وقار صاحب، سعدیہ بیگم، سعد موئذ اور مایا اس وقت فہیم کے گھر موجود تھے۔
وہ سب کھانا کھانے کے بعد اب ڈرائینگ روم میں بیٹھے عنایہ اور مویذ کے رشتے کے متعلق باتیں کررہے تھے۔
مایا اور عنایہ کچن میں سب کے لئگ کافی بنانے میں مصروف تھیں۔
" تم لوگ موئذ کو کیوں ساتھ لائے ہو۔ لڑکا تھوڑی ساتھ آتا ہے" عنایہ نے کافی بناتے ہوئے اس سے پوچھا۔
" کیوں بھئی۔ شرم آرہی ہے کیا تمھیں" مایا نے شرارت سے پوچھا۔
" شرم کی بات نہیں ہے یار۔ جنرل بات کررہی ہوں۔ تیری باری میں بھی تو سعد بھائی نہیں آئے تھے نہ" عنایہ نے نظریں چراتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی.
" وہ اس وقت لندن میں تھے ورنہ یہ بات آپ بھی جانتی ہے کہ وہ ضرور آتے" مایا نے مسکراتے ہوئے طنز کیا تو وہ منہ بناتے ہوئے کافی کی طرف متوجہ ہوگئی جو اب بن گئی تھی۔
" کدھر رہ گئی ہے کافی بھابھی جی" وہ کافی کپوں میں ڈال رہی تھی جب اسے سعد کی آوقز سنائی دی۔ خود کو بھابھی کہے جانے لر وہ آخری کپ میں کافی انڈیل کر غصے سے مڑی مگر وہاں سعد کے ساتھ مویذ کو بھی وہاں رکھی کرسی پر بیٹھے دیکھ کر یکدم رک گئی اور واپس مڑ گئی۔ مایا نے غور سے اس کی اس حرکت کو نوٹ کیا تھا اور پھر مسکرا دی تھی۔
" اپنی اور ہماری کافی یہی رکھ دو" سعد نے کہا تو اس نے چار مگ چھوڑ کر باقی کپ ٹرے میں سجائے اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔
" واہ بھئی زبردست۔ کمال ہے۔ تیری شکل دیکھتے ہی اس کی بولتی بند ہوگئی" سعد نے عنایہ کے جانے کے بعد کہا۔
" ہاں بس دیکھ لے تیرے بھائی کی شکل ہی کافی ہے لوگوں کی بولتی بند کروانے کے لئے۔" مویذ نے اپنے کالر اکڑاتے ہوئے فخریہ لہجے میں کہا۔
" ہاں ہاں بس رہنے دے۔ تیری ڈنگروں جیسی شکل دیکھ کر اگلا بندا یہ سوچ کر چپ ہو جاتا ہے کہ اپنی ہنسی روکے یا اس ںیچارے کو جواب دے" سعد نے منٹوں میں اس کا سارا فخر ختم کیا۔ اور موئذ کا سارا فخر واقعی جاگ بن کر اڑھ گیا۔ اس نے شکال بگاڑ کر سعد کو دیکھا۔ جبکہ مایا بے ساختہ ہنس پڑی۔
" ماہی اب تم اپنے بھائی کی بےعزتی پر ہنسو گی۔ افسوس کتنا بدل گئی ہو تم۔" موئذ نے اسے ہنستا دیکھ کر افسوس بھرے لہجے میں کہا تو مایا نے فورا اپنی ہنسی روکی۔
" نہیں نہیں بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں ہے وہ تو ویسے ہی بس۔ اور سعد خبردار جو آپ نے اب بھائی کو کچھ کہا تو" مایا نے فورا مویذ کو جواب دے کر ساتھ ہی سعد کو بھی خبردار کیا تھا۔
