وہ خواب گاہ میں کھڑا کھڑکی سے باہر نظر آتے مناظر دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آج افق سے ماہتاب بھی غائب تھا۔ جیسے کردم کے آنگن سے آئینور۔
سیما خالہ کو دفنانے کے بعد وہ سیدھا آئینور کی تلاش میں نکلا تھا۔ گھنٹوں تک سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد رات دیر گھر لوٹا تھا۔ رحیم اور کچھ اور آدمیوں کو اس نے رحمت اور فاروق کو ڈھونڈنے میں لگا دیا تھا۔ مگر اب تک ان کی بھی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔
" کہاں ہو تم نور؟ "
وہ افق پر نظریں جمائے آئینور کے تصور سے مخاطب ہوا۔
" تمہیں تو میں نے سب سے چھپا کر رکھا تھا۔ پھر کس نے تمہیں مجھ سے چھین لیا۔"
تیز ہوا کے چھونکے سیدھا اس کے چہرے کو چھو رہے تھے۔ اس ہوا میں اسے آئینور کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔
" جس کسی نے بھی یہ گندھا کھیل کھیلا ہے میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔ اس کو اس کے بھیانک انجام تک پہنچا کر ہی دم لوں گا۔"
وہ خود سے عہد کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔ یہ وقت ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنے کا نہیں تھا۔
۔************************۔
شراب خانہ مردوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کچھ لوگ ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے شراب نوشی کے ساتھ ساتھ جوا کھیلتے ہوئے اپنی اپنی قسمت آزما رہے تھے کہ اچانک تیز آواز کے ساتھ شراب خانے کا شٹر اُٹھا تھا اور وہ سیاہ چادر اوڑھے اندر داخل ہوا۔ چادر میں منہ چھپائے وہ ادھر اُدھر دیکھتا ایک کونے پر جا بیٹھا۔ ارد گرد نظر دوڑاتا وہ اطراف کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے شانے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔
" کیسے ہو رحمت؟ "
مقابل نے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے چادر کھیچ لی۔
" رحیم تم۔۔۔ تم یہاں؟ " رحمت آنکھوں میں حیرت لیے سامنے کھڑے رحیم کو دیکھ رہا تھا۔
" ہاں میں !! تمہیں کیا لگا تم چھپ جاؤ گے تو تمہیں کوئی ڈھونڈ نہیں پائے گا؟ "
" تمہیں کیسے پتا چلا میں یہاں ہوں؟ "
" پیاسا کنوے کے پاس خود چل کر آتا ہے۔ مجھے یقین تھا کردم دادا کے بنگلے سے نکل کر تم ادھر اُدھر ہی پائے جاؤ گے۔ خاص طور پر شراب خانوں میں۔" وہ مسکرا کر کہتا اس کے سامنے جھکا۔
" بس پھر کیا تھا میں نے ہر اس جگہ آدمیوں کو بھیج دیا جہاں تم پائے جا سکتے ہو اور دیکھو تم مل بھی گئے۔"
وہ واپس سیدھا ہوا تبھی دو آدمی رحیم کے پیچھے سے نکل کر آگے آئے اور رحمت کو کوئی بھی موقع دیئے بغیر فوراً بازوں سے پکڑ لیا۔
" میں نے کچھ نہیں کیا مجھے چھوڑ دو۔ میں کچھ جانتا بھی نہیں ہوں۔"
رحمت چلانے لگا ارد گرد موجود لوگوں رک کر انہیں دیکھنے لگے مگر پھر اپنے اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یہ تو یہاں روز کا معمول تھا۔
" میں جانتا ہوں تم نے کچھ نہیں کیا۔ لیکن راہِ فرار کوئی حل نہیں تم کو کردم دادا کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔" رحیم نے اسے سمجھانا چاہا۔
" وہ مجھے مار دینگے۔" وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔ بےبسی سی بےبسی تھی۔
"جب تم نے کچھ کیا ہی نہیں تو وہ کیوں تمہیں مارنے لگے۔۔۔؟ چلو اسے لے کر چلو۔"
رحمت سے بول کر آخر میں اپنے آدمیوں سے مخاطب ہوا۔ اس کا حکم ملتے ہی وہ زبردستی رحمت کو لیے وہاں سے نکل گئے اور رحمت بس چلاتا ہوا خود کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔
۔*************************۔
اسے ہوش آیا تو وہ بستر پر پڑی تھی۔ اس نے بامشکل آنکھوں کو کھول کر ارد گرد دیکھا تبھی اس کی نظر سامنے کھڑی خاتون پر پڑی میک اپ سے اٹا ہوا چہرہ آئینور کو وہ بھیانک منظر یاد دلا گیا۔ اس نے بے اختیار اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔ (وہ گری تھی۔)
