" لڑکی تم آرام کرو کچھ چاہیئے ہو تو مجھے بلا لینا۔" آئینور کو بیڈ پر لیٹا کر سیما خالہ اس پر کمبل ڈالتے ہوئے بولی۔ آئینور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
" ٹھیک ہے !! اب میں چلتی ہوں۔" وہ مسکرا کر کہتیں، اسے پیار کر کے خواب گاہ سے باہر چلی گئیں۔
ان کے جاتے ہی یکدم آئینور کا چہرہ سنجیدہ ہوا۔ اپنی ہتھیلیوں کو آنکھوں کے سامنے پھیلائے وہ بے بسی سے انہیں دیکھنے لگی کہ تبھی کردم اپنا سر تولیے سے رگڑتا باتھ روم سے باہر آیا۔ آئینور پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں کی چمک بڑھی تھی۔ وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور تولیے کو بیڈ پر پھینک کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔
آئینور نے ناگواری سے بیڈ پر پڑے تولیے کو دیکھا پھر کردم کو جو آنکھوں میں محبت کا جہان آباد کیے اسے دیکھ رہا تھا۔ آئینور نے فوراً نظریں چرا لیں۔
" نور تم۔۔۔"
کردم بولنے ہی لگا تھا جب موبائل پر آتی کال کی آواز پر رک گیا۔
" میرا فون !! "
آئینور کے کہنے پر کردم نے فوراً جھک کر سائڈ ٹیبل کی دراز سے اس کا موبائل نکال کر اسے دیا۔ رخسار بیگم کی کال دیکھتے ہی اس نے لمحے کی تاخیر کیے بنا فون اُٹھایا۔
" ہیلو نور !! " رخسار بیگم کی فکر مند آواز ابھری۔ آئینور کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
" ماما !! "
اس کی آواز میں لرزش واقع تھی۔
" کیا ہوا نور؟ تم رو رہی ہو؟ " رخسار بیگم پریشان ہو اُٹھیں۔ وہیں کھڑا عدیل جو آئینور کے فون اُٹھانے پر سکھ کا سانس لے رہا تھا۔ رخسار بیگم کو پریشان ہوتا دیکھ خود بھی پریشان ہوگیا۔
" نہیں وہ بس۔۔۔"
آئینور بول ہی رہی تھی، جب کردم نے اس کے ہاتھ سے فون لے کر کان سے لگایا۔
" آپ کی بیٹی بالکل ٹھیک ہے اور بہت بہت مبارک ہو آپ کو، آپ نانی بننے والی ہیں۔"
کردم نے کہتے ہوئے ایک ہاتھ آئینور کے گال پر بہتے آنسو صاف کیے اور بازو سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ آئینور دبی دبی سسکیوں سے اس کے سینے سے لگے رونے لگی۔
اُدھر رخسار بیگم کی خوشی کا تو ٹھکانہ نہ رہا تھا۔ یکدم اُن کا چہرہ کھل اُٹھا۔
"واقعی !! تم۔۔۔ تم سچ کہہ رہے ہو؟ " رخسار بیگم نے ایک بار پھر پوچھا۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا آیا کہ انہوں نے صحیح سنا ہے یا نہیں۔
" بالکل !! " کردم مسکرا کر کہتا آئینور کے بال سہلانے لگا۔
" ٹھیک ہے پھر میں جلد ہی عادی کے ساتھ لاہور آؤں گی۔" رخسار بیگم خوشی سے چور لہجے میں بولیں۔
عدیل ان کے پل پل بدلتے رویے کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ چند ایک اور باتوں کے بعد انہوں نے کال کاٹ دی۔
" کیا ہوا؟ " عدیل نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
" مبارک ہو تمہیں !! تم مامو بننے والے ہو۔" رخسار بیگم خوش ہوتی کمرے میں چلی گئیں، پیچھے عدیل حیران و پریشان سا کھڑا رہ گیا۔
دوسری طرف آئینور کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کردم نے اسے خود سے الگ کر کے آنسو اپنی پوروں پر چن لیے۔
