وہ بازو آنکھوں پر رکھے بیڈ پر لیٹی تھی، جب دروازہ کھلا اور کلون کی خوشبو کمرے میں چاروں جانب پھیل گئی۔
آئینور اس خوشبو سے بخوبی واقف تھی۔ اس لیے ٹس سے مس نہ ہوئی، یوں ہی لیٹی رہی۔
کردم دروازہ کھول کر خواب گاہ میں داخل ہوا۔ ایک نگاہ غلط اس پر ڈال کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
کھٹ پٹ کی آواز پر آئینور نے بازو آنکھوں پر سے ہٹا کر اس کی پشت کو گھورا۔
کردم گھڑی وغیرہ اُتار کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ اس نے ایک نظر آئینور کو نہیں دیکھا تھا۔
آئینور اس کا ایسا رویہ دیکھ کر حیران ہوتی اُٹھ بیٹھی۔ تھوڑی دیر بعد کردم بھی شب خوابی کا لباس بدل کر ڈریسنگ روم سے باہر نکل آیا اور سنجیدہ چہرہ لیے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔
آئینور حیران سی اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے لگا تھا، وہ اس کی طبیعت کے بارے ميں پوچھے گا۔ مگر وہاں تو خاموشی تھی ہنوز خاموشی۔
" نہ پوچھے مجھے کیا۔۔۔؟ کونسا اس کے پوچھنے سے ٹھیک ہو جاؤں گی۔" وہ بڑبڑائی، پھر نہ چاہتے ہوئے بھی کھانے کا پوچھ لیا۔
" کھانا لاؤں؟ "
" نہیں بھوک نہیں ہے۔" کردم نے کہتے ہوئے سیگریٹ سلگا کر ہونٹوں سے لگالی۔
اس کے انکار پر آئینور بھی لعنت بھیجتی دوبارہ لیٹ گئی۔ ایک بار پھر بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔
اُدھر صوفے پر بیٹھا کردم کافی دیر یوں ہی سیگریٹ سلگاتا رہا، جب کہیں جا کر دماغ ٹھنڈا ہوا تو چہرہ موڑ کر آئینور کی طرف دیکھا جو مزے سے بیڈ پر لیٹی آرام فرما رہی تھی۔ وہ اُٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھوں پر رکھا بازو ہٹایا۔
کردم کی اس حرکت پر آئینور کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
" تم کل جھوٹ بول کر کیوں گئی تھیں؟ "
وہ جو اسے کچھ سخت سست سنانے کا سوچ رہی تھی۔ کردم کی بات پر ارادہ ترک کرتی، ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
" کون سا جھوٹ؟ "
" اتنی معصوم تم ہو نہیں، جتنی بن رہی ہو۔ اچھے سے جانتی ہو کس بارے ميں پوچھ رہا ہوں۔" وہ سخت لہجے میں بولا۔ غصّے کے باعث آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں۔
آئینور پہلے تو الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہی لیکن پھر جب کچھ تھوڑا تھوڑا پلے پڑنے لگا تو گہرا سانس لے کر من وعن کل کی ساری رواداد اس کے گوش گزار کر دی۔
" جب تم انہیں اسٹیشن چھوڑ آئی تھیں تو واپس گھر آنا چاہیے تھا۔ وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ "
آئینور کی بات سن کر اس کے غصّے میں مزید اضافہ ہو گیا۔
" کیونکہ میں کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتی تھی۔ تھک گئی ہوں میں اس قید میں رہ رہ کر، مجھے کھلی فضا میں سانس لینا تھا۔ آزادی سے۔"
وہ چلا اُٹھی کہ تبھی ایک شدید درد کی لہر اس کی گردن سے ہوتی دماغ تک جا پہنچی اور سر وہیں سُن ہو گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
چیخ نے کے باعث اس کی گردن کی نس کھینچ گئی تھی۔ جو سر تک سُن کر گئی۔ اسے اپنا وجود بے جان ہوتا محسوس ہوا۔
" کیا ہوا نور؟ "
کردم جو غصّے میں تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر ایکدم نرم پڑا۔
آئینور نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ یونہی سر تھامے بیٹھی رہی۔
" درد ہو رہا ہے؟ "
وہ فکر مند ہوتا اس کے سرہانے آ بیٹھا۔ دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی۔
