ایک رات کی لڑکیوں کی نہ تو " ادائیں" سنبھلتی تھیں نہ" نخرے" کجا کہ سیدھے منہ بات کرنا تو دور کی بات۔۔۔!!
آئینور اپنی گہری بھوری آنکھوں (جن ميں مسکراتے وقت شرارت سی ناچ رہی ہوتی تھی) اور نرم و ملائم لبوں پہ مسکراہٹ سجائے انہیں دیکھ رہی تھی۔
سیما خالہ کی آنکھوں کے پل پل بدلتے تاثرات سے وہ محظوظ ہو رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی جارہی تھی۔
" کچھ چاہیئے؟ " سیما خالہ نے بےتاثر چہرے سے پوچھا۔
"جی !! مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔ ویسے مجھے کچھ بنا تو نہیں آتا پر آپ میری مدد کر دینگی تو میں بنا لونگی۔" آئینور نے شان سے اپنا پھوڑ پن بتایا۔
" تم بیٹھو میں دیتی ہوں۔" وہ اثبات میں سر ہلاتی ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ مسکراہٹ ہنوز قائم تھی۔ وہ اسے گھورتی ناشتہ بنانے لگ گئیں۔
" میں آپ کی مدد کر دوں؟ " آئینور اُٹھ کر ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ اپنا پھوڑ پن بتانے کے بعد مدد کی پیشکش کی۔
" جب کچھ بنانا نہیں آتا تو میری کیا مدد کرو گی؟ " انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
" آپ بتائیں کیا کرنا ہے میں کروں گی۔" وہی مسکراہٹ سے جواب دیا گیا۔
سیما خالہ اسے دیکھتی مسکرا دیں۔۔۔ ان کی مسکراہٹ دیکھ آئینور کی مسکراہٹ بھی گہری ہوگئی۔
لوگوں کا دل کیسے جیتنا ہے اسے اچھے سے آتا تھا۔ " بس دو میٹھے بول !! "
ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی وہ ناشتہ لیے ڈائننگ ٹیبل پر آگئی۔
" آپ بھی آئیں نا !! " آئینور کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
" نہیں !! میں ناشتہ کر چکی ہوں۔" سیما خالہ ٹیبل پر ناشتے کے برتن رکھتی بولیں۔
" تو کیا ہوا !! میرے ساتھ بیٹھ ہی جائیں۔" آئینور کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ وہیں بیٹھ گئیں۔۔۔اب وہ اس کو کھاتے دیکھ کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔
سیما خالہ کی نظروں کو خود پر جمی دیکھ کر آئینور گویا ہوئی۔
" کیا ہوا ؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟ "
" لگتی تو اچھے بھلے گھرانے سے ہو پھر ایسی بھی کیا بات ہوگی کہ تم۔۔۔۔" دانستہ طور پر سیما خالہ نے بات ادھوری چھوڑی۔
آئینور ان کی بات کا مطلب سمجھ گئی۔ اسی لمحے اس کی آنکھوں میں شرارتی چمک اُبھری۔ مسکراہٹ دبائے چہرے پر دنیا جہاں کی مظلومیت طاری کیے، آنکھوں کے کنارے سے نہ نظر آتے آنسوؤں کو صاف کرتی، کل کی ساری روادوا کسی فلسفیانہ انداز میں سیما خالہ کے گوش گزار کرنے لگی۔
" اور بس ایک بیٹی کیسے اپنے باپ کو مرتا دیکھ سکتی تھی بس۔۔۔۔اس ہی لیے۔۔۔اس ہی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا اور اب آپ کے سامنے ہوں۔" ایک بار پھر نہ نظر آنے والے آنسو آنکھ کے کنارے سے صاف کیے۔
سیما خالہ اس کی باتوں سے واقعی جزباتی ہوتی آنسو بہا رہی تھیں۔
" کتنی ہمت والی ہے تو میری بچی !! اگر کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار چکا ہوتا۔ یہ بُرے لوگ ایسے ہی دوسروں کی بےبسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔" سیما خالہ آنسو صاف کرتی ہوئی بولیں۔