" تم خوش نہیں ہو نور؟ " آئینور کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اوپر کیا۔ آئینور نے نظریں چرا لیں۔
" کچھ پوچھ رہا ہوں۔ میری طرف دیکھو۔" اس نے اپنے لہجے میں سختی پیدا کرتے ہوئے کہا۔ نا چاہتے ہوئے بھی آئینور نے اپنی لرزتی پلکیں اُٹھا لیں۔
" بتاؤ تم خوش نہیں ہو؟ "
" میں خوش ہوں۔" کہتے ہوئے چہرا بےتاثر تھا۔
" اچھا !! پھر مجھے کیوں نہیں لگ رہا؟ " کردم جانچتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ آئینور فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔
" مجھے درد ہو رہا ہے بازو میں، بس اس لیے ابھی کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔"
آئینور کی بات پر کردم کی نظریں فوراً اس کے بازو پر گئی، جہاں پٹی بندھی تھی۔ بچے کی پیدائش کا سن کر وہ تو اس بات کو یکسر فراموش کر چکا تھا۔
" اس لیے میں نہیں چاہتا تھا تم گھر سے باہر جاؤ۔ اب دیکھ لیا نا۔" کردم نے کہتے ہوئے ایک بار پھر اسے سینے سے لگا لیا۔
آئینور خاموش رہی فلحال ابھی وہ تنہائی چاہتی تھی جو اسے میسر نہ تھی۔
" چلو !! تم اب آرام کرو۔" کردم اس سے الگ ہوا۔ آئینور نے خاموشی سے لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ جلد ہی وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی۔
" میں اُسے چھوڑو گا نہیں نور۔۔۔ جس نے تمہاری یہ حالت کر دی۔" کردم اس کے چہرے پر نظریں جمائے بڑبڑایا پھر اُٹھ کر خواب گاہ سے باہر نکل گیا۔
اس وقت وہ جزباتی ہو رہا تھا اور اکثر جزبات میں آکر انسان صحیح غلط میں فرق نہیں کر پاتا۔ اس بار کردم بھی یہی کر رہا تھا۔ اپنے عقل سے کام لینے کے بجائے وہ جزباتی ہو رہا تھا۔ جو آ گے جا کر کافی نقصان دہ ثابت ہونا تھا۔
۔*******************۔
سردی کے اس موسم میں ملتان پر صبح بہت ابر آلود اُتری تھی۔ ایسے میں اپنے محل نما گھر سے سوٹ بوٹ میں تیار وہ شخص اڈے پر جانے کے لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس کے ماتحت نے گاڑی گھر سے نکال کر اڈے کے راستے پر ڈال دی۔ کچھ وقت خاموشی سے گزرانے کے بعد وہ اپنے ماتحت سے گویا ہوا۔
" کیا سارے آدمی اڈے پر پہنچ چکے ہیں؟ "
" جی جمشید بھا !! وہ سب کافی پہلے ہی نکل چکے تھے۔" وہ گاڑی چلاتا ہوا بولا۔
" ٹھیک ہے۔" جمشید اثبات میں سر ہلاتا گاڑی سے باہر دیکھنے لگا۔ جہاں راستے میں دور دور تک جھاڑیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔
" تم نے اچھا نہیں کیا کردم دادا !! مجھے انکار کر کے خود سکون سے بیٹھے ہو۔ دیکھنا ایسا تمہیں پھنساؤں گا کہ سیدھا پھانسی پر ہی چڑھو گے۔" جمشید باہر دیکھتا سوچ رہا تھا کہ تبھی اس کی نظر گاڑی کے شیشے پر پڑی۔ جس میں پیچھے آتی جیپ میں سے ایک بندہ چہرے پر ماسک پہننے اس کی گاڑی کا نشانہ باندھ رہا تھا۔ اس سے پہلے جمشید کچھ کرتا پیچھے آتی گاڑی سے فائر ہوا اور پھر پے در پے حملوں نے گاڑی کو ہوا میں اچھال کر رکھ دیا۔ گاڑی زور دار آواز کے ساتھ پلٹی کھا کر سڑک پر الٹی گری اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ کچھ دیر میں ہی فضا میں دھماکے کی آواز دور تک پھیل تھی۔
