صبح کی کرنیں پورے لاہور کو روشن کر چکی تھیں۔ ایسے میں کردم کے بنگلے میں سب اپنے اپنے کاموں کو لگ چکے تھے سوائے ایک کے جو لان میں لیٹا نیند کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا کے بھی مزے لے رہا تھا۔
" ابے آو نیستی !! اُٹھ جا ورنہ ابھی کردم دادا نے آکر تجھے ہمیشہ کی نیند سُلا دینا ہے۔"
" یار سکینہ !! سونے دونا کیوں تنگ کر رہی ہو؟ " رحمت نے نیند میں کہتے ہوئے کروٹ بدلی۔
" ابے آو سکینہ کے عاشق !! میں فاروق ہوں۔ اب یہ سکینہ کے خواب دیکھنا چھوڑ اور اُٹھ کر کام پر لگ ورنہ دادا نے ہمارا کام تمام کر دینا ہے۔"
فاروق اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
" سکینہ تمہارے بال کتنے ملائم ہیں مجھے بہت پسند ہیں۔"
فاروق کا ہاتھ پکڑ کر ایک بار پھر اس نے کروٹ بدلی۔
" تو ایسے نہیں اُٹھے گا رک۔"
فاروق نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور قریب ہی کھڑے پودوں میں پانی ڈالتے مالی کے ہاتھ سے پائپ لے کر رحمت پر بوچھاڑ شروع کر دی۔
" ابے ابے اوو !! کیا کر رہا ہے۔ ویسی اتنی سردی ہے۔ بیمار پڑ جاؤں گا۔"
رحمت ایکدم اُٹھا اور ہاتھ چہرے کے آگے کر خود کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
" کیا ہو رہا ہے یہاں۔"
" رحیم انہیں پانی سے کھیلتے دیکھ فوراً ان کی طرف لپکا۔
رحیم دادا !! مانا کہ اب آپ بڑے آدمی بن چکے ہو، غفار کی جگہ آچکے ہو۔ لیکن تھے تو ہمارے دوست ہی، اس لیے دادا سے شکایت نہ کرنا۔"
فاروق ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا۔
اس کی بات پر رحیم سر جھٹکتا وہاں سے چلا گیا۔ جب سے کردم نے اسے غفار کی جگہ کھڑا کیا تھا۔ فاروق کا رویہ اس سے کچھ اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا تھا۔
" آخر یہ غفار گیا کہاں ہے، جو دادا نے اس کی جگہ رحیم کو رکھ لیا؟ "
فاروق نے کہتے ہوئے رحمت کو دیکھا تو اس نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کندھے اچکا دیئے۔
۔*********************۔
وہ چھ فٹ کا شاندار مرد سوٹ بوٹ میں تیار فون کان سے لگائے سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔ بار بار کال ملانے کے باوجود بھی مقابل فون نہیں اُٹھا رہا تھا۔ اس نے کوفت سے موبائل نیچے کیا کہ تبھی دوسری طرف سے کال آنے لگی۔
" کب سے کال کر رہا ہوں۔ آخر تھے کہاں؟ " وہ کال ریسو کرتے ہی دھاڑا۔
" پاشا بھائی کیسی باتیں کرتے ہو۔ شیر کے پنجرے میں رہتے ہوئے تھوڑی تو احتیاط کرنی پڑتی ہے۔" مقابل کی مسکراتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
" کوئی خبر؟ "
" نہیں۔ کردم دادا اب اُس لڑکی کو کسی بھی ماتحت کے ساتھ باہر نہیں بھیجتا۔ اب اگر کچھ کرنا ہے تو پہلے کردم دادا کو منظر سے غائب کرنا پڑے گا۔"
پاشا فون کان سے لگائے گھر سے باہر نکلا تو کاشف کے ساتھ ایک غیر شناسا چہرہ نظر آیا۔
" ٹھیک ہے میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔"
اس نے کہتے ہوئے فون بند کرا اور چلتا ہوا ان دونوں کی پاس آ گیا۔
" پاشا بھائی یہ اکبر ہے۔ جمیل کچھ دنوں کے لیے گاؤں گیا ہے اس لیے اُس نے اپنی جگہ اکبر کو بھیج دیا اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایک وفادار بندہ ہے۔ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔"
کاشف بتا کر خاموش ہوگیا۔ پاشا نے ایک نظر اپنے سامنے کھڑے خوش شکل مرد کو دیکھا جو شکل سے ہی شریف لگ رہا تھا۔
" ٹھیک ہے اسے کام سمجھا دینا۔"
وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تو کاشف بھی اکبر کو ساتھ لیے سرونٹ کواٹر چلا گیا۔
۔*********************۔
" عادی تمہارے ٹیسٹ کب ختم ہو رہے ہیں؟ مجھے نور سے ملنے جانا ہے۔"
