سیما خالہ کچن صاف کرنے میں لگیں تھیں جب آئینور ان کے پاس چلی آئی۔
" کیا کر رہی ہیں۔ مجھے بتا دیں۔ میں کر دیتی ہوں۔"
" ارے نہیں !! بس سب ہوگیا۔"
سیما خالہ نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا جو گم سم سی کرسی پر بیٹھی تھی۔
" کیا ہوا لڑکی اداس لگ رہی ہوں۔ کردم کے جانے کی وجہ سے؟ "
آئینور نے چہرہ اُٹھا کر انہیں دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
" عجیب سا محسوس ہو رہا ہے۔ جیسے کچھ غلط ہونے والا ہو۔"
" بس تمہارا وہم ہے لڑکی۔ چلو عشاء کی نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ نماز میں دعا کرو کچھ نہیں ہوگیا۔"
سیما خالہ اذان کی آواز سنتے ہوئے بولیں تو آئینور اثبات میں سر ہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
" آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں نماز پڑھ کر دعا کرتی ہوں۔"
وہ کہہ کر کچن سے باہر نکل گئی۔
سیما خالہ بھی دوپٹہ سنبھالتی نماز پڑھنے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
ادھر آئینور کمرے میں آئی اور وضو کے لیے باتھ روم کی جانب بڑھنے لگی کے آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ کر رکی۔
سفید فراک پہنے وہ آج بھی سادھا سے حلیے میں رہتی تھی۔ مگر اس کی شخصیت میں رکھ رکھاؤ تھا۔ جو اسے مزید پُرکشش بناتا تھا۔
" لڑکی تیار ہو کر رہا کرو۔"
آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ کر اسے سیما خالہ کی بات یاد آئی۔
" رہنے دیں سیما خالہ آپ بھی کسے سمجھا رہی ہیں۔"
یہ آواز کردم کی تھی۔
" چلیں مسٹر !! جلدی واپس آجائیں تاکہ آپ کی یہ خواہش بھی پوری کر دی جائے۔"
آئینور اپنی سوچوں میں کردم سے مخاطب ہو کر بولی۔ چاہے جانے کے احساس کے ساتھ ساتھ برسوں کے دبائے ہوئے جزبات نے بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی وضو کرنے باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔
۔*********************۔
بیرونی دروازے کے قریب کرسیاں بچھائے، وہ دونوں شراب کے مزے لوٹ رہے تھے۔ کردم کی ہدایت کے مطابق انہیں اُس کے واپس آنے تک یہاں سے ہلنا نہیں تھا بلکہ یہاں کھڑے ہو کر گھر اور آئینور کی حفاظت کرنی تھی۔
" ابے فاروق تھوڑی اور ڈال نہ کیا کنجوسی کر رہا ہے۔"
فاروق کو آدھا گلاس بھرتے دیکھ رحمت غصّے سے بولا۔
" آرےے !! ختم ہوگئی یہ دیکھ۔"
وہ اس کے سامنے کھالی بوتل لہرا کر دکھانے لگا۔
" اب کیا کریں؟ "
رحمت نشے میں ڈوبی آواز کے ساتھ بولا۔
" ایک کام کرتے ہیں۔ کسی شراب خانے میں چلتے ہیں۔"
فاروق کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔
" پاگل ہے کیا !! کردم دادا کو پتا چل گیا تو جان سے مار دینگے۔ ہمیں یہاں سے ہلنا نہیں ہے۔"
" کردم دادا کو بتائے گا کون رحیم تو ان کے ساتھ گیا ہوا ہے۔ تھوڑی دیر کی تو بات ہے بس یوں گئے اور یوں آئے۔"
" کہہ تو تو ٹھیک رہا ہے۔ چل پھر چلتے ہیں۔"
رحمت بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکھڑاتی ہوئی چال کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہے تھے۔ جب پیچھے کھٹ پٹ کی سی آواز آئی۔
" اےے !! کون ہے؟ "
رحمت نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
" لگتا ہے تجھ پر کچھ زیادہ ہی اثر کر گئی۔ کوئی نہیں ہے یہاں جلدی چل۔"
