" مایا" موئذ نے مایا کو آواز دی تھی۔
اندر وہ سعد کی آواز تو سن ہی چکی تھی اس کئے دوپٹہ کے کر باہر آئی۔ وہ اس بار بدکردار نہیں ٹہرنا چاہتی تھی وہ بھی سعد کے سامنے۔ ہر بار ہر رشتے پر یہی تو ہوا تھا۔ ہر شخص نے ایسے ہی تو اسے ذلیل کیا تھا۔ مگر اب اس نازک موقعے پر نہیں ہونا چاہتی۔
وہ وہاں باہر مجرموں کی طرح آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ سعد نے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا۔
" مایا۔ سنو۔ ادھر مجھے دیکھو۔ بلکل ریلیکس رہو اور جو میں پوچھنے لگا اس کے جواب مجھے بلکل ریلیکس انداز میں دو۔ موئذ کی پرواہ کئے بنا" سعد کو یقین تھا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرسکتی اسی لیے بس ایک بات پوچھ کر وہ موئذ کے ساتھ جا کر اس کا کام تمام کرنا چاہتا تھا۔
" جی" آنسو کا گولا اس کے حلق میں پھنسا تھا مگر سعد کی بات اور لہجہ سن کر اسے کافی ڈھارس ملی تھی۔
" تم میرے ساتھ شادی اپنی پوری رضامندی، خوشی اور ایمانداری سے کررہی ہو نہ۔ تمھیں مجھ پر پورا یقین ہے نہ" سعد نے نرم لہجے میں پوچھا۔
" " بلکل۔ پورا یقین ہے مجھے آپ پر۔ میں بلکل خوش ہو آپ سے شادی پر" اب کی بار اس نے پراعتماد لہجے میں کہا تھا۔
" چلو پھر اپنا موبائل مجھے دو اور اپنا سامان اٹھاؤ جو پارلر لے کر جانا ہے۔ موئذ اٹھ آج اس شعیب کا قصہ بھی تمام کر کے آئے۔ فون ملا سب کو۔ اس کو فہیم کے گجر چھوڑتے کے وہی سے سب لڑکیوں نے پارلر جانا تھا نہ۔ میں پیچھے اپنی گاڑی میں آرہا ہوں۔ جلدی کرو" سعد نے اب کے مسکراتے ہوئے موئذ کو اٹھایا تھا۔ مایا اندر بھاگ گئی تھی۔
" کیا کیا اب اس نے بتا مجھے چھوڑو گا نہیں میں اب اسے" موئذ نے یک دم غصے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
" کچھ نہیں بھئ تو ریلیکس رہ۔ میں نے سب سوچ لیا ہے۔ تو بس جلدی کر اب ٹائم نہیں ہے" سعد نے اسے ریلیکس کیا تبھی مایا بھی وہی اگئی۔ چونکہ سعد کے آنے سے پہلے وہ لوگ نکل ہی رہے تھے اسی لئے سب تیار تھا۔
" مایا بلکل بھی پریشان مت ہونا۔ بس تھورا سا مسئلہ ہے ہم نپٹا کر سیدھا ہال ہی آئے گے انشاء اللہ" سعد نے مایا کو باہر اتے دیکھ کر کہا تھا۔ اور پھر وہ لوگ چلے گئے تھے۔
اور اب تقریباً دو گھنٹے بعد وہ۔لوگ ایک ویران سی جگہ پر کھڑے تھے۔ جہاں کچھ دور ایک گھر تھا۔ آس پاس سوائے خالی پلاٹز کے اور کچھ نہ تھا۔
وہاں پولیس کی دو تین گاڑیاں بھی کھڑی تھی۔
سعد نے فہیم سے کہہ کر اپنے ذرائعے استعمال کرتے ہوئے ایک پولیس آفیسر سے مدد لی تھی۔ فہیم کے پاس شعیب کا نمبر موجود تھا۔ اسے بہانے سے فون کر کے پولیس کی مدد سے اس کو ٹریک کرلیا تھا۔ اور ٹریک کرنے کے بعد وہ یہاں اس وقت اس کے گجر کے باہر موجود تھے۔ سعد نے ان تصویروں کو بھی ایڈیٹیڈ ثابت کردیا تھا جو شعیب نے اسے بھیجی تھی۔ اب پولیس اس کے گھر پر چھاپا مارنے کی نیت سے باہر موجود تھی۔ سب انتظام ہونے کے بعد پولیس نے گھر پر چھاپا بھی ماردیا۔ وہ سب دور سے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے۔
کچھ ہی خیر بعد وہاں سے شعیب، آصف اور ان کے ساتھ ایک اور انتیس تیس سال کا لڑکا بھی پکڑا گیا تھا۔ وہ وہاں انتہائی شرمناک حالت میں ملے تھے اور ساتھ ہی ان کے گھر سے ڈرنکس اور ڈرکز کا ایک ذخیرہ برآمد ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر وہ اور چوش ہوئے تھے۔ آج فائینلی یہ چیپٹر بھی کلوز ہوا تھا۔