پیچھے کھڑی جیپ میں موجود تمام نفوس کی آنکھوں ان شعلوں کے منظر کو صاف دیکھا تھا۔ اپنی جیت کا جشن مناتے وہ اس سنسان سڑک پر گاڑی کو واپس بھگا لے گئے۔ انہیں اب جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچنا تھا۔
۔********************۔
اس کی آنکھ کھلی تو کردم کو بالکل اپنے برابر میں سوتا پایا۔ اس نے نظر پھیر کر گھڑی کی طرف دیکھا جس میں بارہ بج رہے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ اور تبھی بازو میں درد کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔
" آاااہ !! "
" کیا ہوا۔۔۔؟ درد ہو رہا ہے؟ "
آئینور کے کراہنے کی آواز پر وہ فوراً اُٹھ بیٹھا اور فکر مند سا پوچھنے لگا۔
" بس تھوڑا سا۔"
اس کے کہتے ہی کردم نے اس کا بازو اپنے ہاتھوں میں لیا اور دھیرے دھیرے سہلانے لگا۔
آئینور اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ یہ اُس کردم سے مختلف تھا جو اسے چوٹ پہنچا کر بھی حال نہیں پوچھتا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی تھا جو نیند میں ہو کر بھی اس کے لیے فکر مند تھا۔
" بس اب ٹھیک ہے۔" اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہ بیڈ پر سے اُترتی باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔
کردم اسے جاتے دیکھ رہا تھا کہ تبھی اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ اس نے فوراً سائڈ ٹیبل سے موبائل اُٹھا کر کال ریسیو کی۔
" ہاں کیا خبر ہے؟ "
" کام ہو گیا، کردم دادا !! " دوسری طرف سے رحیم کی آواز ابھری۔
" ویری گڈ !! " کردم نے مسکرا کر کہتے کال کاٹ دی۔ اس کا موڈ یکدم خوشگوار ہو گیا تھا۔
" کیوں اکیلے اکیلے مسکرا رہے ہیں؟ "
آئینور کی آواز پر اس نے چونک کر باتھ روم کی طرف دیکھا جہاں وہ کھڑی سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
" آؤ تم بھی میرے ساتھ مل کر مسکرا لو !! "
وہ مسکرا کر بولا۔ آئینور سر جھٹکتی ڈریسنگ کی آگے جا کھڑی ہوئی۔ کردم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
" سیما خالہ کو ناشتہ لانے کا بول دو، خود نیچے مت جانا۔"
کردم بیڈ سے اُتر کر اسے ہدایت دیتا باتھ روم میں گھس گیا اور آئینور وہ بس کلس کر رہ گئی۔
" لوو !! اب اس کمرے سے باہر جانے پر بھی پابندی۔"
وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں لگے انٹر کام کی جانب بڑھ گئی اور سیما خالہ کو ناشتے کا بول کر، وہ واپس ڈریسنگ کے سامنے جا کر بال بنانے لگی۔ تبھی کردم بھی باتھ روم سے باہر نکل آیا اور سیدھا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔
"مجھے ابھی جلدی جانا ہے ورنہ آج تمہیں اپنے ہاتھ سے ناشتہ کراتا، اس لیے ناشتہ ٹھیک سے کرنا۔"
کردم نے کہتے ہوئے اس کے گرد بازوؤں کا حصار بنایا۔ آئینور جھنپتی ہوئی خود میں سمٹنے لگی۔
" سمجھ آئی یا سمجھاؤ۔۔۔؟ "
وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا گردن پر جھک گیا اور آئینور اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