" ہاں !! شاید تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔"
فاروق کی بات پر وہ سر ہلاتا بیرونی دروازہ عبور کر گیا۔
ان کے جاتے ہی دو سائے لان کی دیوار پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہوئے تھے۔
۔*********************۔
عشاء کی نماز ادا کر کے سیما خالہ اپنے بستر پر لیٹنے لگیں جب لاؤنج میں گلدان گرنے کی آواز سنائی دی۔
" اللّٰه !! لگتا ہے بلی گھس آئی ہے۔"
وہ دوپٹہ سنبھالتی باہر نکلیں کہ سامنے ہی ایک نقاب پوش آدمی اپنے دوسرے ساتھی کو جھڑکتا نظر آیا۔ ساتھ ہی نیچے فرش پر گلدان ٹوٹا پڑا تھا۔
" اےے !! کون ہو اور اندر کیسے گھس آئے؟ "
ان کی آواز پر وہ نقاب پوش آدمی فوراً ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
" میں اس بڑھیا کو سنبھالتا ہوں، تو اُس لڑکی کو اوپر جاکر ڈھونڈ۔"
وہ کہتا ہوا آگے بڑھا۔ دوسرا فوراً اس کے حکم پر اوپر کی جانب بڑھ گیا تھا۔
سیما خالہ حیران کھڑی اسے دیکھ رہی تھیں۔ دماغ نے یکدم کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اس آدمی کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ فوراً ہوش میں آئیں اور چلانا شروع کردیا ساتھ ہی کچن کی طرف لپکی تاکہ اپنے بچاؤ کا کچھ سامان اُٹھا سکیں۔ مگر اس سے پہلے ہی وہ آدمی تیزی سے ان تک پہنچا اور منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں قابو کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
سیما خالہ اس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ساتھ میں ہاتھ پاؤں بھی چلا رہی تھیں۔
" ابے اے !! بڑھیا ادھر ہی تجھے گاڑ دوں گا اگر زرا بھی آواز نکالی تو۔"
مگر سیما خالہ نے اس کی دھمکی کا اثر لیے بغیر اپنے چہرے سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور چلانے لگیں کہ تبھی اس آدمی نے اپنے پیچھے چھپا خنجر نکالا اور سیدھا یک کے بعد دیگر سیما خالہ کے پیٹ میں مارتا چلا گیا۔ لمحوں کا کام تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ماربل کا فرش خون سے رنگتا چلا گیا۔
سیما خالہ کے بے جان وجود کو چھوڑ کر وہ اوپر کی طرف بڑھنے لگا جہاں اس کا دوسرا ساتھی کمرے کی دیوار کے ساتھ لگا کھڑا آئینور کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔
ادھر کمرے میں آئینور سلام پھیر کر دعا مانگ رہی تھی۔ جب سیما خالہ کے چلانے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی اور پھر بند ہو گئی۔
وہ دعا مانگ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ جائے نماز ایک طرف رکھ کر وہ سیما خالہ کو دیکھنے کیلئے کمرے سے باہر نکلی کہ تبھی پیچھے سے کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھ دیا۔
وہ مچلتی ہوئی اس کے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی مگر رومال پر لگی دوا نے جلد ہی اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا۔ بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے جو آخری منظر دیکھا تھا۔ وہ سامنے سے آتے اس نقاب پوش کی آنکھیں تھیں اور پھر چاروں سو اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا۔
۔*********************۔
جہاں افغانستان کی سر زمین پر صبح اُتری وہیں اس کے میدانی علاقے میں آسمان پر شور مچاتا ہیلی کاپٹر ریت کو اڑاتا ہوا زمین پر اُترا تھا۔