وہ سب لوگ اس کام نپٹا کر تقریب شروع ہونے کے جافی دیر بعد وہاں پہنچے تھے۔ ابھی انہیں آئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی۔ اس وقت وہ سب سٹیج پر موجود تھے۔ سعد نے بلیک شلوار قمیض پر ریڈ ویسکوٹ پہنی ہوئی تھی۔ کلائی پر خوبصورت ریڈ اور بلیک کومبینیشن کی گھڑی باندھے اور پیروں کو پشاوری چپل میں قید کئے۔ بالوں اور داڑھی کو خوبصورتی سے سیٹ کیے وہ بہت ہی وجئہہ لگ دہا تھا۔ جبکہ باقی سب نے بھی بلیک شلوار قمیض پر وائٹ ویسکوٹ پہنی ہوئی تھی۔
وہ سب باتوں میں مصروف تھے جب وہاں نکاح خواہ اور ان کے ساتھ وقار صاحب آتے دیکھائی دئے۔ نکاح خواہ کو دیکھ کر فہیم اور موئذ سٹیج سے اتر کر انکے پیچھے بڑھ گئے جو برائیڈل روم کی طرف جا رہے تھے جہاں مایا، عنایہ، مہک اور ندا کے ساتھ سعدیہ بیگم بھی موجود تھی۔
وہ چاروں مرد اندر پہنچے تو لڑکیاں سائڈ پر ہو کر کھڑی ہوگئی تھی۔ سعدیہ بیگم مایا کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی جبکہ مولوی صاحب سامنے رکھںی کرسی پر بیٹھ گئے تھے اور اپنے ساتھ لائی چیزیں اور کاغذات میز پر رکھے۔ موئذ آگے بڑھ کر مایا کے ساتھ صوفے کے ہتھے پر چڑھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کی اس حرکت پر عنایہ، فہیم اور سعدیہ بیگم مسکرائے تھے۔
اور پھر مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا۔
" مایا بنت ولید کیا آپ کو سعد بن وقار عوق پچاس ہزار حق مہر اپنے نکاح میں قبول ہے؟"
یہ سن کر اسے اپنی ڈھرکنیں تیز کوتی محسوس ہوئی۔
آج فائنلی اس کی محبت اسے محرم بنا کر دے دی گئی تھی۔
اس نے کبھی آج تک اللّٰہ کے سامنے ایک نامحرم کی خواہش نہیں کی تھی۔ ایک نامحرم کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ اس نے نامحرم محبت پر حقیقی محبت کو ترجیعی دی تھی۔
اور پھر ایسا ہو نہیں سکتا کہ اللّٰہ اپنے محبوب بندے کو اس کی محبوب چیز عطا نہ کریں۔
وہ اس وقت خود کو دنیا کا خوشنصیب انسان محسوس کررہی تھی۔
سعدیہ بیگم نے اس کا ہاتھ دبایا تو اسے ہوش آیا۔
" قبول ہے" اسے یہ کہتے ایک پل کو وہم کا گماں ہوا تھا
" قبول ہے" مگر پھر حقیقت میں آتے اس نے تیز ہوتی ڈھرکنوں سے کہا تھا
" قبول ہے" اور پھر وہ اس کا ہوگیا تھا۔ ہمیشہ کے لئے اس کا لکھ دیا گیا تھا۔
یہ کہنے کے بعد مولوی صاحب نے اس کے سامنے پیپرز کئے تھے اور انگلی رکھ کر اسے سائن کرنے کی جگہ بتائی تھی۔
اس وقت اسے موئذ یاد ایا۔ اپنے ماں باپ یاد ائے۔ سائن کرتے اس کا ہاتھ کانپا تھا۔ آنسو بے اختیار بہنے لگے۔ اس وقت اسے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا۔ رخ موڑ کر دیکھا تو موئذ زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے تسلی دے رہا تھا۔ اور پھر سائن کروانے کے بعد وہ لوگ وہاں سے نکل گئے۔ موئذ بھی باہر چلا گیا۔
سعدیہ بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگا کر اسے تسلی دی تھی۔ پیار دیا تھا۔ وہ اس پل کو اچھے سے جانتی تھی۔ اور پھر باری باری سب نے اٹھ کر اسے گلے لگایا تھا۔