کردم کا یہ نیا روپ اس سے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ اظہارِ محبت کے بعد وہ اس پر حق جتاتا تھا، اس کی پرواہ کرتا تھا، مگر اب وہ اس کیلئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی فکر مند ہو رہا تھا۔
وہ خود پر قابو پاتی اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔
" سیما خالہ !! میں دروازہ کھول دوں۔" آئینور خود کو چھڑوا کر فوراً دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ کردم مسکراتے ہوئے اپنی تیاری میں لگ گیا۔
۔******************۔
گاڑی سیدھا اُس خستہ حال بلند و بالا عمارت کے سامنے جا کر رکی تھی۔ بلیک تھری پیس سوٹ میں وہ شان سے اپنی گاڑی سے نکلتا اس بلند و بالا عمارت میں داخل ہوا تھا۔ راہِ داری میں چلتا وہ اس بڑے سے کمرے کے آگئے جا رکا اور دروازے کو دھکیل کر قدم اندر کی جانب بڑھائے دیئے۔
" کردم دادا !! "
رحیم جو کرسی پر بیٹھا تھا اسے دیکھتے ہی فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔
" کسی کو شک تو نہیں ہوا ؟ "
کمرے میں جلتی بلپ کی مدہم روشنی میں وہ اس کے مقابل جا کر بولا۔
" نہیں دادا !! میں نے باہر سے آدمیوں کو اس کام کے لیے بھیجا تھا۔ اس لیے ہمارے کسی بھی ماتحت کو بھی اس کی خبر نہیں۔"
" بہت خوب !! " کردم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" ہاں !! ایک اور بات، اب سے تم غفار کی جگہ کام کرو گے۔"
" میں !! لیکن کیوں کردم دادا۔۔۔؟ میرا مطلب ہے غفار وہ کہاں ہے؟ "
کردم کی بات پر وہ حیرت زدہ لہجے میں پوچھنے لگا۔
" غفار جہاں بھی ہے اس سے تمہیں یا کسی کو بھی مطلب نہیں ہونا چاہیئے اور دوسری بات میں کسی اور پر بھروسہ نہیں کرسکتا اس لیے اب غفار کی جگہ تم کام کرو گے۔ سمجھے؟ "
اس نے سوالیہ نظروں سے رحیم کو دیکھا۔
" جی دادا !! آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"
وہ اپنی حیرت کو قابو کرتا فوراً بولا۔
" ٹھیک ہے !! اب جاؤ۔"
اس نے کہتے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کیا مگر رحیم اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔
" کیا ہوا۔۔۔؟ کوئی اور بات بھی ہے؟ "
کردم نے بھنویں اچکائیں۔
" جی کردم دادا !! " رحیم تھوک نگلتا بولا۔
" پوچھو۔ "
" دادا آپ نے جمشید بھا کو کیوں مروایا جبکہ مجھے لگتا ہے یہ کام پاشا بھائی کا ہے۔ ان کا تو جھگڑا بھی ہوا تھا آپ سے؟ "
کردم کی طرف سے اشارہ ملتے ہی اس نے جلدی سے پوچھا۔ کردم کا جمشید کو مروانے کا فیصلہ رحیم کو کچھ ٹھیک نہیں لگا تھا۔
" ہاں !! جھگڑا ہوا تھا، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ جمشید بھی اُس کے ساتھ ملا ہوا تھا۔" کردم حقارت سے بولا۔
" لیکن کیوں جمشید بھا کی آپ سے کیا دشمنی؟ "
رحیم کے سوال پر کردم کچھ پل کے لیے خاموش ہو گیا۔
(میرے پاپا جس گناہوں کے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے پر یہ جاننا مشکل ہے، کون آپ کا دوست ہے اور کون دشمن۔ کوئی نہیں جان پاتا کہ دوست کی شکل میں کتنے آستین کے سانپ چھپے ہوئے ہیں۔) اسے آئینور کی کہی بات یاد آئی تھی۔
