وہ سب دروازے سے اندر آنے والے کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی خلائی مخلوق ہو۔
اور پھر وہ سب " سعدی" کا نعرہ لگاتے اس پر جھپٹ پرے۔ فہیم بھی زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے اس حملے میں شامل تھا۔ البتہ ندا، مایا، عنایہ اور مہک ہنستے ہوئے کھڑے ہوگئے تھے۔
" اوئے کمینے ہمیں بتایا کیوں نہیں آنے کا۔ مجھے تو بتا دیتا" موئذ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
" پھر اتنا خوبصورت ویلکم کیسے انجوائے کرپاتا میں ہاں؟؟" سعد نے بھی خوش ہو کر ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اس وقت وہ سب کو اپنے پاس اتنے جوش کے ساتھ دیکھ کر اپنے فیصلے، محبت، معافی ندا اور فہیم سب کو بھلا چکا تھا۔ یاد تھا تو صرف یہ کہ وہ اس وقت اللّٰہ کی گئی سب سے قیمتی نعمت دوستوں کے درمیان کھڑا ہے۔ وہ سب سے باری باری گلے ملنے لگا۔ سب سے آخر میں فہیم کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ اور گلے لگنے کی بجائے سامنگ کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
سر پر پٹی بندھی تھی۔ چہرے پر جگہ جگہ چوٹوں کے نشان تھے۔ دونوں ہاتھ پٹی سے آزاد تھے مگر ہتھیلی پر لگنے والے کانچ اور پھر کیے جانے واکے سٹیچس کے نشان اب بھی صاف نظر آدہے تھے۔ اس نے اس وقت ہالف سلیو شرٹ پہنی ہوئی تھی اس لئے اس کے بازو پر بھی جابجا زخموں کے نشان نظر آئے۔ سعد مسکراتے ہوئے دوبارہ اسے دیکھا اور آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گیا۔
" اؤے پہلے فو کم کارٹون لگتا تھا جو یہ نشان بھی اہنے اوپر بنوالئے ہیں" سعد نے ہنستے ہوئے اس کء کمر تھپکی۔
"آاااا۔۔۔ ظالم۔۔۔ ہاتھ ہے کہ پہاڑ۔۔۔۔ کمر توڑ دی میری۔۔۔ آاااااا ۔۔وہ ایکسیڈنٹ کم تھا کیا جو تو بھی مجھے مارنے آگیا ہے" اس نے کراہتے ہوئے کہا تھا۔ سعد کو دیکھ کر اس کے چہرے پر انجانی سی ایک خوشی آگئی تھی۔ سکون سا بکھر گیا تھا۔ فہیم کی بات پر سب ہنس پڑے تھے۔ سوائے مایا اور ندا کے۔ ندا ابھی تک بےیقینی کے عالم میں کھڑی اسے دیکھ رپی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ دعائیں اتنی جلدی کیسے قبول ہوتی ہے۔ اب سکون اسے ملنے والا تھا۔ وہ خوش کیوں نہ ہوتی۔ ہوش تب آیا جب مہک نے زور سے اس کے پہلو میں کہنی ماری تھی۔
" تمھیں کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔ کیا سوچ رہی ہو کہ تم نے اس بیچارے کو اتنی محنت سے دھوکہ دیا تھا اور یہ ڈھیٹ دنیا بھر کے عاشقوں کی طرح سڑے ہوئے غمگین اور زرد چہرے، کمزور اور لاغر وجود اور ٹوٹے دل کا رونا رونے کی بجائے ہٹے کٹے وجود اور اپنے ازلی ہنس مکھ انداز میں واپس آگیا اور تمھاری ساری محنت پر پانی پھیر گیا ہے۔ اس بات کا سوگ منا رہی ہو کیا۔ " مہک نے اس کے کان میں گھس کر کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی۔