" یااللّٰه حفاظت کرنا۔"
" اے لڑکی !! چل اُٹھ تیری دید کے لیے سب انتظار کر رہے ہیں۔" اس کی آواز پر آئینور نے ناگواری سے آنکھیں بند کر لیں۔
" اےےے !! اُٹھ یہاں آرام کرنے کے لیے نہیں لائے تجھے۔"
وہ کہتے ہوئے آگے بڑھی اور آئینور کو کلائی سے پکڑ کر کھینچا۔ آئینور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
" اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم جو چاہے مجھ سے کروا سکتی ہو، تو تمہاری بھول ہے۔ مر جاؤں گی مگر تمہاری خواہش پوری نہیں ہونے دونگی۔" وہ اس عورت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پُراعتماد لہجے میں بولی۔
" ائے ہائے !! آئی بڑی مر جائے گی۔ بہت دیکھی ہیں تجھ جیسی۔ یوں یوں ( وہ چوٹکی بجاتے ہوئے بولی) یوں لائن پر لے آئی سب کو پھر تو کیا چیز ہے۔"
" تم ابھی مجھ جیسی سے ملی کہاں ہو خاتون۔ میں اپنے نام کی ایک ہوں۔ دیکھ لینا تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گی لیکن مجھ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا پاؤ گی۔"
بظاہر وہ بے خوف ہو کر بول رہی تھی مگر اندر کا حال تو صرف اللّٰه ہی جانتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں کتنی ہی دعائیں اپنی عزت کی حفاظت کیلئے کر رہی تھی۔ اس عورت نے ایک نظر سر سے پیر تک آئینور کو دیکھا جو تیکھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" صرف آج رات کا وقت دے رہی ہوں۔ صبح تک اگر تیری یہ اکڑ ختم نہ ہوئی تو درندوں کے سامنے ڈال دوں گی جو تجھے نوچ کھسوٹ کھائیں گے۔ ہنہہ !! " وہ ہنکار بھرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس کے جاتے ہی آئینور وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
" میرے مالک رحم۔"
۔************************۔
ہاتھ کمر پر باندھے وہ لاؤنج میں کھڑا اپنے سامنے موجود ڈرے سہمے رحمت کو دیکھ رہا تھا۔ بائیں جانب اس سے تھوڑا فاصلے پر رحیم کھڑا ہوا تھا۔ لاؤنج میں اس وقت سناٹا چھایا ہوا تھا جسے کردم کی گرج دار آواز نے توڑا تھا۔
" کس نے کیا ہے یہ سب بولو؟ "
"میں۔۔۔ میں نہیں جانتا دادا۔ میں تو فاروق کے ساتھ شراب خانے گیا تھا۔ پیچھے سے کس نے یہ سب کیا مجھے نہیں معلوم۔ میں جب وہاں سے واپس آیا تو گھر میں سیما خالہ کی لاش ملی۔ میں بہت ڈر گیا تھا۔ آپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔"
رحمت نے آئینور کا ذکر کرنے سے پرہیز کیا آیا کہ وہ اس کا سن کر بھڑک ہی نہ جائے۔ وہ اس وقت کیسے کردم کے سامنے کھڑا تھا یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔ اس وقت موت کا احساس بڑی شدت سے اسے اپنے گہرے میں لیا ہوا تھا۔
" فاروق کہاں ہے؟ "
" وہ دادا رات وہ شراب خانے میں رک گیا تھا اس کے بعد وہ واپس نہیں آیا۔"
اس کی بات پر کردم نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ وہ اپنے آپ کو کچھ بھی غلط کرنے سے روک رہا تھا۔
" دفاع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے اور رحیم تم مجھے کسی بھی صورت میں فاروق اپنے سامنے چاہیئے۔"
وہ رحمت سے کہہ کر رحیم سے مخاطب ہوا۔ اس کی بات پر عمل کرتے دونوں اس کی نظروں سے غائب ہو گئے۔
" کیا اس میں فاروق کا ہاتھ ہے؟ لیکن کیوں؟ "
ان دونوں کو جاتے دیکھ وہ سوچتا ہوا نڈھال سا وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔
۔************************۔
ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی۔ وہ ابھی گھر واپس لوٹا تھا۔ جہاں جہاں آئینور ہو سکتی تھی۔ اس مطابق اس نے پورا شہر چھان مارا تھا۔ مگر آئینور کا کچھ پتا نہ چلا۔ وہ عدیل کو بھی فون کر چکا تھا لیکن ان کی باتوں سے یہ ہی لگتا تھا کہ وہ آئینور کی گمشدگی سے لاعلم ہیں۔