" لیٹ جاؤ۔"
کردم نے کہتے ہوئے اسے شانوں سے تھام کر لیٹا دیا۔ ایسے کہ آئینور کا سر اس کی گود میں تھا۔ وہ بھی بنا کسی مزاحمت کے خاموشی سے لیٹ گئی۔
کردم اس کا سر سہلاتا ہوا، اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں تکلیف رقم تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ایک بار پھر اس کی تکلیف کا باعث بن چکا تھا۔
۔****************۔
بیرونی دروازے کے باہر کھڑے وہ تینوں شراب پینے کے ساتھ ساتھ اُڑا بھی رہے تھے۔ جب تیز رفتاری سے ایک بلیک مرسیڈیز عین ان کے سامنے آ رکی۔
" ابے !! اتنی رات کو اب یہ کون آیا ہے؟ " رحمت اپنی آنکھوں کو با مشکل کھولتے ہوئے بولا۔
" سالے ڈھکنے !! ہمیں کیا پتہ۔ ہمیں بھی تیرے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔" رحیم اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولا۔
تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ دوشیزہ باہر آئی۔ نازیبا لباس پہنے وہ ایک ادا سے چلتی ان کی طرف بڑھی۔
" ااااے !! یہ تو وہی ہے جو آج دن میں اڈے پر آئی تھی۔" فاروق اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔
" ہاں !! پر یہاں کیا کر رہی ہے؟ " رحیم حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے، اسے دیکھتے ہی تینوں کا نشہ ہوا ہو گیا تھا۔ کیونکہ آئینور کی آمد کے بعد سے ایسی کوئی لڑکی پھر نظر نہیں آئی تھی۔
" دروازہ کھولو۔" لیلہ ان کے پاس آ کر تحکم سے بولی۔
" کیوں ہم تو یہاں ہیں، پھر آپ کو کس سے ملنا ہے؟ " رحمت فوراً آگے آکر بولا۔ تبھی فاروق نے پیچھے سے اس کے ٹھوکا مارا۔
" مجھے کردم نے بلایا ہے اور اپنی حد میں رہو، ورنہ کردم سے کہہ کر وہ حشر کروں گی کہ ہمیشہ یاد رکھو گے۔ اب دروازہ کھولو۔" اس کی دھمکی پر رحمت نے ایک لمحہ لگائے بغیر دروازہ کھول دیا۔
لیلہ ایک نظر ان تینوں پر ڈالتی اپنی مغرور چال چل کر آگے بڑھ گئی۔
" لو جی !! ہم نے بلاوجہ ہی اُس اسلم کی بیٹی کو کردم دادا کی محبوبہ بنا دیا تھا، پر شکر ہے کردم دادا کا دماغ ٹھکانے پر ہے۔" رحمت مزاق اڑانے والے انداز میں بولا تبھی رحیم اور فاروق نے خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر دروازے کو جہاں سے وہ دوشیزہ اندر کی جانب گئی تھی۔
۔***************۔
کردم دھیرے دھیرے اس کا سر دبا رہا تھا۔ سارا غصّہ اس کی تکلیف کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا۔ یہ عام سی لڑکی اسے کتنی عزیز ہو گئی تھی۔ اسے آج معلوم ہو رہا تھا کہ اس کی تکلیف پر وہ اپنی ہر تکلیف بھولنے کے لیے تیار تھا۔ اس کا سر اب بھی بخار میں تپ رہا تھا۔ مگر پہلے کی نسبت اب بخار کم تھا۔
آئینور آنکھیں بند کیے خاموش لیٹی تھی۔ کردم کے لیے یہ جاننا مشکل تھا۔ آیا کہ وہ سو رہی ہے یا نہیں۔
وہ یونہی سر دباتا اس کے چہرے کو تکتا رہا کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔
" آجائیں۔"
اس نے ہاتھ روک کر آواز دی مگر آئینور کا سر اپنی گود میں ہی رہنے دیا، وہ جانتا تھا۔ اس وقت سیما خالہ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی وہ اس کا اچھا بُرا سب جانتی تھیں، تو ان کے سامنے کیسی شرم۔
اس کے اجازت دیتے ہی دروازہ کھلا مگر۔۔۔ خواب گاہ میں آنے والی سیما خالہ نہیں لیلہ تھی۔ اسے دیکھتے ہی کردم کے ماتھے پر بل پڑے۔
" تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ اور کس کی اجازت سے اندر آئیں؟ " وہ غصّے سے بولا۔