بلیک سوٹ میں ملبوس ہیلی کاپٹر سے نکل کر کردم دادا نے اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ اپنا قدم افغانستان کی زمین پر رکھا تھا۔ سامنے ہی ایک آدمی آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے سوٹ بوٹ میں گاڑی کے لیے کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔
کردم نے اس کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ رحیم بھی اس کے پیچھے ہی تھا۔
وہ چلتا ہوا گاڑی کے سامنے جا رکا۔ ڈرائیور نے اسے پاس آتے دیکھ فوراً پچھلی نشست کا دروازہ اس کے لیے کھولا تھا۔
کردم سیٹ پر بیٹھا، رحیم بھی ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ گیا تھا۔ ان کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی اور اس میدانی علاقے میں دھواں اڑاتے ہوئے وہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ہی وہ سڑکوں سے گزرتی اس قدیم ترین بلند و بالا عمارت کے سامنے جا رکی۔
رحیم گاڑی سے اُترا اور کردم کی سائڈ کا دروازہ کھول دیا۔ کردم نے گاڑی سے اُتر کر اس قدیم عمارت کو ایک نظر دیکھا اور قدم اندر کی جانب بڑھا دیے۔ رحیم نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔
راہداری میں چلتے جگہ جگہ گارڈز بندوق تانے کھڑے ہوئے تھے۔ وہ ان کے درمیان سے چلتا اس بڑے سے دروازے کے سامنے جا رکا۔ دیوار پر لگی مشین پر اپنا ہاتھ رکھا جس کے سکین ہوتے ہی دروازہ کھل گیا۔
وہ اندر داخل ہوا پر سامنے موجود غازی کو ماتحتوں کے درمیان گھیرے دیکھا۔
" خاور دادا کہاں ہیں؟ "
اس کی گرج دار آواز نے ایک پل کے لیے پورے کمرے میں سناٹا طاری کر دیا۔ آئینور کے آنے کے بعد جو نرمی اس کی شخصیت میں آئی تھی۔ اس پل وہ مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔
" کردم دادا !! "
غازی اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے اُٹھا اور اس کے سامنے آیا۔
" وہ تو ایران گئے ہوئے ہیں۔ لیکن تم یہاں کیسے؟ "
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
" کیا مطلب ؟ لیکن کل انہوں نے فون کر کے کہا تھا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کوئی ضروری معاملات ہیں۔" کردم بھنویں سکیڑ کر بولا۔
" لیکن وہ تو ایک ہفتے سے ایران میں ہیں پھر تمہیں یہاں کیوں بلایا؟ "
اور اس ایک سوال پر کردم کو اپنے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہوئی تھیں۔ وہ الٹے قدموں وہاں سے نکلا پیچھے سے غازی اسے آواز دیتا رہ گیا۔ مگر وہ ان سنی کرتا دوڑتا ہوا رحیم کے پاس پہنچا جو ایک گارڈ کے ساتھ کھڑا باتوں میں مصروف تھا۔
" خاور دادا کی آواز میں وہ کال کس کی تھی؟ "
اس کا گریبان پکڑ کر کردم اسے دیوار سے لگاتا ہوا غرایا۔ رحیم اس اچانک افتاد پر بوکھلا گیا تھا۔
" کردم دادا میں نہیں جانتا۔ ان کی آواز سنتے ہی میں فون آپ کے پاس لے آیا تھا۔"
کردم نے اس کی بات سن کر ایک جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑا۔ رحیم سنبھل کر اپنی حالت درست کرنے لگا۔
" خاور دادا یہاں نہیں ہیں۔ پھر وہ کال کس نے کی تھی؟ اور ان لوگوں کو تو میری آمد کی خبر تک نہیں تھی۔ پھر یہ ڈرائیور کس نے بھیجا؟ "
کردم خود سے بڑبڑایا اور یکدم باہر کی جانب بھاگا۔ اسے جاتا دیکھ رحیم بھی اس کے پیچھے لپکا تھا۔