رخسار بیگم ناشتہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولیں جو کالج جانے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔
" آپ کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود ہی کچھ دنوں میں کراچی آجا ئینگی۔"
وہ جوس کا گلاس اُٹھا کر ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔ جبکہ رخسار بیگم حیران ہوتی اسے دیکھے جارہی تھیں۔
" کیا مطلب کراچی آجائے گی؟ "
" او ہو !! کل ان کا فون آیا تھا۔ وہ بول رہی تھیں میرے پیپرز ہونے والے ہیں۔ اس لیے وہ اُس غنڈے سے اجازت لے کر کراچی آجا ئینگی۔"
کردم کا زکر کرتے ہی اس کا منہ کڑوا ہو گیا تھا۔
" شرم کرو بہنوئی ہے تمہارا اور جب اس کا فون آیا تھا تو مجھ سے بات کیوں نہیں کروائی؟ "
" میں اس وقت کالج میں تھا۔ اب آپ نے زکر کرا تو یاد آیا۔"
وہ کرسی پر سے اُٹھتا ہوا بولا۔
" ناشتہ تو ٹھیک سے کر لو۔"
اسے کھڑے ہوتے دیکھ رخسار بیگم فوراً بولیں۔
" مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اگر ٹھیک سے ناشتہ کرنے بیٹھا تو چھوٹی ہی ہو جائے گی۔"
وہ بیگ اُٹھا کر ان کے گال پر پیار کرتا باہر نکل گیا۔ رخسار بیگم مسکراتی ہوئی اسے جاتے دیکھتی رہیں۔
۔**********************۔
بلیک شلوار کے ساتھ بلیک بنیان پہنے، وہ پھولے ہوئے تنفس کے ساتھ پنچنگ بیگ پر گھونسے برسا رہا تھا۔ پیشانی پسینے سے تر ہوچکی تھی۔ وہ تقریباً آدھے گھنٹے سے اس جم نما کمرے میں تھا۔
" کردم دادا آپ کے لیے دادا کی کال ہے۔"
رحیم دروازہ کھول کر اندر آیا اور تھوک نگلتے ہوئے اطلاع دی۔ ایک لمحے کے لیے کردم کے ہاتھ رکے پھر ایک زور دار مکا پنچنگ بیگ پر مار کر ٹیبل کی جانب بڑھ گیا اور تولیا اُٹھا کر پسینہ صاف کرنے لگا۔
" فون دو۔"
کردم کے کہتے ہی رحیم نے فون اس کی طرف بڑھا دیا۔
" خاور دادا !! "
وہ پھولے ہوئے تنفس پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ لیکن دوسری جانب سے آتی آواز پر پریشانی سے اس کے ماتھے پر بل پڑگئے۔
" ٹھیک ہے دادا۔"
کردم نے بات ختم کر کے فون رحیم کی طرف بڑھا دیا۔ پریشانی اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہی تھی۔
" کیا ہوا کردم دادا؟ "
اس کے ماتھے پر پڑے بل دیکھ کر رحیم پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
" لگتا ہے دادا کو علم ہوگیا کہ جمشید کی موت کے پیچھے میرا ہاتھ ہے۔ آج رات ہی ہمیں افغانستان کے لیے نکلنا ہے۔ جا کر سارے انتظامات مکمل کرو جاؤ۔"
" جی دادا۔"
کردم کے چلا کر کہنے پر وہ بوتل کے جن کی طرح وہاں سے غائب ہو گیا۔ اب کردم پریشانی سے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔
۔*********************۔
لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے سیما خالہ سے کل رات کی باتیں کر رہی تھی جب سیما خالہ اس کے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی دیکھ کر کہنے لگیں۔
" تمہارے ہاتھ میں یہ انگوٹھی بہت پیاری لگ رہی ہے۔ کردم کی ماں اسے ہمیشہ پہنے رکھتی تھی۔ وہ کہتی تھی یہ اُس کی ماں کی نشانی ہے۔ اس لیے اب تم بھی اسے سنبھال کر رکھنا۔"
" جی میں ایسا ہی کروں گی۔"
آئینور مسکرا کر بولی کہ تبھی کردم نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے آواز دی۔
" نور فوراً کمرے میں آؤ۔" وہ کہتا ہوا اوپر چلا گیا۔
" اسے کیا ہوا اچانک؟ "
سیما خالہ نے کہتے ہوئے آئینور کی طرف دیکھا۔
" پتا نہیں۔ میں دیکھتی ہوں۔"
آئینور کندھے اچکا کر صوفے سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور اوپر کی جانب بڑھ گئی۔
کمرے میں داخل ہوئی تو کردم اسی حلیے میں اپنا سامان تلاش کرنے میں لگا تھا۔
" کیا ہوا آپ تو جم میں تھے پھر؟ "
کردم نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دیا۔