وہ تھکا ہارا اپنی خواب گاہ میں آکر لیٹا ہی تھا کہ رحیم دوڑتا ہوا آیا اور دروازے پر دستک دی۔
" آجاؤ۔" اجازت ملتے ہی وہ فوراً اندر داخل ہوا۔
" دادا آپ کے لیے کسی رانی نامی لڑکی کا فون ہے۔"
اس کی بات پر کردم جو آنکھیں بند کرکے لیٹا آئینور کو یاد کر رہا تھا۔ آنکھیں کھول کر خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ رحیم اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر گڑبڑا گیا اور فوراً بولا۔
" دادا وہ کہہ رہی ہے آپ کی بیوی کے بارے میں بات کرنی ہے۔"
یہ سنے کی دیر تھی کردم ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا اور لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس کے ہاتھ سے فون لے لیا۔
" ہیلو !! "
" السلام عليكم۔" کردم کی آواز سنتے ہی دوسری طرف سے سلام آیا۔
" وعلیکم السلام۔ کون؟ "
" جی میں رانی بول رہی ہوں۔ اکبر کی بیوی جن کی کچھ دن پہلے آپ نے مدد کی تھی۔"
رانی نے یاد دلانا چاہا۔ اس کے سامنے ہی پریشان سا اکبر بیٹھا ہوا تھا۔
" جی بولیں کیا بات ہے؟ " کردم نے یاد آتے ہی پوچھا پر وہ الجھ گیا تھا۔ اس لڑکی کا آئینور سے کیا تعلق؟
"جی وہ۔۔۔" اور پھر رانی نے ساری بات کہہ سنا ڈالی۔ کردم ساکت سا اس کی بات سن رہا تھا۔ فون پر اس کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی۔ اس نے ساری بات سنتے ہی فون کاٹ دیا۔
" کیا ہوا؟ " رانی کو بات ختم کرتے دیکھ اکبر نے پوچھا۔
" وہ ان کی ہی بیوی ہے۔ ان کے ملازم ( رحیم ) سے میں نے پوچھا تو وہ بولا کہ وہ لاپتہ ہیں۔ اس لیے میں نے سب بتا دیا۔ اب آپ پریشان نہ ہوں۔"
اکبر بعد میں کمرے میں آیا تھا اس لیے رحیم اور رانی کی گفتگو نہیں سن سکا۔
" ٹھیک ہے۔" اکبر نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے درمیان کا راستہ چن لیا تھا۔ خود کردم کو نہیں بتایا تاکہ پاشا سے نمک حرامی نہ ہو اور نہ ہی کردم کے ساتھ احسان فراموشی کی۔ اس نے رانی کے زریعے اس تک بات پہنچا کر خود کو دونوں طرف سے سرخرو کر لیا تھا۔
ادھر کردم بات ختم ہوتے ہی فون کو پرے پھینک کر فوراً کمرے سے باہر بھاگا تھا۔ اسے اس طرح جاتے دیکھ رحیم بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ کردم تیزی سے سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔ ایک خوف تھا کچھ غلط ہو جانے کا کچھ کھو جانے کا۔ آئینور کس جگہ تھی یہ سنتے ہی اسے اپنی دنیا لوٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ پورچ میں آئے اور گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کیا۔ چوکیدار نے انہیں دیکھتے ہی دروازہ کھولا تھا۔ رحیم گاڑی گھر سے باہر نکالتا کردم کی بتائی جگہ پر تیزی سے اسے بھگا لے گیا۔ کردم بے چین تھا۔ وہ بس اب جلد سے جلد اپنی نور کے پاس پہنچنا تھا۔ یہ جانے بغیر آنے والا لمحہ اس پر کیا قیامت بن کر ٹوٹنے والا ہے۔
۔***********************۔
" اے لڑکی !! نخرے نہیں سمجھی۔ یہ ناشتہ ختم کر ورنہ تجھے کسی کا ناشتہ بنا دونگی۔"
ملازمہ کے ہمراہ وہ خاتون صبح ہی ناشتہ لے آئی تھی۔ مگر آئینور کو ضد پر اڑا دیکھ اس کا دماغ گھوم گیا۔
" نہیں کرنا مطلب نہیں کرنا۔ تمہارا یہ حرام کھانا کھانے سے بہتر میں بھوکی مر جاؤ۔ کلثوم بیگم !! "
اس نے ناگواری سے کہہ کر چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔ اس کی بات کلثوم بیگم تپ کر رہ گئی۔
" اس کی اکڑ ایسے نہیں جائے گی۔ چل ڈولی اس کے پاس دلاور کو بھیج تاکہ اس کی عقل ٹھکانے آئے۔"