" رحیم !! جس راستے پر ہم چل رہے ہیں، اُس راستے پر یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون دشمن۔۔۔ ہم کبھی نہیں جان سکتے ہم نے کتنے آستین کے سانپ پال رکھیں ہیں۔
اب دیکھو !! لڑکیوں کے سمگلنگ کے کیس میں جمشید کی مدد نہیں کی تو اُس نے نور پر حملہ کروا دیا۔"
اُس واقعے کو سوچتے کردم کی رگیں تن گئیں۔
" لیکن جمشید بھا کو اُن کا کیسے پتا چلا۔۔؟ اُن کے بارے میں تو کوئی نہیں جانتا۔"
رحیم اب بھی کچھ مطمئن نہیں ہوا تھا۔
" تمہیں کیا لگتا ہے !! جو مجھے نقصان پہنچانا چاہتا ہو وہ مجھ پر نظر نہیں رکھے گا۔ وہ ضرور مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھا، تبھی اُسے نور کی خبر ہوئی۔"
" کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔"
رحیم نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
" اب کچھ اور پوچھنا ہے یا ہوگیا؟ "
" نہیں۔۔۔ نہیں !! اب میں چلتا ہوں۔"
رحیم گڑبڑاتا ہوا فوراً وہاں سے چلا گیا۔ کردم دھیرے سے مسکرا دیا۔ ان کی تجسس بھری عادت سے بہت اچھی طرح واقف جو تھا۔
۔******************۔
ناشتے کے برتن اُٹھانے کے لیے وہ خواب گاہ میں داخل ہوئیں تو آئینور کو دیکھ کر یکدم پریشان ہو اُٹھیں۔ وہ بیڈ پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔
" کیا ہوا لڑکی درد ہو رہا ہے؟ " سیما خالہ پر یشان ہوتیں اس کے پاس جا بیٹھیں۔ آئینور نے نفی میں سر ہلا دیا۔
" پھر کیوں رو رہی ہو؟ کیا کردم بیٹے نے کچھ کہا تھا؟ "
" نہیں !! " وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی بولی۔
" پھر کیا ہوا ہے، بتاؤ بھی؟ "
" میں۔۔۔ میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں۔"
وہ کہہ کر ایک بار پھر رونا شروع ہوگئی۔ سیما خالہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھیں۔
" تم جانتی بھی ہو کیا بول رہی ہو۔"
" میں جانتی ہوں پر پہلے میں اکیلی تھی، لیکن اب میں اکیلی نہیں ہوں میرے ساتھ ساتھ ایک اور جان پل رہی ہے۔ میں نہیں چاہتی وہ بھی اس گناہوں سے بھری دنیا میں پرورش پائے، میرے ساتھ ساتھ اُس کے بھی حلق میں حرام کا نوالہ جائے۔ اس لیے میں یہاں سے دور چلے جانا چاہتی ہوں۔"
آئینور بولی تو اس کے رونے میں مزید روانگی آگئی۔
" تمہیں کیا لگتا ہے !! چلی جاؤ گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔؟ تم پھر سکون سے اپنے بچے کے ساتھ رہو گی؟ نہیں۔۔۔ نہیں لڑکی، تم کہیں بھی چلی جاؤ وہ تمہیں ڈھونڈ نکالے گا۔ تم تک پہنچنا اُس کے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اس سب میں نقصان صرف تمہارا ہونا ہے، کیونکہ کردم معاف کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔ یہ بات تم بھی اچھے سے جانتی ہو تبھی تو یہاں ہو۔ اسلم مر گیا لیکن کیا تم آزاد ہوئیں۔۔۔؟ نہیں نا اور پھر تم تو اُس کے بچے کے ساتھ یہاں سے جاؤ گی۔ وہ تمہیں کسی صورت معاف نہیں کرے گا۔" سیما خالہ اسے سمجھانے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی رہی تھیں، کیونکہ وہ خود نہیں چاہتی تھیں آئینور یہاں سے جائے۔ مگر ان کی کہی باتیں درحقیقت ٹھیک بھی تھیں۔ کردم اپنا بدلہ انتہا پر جا کر لیتا تھا۔ تبھی تو پاشا کا جہاز کو آزاد کرنے کے بعد بھی سونیا پر گولی چلا دینا، اسلم کی جان کے بدلے آئینور کو حاصل کرنا، نہ صرف یہ بلکہ کتنی ہی بار آئینور کو چوٹ بھی پہنچائی تھی، اور تو اور اپنے ہی گھر میں اُس شخص پر گولی چلائی، جس کا قصور بھی صرف وہ ہی جانتا تھا۔ اور اب جمشید کو بھی موت کے گھاٹ اتار چکا تھا۔ وہ ہمیشہ مقابل سے بدلہ سود سمیت لیتا تھا اور اب تو بات اُس کے بچے کی تھی۔ پھر کیسے ممکن تھا وہ آئینور کو معاف کر دیتا۔
" میں یہ بھی جانتی ہوں اس لیے تو آج تک یہ قدم نہیں اُٹھایا۔ پہلے میں پاپا کی وجہ سے مجبور تھی اور اب عادی کی وجہ سے میرا ایک غلط قدم ان کی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ تبھی میں عادی کے یہاں آنے کے بعد اپنے دماغ سے جانے کا خیال نکال چکی تھی پر اب۔۔۔ اب میں پھر اس بچے کی خاطر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں۔ آپ۔۔۔ آپ سمجھائیں نا، شاید وہ مان جائیں۔"
آئینور نے کہتے ہوئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔ سیما خالہ نے تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو الگ کیا، مگر بولی کچھ نہیں۔
" آپ کچھ بول کیوں نہیں رہیں؟ آپ خود دیکھیں، کچھ بھی تو ایسا نہیں جو ہم میں ایک جیسا ہو۔ ہمارے زندگی گزارنے کے طور طریقے الگ ہیں، راستے الگ ہیں، سب کچھ تو الگ ہے۔ حتاکہ ہمارے تو قد میں بھی کتنا فرق ہے، میں تو اُن کے کندھے تک بھی نہیں آتی۔"
آئینور کی آخری بات پر سیما خالہ نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کی پر ناکام رہیں۔ اگلے ہی لمحے اُن کے قہقہے کی گونج کمرے میں سنائی دی تھی۔
آئینور نے اُنہیں ہنستا دیکھ خفگی بھری نگاہوں سے گھورا۔
" تم اس بات کے لیے پریشان ہو رہی ہو؟ "
وہ اپنی ہنسی قابو کرتی بولیں مگر پھر ہنس پڑیں۔
" آپ ہنس لیں پہلے، بلکہ مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔"
وہ غصّے سے کہتی اُٹھنے لگی کہ سیما خالہ نے ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھایا۔
" بیٹھو ادھر اور مجھے ایک بات بتاؤ؟ "
" کیا ؟ "
وہ منہ بناکر بولی۔
" تم نے یہ نکاح اپنی خوشی سے کیا ہے؟ "
" یہ کیا پوچھ رہی ہیں۔۔۔؟ جبکہ آپ اچھے سے جانتی ہیں یہ نکاح کیوں ہوا۔"
سیما خالہ کے سوال پر آئینور حیران ہوتے ہوئے بولی۔
" ہاں جانتی ہوں !! اُس میں تمہاری خوشی شامل نہیں تھی۔ وہ سب اللّٰه کی مرضی تھی۔ اُس ہی طرح یہ بھی اللّٰه کی مرضی ہے۔ جیسے اُس بات کو قبول کیا اسے بھی کرلو لڑکی۔ دیکھنا اللّٰه خود ہی سب ٹھیک کر دے گا۔ سمجھ رہی ہونا ؟ "
سیما خالہ نے اب کی بار اسے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا اتنا تو وہ بھی جان گئیں تھیں، اسے کیسے سمجھانا ہے۔
آئینور نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ کیونکہ بات جب اللّٰه کے فیصلے اور اُس کی مرضی پر آجائے تو بندے کی کیا اوقات پھر کچھ بولے۔
" چلو !! تم آرام کرو، میں زرا باقی کام دیکھ لوں۔"
سیما خالہ اس کا ماتھا چومتی برتن اُٹھا کر خواب گاہ سے باہر نکل گئیں اور اُن کے جاتے ہی ایک بار پھر آئینور کی آنکھوں سے برسات بہنا شروع ہوگئی۔