کردم عمارت سے باہر نکل کر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ جب رحیم پھولے ہوئے تنفس کے درمیان بولا۔
" کیا ہوا کردم دادا؟ "
" وہ ڈرائیور کہاں ہے؟ "
" وہ تو ہمیں یہاں چھوڑنے کے بعد ہی دوبارہ چلا گیا۔"
اس کے بتانے پر کردم نے بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ یہ وقت اُسے ڈھونڈنے کا نہیں تھا۔ اسے اب جلد سے جلد پاکستان واپس جانا تھا۔ یکدم اسے بے چینی نے آن گہرا تھا۔ کچھ غلط ہونے کے احساس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ تیزی سے وہاں کھڑی بلیک جیپ کی جانب بڑھا۔
" چلو جلدی چلو ہمیں ابھی واپس پاکستان جانا ہے۔"
کردم کی بات پر اب کے رحیم کو بھی گڑبڑ کا احساس ہوا۔ وہ بھی فوراً جیپ کی طرف بڑھا۔ کردم پہلے ہی بیٹھ چکا تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ کر اس نے جیپ کو واپس اسی راستے پر ڈال دیا جہاں ان کا ہیلی کاپٹر موجود تھا۔
۔*********************۔
وہ قدم اُٹھاتا اس اندھیرے کھنڈر نما گودام میں داخل ہوا تھا۔ سامنے ہی بلپ کی روشنی میں وہ زمین پر بے ہوش پڑی تھی۔ سفید دوپٹے کے حالے میں اس کا چہرہ بلپ کی روشنی میں دمک رہا تھا۔ وہ اس پر جھکا اور اس کے پُرکشش چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مکرو مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
" ماننا پڑے گا کردم دادا نے بھی مست مال چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ لیکن افسوس میں تمہاری خوبصورتی کو خراج بخش نہیں سکتا کیونکہ تمہیں تو کہیں اور جانا ہے۔"
وہ پیچھے ہٹا اور مڑ کر اپنے ماتحتوں سے مخاطب ہوا۔
" ہماری مہمان کو صحیح سلامت انہیں ان کی اصل جگہ پہنچا دو اور کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیئے۔"
" جی پاشا بھائی !! آپ فکر نہیں کریں سب آپ کے کہے کہ مطابق ہوگا۔"
وہ دونوں پاشا کا اشارہ ملتے ہی آگے بڑھے اور آئینور کو اُٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گئے۔ جہاں اکبر بلیک پجیرو کے ساتھ کھڑا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی اس نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
ان لوگوں نے گاڑی کے پاس پہنچ کر آئینور کو اس میں ڈالا اور پاشا کی جانب موڑے جو گودام کے دروازے پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ چند ایک ہدایت کے بعد وہ گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی اکبر بھی فوراً گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا کہ اچانک اس کی نظر بیک ویو مرر میں نظر آتے آئینور کے عکس پر پڑی۔ وہ لمحے بھر کو ٹھٹکا پھر خود کو سنبھالتا گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔
" اب وقت آ گیا ہے کہ تم سے آمنے سامنے مقابلہ کیا جائے کردم دادا۔"
وہاں کھڑا پاشا فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ان کو جاتے دیکھ بڑبڑایا اور خود بھی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
۔************************۔
ہواؤں سے باتیں کرتی گاڑی تیز رفتاری سے سیدھا کردم کے بنگلے کے سامنے آکر رکی تھی۔ چوکیدار نے انہیں دیکھتے ہی دروازہ کھولا۔ رحیم نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے پورچ میں لے جا کر روکی۔