مجھے لگا تھا وہ صبح ہی مجھے طلاق دے کر گھر بھیج دے گا۔۔۔" مگر !! " گہرا سانس لیا۔
" شاید اپنے پاپا کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ابھی باقی ہے۔"
اپنی اداکاری پر آئینور ہنسی کو دباتی اداسی سے گویا ہوئی۔
" تو فکر مت کر میری بچی !! اللّٰه سب ٹھیک کرے گا۔" سیما خالہ نے تسلی دی۔
" جی !! آپ ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔ پر ابھی مجھے گھر جانا ہے۔ پتا نہیں کتنے دن اور یہاں رکنا پڑے !! ۔۔۔ سوچ رہی ہوں گھر سے کچھ ضروری سامان اور ایک دو جوڑے لے آؤں۔"
"ہاں !! ٹھیک ہے کردم تو ویسے بھی شام میں ہی گھر آتا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہو آؤ۔" سیما خالہ اثبات میں سر ہلاتی بولیں۔
" ٹھیک !! میں کمرے سے چادر لے آؤں۔" آئینور کہتی کمرے کی جانب چل دی۔
۔***********۔
" دادا مال اڈے پر پہنچ چکا ہے۔ پاشا نے جہاز آزاد کر دیا۔"
کردم گاڑی میں بیٹھا دروازے کے شیشے سے باہر گزرتے مقامات کو دیکھ رہا تھا جب غفار اس سے گویا ہوا۔
" ہنہہ !! آزاد تو اُسے کرنا ہی تھا۔ آخر اس کی دکھتی رگ جو ہمارے ہاتھ میں تھی۔" کردم ہنکار بھرتے ہوئے بولا۔
"اب اس لڑکی کا کیا کرنا ہے دادا ؟ " غفار نے پاشا کی بھانجی کی طرف اشارہ کیا۔
" کرنا کیا ہے !! ہم اپنے مہمان کی اچھے سے خاطر تواضع کرتے ہیں۔ اس کی بھی کرینگے۔ آخر پاشا کو بھی تو پتا چلے ہم کتنے مہمان نواز ہیں۔" کردم نے معنی خیزی سے کہا۔
" دادا پھر ابھی کہاں جانا ہے؟ " غفار نے پوچھا۔
" وہیں پرانے گودام کی طرف۔" کردم نے کہتے ہوئے نظریں پھر باہر گزرتے منظر کی جانب مبذول کرلیں۔
۔***********۔
آئینور گھر آئی تو پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا۔ توقع کے عین مطابق اسلم گھر پر موجود نہیں تھا مگر حیرانی کی بات یہ تھی کہ رخسار بیگم بھی گھر پر موجود نہ تھیں۔ گھر خالی چھوڑ کر وہ کہاں چلی گئیں؟ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اچانک عقب سے رخسار بیگم کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی۔
" آئینور تم !! "
" ہاں میں !! گھر کھلا چھوڑ کر۔۔ آپ کہاں گئی تھیں ؟ " آئینور نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
" وہ میں زرا فرحانہ باجی کی بیٹی سے ابرو بنوانے کیلئے گئی تھی۔" رخسار بیگم کہتی ہوئی صوفے پر جا بیٹھی۔
" کیا !! گھر کھلا چھوڑ کر آپ ابرو بنوانے چلی گئیں۔" آئینور رخسار بیگم کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بولی۔
" ہاں تو اس گھر میں کچھ چرانے لائق ہے ہی کیا جو گھر کو تالا لگاتی۔" وہ منہ بسورتی گویا ہوئیں۔
" وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔ یہ ابرو بنوانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ جانتی ہیں نا "کبیرہ گناہ" ہے۔ابرو بنانے والے پر اللّٰه کی لعنت ہوتی ہے۔ ہماری زندگی میں خوبصورتی سے زیادہ اللّٰه کی ناراضگی اہم ہونی چاہیئے۔ مگر افسوس ہم لوگ اللّٰه کی ناراضگی سے زیادہ خوبصورتی کو فوقیت دیتے ہیں جبکہ اللّٰه کی بنائی ہوئی چیز کو ہم سنوارتے نہیں بلکہ بگاڑتے ہیں۔ ایک بار بھنویں بنوانے کے بعد ہمیں بار بار بنوانے کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ اللّٰه کی عطا کی ہوئی بھنویں اگر ہم انھیں ہاتھ نہ لگائیں تو اپنی اصل صورت ساری زندگی نہیں کھوتیں۔ کتنی بار سمجایا ہے آپ کو۔" آئینور نے تاسف سے ان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ خود نہیں بنواتی تھی۔ درحقیقت اُسے ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ رخسار بیگم کو بھی ہمیشہ سمجھایا کرتی تھی لیکن وہ ہمیشہ اس کی بات کو یہ کہہ کر ٹال دیتیں کہ اللّٰه معاف کرنے والا ہے۔
ابھی بھی وہ بیزاری سے اس کو دیکھ رہی تھیں۔
" تم واپس آگئی ہو یا واپس جاؤ گی؟ " اس کی بات کو نظر انداز کرتیں انہوں نے بات بدلی۔
" سامان لینے آئی ہوں نہ جانے اور کتنے دن وہاں گزارنے پڑیں۔" آئینور ان کے بات بدلنے کو سمجھ گئی۔ اس لیے منہ بسور کر جواب دیا۔
" اچھا !! مجھے تمہیں کچھ دینا تھا۔" رخسار بیگم صوفے سے اُٹھتے ہوئے بولیں۔
" کیا !! " آئینور نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
" ایک منٹ۔" رخسار بیگم کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں ایک مخملی ڈبیا لیے کمرے سے باہر آئیں۔ آئینور نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔
"یہ پہن لو !! اب تمہاری شادی ہوگئی ہے اور ہمارے خاندان کی روایت ہے کہ شادی کے بعد سب لڑکیاں ناک میں لونگ پہنا کرتی ہیں۔" رخسار بیگم نے مخملی ڈبیا اس کی طرف بڑھائی جس میں ایک نازک سی ہیرے کی لونگ چمک رہی تھی۔
وہ بہت ہی نازک تھی۔ نہ ہونے کے برابر۔۔
مگر !! اس میں لگا ہیرا پوری آب و تاب سے چمکتا اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔
" کیا !! بالکل بھی نہیں میں ہر گز یہ نہیں پہنوں گی۔۔ اور کونسی شادی؟ یہ کوئی شادی نہیں ہے صرف کچھ دنوں کی بات ہے اس کے بعد سب پہلے جیسا ہو جائے گا۔" آئینور کو رخسار بیگم کی بات پر یکدم غصّہ چڑھا۔
" اگر میں کہوں یہ " ماہا " کی ہے !! کیا تب بھی نہیں پہنو گی؟ " رخسار بیگم کی بات پر اس نے اب کی بار غور سے اس چمکتی لونگ کو دیکھا حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
" یہ۔۔ یہ کہاں سے آئی۔" آئینور حیرت سے چمکتی لونگ کو دیکھ کر بولی۔ یہ وہی تھی وہ پہچان گئی۔ کتنی ہی یادیں تازہ ہوئیں تھیں۔ آنکھوں کے سامنے وہ سایا لہرایا۔ مسکراتے لب، ناک میں چمکتی ہیرے کی لونگ، آنکھوں میں شرارت لیے" اس کی ماہا "۔۔۔ یکدم آئینور کی آنکھیں نم ہوئیں۔
"میں نے اسے یہاں کے ایک بینک میں بہت پہلے ہی رکھوا دیا تھا۔ آج سب سے پہلا کام اسے وہاں سے نکالنے کا کیا تاکہ تمہاری امانت تم تک پہنچا دوں۔ اسلم کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ اس نے تو باقی سارا زیور جوئے بازی کی نظر کر دیا بس یہ ہی ایک امانت رہ گئی تھی میرے پاس۔" رخسار بیگم نے افسوس سے کہا۔
اُن کی بات پر نم آنکھوں سے اُنھیں دیکھتی ہاتھ سے ڈبیا جھپٹنے کے سے انداز میں لے کر کمرے میں چلی گئی۔
۔***********۔