" ہاہا۔ بدک گئی ہے۔ کوئی نہیں بدلی۔ ابھی جب ہم فہیم سے عنایہ کی بات کر کے ائے تھے تو میں نے تجھے ڈرپوک بول دیا تھا تب اس نے اتنی زور زور کا مارا تھا مجھے۔ دیکھ نیل بھی پڑ گئے ہے۔" سعد نے اپنا بلکل صاف ہاتھ آگے کرتے ہوئے بے چاری سی شکل بنا کر کہا۔
" بھائی ڈرپوک کہنے پر نہیں مارا تھا۔ اصل بات بتاؤ میں پھر بھائی کو" مایا نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا۔
" مارا تو تھا نہ مجھ معصوم کو۔ اب اس کیوں ویوں جیسے سوالوں میں پڑنے کا کیا فائدہ" سعد نے فورا اسے گھورتے ہوئے کہا۔ تبھی دروازے سے عنایہ اندر داخل ہوئی۔ اس کے پیچھے ہی فہیم اور ندا بھی اپنے ہاتھوں میں کافی کا مگ پکڑے اندر داخل ہوئیں۔
" کون کس کو مار رہا ہے" فہیم نے سود کے دوسری طرف کرس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
" لو آگئے سالے صاحب۔ اب کیسے بات کرے گا تو عنایہ سے" سعد نے مویذ کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشی کی مگر وہ سرگوشی اتنی اونچی ضرور تھی کہ ہر کسی نے ارام سے سنی تھی۔
فہیم نے ایک چپیٹ اس کے سر پر ماری۔
" یار کیا ہے۔ ایک تو سب مجھے کی مارتے رہتے ہیں۔ جاؤ میں نہیں بات کررہا کسی سے" سعد نے ںچوں کی طرح روٹھٹے ہوئے کہا۔ اور پھر ںچوں کی طرح منہ چڑھا کر اتنا جھکا لیا کہ تھوڑی سینے سے لگنے لگی۔ سب سعد کے اس انداز پر ہنس کر اسے دیکھنے لگے۔
یوں ہی ہنستے کھلکھلاتے وقت گزرتا گیا۔
مویذ کے اکیلے پن مو وجہ بنا کر جھٹ منگنی پٹ بیاہ کرنے کا سوچا گیا تھا۔ اس دن ہی ایک مہینے کے بعد کی تاریخ رکھ لی گئی تھی۔ شادی سے ایک ہفتہ پہلے مویذ کی خواہش پر ان دونوں کا نکاح مسجد میں سادگی کے ساتھ سر انجام ہوچکا تھا۔ اب وہ سب برات پر اکھٹے تھے۔
وہ دونوں سٹیج پر اکھٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ موئذ گولڈن کلر کی شیروانی پہنے اور سر پر سفید سہرا سجائے بیٹھا تھا۔ جںکہ عنایہ نے سلور جھلملاتی پیروں تک آتی اسٹائلش فراک پہنی ہوئی تھی۔ سر پر سلیقے سے سلور دوپٹہ جمایا ہوا تھا۔ جس پر باقی لڑکیوں نے اسے سٹیج پر لانے سے پہلے سرخ دوپٹے سے گھونگھٹ نکال دیا تھا۔
جو اب لڑکیاں اسے اٹھانے نہیں دے رہی تھی۔ سعد بھی ان کا پورا ساتھ دے رہا تھا۔ بقول اس کے وہ اپنا ںدلہ لے رہا تھا۔ باقی کرکے سعد کے ساتھ ہی تھے۔ فہیم بھی وہی کھڑا تھا مگر کچھ کہہ نہیں رہا تھا بس مسکراتے ہوئے سب کو سن رہا تھا۔
" پچاس ہزار نکالو اور گھونگھٹ ہٹوالو" یہ ندا تھی۔
" اف یار رہنے دو میں گھر جا کر خود ہی ہٹالو گا" مویذ جو کافی دیر سے ان سب سے لڑ رہا تھا اب بے چارگی سے ہاتھ پیچھے ہٹالئے۔