دوسری طرف باہر اب سب مرد حضرات سعد کے گرد اکھٹے تھے۔ مولوی صاحب سعد کے صوفے کے ساتھ رکھے صوفے پر بیٹھے تھے اور وقار صاحب سعد کے ساتھ بیٹھے تھے۔ باقی سب بھی جس کو جہاں جگہ ملی وہاں بیٹھ گیا تھا۔
سامنے میز پر نکاح نامہ پڑا ہوا تھا۔
مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا۔
سعد بن وقار کیا آپ کو مایا بنت ولید اپنے نکاح میں حق مہر پچاس ہزار کے ساتھ قبول ہے"
" قبول ہے"
"قبول ہے"
"قبول ہے"
یہ بولتے اس کے چہرے پر عجیب خوشی کی چمک تھی۔ لبوں پر گہری مسکراہٹ جو روکے نہیں رک رہی تھی۔ اور دل میں گہرا اطمینان۔ چوبصورت اطمینان۔ دل الگ ہی انداز میں ڈھڑک رہا تھا۔ ایسے پہلے تو کبھی نہ ہوا تھا۔ سعد حیران بھی ہوا تھا۔
وہ تو سمجھا تھا کہ وہ ندا کے علاوہ کبھی مکمل طور پر کسی اور کا نہیں ہو پائے گا۔ کبھی کسی اور کو مکمل اپنا نہیں پائے گا۔ اگر کسی کو اپنا بھی لیا تو دل میں ندا کے نام کی کھسک رہے گی۔ مگر ایسا تو کچھ نہ ہوا تھا۔ ندا کا تو کہیں دور دود تک خیال بھی نہیں تھا۔ خیالوں میں تو بس مایا چھائی ہوئی تھی۔
جیسے بنا بلائے، بنا بتائے وہ اس کے دل کے مکان میں گھس آئی تھی اور وہ اسے نکال بھی نہ پا رہا تھا۔ وہ اللّٰہ کا مشکور تھا جس نے اسے ایک صاف دل والی لڑکی عطا کی تھی۔
ادھر مایا عنایہ کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی تھی جب باہر سے فارغ ہو کر مویذ اندر آیا۔ اس کے اندر آنے پر عنایہ نرمی سے مایا کو خود سے علیدہ کرکے اٹھ کر باہر چلی گئی جبکہ مایا ٹرپ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ موئذ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تو وہ بھائی کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
" بس کرو میری جان۔ میری گڑیا۔ دور تھوڑی جارہی ہو تم مجھ سے۔ ہمیشہ یہاں میرے پاس رہو گی تم۔ سعد ہمیشہ تمھیں خوش رکھیں گا انشاء اللہ۔ وہ تمھیں اگر تنگ کریں تو فوراً مجھے بتانا ہے سمجھی" موئذ نے اسے بہلانے کی اپنی کی سی ایک کوشش کی۔ اس نے اسے خود سے الگ کرنا چاہا مگر وہ اور زیادہ اس سی لپٹ گئی۔
" بھائی۔ امی۔۔ ابو" سسکیوں کے درمیان بمشکل وہ بس یہی بول سکی۔ اور موئذ جو خود کو بمشکل رونے سے روک رہا تھا اب رہ نہ سکا اور وہ بھی رو دیا۔ اس نے مایا کو زور سے خود میں بھینچا۔
' بھائی۔ بھائی وہ بھی یہاں ہوتے۔۔ وہ۔۔ وہ۔۔ کتنا خوش ہوتے۔۔ مجھے۔۔ یوں۔۔ یوں دلہن بنا دیکھ کر۔۔۔ وہ بھی مجھے پیار کرتے۔ " وہ ہچکیوں کے ددمیان بول رہی تھی۔
وہ دونوں روتے رہے۔ پھر کچھ دل ہلکا ہونے پر اس نے اپنے آنسو صاف کئے۔
" اللّٰہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔ اور ہمارے اعمال بھی نیک کرے تاکہ ہم بھی وہاں جا کر ان سے مل سکیں۔ میری گڑیا۔ میری جان۔ بس اب اور نہیں رونا۔ تم اس طرح رو کر مجھے اور انہیں تکلیف دے رہی ہو۔ آج کے دن تو وہ بھی چوش ہوگے۔ کیا تم چاہتی ہو کہ انہیں تمھارے رونے سے تکلیف ہو" مویذ نے اسے خود سے علیدہ کرکے اس کے انسو واف کرتے پوئے پوچھا تو اس نے فورا نفی میں سر ہلایا اور خود بھی اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔ مویذ نے مسکرا کر اس کی پیشانی چومی۔ ساتھ ہی سب لڑکے لڑکیاں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔
" چلو بھئی ماہی۔ ہم سب تمھادے بہن بھائی تمھیں اس شیطان کے پاس لے جانے آئے ہے" حازق نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا تھا۔
" ہاں ہم سب تمھارے بھائی ہے۔ اگر سعد نے تمھیں زرا سا بھی تنگ کیا تو ہمیں بتانا ہم دیکھ لیں گے اسے۔ سمجھی" معصب نے بھی اگے بڑھ کر کہا۔ مایا نے نم آنکھوں سے سب مو دیکھا۔ وہ اب بھی وقفے وقفے سے ہچکیاں لے رہی تھی۔ عنایہ نے آتے ہی اسے صوفے پر بٹھا دیا تھا اور اب پانی پلا رہی تھی۔
" ہاں چلو اب بس کرو یہ رونا دھونا۔ پہلے ہی ان نمونو نے اتنی دیر لگا دی یہاں آنے میں۔ اب رو دھو کر ٹائم نہ ذائع کرو۔ باہر سعد بےچارا ٹرپ رہا ہے آپ کو دیکھنے کے لئے" مہک نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے کہا تھا۔ مویذ بےچارے کا بھی اس نے کوئی خیال نہیں کیا تھا۔
" تم کو ہو گی نمونی" حازق نے اس کی بات پر غصے سے جواب دیا۔
" ہاں تو تم نے ہی اس نمونی کو پسند کیا ہے" مہک نے اترا کر کہا تو سب ہنس پڑے جبکہ حازق چپ کا چپ رہ گیا۔
انہوں نے آکر لمحوں میں ہی افسردگی کو ختم کردیا تھا۔
" چلو اٹھو اب جلدی کرو ورنہ ڈانٹ پڑے گی اب ہم سب کو۔
اور پھر وہ سب اسے لال دوپٹے کے سایے میں باہر لے جانے لگے۔ اس نگ بلیک شرارے پر بلیک شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اوپر بلیک دوپٹے سے ہی گھونگھٹ نکالا گیا تھا۔
دوپٹے کو لڑکوں نے پکڑا ہویا تھا جبکہ لڑکیاں مایا کے ساتھ چل رہی تھی۔ سعد انہیں دیکھ کر بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
وہ سب چلتے ہوئے سٹیج پر آگئے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ایک ساتھ صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سب دوست ان پر لٹکے ہوئے تھے۔
" سعد بیٹا۔ یہ بار بار مایا کو دیکھ کر ہنسنا بند کر نہیں تو موئذ تیری بتیسی توڑ دے گا" فہیم نے سعد کا منہ بند کرتے ہوئے کہا تو مویذ نے بھی ساتھ دینے کے لئے اسے مکہ دکھایا۔
" ہیں ہیں کیوں۔ بیوی ہے وہ میری۔ میری مرضی میں اسے دیکھ کر ہنسو یا رو۔۔ تیکو کیا مسئلہ ہے۔" سعد نے انہیں گھورتے ہوئے کہا اور اچانک شرارت سوجھنے پر وہ بلکل مایا کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور موئذ کو دانت دکھائے۔ جبکہ مایا نے گھبرا کر عنایہ کو دیکھا۔ باقی سب ہنس پڑے۔ مویذ فورا پیچھے سے آگے اس کی طرف آیا۔
" اٹھ اوئے چھچھورے۔ بیوی وہ تیری ہوگی بعد میں۔ ابھی وہ میری بہن ہے" مویذ نے فہیم کے ساتھ مل کر زبردستی بازو سے پکڑ کر اسے اٹھا دیا اور خود اس کی جگہ بیٹھ گیا۔
" کیا مطلب بھئی۔ پہلے وہ میری ںیوی ہے پھر کسی اور کی کچھ اور" سعد نے اگے بڑھ کر مویذ کو اٹھانے کی ناکام کوشش کی۔
" ہاں تو نکاح ہوا ہے نہ۔ رخصتی تو نہیں ہوئی نہ" موئذ نے مایا کے کندھوں مے گرد بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔ سعد نے سب مو بے چارگی اے دیکھا مگر انہیں ہنستا دیکھ کر وہ پاؤں پٹخ کر وہاں سے چلا گیا۔
" اوو منڈا تو برا مان گیا۔" حازق نے پیچھے سے ہانک لگائی۔ موئذ بھی اس کے پیچھے گیا۔ سعد ہال سے باہر دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
" اوئے میں کہہ رہا ہوں اسگ شرا سی بھی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ " موئذ نے انگلی اٹھا کر اسے وارننگ دی۔ سعد نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر نیچے کردیا اور پھر اسے اپنے گلے لگایا۔ اس کے گلے لگ کر وہ خود ہر قابو نہ رکھ سکا۔