جبکہ یہی چیز محسوس کر کے مایا ایک دم بلکل خاموش ہوگئی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ چہرے پر خوشی تھی مگر آنکھیں۔ ان میں کیا تھا۔ وہ ڈھونڈ کر بھی کچھ ڈھونڈ نہ پائی۔ وہ کئی سالوں سے اس سے محبت کرتی آئی تھی۔ اس کا پہلا عشق تھا وہ۔۔ وہ کیسے نہ پہچانتی اس کی آنکھوں کی ویرانی۔
" تو کیا وہ اس شادی سے چوش نہیں۔ کیا وہ زبر دستی آیا ہے یہاں" مایا کے دماغ اس سے آگے نہیں سوچ پارہا تھا۔
فہیم اب اس سے معافی مانگ رہا تھا جسے سننے سے پہلے ہی سعد بول پڑا۔
" اے سن۔۔۔ میں تجھے معاف کرچکا ہوں۔ اور ندا تمھیں بھی" اس نے ندا کو اس سب میں پہلی بار مخاطب کیا " معاف نہ کیا ہوتا تو ابھی یہاں نہ ہوتا۔ دیکھو یار غلطی ہوجاتی ہے۔ ٹھیک ہے۔ تم دونوں نے غلطی کی۔ وہ بھی انتہائی بےوقوفانا۔ اور میں یہ غلطی واقعی معاف نہ کرتا اگر اللّٰہ موئذ کو مجھے راستے پر لانے کے لئے میرے پاس نہ بھیجتا۔ I was really going to destroy myself at that time. But then he came and explained to me that life does not end without a human being.
اگر دوست دوست کی بڑی سے بڑی غلطی معاف نہ کرسکے تو میرا نہیں خیال کہ وہ دوست ہوتے ہیں.. سمجھ گئے۔ " سعد نے ایک بازو موئذ اور دوسرا بازو فہیم کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا۔ تو سب مسکرا دئے۔ فہیم اور ندا دونوں کے چہروں پر سکون پھیلتا سب نے دیکھا تھا۔
" اچھا اب بس بہت ہوگیے یہ جذباتی ڈرامے۔ اب اتھو اور سعد اینڈ مایا میم۔۔ آپ آج ہمیں اچھے سے ریسٹورینٹ میں ڈنر کروائے گے اپنی شادی کی خوشی میں۔" حازق نے ماحول کو اچھا کرنے کے لئے آگے آتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا تھا۔ اس بات پر سعد نے سب سے چھپا کر ایک نظر اسے دیکھا تھا جو سب سے الگ خاموش نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ نجانگ کیوں اس کو اس طرح خاموش دیکھ کر وہ بےچین ہوا تھا۔
شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھی۔
شادی کی تاریخ اب سے دو مہینوں بعد نیو ائیر والے دن رکھی گئی تھی۔
جبکہ اسے تین دن پہلے سے سب رسمیں شروع ہوجانی تھی۔
پہلے مہندی، پھر مائیوں، پھر نکاح پھر بارات۔۔
اسی غرض سے وہ سب یعنی وہ سب دوست شاپنگ مال میں موجود تھے۔
انہوں نے ضد کر کے مہندی اور مایوں کی رسم کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنے کپڑے خود خریدنے کا کہا تھا۔