لڑکیوں نے اسے گھورا۔
" گھر جا کر ہٹا لو گا۔ ہم اسے کہی جانے دے گے تو ہٹاؤ گے نہ" سعد نے فورا آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
" بلکل ٹھیک کہا۔ چلو اتھو آنی۔ یہ تمھارے لئے پچاس ہزار بھی نہیں دے سکتے۔ چھوڑو انہیں ہم کسی اور سے کرواتے ہے تمھاری شادی۔ ڈھونڈنے دو مجھے" مایا نے بھی سعد کی طرفداری کی اور پھر کسی کو ڈھونڈنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔
" ماہی یار۔ مجھے شدید ہنسی ارہی ہے مجھ سے نہیں بیتھا جا رہا اتنی دیر خاموش۔ " عنایہ نے ماہی کی طرف ہوتے کوئے آہستہ سے کہا۔ ماہی اس کے ساتھ ہی اس کا گھونگھٹ پکڑے بیٹھی تھی۔
" پاگل ہو کیا۔ چپ کر کے ںیٹھی رہو۔" ماہی نے اسے ڈانٹا۔
"فکر نہیں کرو آنی۔ گھر جا کر جتنا مرضی بولنا۔ ان ظالم سماج کے ہوتے ہوئے ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ نہ بول سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں۔" موئذ نے عنایہ کی بات سن لی تھی۔ اس نے بھی آہستہ سے اسے جواب دیا۔ اسے سن کر عنایہ کی ڈھرکنیں تیز ہوئی۔ وہ لاشعوری طور پر خود میں سمٹ سی گئی۔
" اچھا چلو۔ دس ہزار فائنل" یہ حازق کی آواز تھی۔ وہ لوگ ہنوز لڑرہے تھے۔
بلکل بھی نہیں دس ہزار ہم ہم کرسکتے ہے پچاس ہزار میں سے۔ یعنی چالیس ہزار۔" سعد نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
" پچاس ہزار کا تو یہ دوپٹہ بھی نہیں ہے۔ کس بات کے تو پچاس ہزار مانگ رہا ہے" یہ زمان تھا۔
" کیوں۔ آپ کیا رقم معلوم کر کے آئے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں" ندا نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اس سے پوچھا۔
" ہاں نہ۔ کیا پتہ کی ہو۔ تمھیں کیا پتہ" شارق نے بھی حصہ ڈالا۔
" اچھا تو بتائیں کہاں سے کی ہے آپ نے قیمت معلوم اس دوپٹے کی جس کا آپ کو اب سے پہلے تک پتہ بھی نہیں تھا۔" مہک نے بنھویں اچکا کر پوچھا۔
" جب تم آنی گھونگھٹ اوڑھا کر لا رہی تھی نہ تب ہی مجھے پتہ۔چل گیا تھا کہ آپ پیسے مانگنے والی ہے۔ اسی لئے میں نے پہلے ہی کال کر کے معلوم کرلی تھی اس کی پرائز" حازق نے ایسے کہا جیسے کوئی بہت بڑا مہرکہ سر انجام دیا ہو۔ جبکہ اس کی بات پر سب لڑکیاں یک دم ہنس پڑی۔
لڑکوں نے انہیں حیرت سے دیکھا۔
" حد ہوگئی ویسے جھوٹ کی بھی ۔ یہ دوپٹہ سونیا آنٹی کی شادی کا ہے جن کا انہیں بھی نہیں پتہ کہ ان کی ساس نے یہ کہاں سے لیا تھا" ماہی نے ہنستے ہوئے بتایا تو لڑکے سر کھجاتے رہ گئے.