" چل بس کر۔ مرد ہو کر رو رہا ہے۔ شرم کر۔" سعد نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا۔
" اور اس کی فکر کرنے کی بجائے اب اپنی فکر کر۔ کہے تو میں بات کرو عنایہ سے" سعد نے شرارت سے اس سے کہا۔ سعد کی بات پر وہ ہنسا تھا۔
" ہاں فکر نہ کر۔ انکل انٹی کو ہی بںیجوں گا۔ ہاں بس فہیم سے دونوں مل کر بات کریں گے" مویذ نے دانت نکال کر کہا تو وہ دونوں ہنس پڑے۔ اور پھر ایک خوبصورت شام تمام ہوئی۔
آج بارات کا فنکشن تھا۔
وہ سب لوگ سٹیج پر جمع تھے۔ سب لوگ سے مراد سعد اس کے کزنز باقی سب لوگ موئذ کا ساتھ دیتے ہوئے پوری طرح سے میزبانی سنبھالے ہوئے تھے۔
سعد مایا کے دئے گئے میرون شیروانی میں ملبوس تھا۔ پیروں میں میرون رنگ کے شاہی خصے پہنے کلائی پر خوبصورت گھڑی باندھے وہ بہت خوبصورت لگ دہا تھا۔ چہرے سے چھلکتی خوشی اس کی وجاہت کو چار چاند لگا رہی تھی۔
ہال میں پیچھے ہلکی آواز میں گانے بج رہے تھے۔
مایا اور باقی لڑکیاں ابھی تک برائیڈل روم میں ہی تھی۔
وہ اس وقت سخت بور ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر اور گزری تھی کہ برائیڈل روم سے پھولوں کی سیج کے نیچے موئذ کا ہاتھ تھامے باہر نکل رہی تھی۔
پھولوں کی چھوٹی سیج کو سب لڑکوں نے مل کر بنایا تھا۔ اسے فہیم، حازق، زمان اور معصب نے چاروں طرف سے پکڑا ہوا تھا۔ باقی سب ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ ہال کی سب لائیٹس آف ہوگئی تھی بس ایک سپوٹ لائٹ چل رہی تھی جو موئذ اور مایا پر فوکس تھی۔ اس کے رنگ وقفے وقفے سے بدل رہے تھے۔
پیچھے گانے کی آواز بڑھا دی گئی تھی۔
" وے سجنراوے دل دیاں آوازاں
تینوں مگداں میں پڑھ کہ نمازاں"
سٹیج پر سعد اسے دور سے دیکھ کر ہی کھڑا ہوگیا تھا۔ اپنے دئے گئے میرون رنگ کی میکسی، میرون ہائی ہیلز، سر پر سلیقے سے جمائے میرون دوپٹہ اور ہیوی جیولری میں وہ انتہائی چوبصورت لگ رہی تھی۔
" میں دن و لکھ دا تیرے ہی بادے
راتی گنداں رہندا تارے"
اپنے دئے گئے لباس میں دیکھ کر اس کا دل خوشی سے اچھل رہا تھا۔ نجانے یہ کیسی خوشی تھی، کیسا سکون تھا، کیسا لمحہ تھا۔
" اسی تارے گنہڑ دے نی ماہر ہوگئے آں
تیری یاد وچ لکھ لکھ کے اسی شاعر ہوگئے آں"
اس کے دل نے بے اختیار ہی اپنے رب سے یہ دعا کی تھی کہ یہ لمحے یہ خوشی اب دائمی ہو۔ اب کم از کم مایا کو لے کر کوئی آزمائش اس کو نہ ملے۔ نہ کبھی وہ اس سے جدا ہو۔ بس ہر پل اس کے ساتھ رہے۔ اللّٰہ سے اس نے دعا کی تھی کہ وہ اتنی ہمت اتنی صلاحیت اسے عطا کریں کہ وہ زندگی بھر اس لڑکی کو چوش رکھ سکے۔
" تو باغاں ورگا تو رنگ بہاری
مٹھڑا مٹھڑا راغ پہاڑی"
مایا کا دل الگ ہی لے پر دھڑک رہا تھا ایسا لگتا تھا ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ دل جلد اس کے پاس پہنچنے کے لئے بے چین تھا۔
" تو باغاں ورگا تو رنگ بہاری
مٹھڑا مٹھڑا راغ پہاڑی"
وہ دور سے بھی خود پر جمی اس کی نظریں صاف محسوس کررہی تھی۔ کاش وہ اس وقت اس کی آنکھوں میں چمکتے خوبصورت جذبات لئے جگنوؤں کو بھی دیکھ پاتی۔ دل نے چھپکے سے خواہش کی۔
"اسی لک دے چھپ دے وہ آج ظاہر ہوگئے آں