وہ ملازمہ سے کہتی ایک حقارت بھری نظر آئینور پر ڈال کر باہر چلی گئی۔ ڈولی بھی اس کے پیچھے ہی نکلی تھی۔ دروازہ بند ہوتے ہی آئینور اپنا چہرہ گھٹنوں میں دیئے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک بار پھر دروازہ کھلا۔ آئینور نے چہرہ اُٹھا کر دیکھا تو اس بار اندر آنے والا شخص کلثوم بیگم نہیں دلاور تھا۔ اسے دیکھتے ہی آئینور کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ کرنٹ کھا کر بیڈ سے اُتری۔ دلاور خباثت سے مسکراتا دھیرے دھیرے قدم اُٹھا کر اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
" وہیں رک جاؤ۔ میرے پاس مت آنا۔" وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔
" ابھی تو کچھ کیا بھی نہیں اور تم رکنے کی بات کر رہی ہو۔" معنی خیزی سے کہتا وہ قریب ہوتا جا رہا تھا۔
آئینور نے گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا قریب ہی ٹیبل پر مٹی سے اٹا گلدان رکھا ہوا تھا۔ وہ چوکنا ہوگئی۔ دلاور چلتا ہوا جیسے ہی اس کے قریب پہنچا آئینور نے لمحہ ضائع کیے بغیر گلدان اُٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ وہ بلبلا اُٹھا اور سر ہاتھوں میں تھام لیا۔ خون تیزی سے اس کے سر سے بہہ رہا تھا۔ اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر آئینور نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر پوری طاقت سے اسے پیچھے دھکیلا جس کے باعث وہ کمر کے بل فرش پر جا گرا تھا۔
" کمینی تجھے تو آج چیر کر رکھ دونگا۔" وہ سر پکڑے اُٹھنے لگا۔
آئینور تیزی سے کمرے میں نظر دوڑا رہی تھی۔ تبھی اس کی نظر دائیں جانب دیوار پر بنی کھڑکی پر جا رکی۔ کھڑکی کے پار پورا شہر نظر آ رہا تھا۔ یقیناً اسے اوپر بنے کمرے میں بند کیا گیا تھا۔ وہ سوچنے لگی اور بس ایک لمحہ ایک لمحہ لگا تھا اسے فیصلہ کرنے میں۔
" اگر میری موت بھی ماما کی طرح ہونی ہے تو یہ ہی سہی۔ اگر خود کشی تو خود کشی سہی۔"
اس نے ایک نظر کھڑکی کو دیکھا اور پھر دلاور کی طرف جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھتا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔
آئینور نے چہرہ موڑا اور کھڑکی کی جانب دوڑ لگا دی۔ دلاور نے اس کا ارادہ بھانپ کر پیچھے سے اس کا دوپٹہ پکڑ کر کھینچا۔ مگر وہ پرواہ کیے بغیر بھاگتی چلی گئی۔ ایک دم کمرے میں کانچ کے ٹوٹنے کی آواز گونجی تھی۔ اُس کا سفید دوپٹہ دلاور کے ہاتھوں میں ہی رہ گیا تھا۔
بازارِ حسن کی اس تین منزلہ عمارت کی بلندی سے آئینور کا وجود نیچے زمین پر جا گرا تھا۔ سامنے سے آتے کردم نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کے پیر وہیں پتھر کے ہوگئے۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا۔ ہر چیز ایک لمحے کو رک سی گئی تھی۔ سوائے زمین پر گرے آئینور کے وجود کے جو خون سے رنگتا جا رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف خون ہی خون پھیل رہا تھا۔ سفید فراک رنگ کر سرخ ہو چکا تھا۔
" نورررر !!! "
کردم کا سکتہ ٹوٹا۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بھاگا۔ زمین پر بیٹھتے اس نے آئینور کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ اس کے کپڑوں پر خون لگ چکا تھا۔ لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔ کیا ہو رہا ہے، وہ کہاں بیٹھا ہے اور کون اسے دیکھ رہا ہے؟ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی سوائے آئینور کے جو اس کی گود میں آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ چہرہ خون سے تر تھا۔ ناک میں چمکتا ہیرا تک سرخ ہوگیا تھا۔ وہ دیوانہ وار اس کے چہرے سے بال ہٹاتا اسے آوازیں دینے لگا۔
"نور۔۔۔ نور میری جان آنکھیں کھولو۔ دیکھو میں آگیا، نور دیکھو۔"
اس کی پکار پر تڑپ پر آئینور نے بامشکل اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ پلکیں لرز رہی تھیں۔