" کچھ نہیں ہوا۔ تم چاہتی تھیں نا میں تمہیں گھڑ سواری کیلئے لے کر جاؤ تو چلو جلدی تیار ہو جاؤ میں بھی بس ابھی تیار ہو کر آیا۔"
اس نے کہتے ہوئے اپنے کپڑے اُٹھائے اور باتھ روم کی طرف بڑھا۔
" لیکن آپ نے تو کہا تھا اگلے ہفتے لے کر جائینگے ابھی آپ کے پاس ٹائم نہیں۔"
آئینور حیران ہوتے ہوئے بولی۔ کردم نے رک کر اسے دیکھا پھر اس کے پاس ہی چلا آیا۔
" آج رات مجھے افغانستان کیلئے نکلنا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا پہلے تمہاری خواہش پوری کر دی جائے۔"
وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ کیا پتا وہاں سے واپسی ہی نہ ہو۔ کہیں خاور دادا جمشید کے قتل اور گینگ کو چھوڑنے کی بات پر اس کی جان ہی نہ لے لیں۔
" لیکن کیوں وہاں کیوں جانا ہے؟ " آئینور پریشان ہوتے ہوئے بولی۔
" کچھ کام ہے جلدی واپس آجاؤں گا۔ تم بس ابھی چلنے کی تیاری کرو۔"
کردم نے اس کو پریشان ہوتا دیکھ بات ہی بدل دی۔
" ٹھیک میں بس ابھی آئی۔"
آئینور خوش ہوتی اپنے کپڑے نکال کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد کردم بھی باتھ روم میں گھس گیا۔
۔**********************۔
سونیا یونیورسٹی سے نکلی تو سامنے ہی پاشا کی گاڑی کھڑی نظر آ گئی۔ وہ خوشی سے دوڑتے ہوئے اس تک آئی اور دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
" کیسا ہے میرا بچہ؟ "
پاشا نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" بالکل ٹھیک۔ آپ کب آئے انڈیا سے؟ "
" میں گیا ہی کب تھا۔" اس نے بھنویں اچکا کر کہا۔
" کیا مطلب ؟ آپ نے توکہا تھا آپ انڈیا جا رہے ہیں۔ پھر اتنے دنوں سے کہاں تھے؟ " اس کی بات پر سونیا الجھ سی گئی۔
" پاکستان میں ہی تھا پر دوسرے شہر میں وہاں کچھ کام تھا۔" پاشا نے پھر جھوٹ بولا۔ جس پر اس نے یقین بھی کر لیا۔
" ٹھیک ہے۔ تو پھر بتائیں ہم کہاں جا رہے ہیں؟ "
" جہاں تم بولو۔"
اس نے کہا تو وہ انگلی گال پر رکھ کر سوچنے لگی۔
" پہلے ہم کسی ہوٹل میں لنچ کرینگے اس کے بعد شاپنگ۔" وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔
" ٹھیک ہے جیسے تم چاہو۔"
پاشا نے کہتے ہوئے ڈرائیور کو اشارہ کیا تو اس نے گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔
۔***********************۔
وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں اپنے ارد گرد نظر دوڑا رہی تھی۔ جہاں گھوڑے لائن سے بندھے نظر آ رہے تھے۔ یہ کردم کا فارم ہاؤس تھا۔ جس کے ساتھ ہی اصطبل بنا ہوا تھا۔
وہ آگے بڑھتی حیرت سے ان گھوڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ آج پھر کردم کے کہنے پر اس نے عبایا نہیں لیا تھا۔ سفید فراک اور چوڑی دار پجامے میں اس کا رنگ اور بھی نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔
" یہ سب آپ کے ہیں؟ " وہ دو انگلیوں سے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔
" ہاں !! پر میں صرف ایک پر ہی گھڑ سواری کرتا ہوں۔"
" اچھا کس پر؟ "
" میرے ساتھ آؤ۔" کردم کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ آئینور بھی اس کے ساتھ ہی چلنے لگی کہ یکدم اس کا پاؤں مڑا لیکن اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی کردم نے اسے تھام لیا۔
" کیا ضرورت تھی یہاں ہائی ہیل پہن کر آنے کی؟ "
" تو کیا کروں؟ آپ کے ساتھ چلنے کے لیے مجھے ان کا ہی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اب میں آپ کی طرف دراز قامت انسان تھوڑی ہوں۔" وہ بُرا ہی مان گئی۔ جبکہ کردم اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔
" حد ہے نور !! میں پانچ فٹ دس انچ کا مرد ہوں۔ اتنا لمبا بھی نہیں۔ بس لمبا لگتا ہوں بالکل ویسے ہی جیسے تم چھوٹی نہیں لگتیں۔"