" چلو اب پیسے نکالو۔ مہک نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
مگر لڑکے مسلسل منع کرتے رہے۔ اور پھر نیچے آتے آتے لڑکیوں نے بیس ہزار پر فل اسٹاپ لگا دیا تھا۔
اور دونوں میں سے کسی ایک چیز کی قربانی مانگی تھی۔
" آنی یا بیس ہزار" جس پر موئذ کو بیس ہزار نکالنے ہی پڑے۔
اسی طرح دودھ پلائی میں بھی خوب ہنگامہ ہوا۔ یوں ہنستے کھلتے ایک اور دن کا اختتام ہوا تھا۔
عنایہ کافی دیر سے موئذ کے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی۔ مویذ کے گھر والوں میں سے کوئی تھا نہیں اس لئے سب دوست ہی ڈیرہ جما کر بیٹھے ہوئے تھے۔ فہیم کو بھی ساتھ گھسیٹ لائے تھے۔ اب وہ سب نہ موئذ کو کمرے میں آنے دے رہے تھے نہ ہی عنایہ کو باہر۔
کمرے میں گلاب کے پھولوں کی مہک رچی ہوئی تھی۔ بیڈ کی پشت پر پوری دیوار کو گلاب کے بوکوں سے سجایا گیا تھا۔ بیڈ پر گویا گلابوں کی چادر بچھی تھی۔ سائیڈ پر بنی الماری پر کافی سارے چھوٹے چھوٹے کارڈز لگائے گئے تھے۔ ہر کارڈ کے ساتھ ایک گلاب کا پھول بھی لگا ہوا تھا۔ اس نے وہ کارڈز اب تک نہیں پڑھے تھے ۔
عنایہ کو شدید گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی۔ شاید پھولوں کی اتنی تیز مہک سے یا پھر نئی زندگی کے شروعات کے پہلے دن سے۔۔!!
عنایہ اب چپ رہ رہ کر بھی اکتا چکی تھی۔ اس کا ایک پل کو دل کیا کہ وہ بھی باہر چلی جائے۔
لیکن ابھی اس نے سوچا ہی تھا کہ دروازہ کھول کر موئذ اندر داخل ہوا۔ عنایہ فورا سیدھی ہو کر بیٹھی۔ ڈھرکنیں یک دم ہی بےتحاشہ تیز ہوئی تھی۔ پلکیں جھک گئی تھی۔
مویذ نے اندر آکر اپنا سہرا اتارا اور شیروانی کے بٹن کھولتا بیڈ کے پاس آکر رکا۔
" تمھیں میرے بیڈ پر بیٹھنے کی اجازت کس نے دی ہے" چند لمحوں بعد اس کا سنجیدہ لہجہ اس کے کانوں سے ٹکرایا۔ عنایہ کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ اس نے نظریں اٹھا کر سامنے کھڑے خود کو خطرناک نظروں سے گھورتے موئذ کو دیکھا۔
" کیا" وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
" یہی کہ اترو میرے بیڈ سے اور دوسرے کمرے میں جا کر سو۔ اور خبردار جو آئیندہ میرے سامنے آنے یا میری کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی کوشش کی۔ " موئذ ایک ایک لفظ چبا چںا کر بول رہا تھا۔ عنایہ بے یقینی سے اسے دیکھے گئی۔
" کیا۔۔کیا۔۔۔ مطلب۔ آپ یہ بات کیسے کررہے ہے" وہ صدمے کی سی کیفیت میں بولی تھی۔
" ویسے ہی کررہا ہوں جیسے تم سے کرنی چاہیے۔ تم کیا سمجھ رہی تھی۔۔ بہت پیار کرتا ہوں میں تم سے۔ ملکہ بنا کر رکھو گا میں تمھیں۔ تو یہ صرف سوچ ہے تمھاری۔ ہاں محبت کرتا تھا میں تم سے۔ مگر جب سے فہیم نے میری بہن کو اغوا کروایا اس کے رشتے ریجیکٹ ہونے شروع ہوئے تب ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ اب چاہیے کچھ بھی ہوجائے میں اس سے انتقام ضرور لوں گا۔ تب سے اب تک صرف دکھاوے کے لئے ہی میں تم سے اچھے سے پیش آتا رہا ہوں۔ کیا لگتا ہے اسے بس ایک بار معافی مانگے گا اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں معاف کردوں گا سب۔ اپنی بہن کی بدنامی، ذلالت سب بھول جاؤ گا۔اتنے عرصے میری بہن نے اس کی وجہ سے ذلالت اٹھائی۔ اسے ذلیل کیا گیا۔ بدنام کیا گیا۔ بدکردار کہا گیا۔ اس نے میری بہن کو تکلیف پہنچائی میں اس کی بہن کو پہنچاؤ گا۔ چن چن کر بدلہ لوں گا میں۔ سب بھولنا اتنا آسان نہیں ہوتا!!" موئذ کاٹ دار لہجے میں کہہ رہا تھا۔ اس کا ہر لفظ عنایہ کا دل ٹکروں میں کاٹ رہے تھے۔ اس کی سنگینی کی سامنے وہ کچھ کہہ ہی نہ پائی۔ سب الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے۔ بے تحاشہ آنسو اس کے گالوں پر ایک ساتھ لڑکھے۔ مویذ اب دوسری طرف منہ کئے اپنی شیروانی اتار کر رکھ رہا تھا۔ شیروانی اتار کر وہ مڑا تو اسے روتے دیکھ کر فورا اس کی طرف بڑھا۔
" آنی آنی۔۔ ںات سنو۔۔۔ سوری سوری یار مزاق کررہا تھا ۔۔ میں تو سمجھا تھا تم مجھ سے لڑو گی۔۔ پر تم تو رو رہی ہو۔ اچھا نہ پلیز چپ تو کرو۔ سوری آئیندہ بلکل بھی ایسا مزاق نہیں کرو گا۔ اب مجھے کیا پتہ تھا کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو۔ سنو تو" وہ مسلسل اسے منانے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ منہ دوسری طرف پھیرے آنسو بہاتی رہی جو رکنے میں ہی نہیں آرہے تھے۔ موئذ نے اس کے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر اس نے جھٹکے سے چھڑوالئے۔ مگر اس کی آخری بات پر چہرہ اس کی طرف موڑا۔
" محبت۔۔۔ محبت۔۔۔ محبت کا لفظ تمھاری زبان سے اچھا نہیں لگ رہا۔ محبت میں ایک احساس نام کی چیز بھی ہوتی۔ مزاق میں ایک حد بھی ہوتی ہے۔ کسی کے جذبات اور احساس کا مزاق اڑانا کسی کے قتل کرنے کے برابر ہے۔ تم نے آج میرے جذبات کا قتل کیا ہے۔ میں اس کے لئے تمھیں کبھی معاف نہیں کرو گی۔" عنایہ نے دل ہلکا کیا اور آنسو صاف کرتی اتھ کر جانے لگی تو موئذ نے جلدی سے اسے پکڑ کر عاپس بٹھایا۔
" اچھا نہ۔ پلیز۔۔۔ آئیندہ واقعی میں ایسا نہیں کرو گا۔ مجھے سچ میں لگا تھا کہ تم لڑو گی۔ مجھے زرا سی بھی انداذہ نہیں تھا کہ تم یوں دک چھوٹااااا سا کرکے رونے بیٹھ جاؤ گی۔ " مویذ نے پھر منانے کی کوشش کی۔ اب کی بار اس نے ایک نظر موئذ پر ڈال کر چہرہ واپس پھیر لیا تھا۔ مویذ مسکرایا۔
" اچھا سنو۔" موئذ نے دوبارہ بلایا تو اس نے کچھ کہا نہیں بس اسے دیکھنے لگی۔
" میں نے تمھارا ایک اور نام رکھا ہے۔ اور اس نام سے صرف میں تمھیں بلاؤ گا" مویذ نے اس کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ اس نے ہاتھ نہیں چھڑایا تھا۔
" عنا" موئذ نے اس کی پرف زرا سا جھکتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔ عنایہ کو نام پسند آیا تھا مگر اس سے ناراضی جتانے کے لئے اس نے اب بھی کچھ نہیں کہا تھا۔