وہ دھیرے دھیرے ان کو اُٹھاتی سامنے بیٹھے اپنے کردم کو دیکھنے لگی اور یہ دیکھنا بھی کیا دیکھنا تھا۔ کردم کو اب تک کی اپنی پوری زندگی بے معنی لگنے لگی۔ آج ان آنکھوں میں وہ نور نہ تھا جو ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔ وہ کشش نہ تھی جو کردم کو اپنی جانب کھینچا کرتی تھی۔ ہاں !! ان آنکھوں میں آج کچھ الگ ہی چمک تھی۔ ہاں !! ان آنکھوں میں آج محبت تھی۔ وہ محبت جو کردم کب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے وہ آج اس لمحے دیکھی تھی۔ یہ ہی وہ موقع تھا جس میں اسے اپنی دنیا مکمل ہوتی نظر آئی اور ختم بھی۔
" نور !! "
اس نے دھیرے سے پکارا۔ آئینور آنکھیں کھولے اسی کو دیکھ رہی تھی۔ گلے میں ایک گلٹی سی ابھر کر غائب ہوگئی۔ جیسے وہ کچھ بولنا چاہ رہی ہو۔
" نہیں بولو کچھ نہیں بولو۔ میں کچھ نہیں ہونے دونگا تمہیں۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔"
آنسو مسلسل آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ ہواؤں کے جھونکے آئینور کے بالوں کو اُڑاتے اس کے چہرے پر لارہے تھے۔ جنہیں وہ بار بار پیچھے کر رہا تھا۔
دور کھڑا رحیم بہتی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا پتھر دل کردم دادا آج رو رہا تھا۔ ہاں !! وہ رو رہا تھا۔
کردم کی آنکھوں سے بہتے آنسو سیدھا آئینور کے چہرے پر جا کر گر رہے تھے۔
وہ اس سے کہنا چاہتی تھی۔ وہ نہ رو اسے تکلیف ہو رہی ہے مگر۔۔۔ آئینور کے گلے میں ایک گلٹی پھر سے ابھری اور اس بار وہ آنکھیں بند کر گئی۔ اس نے عزت کو بچا لیا تھا۔ موت کو گلے لگا کے۔
" نور۔۔۔ نور آنکھیں کھولو، میری طرف دیکھو نور، نور۔۔۔ نوررررر۔"
اور اس پل کردم دادا کا سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ وہ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک بار پھر سے۔
۔**************************۔
دو دن بعد۔۔۔
وہ اس وقت گودام کے اس اندرونی کمرے میں موجود تھے۔ کرسی پر بیٹھا شخص اپنے سامنے موجود پاشا کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جو اس کے سامنے پیسوں سے بھرا بریف کیس ٹیبل پر کھولے ہوئے تھا۔
" یہ لو پورے پیسے ہیں۔ جیسا وعدہ کیا تھا اُسے پورا کیا۔"
" شکریہ پاشا بھائی۔ ویسے اب تو تم خوش ہوگے اُس لڑکی نے خودکشی جو کرلی۔" وہ کمینگی سے مسکراتا ہوا بولا۔
" نہیں۔۔۔ میں چاہتا تھا کردم کا غرور ٹوٹے لیکن اُس لڑکی نے عزت کے چکر میں موت کو گلے لگا لیا۔ اس سے اچھا تو میں اُسے کچھ راتیں اپنے ساتھ ہی رکھ لیتا۔" پاشا نے غصّے سے کہہ کر سر جھٹکا۔
" ویسے اس بیچاری لڑکی کو بیچ میں لانا نہیں چاہیئے تھا۔ کتنی معصوم تھی۔ کتنی دین دار، پردہ کرنے والی۔"
سامنے بیٹھے شخص کی بات سنتے ہی پاشا کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ آ گی۔
" یہ سب اُس کردم دادا کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں نے بھی سونیا کو سب سے چھپا کر سات پردوں میں رکھا تھا۔ مگر نہ جانے کردم دادا اور اُس کے آدمیوں کو کیسے علم ہوگیا۔ اگر وہ سونیا کو بیچ میں نہ لاتا تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا مگر سونیا کو بیچ میں لاکر اُس نے خود اپنی موت کا سامان اکھٹا کر لیا تو میں اُس کی بیوی کو کیسے چھوڑ دیتا۔"
"لیکن وہ اب تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔"
" یہ میرے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ خیر !! اب تم کیا کرو گے؟ کیونکہ کردم دادا تو اب تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا فاروق۔"
پاشا نے استہزائیہ مسکراہٹ سے فاروق کو دیکھتے ہوئے کہا۔
" میں اُس کے کچھ کرنے سے پہلے ہی پاکستان سے باہر چلا جاؤ گا۔ آخر کو اتنا سارا پیسہ ملا ہے۔"
فاروق مسکرا کر کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ ہاتھ بڑھا کر بریف کیس کو بند کیا اور پاشا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