تیری یاد وچ لکھ لکھ کے اسی شاعر ہوگئے
سی لک دے چھپ دے وہ آج ظاہر ہوگئے آں
تیری یاد وچ لکھ لکھ کے اسی شاعر ہوگئے"
دل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی جا کر اسے اپنے قریب کرلیں اور وہ بات کہہ دے جو خود ابھی ابھی اسے معلوم ہوئی تھی۔
" وے سونڑیاں تو کول میرے ہوے نظارہ تیرے روپ کا کرداں رواں
میں جیواں جے سو واری تیرے اتے ہر واری مردارواں
وے سونڑیاں تو کول میرے ہوے نظارہ تیرے روپ کا کرداں رواں
میں جیواں جے سو واری تیرے اتے ہر واری مردارواں"
مایا کا دل کیا ابھی اللّٰہ کے سامنے سجدے میں گر جائے۔ جھک جائے اس کے سامنے جس نے اس کی خواہش اس کے کہے بغیر پوری کی تھی۔
" اسے پھیکے پھیکے جے تو میٹھا میٹھا ہیں
اسی تھوڑے سانولے تو چٹا چٹا ہے
اسے پھیکے پھیکے جے تو میٹھا میٹھا ہیں
اسی تھوڑے سانولے تو چٹا چٹا ہے"
وہ بات جو ندا کی بار سعد کے دل نے نہیں دماغ نے کی تھی۔ جو اس نے خود سے فرض کرلی تھی۔ اس نے اپنے لئے غلط فیصلہ کیا تھا۔ اب اس کے رب نے اس کے لئے وہ فیصلہ کیا جو وہ اصل میں چاہتا تھا۔ جو اس کا دل چاہتا تھا۔ جو اسے آج مل گیا تھا۔
" حسن تیرا آئے وانگ بہاراں
بال تیرے نے دلے دیاں تاراں
نین تیرے نے دو تلواراں"
وہ اسٹیج کی سیڑھیوں پر اس کے پاس پہنچ گئی تھی۔ اس ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھما دیا تھا۔
ہاں آج مکمل طور پر اسے اس کی محبت مل گئی تھی۔
آج اس کج سالوں پرانی خواہش انجام کو پہنچی تھی۔
اس ایک لمحے میں دل سو بار ڈھرکا تھا۔
اس کی فتح پر جشن منا رہا تھا۔
" اسی لک دے چھپ وے آج ظاہر ہوگیا آں
تیری یاد وچ لکھ لکھ کے اسی شاعر ہوگیا آں۔
اسی تارے گنہڑدے نی ماہر ہوگئے آں
تیری یاد وچ لکھ لکھ کے اسی شاعر ہوگیا آں"
مایا کا ہاتھ تھامے اس کے دل نے زور سے ڈھرک کر محبت کی گواہی دی تھی۔
محبت تو اسے آج اور اںھی اس لڑکی سے ہوئی تھی جو اس کی تھی۔ اس کی محرم تھی۔ محرم اور جائز محبت تو اسے اب ہوئی تھی۔ پہلے جو بھی تھا وہ نا جائز تھا۔
اصل خوشی اور اصل اظمینان اس لڑکی کو پاکر اسے محسوس ہوا تھا۔
ہاں محبت ہوگئی تھی اسے مایا سے۔ دل اس کے لئے آج ڈھرکا تھا۔
الگ لے پر۔۔
رقصاں تھا۔۔
مست تھا۔۔!!
وہ دونوں اب سٹیج پر ایک ساتھ کھڑے تھے۔
ہاں ان کی پسند بھی ایک جیسی تھی۔
کپڑوں کے معاملے میں بھی اور ایک دوسرے کے معاملے میں بھی۔!!
پھر کافی دیر تک تصویروں اور کھانے پینے ما سیشن چلتا رہا اور پھر آخر میں وہ رسم آہی گئی جس کا سب کو انتظار تھا۔
عنایہ ٹرے میں دو فیڈرز ایک بڑا اور ایک چھوٹا رکھے سٹیج پر آئی جبکہ سب دوست لڑکوں سمیت اس کے سامنے لائن میں بیٹھ گئے۔
سعد کے ساتھ کوئی بھی کھڑا نہیں ہوا تھا۔
" میں بتا رہا ہوں اب تم لوگ نا انصافی کررہے ہو میں چھوڑو گا نہیں تم لوگوں کو۔ سعد نے بے چارگی سے کہا۔
" یار ایکچولی بات یہ ہے کہ لڑکیاں کتنے مزے اور آسانی سے ہمیں لوٹ لیتی ہے تو کیوں نہ ہم بھی یہ ایکسپیرئنس کرلیں۔ کیوں صیحح کہا نہ میں نے" حازق نہ کہا تو سب نے اس کا ساتھ دیا۔
" اور میں یہ ایکپیرینس کامیاب ہونے نہیں دوں گا کیونکہ میں یہ فیڈر میں دودھ میں کوئی نہیں پینے والا اس لئے لے جاو اسے میں گھر جا کر خود ہی پی لو گا۔ " سعد نے منہ بنا کر جواب دیا۔