کردم کی آواز پر آئینور نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا، جس کی نظریں دروازے کی طرف تھیں۔
آئینور نے بھی چہرہ موڑ کر بائین جانب دیکھا تو ٹھٹھک گئی۔
لیلہ بھی بے یقینی سے آئینور کو دیکھ رہی تھی۔ جس کا سر کردم کی گود میں تھا۔
کردم نے اس کی نظر آئینور پر جمی دیکھ کر ایک بار پھر آئینور کا سر دبانا شروع کر دیا۔
اور لیلہ اس کی حالت تو یوں تھی۔ مانو سدمے سے ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔ کل تک جو لڑکیوں سے اپنے نخرے اُٹھواتا آیا تھا۔ آج وہ ایک لڑکی کے نخرے اُٹھا رہا تھا اور وہ بھی ایک عام سی لڑکی کے۔ لیلہ عش عش کرتی رہ گئی۔
" تم سے پوچھ رہا ہوں یہاں کیا کر رہی ہو؟ "
وہ جو سدمے میں گہری کھڑی تھی۔ کردم کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔
" تم۔۔۔ تم مجھ کو بلا کر اس کے ساتھ رات گزار رہے ہو؟ " لیلہ آئینور کو گھورتی دانت پیس کر بولی۔
آئینور جو پہلے ہی اس کی نظروں سے خائف ہو رہی تھی۔ اس کی بات پر تڑپ اُٹھی۔ اس نے اپنا سر کردم کی گود سے اُٹھانا چاہا مگر کردم کے ہاتھ کا دباؤ مزید اس کے سر پر بڑھ گیا۔ وہ بےبسی سے کردم کو دیکھنے لگی جو مزے سے کبھی اس کا سر دباتا تو کبھی بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگتا۔
" بکواس بند کرو اپنی اور دفاع ہو یہاں سے۔" لیلہ کی بات پر کردم تیش سے بولا۔
" تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے مجھے نکال رہے ہو۔" وہ غرائی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا آئینور کو اُٹھا کر باہر پھینک دے۔
ادھر آئینور کا دل کر رہا تھا۔ دھاڑے مار مار کر روئے۔ وہ رکھ رکھاؤ والی لڑکی جو اپنے لباس اور انداز سے بھی کبھی کمتر نہیں لگی۔ آج اسے دو ٹکے کا بولا جا رہا تھا۔ وہ بھی صرف کردم کی وجہ سے، کردم پر اس کا غصّہ مزید بڑھ گیا۔
" بس !! بہت ہوا۔ خود دفاع ہوگی یا بلواؤں کسی کو اُٹھوانے کے لیے؟ "
کردم کی بات پر وہ غصّے سے پیر پٹختی دروازے سے واپس مڑ گئی۔ اس کے جاتے ہی ایک جھٹکے سے آئینور نے اُٹھ کر خونخوار نظروں سے کردم کو گھورا۔ وہ پہلے ہی بدگمان تھی۔ اب مزید ہو گئی تھی۔
۔*****************۔
لیلہ پیر پٹختی سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ تبھی اس کی نظر نیچے کھڑی سیما خالہ پر پڑی جو تیکھی نظروں سے اسے گھور رہی تھیں۔
" کہا تھا نا۔ واپس لوٹ جاؤ اب تم جیسی لڑکیوں کی دال نہیں گلنی۔"
" ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ تو مجھے ضروری کام ہے ورنہ کردم تو مجھے روک رہا تھا۔" وہ اپنی شرمندگی چھپاتے ہوئے بولی۔
" اووو بی بی !! جھوٹ کسی اور کے سامنے بولنا۔ مجھے اچھے سے معلوم ہے کردم بیٹے نے تجھے ذلیل کر کے نکالا ہے۔"
دیکھو !! تمہاری عمر کا خیال کر رہی ہوں۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔" وہ انگلی اُٹھا کر دانت پیستے ہوئے بولی۔
" تیری تو ایسی کی تیسی۔" کہنے کے ساتھ ہی سیما خالہ اسے بالوں سے پکڑ کر بیرونی دروازے کی جانب گھسیٹتے ہوئے لیجانے لگیں۔
" آاااہ !! چھوڑ چھوڑ مجھے بڑھیا۔" وہ اپنے بال چھڑواتی ساتھ میں چلا بھی رہی تھی۔
" بڑھیا ہوگی تیری ماں۔" سیما خالہ نے کہہ کر اسے دروازے سے باہر دھکا دیا اور فٹ سے دروازہ بند کردیا۔
باہر کھڑے وہ تینوں بھی آنکھیں پھاڑے اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔ لیلہ اپنا سا منہ لے کر وہاں سے کسی بوتل کے جن کی طرح غائب ہوگئی۔
۔****************۔