" امید ہے اس کے بعد ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ آج کے بعد تم اپنے راستے اور میں اپنے۔"
" بالکل۔"
پاشا نے سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔ فاروق مسکراتا ہوا خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ یہ جانے بغیر آنے والا وقت اسے پاکستان سے باہر نہیں بلکہ قبر میں لے جانا والا ہے۔
۔**************************۔
کافی وقت کینٹین میں گزارنے کے بعد وہ اپنی دوستوں سے باتیں کرتی مسکراتی ہوئی یونیورسٹی سے باہر نکل رہی تھی۔ اب بس چند ہی لوگ آس پاس نظر آ رہے تھے۔
" چلو سونیا اب ہم چلتے ہیں ہمارا ڈرائیور آ گیا۔" زرین نے اپنی گاڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
" ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ۔ میرا ڈرائیور بھی بس آتا ہوگا۔" وہ مسکرا کر بولی۔ زرین اور شیرین اس سے مل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئیں۔
وہ وہاں کھڑی بار بار ہاتھ میں پہنی گھڑی کو دیکھ رہی تھی۔ آدھے گھنٹہ ہونے کو تھا پر ڈرائیور کا کچھ آتا پتہ نہیں تھا۔ لوگ اب نہ ہونے کے برابر تھے۔
" افففف !! کہاں مر گیا۔ میں نے آج ہی گھر جا کر اس کو فارغ کر دینا ہے۔ اس کا تو روز کا معمول بنتے جا رہا ہے۔" وہ بڑبڑائی اور ارد گرد نظر دوڑانے لگی کہ تبھی ایک سفید رنگ کی وین اس کے سامنے آ کر رکی۔
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ وہاں سے ہٹتی تیزی سے وین کا دروازہ کھلا اور وہاں بیٹھے شخص نے وین سے نکلتے ہی اسے اندر دھکا دیا۔
" چھوڑو۔۔۔ چھوڑو مجھے۔" وہ خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی ہاتھ پیر چلا رہی تھی کہ تبھی دوسرے شخص نے اس کے چہرے پر رومال رکھ دیا۔ بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس کے بازوؤں میں جھول گئی۔
ان دونوں نے اسے اندر ڈالا اور وین میں بیٹھتے ہی اسے تیزی سے آگے بڑھا لے گئے۔
۔**************************۔
وہ ہال میں رکھی کرسی پر ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا اپنے سامنے موجود ڈرے سہمے دلاور کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ دائیں جانب سفید چہرہ لیے کلثوم بیگم کھڑی تھی۔ جو آنے والے منظر کا سوچ کر ہی کانپ رہی تھی۔ ارد گرد کھڑی عورتیں اور لڑکیاں چہرے پر خوف لیے ان دونوں پر نظریں جمائے ہوئے تھیں۔
ان سے تھوڑے فاصلے پر رحیم ہاتھ باندھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے سامنے ہی ایک بھورے رنگ کی ٹیبل موجود تھی۔ جو طرح طرح کے تیز دھار والے اوزار سے سجی ہوئی تھی۔
کردم کے ایک تھپڑ نے ہی کلثوم کا منہ کھول دیا تھا۔ اس نے اُس دن کی ساری باتیں اسے کہہ سنائی تھیں اور اب وہ دونوں اس کے سامنے کھڑے اپنے ہونے والے انجام کا انتظار کر رہے تھے۔
کردم چہرے پر سختی لیے کرسی سے اُٹھا۔ گہری کالی آنکھوں میں اس وقت خون اُترا ہوا تھا۔ وہ نظریں دلاور پر جمائے چلتا ہوا اس کے سامنے آیا۔ دلاور میں اتنی ہمت نہ تھی وہ چہرا اُٹھا کر اسے دیکھ سکے۔
" بتا تیرے ساتھ کیا کِیا جائے؟ "
" میں نے کچھ نہیں کیا کردم دادا۔ میں نے تو اُسے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔"
دلاور کی بات سنتے ہی کردم نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا۔ وہ سیدھا منہ کے بل فرش پر جا گرا۔ کردم آگے بڑھا اور گریبان پکڑ کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔
" میں نے اُسے چھوا تک نہیں تھا۔" ایک اور تھپڑ۔
" مجھے معاف کردو کردم دادا۔"
منہ سے نکلتے الفاظ کے ساتھ ہی کردم نے اس پر مکوں اور گھونسوں کی بارش شروع کردی۔
وہ لڑکھڑا کر وہاں کھڑی عورتوں پر گرنے لگا۔ اسے گرتے دیکھ وہ فوراً وہاں سے ہٹیں جس کے باعث وہ فرش پر جا گرا۔
کردم چلتا ہوا اس کے سامنے آیا۔ پورے ہال میں بس اس کے بوٹ کی آواز گونج رہی تھی۔ سب خوف زدہ سے دلاور کو مار کھاتا دیکھ رہے تھے۔