" اپنے بچوں کے لئے رکھ لو کام آئے گا" مہک نے انہں دیکھ کر شرارت سے کہا تو مایا کے گال سرچ ہوئے۔
" نہیں شکریہ رہنے دو۔ میں اس وقت اس سے اچھا خرید لوں گا" سعد نے ہنوز منہ بناتے ہوئے جواب دیا تھا۔
" بیٹا پیسے تو ہم نوائیں گے اب تیرے پر ہے کہ شرافت سے دیتا ہے یا ہم خود نکالے" حازق نے کھڑے ہوتے ہوئے قمیض کی آستینیں چھڑہاتے ہوئے کہا۔ اس کے دیکھا دیکھی باقی لڑکے بھی اتھ گیے۔
" کیا کرلو گے تم لوگ" سعد نے انہیں گھورتے ہوئے کہا۔ تو کسی نے جواب دینے کی بجائے اس پر سب جھپٹ پرے اور اس کی کسی مزاحمت مو خاطر میں نہ لاکر اس کا والٹ نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ والٹ فہیم کے ہاتھ لگا تھا۔ اس نگ والٹ اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔
" چل تیرے والٹ کے خاطر تجھ پہ فیڈر معاف کیا۔ اوئے گلاس لے کر آؤ۔" فہیم نے پہلے سعد کو کہہ کر پھر پیچھے منہ کرکے کسی کو کہا تھا اور پھر دودھ کا گلاس لئے واپس آگے بڑھا تھا۔
سعد منہ بنا کر بیٹھا ہوا تھا۔
" پی رہا ہے کہ دو لگاؤ" اسے اپنی طرف متوجہ نہ پا کر فہیم نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا تو سعد نے غصے سے اس کے ہاتھ سے گلاس لیا تھا۔
اور پھر ایک سیپ لے کر گلاس مایا کی طرف بڑھایا تھا۔ اس نے بھی وہ اس میں سے ایک سپ لیا تو سب نے ہوٹنگ شروع کردی۔
اس طرح یہ رسم بھی پوری ہوئی تھی۔ کافی مہمان بھی جا چکے تھے۔ لائٹس بھی آف ہونے لگی تھی تو فہیم نے قران مجید لا کر موئذ کو دیا اور پھر مایا سعد کے ہمراہ قران کے سایے میں دروازے کی طرف بڑھنے لگی دروازے پر پہنچ کر وہ رکی۔ موئذ نے قران فہیم کو پکڑا کر اسے اپنی آغوش میں بھر لیا اور پھر بمشکل اس کے ہچکیاں بھرتے وجود کو سنبھال کر اسے سعد کے ہمراہ دخصت کیا۔
مایا کو سعدیہ بیگم ابھی کمرے میں چھوڑ کر گئی تھی۔ سعد ابھی نیچے ہی ان سب میں گھرا بیٹھا تھا۔
کمرے کو بہت ہی خوبصورتی سے سچایا گیا تھا۔ کمرے میں لائٹس یا کینڈلز کی بجائے مرچیوں( چھوڑی دیکوریشن لائٹس) سے سجایا گیا تھا۔ بیڈ ہر رنگ برنگے پھولوں سے سیج بنائی گئی تھی۔
سامنے دیوار پر ان کے کل کی نکاح کی تصویر بڑے فریم میں آویزاں کی گئی تھی اور اس دیواد کے ساتھ نیچے رنگ برنگی پتیوں سے بڑا سا دل ںنایا گیا تھا جن میں لال گلاب کی پتیوں سے
"Saadi Weds Mahi"
بنایا ہوا تھا۔
باقی پورے کمرے میں ہر ہرح کہ بیلونز بھرے ہوئے تھے مگر اس دل کے پاس بانڈری سی بنا کر بیلونز کے وہاں آنے کا راستہ روکا ہوا تھا۔
ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی جب اسے پیچھے سے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی۔
سعد اپنی شیروانی کے بٹن کھولتا اس کے عین پیچھے آکھرا ہوا۔
مایا کو اپنج ڈھرکنیں ریز کوتی محسوس ہوئی۔ عجیب گھبراہٹ سی محسوس ہوئی۔
" کیسا لگا پھر یہ سب تمھیں" سعد نے اس کے کان پر سے ذرا سا دوپٹہ کھسکا کر پوچھا۔
" بہت خوبصورت" اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ جواب دیا۔
" مگر مجھے تو نہیں لگ رہا" سعد نے پہلو میں گرے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہاں تھا۔
" کک۔۔ کک۔۔ کیوں" مایا کی سانس اٹکی۔
" کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ حسین مجھے تم لگ رہی تھی۔ سب زیادہ چوبصورت مجھے وہ دک لگ رہا ہے جن میں میری محبت بھری ہے" سعد اس کے کان میں گھمبیر لہجے میں بول رہا تھا۔