" اچھا اب بس کرو نہ۔ عنااا۔۔۔ پاجی کبھی ہنس بھی لیا کرو" موئذ نے شرارت سے کہا تو عنایہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔ مویذ نے مطمئن انداز میں سر اس کی گود میں رکھ دیا۔ عنایہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
یوں ان کی زندگی کی خوبصورت ابتدا ہوئی تھی۔
سب دوستوں پر فہیم اور ندا، سعد اور مایا، موئذ اور عنایہ کی شادیوں کی ٹریٹ پینڈنگ تھی۔ فہیم کی باری تو سب نے قطع تعلق کرلیا تھا جبکہ سعد نے ان دونوں کے ساتھ موئذ کی شادی کے بعد کی دینے کا کہا تھا۔پھر سب نے موئذ کے ولیمے کے ایک ہفتے بعد جانے کا پروگرام طے کرلیا تھا اور وہ سب ناران، کاغان کی سائیڈ پر ایک مہینے کے ٹور پر آچکے تھے۔ سردیوں کی وجہ سے وہاں کا مزا دوبالا ہوگیا تھا۔ انہیں وہاں آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔
اس وقت وہ سب لوگ جھیل سیف الملوک پر موجود تھے۔ وہاں وہ سب جھیل کے پاس ہی دری بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ جس پر بیڈمنٹن، کارڈز، لڈو اور اس طرح کی دو تین اور بورڈ گیمز اور کھانے پینے کی اشیاء موجود تھی۔ سب لڑکے ابھی بیڈمنٹن کھیل کر بیٹھے تھے جبکہ لڑکیوں نے ان کے آنے کے بعد جلدی سے اپنی لڈو بھی ختم کی تھی ورنہ وہ لوگ کھیلنا مشکل کر دیتے۔
بھوک لگنے پر وہ لوگ اب کھانے کے ساتھ ساتھ منظر سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔
" حازق تو کب شادی کررہا ہے اب۔ تیرے سے فو اب ہم نے سویٹزر لینڈ کی ٹریٹ ہی لینی ہے" شارق نے حازق کو دیکھتے ہوئے کہا۔
" اپنی بھابھی سے پوچھ لوں۔ میری اتنی مجال کہ میں ان کی مرضی کے بغیر کچھ کرو۔" حازق نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ مہک نے غصے سے کچھ کہنا چاہا مگر سعد اس پہلے ہی بول پڑا.
"بڑا ہی رن مرید ہے تو۔ شادی ہوئی نہیں پہلے ہی بیوی کا غلام ںن گیا ہے" سعد نے طنزیہ کہجے میں کہا۔ مہک نے پھر کچھ بولنا چاہا مگر پھر اس سے پہلے حازق بول پڑا۔
" یار تو جانتا تو ہے تیری بھابھی ہے ہی اتنی ڈراؤنی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اس کی بات ماننا پڑتی ہے نہیں تو یہ کسی دن اپنے ان چڑیلوں جیسے لمبے ناخنوں واکے ہاتھ سے میرا گلا دبا دے گی" حازق نے بے چاری سی شکل بنا کر کہا تو مہک غصے سے انہیں گھورنے لگی۔ مگر وہ ایسے باتیں کررہے تھے جیسے مہک کی نہیں کسی اور کی باتیں کررہے ہو۔
" تو یار تو کیوں اس غلامی کے چکر میں پڑ کر اپنی زندگی خراب کررہا ہے۔ تجھے تو اس سے بھی زیادہ خوبصورت، اس سے بھی زیادہ حسین، اور ذہین لڑکی مل جائے گی۔ چھوڑ اس بھوتنی اور اس کی غلامی کو" زمان نے بھی بولنا اپنا فرض سمجھا۔