کردم نے اپنا بوٹ سے سجا پیر اس کی گردن پر رکھ دیا اور دباؤ ڈالنے لگا۔
" مجھے۔۔۔ مجھے معا۔۔۔ معاف کر دو۔ جانے دو۔" وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑتے بامشکل بولا۔
" کیوں تو نے بھی تو اسے جانے نہیں دیا۔ پھر تجھے کیسے چھوڑ دوں۔"
کردم نے کہہ کر رحیم کی طرف دیکھا۔ اس کا اشارہ سمجھتے ہی وہ آگے بڑھا اور کردم کے ہاتھ میں بیلٹ تھما دی اور بس اس کے بعد بازارِ حسن کی یہ عمارت دلاور کی چیخوں سے گونج اُٹھی تھی۔
جگہ جگہ سے خون رِس رہا تھا۔ اس کے کپڑوں کے ساتھ ساتھ کھال بھی ادھیڑ چکی تھی۔ وہ وحشی بنا دلاور پر بیلٹ برسا رہا تھا۔
" اُٹھاؤ اسے اور ٹیبل پر باندھ دو۔"
کردم نے رک کر اپنے آدمیوں سے کہا اور وہاں سے ہٹ کر رحیم کے پاس آیا جو ہاتھ میں ڈرل مشین لیے کھڑا تھا۔ سب دم سادھے اسے دیکھ رہے تھے۔ ہر طرف موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جسے ڈرل مشین کی آواز نے توڑا۔
" مجھے جانے دو۔ معاف کر دو۔۔ آج کے بعد کسی لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گا۔"
ٹیبل پر لیٹا وہ کردم کو اپنی طرف آتا دیکھ چلایا۔ کردم کے آدمیوں نے اس کے ہاتھ پیر ٹیبل کے ساتھ رسی سے باندھ دیئے تھے۔ ڈرل مشین کی آواز اس کے کان کے پردوں کو چیر رہی تھی۔ وہ بے بسی سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر ناکام رہا۔
" ان ہاتھوں سے اُس کا دوپٹہ کھینچا تھا نا۔"
کردم کہر آلود نظروں سے اس کو دیکھتا غرایا اور ڈرل مشین اس کی ہتھیلی میں گھسیڑ دیا۔
دلاور کی دل خراش چیخیں پورے ہال میں سنائی دے رہی تھیں۔ وہاں موجود کچھ کمزور دل لڑکیوں پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہوگئی تھی تو کچھ اس کے حشر پر آنسو بہا رہی تھیں۔
" ان آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا نا۔"
" نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں جانے جانے دو۔"
وہ درد سے نڈھال ہوتا نحیف سی آواز میں بولا۔ خوف سے آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
" کیسے جانے دوں ہاں؟ اُس پر تو میں نے کسی کا سایہ پڑنے نہیں دیا اور تو نے ان غلیظ نظروں سے دیکھا۔"
کردم نے کہتے ہی اپنا ہتھیلی پھیلائی۔ پچھے کھڑے آدمی نے ہاتھ میں پکڑا خنجر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
" نہیں نہیں مت کروووو۔۔۔" منت سماجت کرتے اس کی چیخے بلند ہوتی رہی۔
کردم نے خنجر اس کی آنکھوں سے نکال کر دور پھینکا اور ایک جھٹکے سے اس کی گردن مروڑ دی۔
وہاں کھڑی لڑکیوں کے حلق سے یکدم چیخیں بلند ہوئیں اور پھر سناٹا چھا گیا موت کے بعد کا سناٹا۔
کردم چلتا ہوا کلثوم بیگم کے سامنے آیا کہ تبھی کسی نسوانی چیخوں کی آواز ہال میں سنائی دینے لگی۔
راہداری سے دو آدمی کسی لڑکی کو کھینچتے ہوئے لا رہے تھے جو چلاتے ہوئے خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔
" سونیا !! "
کردم کو ایک منٹ نہیں لگا اسے پہچاننے میں آخر اس کی وجہ سے ہی تو آج اس کی نور اس سے دور تھی۔
کردم نے واپس کلثوم کو دیکھا۔ وہ کسی مردے کی طرح سفید چہرہ لیے خوف زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔ کردم نے غصّے سے اس کی گردن دبوچ لی۔
" اگر تو عورت نہ ہوتی تو آج تجھے ان سب کے لیے عبرت کا نشان بنا دیتا۔"
" میں نے۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔" وہ اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کرتی بامشکل بولی۔
" آئندہ کے لیے تو اس قابل رہے گی بھی نہیں کہ کچھ کر سکے۔" کردم اسے جھٹکے سے چھوڑتا سونیا کی طرف بڑھ گیا۔ کلثوم لڑکھڑاتی ہوئی فرش پر جا گری۔
وہ چلتا ہوا ان آدمیوں کے پاس آیا جو سونیا کو پکڑے کھڑے تھے۔ ان کی حیرت بھری نظریں ٹیبل پر جمی تھیں جہاں دلاور کی لاش رسیوں میں جکڑی پڑی تھی۔