اس کے لہجے اس کی بات پر وہ خاموش رہ گئی۔
" بتاؤ تم۔مجھ سے محبت کرتی ہونہ" سعد نے اسے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔ جس پر وہ نظریں جھکا گئی۔ چہرے پر مدھم مسکراہٹ تھی۔
" ماہی آج تم نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے۔ تمھیں پاکر میں مکمل سا محسوس کررہا ہوں خود کو۔ ایسا سکون آن سی۔پہلے میرے دل کو کبھی نہیں ملا۔ آج سے پہلے میرا دل ایسے کبھی نہیں دھڑکا. بہت شکریہ ماہی۔ میری زندگی میں آنے کے لئے" یہ کہہ کر سعد نے اس کا چہرہ اوپر کر کے اس کی پیشانی پر اپنی محبت کی پہلی مہر ثبط کی۔ مایا کے گال سرخ ہوئے۔
" میرا شکریہ کرنے کی بجائے ہمیں اس رب کا شکریہ عطا کرنا چاہیے جس نے ہمیں ملایا۔ " مایا نے اسے دیکھ کر کہا تو وہ مسکرایا۔
" مگر اس سے پہلے یہ اپنا تحفہ لے لو" سعد نے کہہ کر شیروانی کی اندرونی جیب سے ایک خوبصورت ریڈ کلر کا ڈبہ نکالا۔ مایا نے خوشی سے وہ ڈبہ کھولا تو اندر خوبصورت پرپل کلر کی کرسٹل واچ تھی۔ مایا نے فرظ جذبات سے اسے دیکھا تو سعد نے گھڑی اس سے لے کر اسے مایا کی کلائی پر سجا دیا۔
اور پھر وہ دونوں اللّٰہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لئے شکرانے کے نوافل ادا کرنے چلے گئے۔
وہ سب لوگ ولیمے کے تقریب کے کئے ہال میں موجود تھے سوائے دلہا اور دلہن کے۔ سب ان کا ہی انتظار کررہے رہے تھے۔ کبھ دیر بعد ان کا یہ انتظار بھی ختم ہوا تھا کیونکہ وہ دونوں دروازے سے اندر آتے دکھائی دئے تھے۔
سعد نے وائٹ کوٹ، پینٹ اور شرٹ پہنی کوئی تھی۔ کوٹ کے اندر کی ویسکوٹ اور ٹائی پرپل کلر کی تھی۔ مایا نے بھی پرپل کلر کا لہنگا اور دوپٹہ پہنا ہوا تھا جںکہ شرٹ وائٹ کلر کی تھی۔
وہ دونوں سٹیج پر آکر کھڑے ہوئے تو سب نے ستائشی نظروں سے اس جوڑی کو دیکھا تھا۔ سعدیہ بیگم نے سٹیج پر آکر دونوں کی پیشانی ہر پیار کیا تھا۔
سب دوست بھی فورا ہی سٹیج پر آدھمکے تھے۔
" ہاں تو پھر کیسا لگا آپ کو ہمارا سعد۔۔ مسز سعد" حازق نے سب سے پہلے مایا سے پوچھا۔ اس کے پارٹی بدلنے پر سعد نے اسے گھورا۔
" خبردار ماہی جو تم نے اس بےوفا سے بات کی تو۔ سالے میرا پورا والٹ لے گئے۔" سعد نے سب کو گھور کر کہا۔
" اوئے دیکھ مویذ ایک دن ہوا نہیں شادی کو اور ابھی سے ماہی پر پابندیاں لگا رہا ہے" شارق نے تیلی لگائی۔
" ماہی بتاؤ۔ اس نے تمھیں بلیک میلنگ وغیرہ تو نہیں کی نہ۔ ڈرایا دھمکایا تو نہیں ہے نہ۔ ایسا ہے تو ابھی بتادو۔ اس مو ہم دیکھ لیں گے" مویذ نگ فورا آگے بڑھ کر سعد کے سامنے کھڑے ہو کر اسگ گھورتے ہوئے کہا تھا۔
" اےے ہٹو تم۔۔۔ کل میرا والٹ چھین لیا اب میری بیوی چھیننا چاہتے ہو" سعد نے بھی غصے سے کہا تو مویذ نے حازق کو اشارا کیا اور پھر دونوں اچانک اس پر ٹوٹ پرے اور اسے صوفے پر سے اتھا کر دم لیا۔
" ایا فو بڑا۔ دو لوگوں کا تو مقابلہ کر نہیں سکتا میری بہن کی حفاظت کیسے کرے گا۔" مویذ نے اسے مزید تنگ کرتے ہوئے کہا تو سعد کچھ کہنے کی بجائے غوے سے سب کو دیکھ کر وہاں سے جانے لگا تو سب دوستوں نے لپک کر اسے روکا اور منا کر واپس لے آئے۔
اس طرح خوبصورت لمحوں کا وقت اس فنکشن۔کے ساتھ اپنے اختتام۔کو پہنچا۔