کردم تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھولتا ہوا اندر کی جانب بڑھا تھا۔ مگر اندر کی حالت دیکھ کر اس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔
سیما خالہ کا بے جان وجود فرش پر گرا ہوا تھا۔ وہ بے جان قدموں سے چلتا ان کی طرف آیا اور جھک کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں بند کرنے کی ناکام سی کوشش کی لیکن وقت گزر چکا تھا ان کا جسم اکڑا پڑا تھا۔ کردم نے سختی سے آنکھیں مچ لیں۔ اسی سمے رحیم بھی گھر میں داخل ہوا اور سیما خالہ کی لاش کو دیکھ کر وہیں ساکت رہ گیا۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے کالر میں جذب ہوا تھا۔ وہ اس کے لیے بالکل ماں جیسی تھیں۔
" نور نور !! "
آئینور کا خیال آتے ہی کردم فوراً وہاں سے اُٹھتا اوپر کی جانب بڑھا۔ وہ دیوانہ وار آئینور کو پکار رہا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر گیا۔
" نور نور کہاں ہو میری جان؟ "
وہ اسے پکارتا باتھ روم کی طرف بڑھا۔ وہ بھی خالی تھا۔
کردم وہاں سے نکل کر خواب گاہ میں آیا۔ مگر یہاں بھی مایوسی ہوئی۔
" کہا ہو نور؟ تم تو میرا انتظار کر رہی تھیں۔ پھر یوں اچانک کہاں چلی گئی ہو تم؟ "
وہ واپس نیچے کی طرف بڑھا اور دھاڑتے ہوئے رحیم سے پوچھا۔ جو سیما خالہ کے پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔
" رحمت اور فاروق کہاں ہیں؟ میں انہیں یہاں ان لوگوں کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر گیا تھا۔"
" معلوم نہیں دادا میں چوکیدار سے پوچھتا ہوں۔"
" نہیں۔۔۔ میں خود اُس سے پوچھتا ہوں آخر اُس کی موجودگی میں یہ سب کیسے ہوا۔ تم جاکر سیما خالہ کے کفن دفن کا انتظام کرو۔"
" جی دادا !! "
رحیم اثبات میں سر ہلاتا باہر چلا گیا۔ کردم بھی اس کے پیچھے نکلتا چوکیدار کے سر پر جا پہنچا۔
" تم یہاں کھڑے ہو اور تمہارے ہوتے ہوئے کسی نے سیما خالہ کو مار دیا اور نور۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکا۔
" بولو تمہارے ساتھ کیا کیا جائے؟ " چوکیدار کا گریبان پکڑے وہ غرایا۔
" کردم دادا مجھے نہیں معلوم۔ آپ تو جانتے تھے۔ میں گاؤں گیا ہوا تھا۔ آج صبح ہی آیا ہوں اور نہ میرے سامنے کوئی اندر گیا نہ باہر آیا۔ میں بھی گھر کے اندر نہیں کیا تھا صبح سے یہاں کھڑا ہوں اس لیے میں کچھ نہیں جانتا۔"
وہ کردم کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔ کردم نے ایک جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑ دیا اور بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
" فاروق اور رحمت کا پتا ہے کہاں ہیں؟ " اس نے ان کا خیال آتے ہی پوچھا۔
" نہیں دادا۔ میں نے صبح سے نہیں دیکھا۔" چوکیدار بیچارگی سے بولا۔
" کہاں جا سکتے ہیں یہ؟ نور کو تو کوئی نہیں جانتا تو پھر۔۔۔ آخر یہ سب کر کون رہا ہے؟ رات جب افغانستان جانے سے پہلے میں اڈے پر گیا تھا تو فاروق اور رحمت دونوں کو فوراً وہاں سے گھر بھیج دیا تھا اور کام ختم کرنے تک میں وہیں تھا اس کے بعد افغانستان کے لیے نکلا تھا۔ اگر اس دوران کچھ ہوا تو انہوں نے مجھے خبر کیوں نہیں کی، کیا وہ دونوں گھر نہیں آئے تھے؟ "
کردم سوچتا ہوا واپس اندر کی جانب بڑھ گیا۔
۔*************************۔
" اکبر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو، وہ لڑکی وہی تھی؟ ہو سکتا ہے کوئی اور ہو۔"