" ہاں یار بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے تو۔ ایک نمبر کی بھوتنی ہے۔ اور شادء پر اتنی پاگل لگ رہی تھی وہ مجھے۔ میں سوچ رہا ہوں۔ دوسروں کی شادی پر اتنا میک اپ استعمال کرتی ہے۔ اپنی شادی پر تو پوری کی پوری آٹے اور سرخی پاؤدر میں نہا جائے گی۔ سوچ اگر اس دن اسے دیکھ کر میرا ہارٹ فیل ہوگیا تو۔ نہ بھئی۔۔ اس سے اچھا تو میں واقعی کسی اور کو ڈھونڈ لوں۔ " حازق نے ہاتھ جھلاتے ہوئے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔ اس کی بات سن کر سب لڑکوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ جس پر مہک سے رہا نہ گیا اور اس نے وہاں پڑی ہر چیز کو بنا دیکھے اپنا ہتھیار بنا کر انہیں مارنے لگی۔جس پر وہ سب لڑکے اٹھ کر اپنی جگہ سے بھاگے۔ باقی تینوں لڑکیاں پیٹ پکڑ کر ہنستی چلی گئی۔
" بول تو ایسے رپے ہو جیسے میں نے کہا تھا نہ ک شادی کرو مجھ سے۔ اب بھاگ کیوں رہے ہو۔ ہمت ہے تو جواب دو" مہک نے حملے کرتے ہوئے کہا۔
" یار اب کیا جواب دوں۔ غلطی سے mistake ہوگئی" حازق کہہ کر زیادہ تیزی سے بھاگا۔ پیچھے سے اب ندا، عنایہ اور مایا بھی مہک کا ساتھ دینے لگی تھی۔ اب لڑکے اگے آگے اور لڑکیاں ان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
انہوں نے اللّٰہ کے ہر فیصلے کو دل سے قبول کیا تھا۔ ہاں جب کبھی ہم اپنے نفس کے اثر میں اجاتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یا ہم یہ سوچ جاتے ہیں کہ خداناخستہ اللّٰہ نے ہمارے لئے برا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا دل توڑ دیا ہے۔ہماری محبت چھین لی ہے ہم سے۔ روتے دھوتے ہر اچھا سا اچھا انسان بھی ایک دفعہ ایسا سوچتا ہی ہے۔ شکوہ کرجاتا ہے اللّٰہ سے۔ مگر جن لوگوں نیں احساس ہوتا ہے۔ وہ فورا دل ہلکا کرنے کے چکر میں کی گئی غلطیوں کی معافی مانگ لیتے ہے۔۔!! یہ سوچ کر کہ جب ایک ماں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا بچہ غلط ہے اسے معاف کردیتی ہے تو وہ تو پھر ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔ وہ تو آپ کی معافی مانگنے کی نیت کو ہی قبول کرلیتا ہے۔ اور پھر جب وہ وقتی فیصلہ آگے کی پوری زندگی کے لئے ایک بہترین فیصلہ ثابت ہوتا ہے تو ان کا ایمان، ان کا یقین اپنے رب پر مزید پختہ ہوجاتا ہے۔
زندگی جینے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اور یہ لطف صرف وہی لے سکتے ہیں جنہیں اپنے رب پر بھروسہ ہو۔ جس کے دل میں سب سے پہلی محبت اپنے اللّٰہ سے ہو اس کا دل کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتا۔ ہمارا دل بنانے والا وہ رب اپنے بندے کا دل کیونکر توڑے گا!!!.
یہ ان سب کا یقین ہی تھا جو آج یہ زندگی گزار نہیں رہے بلکہ جی رہے ہیں!!
ہنسنا اور ہنسانا ان کی فطرت ہے۔۔ خوبصورت فطرت۔۔۔!!
ہر دن کو جینا اور سنوارنا ان کی عادت ہے۔۔۔
پرانی عادت۔۔۔!!
یہ وہ لوگ ہیں جو راہ تقدیر میں اگے پھولوں کے ساتھ لگے کانٹوں کو بھی پھولوں بنادیتے ہیں.. یہ ان کی خوبی ہے۔۔۔
بہترین خوبی۔۔۔!!
اور پھر یہی لوگ اللّٰہ کی ہدایات کے مطابق اس راہ پر چلتے خوبصورت منزل پالیتے ہیں!!
منزلِ تقدیر!!!
دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔۔۔!!
The End