" رہنے دیں بس۔" وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
" یہ دیکھو یہ ہے میرا شیر۔"
وہ دونوں باتیں کرتے گھوڑے کے پاس پہنچ چکے تھے۔ جب کردم اسے دکھاتا ہوا بولا۔ وہ ایک کالے رنگ کا نسلی گھوڑا تھا۔
" اس میں کیا خاص بات ہے؟ "
آئینور نے گھوڑے کو دیکھتے ہوئے کردم سے سوال کیا جو اس کی رسی کھول کر باہر نکال رہا تھا۔
" اسے میں ریس میں اُتارتا ہوں اور یہ ریکارڈ قائم ہے کہ آج تک یہ ایک بھی ریس نہیں ہارا۔"
وہ اب چلتے ہوئے گھانس پر آچکے تھے۔ یہ علاقہ کسی جنگل سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
" کیا مطلب آپ مجھے اس پر بیٹھانے تو نہیں والے؟ "
آئینور نے کالے گھوڑے کو گھورتے اور کچھ ڈرتے ہوئے پوچھا۔
" تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں؟ یقین کرو گرو گی نہیں۔"
کردم نے کہتے ہوئے ہاتھ اس کے آگے کیا جسے اُس نے فوراً ہی تھام لیا۔
آئینور کو گھوڑے پر بیٹھا کر وہ خود بھی اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔ گھوڑے نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا تھا۔
" کردم مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا۔"
آئینور نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔
" بولو۔"
" میرے پیپرز ہونے والے ہیں۔ تو کیا میں اس دوران کراچی چلی جاؤں؟ "
" کیا کرو گی پیپرز دے کر۔ کوئی ضرورت نہیں۔"
" پلیز !! کم از کم میرا گریجویشن تو ہوجائے گا۔"
وہ معصوم سی شکل بنا کر بولی تو کردم کو ہاں کرنی ہی پڑی۔
" ٹھیک ہے چلی جانا۔ لیکن ابھی تو گھڑ سواری کے مزے لو۔"
اس کے کہتے ہی آئینور نے چہرہ آگے موڑ لیا۔ کردم دھیرے دھیرے گھوڑے کی رفتار تیز کر رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ درختوں کے درمیان سے گزرتے اونچے نیچے راستوں پر چڑتے وہ ہوا سے باتیں کر رہے تھے۔
آئینور بھی اپنا ڈر بھلائے سواری کے مزے لے رہی تھی۔ آوارہ لٹیں اُڑ اُڑ کر اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر یونہی ماحول کے مزے لیتے وہ واپس اسی جگہ آگئے۔
کردم گھوڑے پر سے اُترا اور ہاتھ بڑھا کر آئینور کو بھی نیچے اُتار دیا اب وہ دھیرے دھیرے گھوڑے کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔
آئینور بھی اس کے ساتھ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ آج کچھ عجیب سا احساس ان دونوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔ یوں جیسے آخری بار بات کر رہے ہوں، آخری بار ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔ آخری بار ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار رہے ہوں۔ وہ یونہی کردم کو دیکھ رہی تھی کہ اس کی آواز پر چونک کر اپنی سوچوں سے باہر آئی۔ وہ اس سے کہہ رہا تھا۔
" جانتی ہو نور !! میں تمہاری ان آنکھوں کے سحر میں اتنا جکڑ گیا تھا کہ باہر ہی نہیں نکل پا رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا یہ وقتی کشش ہے۔ اس لیے تم سے نکاح کرتے وقت میں نے سوچا تھا کچھ دنوں میں ہی تم کو آزاد کردوں گا اس رشتے سے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تم میرے لیے روح کی طرح ہوگئیں۔ جسے اگر جسم سے الگ کر دیا جائے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے۔
تم نے ٹھیک کہا تھا نور۔ میں تمہیں نہیں خود کو یقین دلاتا تھا کہ تمہیں چھوڑ دوں گا۔ اس لیے جس دن تمہارے سر پر چوٹ لگی اُس دن میں نے خود سے اعتراف کر لیا تھا کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔"
کردم نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ افق پر ڈوبتا ہوا سورج ماحول میں آسودگی پیدا کر رہا تھا۔