اکبر اپنا سر پکڑے کرسی پر بیٹھا تھا۔ سامنے ہی رانی پریشان سی اسے دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔
" نہیں رانی۔ وہ وہی لڑکی تھی۔ جس نے اپنے شوہر سے کہہ کر ہماری مدد کروائی تھی۔ میں نے۔۔۔ میں نے اُس کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی دیکھی تھی۔ تمہیں یاد ہے نا وہ انگوٹھی تم ہی کہہ رہی تھیں وہ بہت قدیم اور قیمتی لگتی ہے کیونکہ ایسا زیور اب نہیں بنتا۔"
" ہاں !! تو۔۔۔ تو کیا اس لڑکی کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی تھی؟ " رانی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
" ہاں !! وہی تھی۔" اکبر نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔
"تم۔۔۔ تم اُس کے شوہر سے بات کرو۔ پوچھو اُس سے۔ اُس نے فون نمبر دیا تھا نا۔"
رانی کی بات پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
" نہیں رانی میں ان کا نمک کھاتا ہوں۔ ان کے ساتھ کیسے غداری کر سکتا ہوں۔"
" اور جن لوگوں کی وجہ سے سعدی آج زندہ ہے وہ۔ اگر اللّٰه ان لوگوں کو ہماری مدد کے لیے نہ بھیجتا تو ہم کیا کرتے؟ تم احسان فراموش بن رہے ہو۔"
رانی نے اسے احساس دلانا چاہا۔
" یہ سب چھوڑ دو اکبر۔۔۔ حرام کھانے سے بہتر ہم بھوکے مر جائیں مجھے یہ منظور ہے۔ کم از کم اللّٰه کے سامنے تو سرخرو ہو جائیں گے۔"
اس کی بات پر اکبر نے سر واپس ہاتھوں میں گرا دیا۔ کسی ایک کو چننا آسان نہیں تھا۔
۔************************۔
اس کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک انجان کمرے میں پایا۔دڑبے نما سا وہ کمرہ جس میں گھسا پٹا سامان پڑا ہوا تھا۔ پورے کمرے میں عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی ساتھ ہی باہر سے شور کی آوازیں آتی سنائی دے رہی تھیں۔ وہ اُٹھ بیٹھی اور سر ہاتھوں میں گرا لیا۔ سر بھاری ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا ابھی پھٹ جائے گا۔
" افففف !! میں کہاں ہوں اور یہ شور کیسا ہے؟ "
وہ خود کو سنبھالتی بیڈ سے اُتری کہ تبھی پیر نیچے پڑی بوتل سے ٹکرایا۔ آئینور نے ماتھے پر بل ڈالے اس بوتل کو دیکھا۔ اسے پہچانے میں زرا دیر نہیں لگی تھی وہ کس مشروب کی تھی۔ وہ پاؤں سے اسے پرے پھینک کر آگے بڑھی اور دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام رہی۔ کسی نے باہر سے تالا لگا رکھا تھا۔
" کوئی ہے؟ دروازہ کھولو۔ مجھے باہر نکالو۔"
وہ آوازیں دیتی دروازہ بجانے لگی کہ یکدم رک گئی۔ باہر سے آتی آوازوں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں بجلی سی دوڑا دی تھی۔ اس نے خستہ حال دروازے کی جھری سے جھانک کر باہر دیکھا اور اسی لمحے اسے اپنے پیروں پر کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔ سامنے موجود دوشیزہ پیروں میں گھنگھرو پہنے تبلے کی دھن پر محو رقص تھی۔ ارد گرد بیٹھے مرد اس پر پیسے نچھاور کر رہے تھے۔ کچھ تو کھڑے ہو کر اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے اس کا ساتھ دے رہے تھے۔
آئینور سے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ وہ فوراً الٹے قدموں دروازے سے ہٹی۔ دماغ یکدم ماؤف ہو چکا تھا۔ چکراتے سر کے ساتھ بیڈ کی طرف جانے لگی کے ایک بار پھر اس بوتل سے ٹکرا کر نیچے گری اور آنکھیں بند کر گئی۔ اس لمحے اس کی زبان سے بس ایک نام ادا ہوا تھا۔
" کردم !! "
۔*************************۔