۔*******************۔
گاڑیاں تیزی سے اس محل نما گھر کے سامنے جا کر رکی تھیں۔ سب نے گاڑیوں سے نکل کر اپنے قدم اندر کی جانب بڑھائے تھے۔ جہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ عورتوں کی بین کرنے کی آوازیں وہاں موجود نفوس کے ساتھ ساتھ گھر کے درو دیوار بھی سن رہے تھے۔
وہ سب چلتے ہوئے اس طرف آگئے۔ جہاں وہ کھڑا بے تاثر چہرے سے اپنے سامنے موجود جمشید کی جلی ہوئی لاش کو دیکھ رہا تھا۔
" یہ سب کیسے ہوا کردم؟ "
آغا حسن نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ راشد ملک اور خاقان ابراہیم جمشید کی لاش کی طرف متوجہ تھے۔ جمشید کی موت کی خبر ملتے ہی وہ سب پہلی فرصت میں پاکستان پہنچے تھے اور اب اس کے گھر پر جما تھے۔
" مجھے نہیں معلوم کیسے ہوا۔ میں بھی تم لوگوں سے کچھ دیر پہلے ہی ملتان آیا ہوں۔"
کردم نے کہتے ہوئے اپنے سامنے کھڑے پاشا کو دیکھا جو جمشید کی لاش کے دائیں جانب کھڑا کردم کو ہی دیکھ رہا تھا۔
" تمہیں کچھ تو معلوم ہوگا۔ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ایک شہر میں نہیں، ایک ملک میں تو رہتے ہو۔"
اب کی بار سوال خاقان ابراہیم کی طرف سے آیا تھا۔
" مجھے اور بھی کام ہوتے ہیں۔ ہر وقت اس کی جاسوسی میں نہیں لگا رہ سکتا تھا اور ویسے بھی تم لوگوں کو معلوم ہوگا ہی، ایک دن پہلے اس کے آدمیوں کو سمگلنگ کے کیس میں پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی کو جمشید پر شک ہو اور اُس نے پولیس کی مدد لینے کے بجائے، خود ہی انصاف کرنا چاہا۔"
کردم بھڑک اٹھا اور اپنے شانے پر موجود آغا حسن کے ہاتھ کو جھٹک دیا۔
" ہاں !! ہوسکتا ہے کسی نے اپنی زاتی دشمنی نکالی ہو۔"
پاشا جو کب سے خاموش کھڑا کردم کو دیکھ رہا تھا بالآخر بول اُٹھا۔ کردم نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔
" بالکل !! تم تو یقیناً جانتے ہو گے اس سب کے پیچھے کون ہے۔ آخر جمشید سے تمہارا رابطہ جو تھا۔"
کردم نے بھی بات کا رخ پاشا کی طرف موڑا۔
" میں نہیں جانتا۔ میری کافی دنوں سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی۔"
پاشا بھی اپنے نام کا ایک تھا، صاف انکار کیا۔
" اچھا !! اب تم دونوں مت شروع ہو جانا۔ میں خود ہی معلوم کرلوں گا اس سب کے پیچھے کون ہے۔"
ان دونوں کے جھگڑے کی شروعات ہوتے دیکھ آغا حسن نے فوراً بات سنبھالی۔
" اچھی بات ہے !! جب معلوم ہو جائے جمشید کے قتل کے پیچھے کون ہے، تو مجھے ضرور بتانا۔ اب میں چلتا ہوں۔"
" کیا مطلب۔۔۔؟ تم جمشید کی تدفین تک نہیں رکو گے؟ "
راشد ملک کے سوال پر سب کی سوالیہ نظریں کردم کی طرف اُٹھی تھیں۔
" نہیں !! یہاں تک آگیا کافی ہے۔ مجھے اور بھی بہت کام ہیں اب چلتا ہوں۔"
کردم نے بے تاثر چہرے سے کہا اور بنا کسی کی طرف دیکھے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ سب حیران نظروں سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے سوائے پاشا کے، جس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
۔********************۔