" ایک معاملہ میرا میرے رب سے ہے۔ جس میں خیانت ہی خیانت ہے۔ ایک معاملہ میرا تم سے ہے۔ جس میں میں نے کبھی خیانت نہیں کی۔ تمہارے آنے کے بعد میں صرف تمہارا بن کے رہا ہوں نور۔"
وہ اس کے سامنے آ کر اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے بولا۔ آئینور ساکت سی اسے سن رہی تھی۔
" اگر میں نہ رہا تو کیا تب بھی تم صرف میری بن کر رہو گی؟ "
وہ خاموش رہی۔
"بولو؟ "
اس نے پھر پوچھا۔ لیکن وہ کچھ نہ بولی۔ اس سوال کا جواب دینا کتنا مشکل لگ رہا تھا۔ کسی دشمن کی موت کا بھی سنتے ہی ایک پل کے لیے روح کانپ جاتی ہے پھر وہ تو اس کا شوہر تھا۔ محبت نہ سہی چاہے جانے کا احساس تو تھا۔ وہ اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹا کر مڑنے لگی کہ رکی اور بولی۔
" آج کے لیے شکریہ مجھے گھوڑے پر بیٹھ کر بہت اچھا لگا۔"
پھر واپس مڑ کر آگے بڑھ گئی۔ کردم وہیں کھڑا اسے دور جاتے دیکھ رہا تھا۔
۔*********************۔
" سب ٹھیک سے ہونا چاہیئے۔ اب میں کسی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کروں گا۔"
فون کان سے لگائے پاشا اپنے ماتحت کو حکم دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی سونیا کو لیے وہ گھر واپس آیا تھا اور اب اپنے کام پر لگ چکا تھا۔
" آپ فکر مت کریں پاشا بھائی۔ کام ہو جائے گا۔" اسپیکر میں سے کاشف کی آواز ابھری۔
" ٹھیک ہے۔ آج رات یہ کام ہو جانا چاہیے اور ہاں کسی کو شک نہ ہو سمجھے؟ "
" جی پاشا بھائی !! آپ نے جیسا کہا ہے ویسا ہی ہوگا۔"
" ٹھیک ہے۔ کام ہو جائے تو مجھے خبر کرنا۔"
اس نے بات ختم ہوتے ہی فون جیب میں ڈال دیا اور چہرہ موڑ کر لاؤنج میں بیٹھی سونیا کو دیکھا جو اپنی شاپنگ بیگز کو پھیلائے بیٹھی تھی۔
۔*********************۔
مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوئی تو کردم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی وہ گھر واپس لوٹے تھے اور اب وہ افغانستان جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا۔
آئینور دوپٹہ کھولتی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ دل نہ جانے کیوں اداس ہو رہا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر وہ اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی۔ کردم نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگا۔
" کیا جانا بہت ضروری ہے؟ "
شرٹ کے بٹنوں پر نظریں جمائے وہ بے تاثر چہرے سے پوچھ رہی تھی۔
" ہاں !! تم چاہتی تھیں نا۔ میں یہ سب چھوڑ دوں۔ بس اس لیے جانا ضروری ہے۔"
آئینور خاموش ہو گئی مگر دل چیخ رہا تھا کہ وہ اسے روک لے نہ جانے دے کیا پتا پھر ملاقات ہو نا ہو۔ وہ گہرا سانس لیتی اس کے سینے سے لگ گئی۔
"جلدی آجائے گا۔ میں۔۔۔ نہیں "ہم" آپ کا انتظار کریں گے۔"
اس کا اشارہ بچے کی طرف تھا اور کردم وہ تو آئینور کی اس حرکت پر ہی ساکت رہ گیا تھا۔
" جلدی آنا ہاں۔"
اس نے پھر بولا تو کردم چونکا اور اس کے گرد حصار بنا دیا۔
" ہاں !! جلدی آجاؤں گا۔"
آئینور اس سے الگ ہوئی تو کردم نے اس کا ماتھا چوم لیا اور کوٹ پہن کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔ آئینور بھی اس کے پیچھے ہی نکلی تھی۔ وہ بیرونی دروازے کی چوکھٹ پر جا کھڑی ہوئی سامنے ہی کردم گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔
اس نے چہرہ موڑ کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں وہ دوپٹے سے منہ چھپائے کھڑی تھی۔ یہ احساس اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ جیسے آج کے بعد پھر وہ کبھی مل نہیں سکیں گے۔
کردم گاڑی میں بیٹھ گیا تبھی گاڑی آگے بڑھتی پورچ سے باہر نکل گئی۔
آئینور وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔
۔**********************۔