کردم کو پاس آتا دیکھ وہ فوراً سونیا کو چھوڑ کر پیچھے ہٹے۔
" چلو۔" کردم نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا۔ وہ حیران ہوتی کبھی اسے دیکھتی تو کبھی اس کے ہاتھ کو۔
" گھر چلنا ہے یا یہیں رہنے کا ارادہ ہے؟ "
اس کی بات پر سونیا نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا اور کردم کے ساتھ ہی قدم باہر کی جانب بڑھا دیئے۔
گاڑی میں بیٹھ کر اس نے بیک ویو مرر سیٹ کیا اور پچھلی نشست پر بیٹھے کردم کو دیکھنے لگی۔ وہ جو اندر کھڑی حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ کردم نے اسے اغوا کروایا ہے۔ اب کے سارے شک دور ہوگئے تھے۔ دل میں چھپا کردم کا خوف کہیں دور جا چھپا تھا۔ وہ آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
کردم اس کی خود پر جمی نظروں سے بخوبی واقف تھا۔ مگر نظر انداز کیے بیٹھا رہا۔ ایسی نظریں تو وہ نہ جانے کتنی ہی عورتوں کی خود پر دیکھتا آیا تھا پر اسے پرواہ کہاں تھی۔ وہ تو بس ایک کی ہی نظروں کا طلب گار بنا تھا جو اس کی منظورِ نظر تھی۔
" آپ کا شکریہ آج آپ نے میری عزت بچائی۔"
کردم جو موبائل پر جھکا ہوا تھا۔ نظریں اُٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔ اس پل اس کا دل کیا خود اپنے ہاتھوں سے اس لڑکی کو زندہ زمین میں گاڑ دے۔ جس کی وجہ سے پاشا نے اس کی نور کو اس سے دور کر دیا۔
مگر اُف یہ محبت !! آئینور نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔
" کہاں رہ گیا یہ رحیم۔" سونیا کی بات کو نظر انداز کرتا وہ جھنجھلا کر سامنے شیشے کے پار دیکھنے لگا جہاں سے وہ اور اس کے آدمی تیز تیز چلتے آ رہے تھے۔ رحیم گاڑی کا دروازہ کھول کر تیزی سے بیٹھا اور جیب سے رومال نکال کر اپنے بائیں جانب سیٹ پر بیٹھی سونیا کے منہ پر رکھ دیا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ وہ سنبھل بھی نہ سکی اور بیہوش ہوگئی۔
کردم نے فون پر ہی رحیم کو میسج کے ذریعے ہدایت کر دی تھی۔ جس پر اس نے آتے ہی عمل کر ڈالا۔
" کام ہوگیا؟ "
" جی دادا باہر کھڑے لوگوں کو ہٹا کر راستہ صاف کر دیا بس اب تھوڑی دیر میں وہ پھٹ جائے گا۔"
رحیم بیک ویو مرر میں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
کردم پیچھے ہو کر بیٹھا اور ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھنے لگا کہ تبھی ایک زور دار دھماکے کی آواز فضا میں بلند ہوئی اور سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد لوگوں کی چیخوں کی آواز اور بھاگ دوڑ نے کہرام برپا کر دیا۔
بازارِ حسن کی اُس عمارت میں بم پھٹا تھا۔ جو اردگرد موجود عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ لوگ چیختے چلاتے ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔
کردم نے ایک نفرت بھری نگاہ سامنے ڈال کر آنکھوں پر چشمہ لگا لیا۔
جس جگہ سے ماں نکلی تھی۔ بیوی وہیں پہنچ گئی تھی۔ وقت کا چکر گھوم پھر کر وہیں آ رکا تھا۔ مگر اب اس نے وہ مقام ہی تباہ کر دیا جہاں اس کی زندگی کو تباہ کیا گیا تھا۔
" اس کا کیا کرنا ہے کردم دادا؟ " رحیم نے برابر میں بیہوش پڑی سونیا کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" اسے گودام میں بند کر دو۔ جب تک میں پاشا سے بدلہ نہیں لے لیتا اُسے اس کی خبر نہیں ہونی چاہیئے۔"
" ٹھیک ہے دادا۔"
" اور ہاں !! اس بات کا خیال رکھنا اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے۔" کردم کی بات میں چھپا اشارہ سمجھ کر رحیم نے اثبات میں گردن ہلا دی۔
" آپ فکر نہیں کریں میں کسی کو اس کے پاس جانے نہیں دونگا۔"
" ٹھیک ہے چلو اب۔"
کردم کے کہنے پر رحیم نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ پیچھے ہی ان کے آدمیوں کی گاڑی بھی چل پڑی تھی۔
۔*************************۔