سعدیہ بیگم اور وقار صاحب نگ جہیز لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اور باقی بری کی شاپنگ انہوں نے خود ہی کرنی تھی۔ نکاح کی شاپنگ کے لئے وہ سب نیکسٹ ویک آنے والے تھے ساتھ میں سب بڑے بھی ہوگے۔ بارات کے لئے سعد نے اپنی مرضی سے مایا کے لئے ڈریس خریدنے کی اجازت چاہی تھی۔ جو اسے مل گئی تھی۔ دوسری طرف موئذ نے بھی سعد کے لئے خود ڈریس لینے کا کہا تھا( جو کہ اصل میں مایا نے کرنا تھا)۔ اور شاپنگ کے لئے سعد موئذ مایا سعدیہ بیگم اور وقار صاحب نے مل کر کرنی تھی۔
اس وقت وہ سب مال میں موجود تھے۔ لڑکے علیدہ اور لڑکیاں علیدہ اپنی اپنی شاپنگ کررہے تھے۔
" یار پلیز۔ شلوار کمیض تو ہر کوئی پہنتا ہے۔ ہمیں کبھ الگ کرنا چاہیے نہ۔ ہیرو والی ڈریسنگ اور اینٹری تو ہر کوئی مارتا ہے۔ اس لئے ہمیں ہیرو والی نہیں ںلکہ بچوں جیسی اینٹری مارنی ہے۔ اور انکل آنٹی کی فکر نہیں کر نا ان کو ہم سنبھال لیں گے تو بس ائیڈیا پر غور کر" حازق اور شارق انہیں مسلسل کچھ نیا کرنے کو کہہ رہے تھے۔
اور پھر سب مان گئے اپنے لئے سیم ڈریس لینے لگے۔ ساتھ میں کافی ساری چیزیں بھی۔
" اور ہاں۔ یہ سرپرائز ہے۔
secrecy is the first rule. Understand!!" حازق نے سب شاپنگ ہوجانےکےبعد کہا۔ تو سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
دوسری طرف وہ چاروں لڑکیاں بھی وہاں کھڑی بحث میں مصروف تھی۔
" یار سنو نہ مایا میری جان۔۔ یار یہ غرارا شرارا وغیرہ وغیرہ تو ہر کوئی پہنتا ہے مگر یار پلیز ہمیں کچھ الگ کرنا چاہیے۔ ہر بار وہ لڑکے ہمیں ہراتے آئے ہے۔ آج ہم نے ہرانا ہے انہیں۔ پلیز پلیز۔۔ ہر بات وہ ہنساتے ہے اب ہم سب کو ہنسائے گے۔ لیز مان جاؤ مایا" عنایہ اس سے کچھ الگ کرنے کا کہہ رہی تھی مگر مایا مان ہی نہیں رہی تھی۔ اور اب تو مہک بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی مگر جو رتی برابر بھی اس پر اثر ہوجائے۔
" یار آنی پاگل ہوگئی ہو۔ ایسے چونچلے دلہن نہیں کرتی۔ یہ سب لڑکوں کو مبارک ہو۔ بھائی جان نکال دے گے میری" مایا اب ان کی منتوں سے زچ ہوگئی تھی۔
" یار تم موئذ کی فکر نہیں کرو نہ۔ اسے میں سنبھال لوں گی۔ مجھے وہ کچھ نہیں۔۔۔۔" عنایہ نے کہتے کہتے زبان کو بریک لگائی تھی۔
" اوہہہوووووو" تینوں نے ایک ساتھ مل کر اسے چھیڑا تو اس کے گال سرخ ہوئے۔ مگر وہ جلد ہی خود کو نادمل کر کے انہیں موضوع کی طرف لائی۔
" ماہی بس ںہت ہوگیا۔ میں نے جو کہا ہے ہم وہی پہنے گے" عنایہ نے پچھلی خفت مٹانے کے لئے اب زرا سخت لہجے میں کہا۔
" ہمم ہمم۔۔۔ ماہی مان جاؤ اب۔۔ اب تو تمھارے بھائی کا مسئلہ بھی ختم کردیا ہے آنی نے۔ ویسے اگر کہو تو میں فہیم سے بات کروں" ندا نے مایا کو کہہ کر عنایہ سے کہا تھا۔ وہ دونوں ہنس پڑی جبکہ عنایہ نے " نن۔۔ نہیں۔ نہیں ندا بھابھی۔۔ پلیز ایسا کچھ مت کیجئےگا۔ میں تو بس ایسے ہی جنرل بات کررہی تھی۔ اب ظاہر ہے وہ مجھے یا آپ کو تو نکیں دانتے گے نہ" یہ کہہ کر اپنی وفائی پیش اور وہ تینوں ہی اس کی بوکلاہٹ پر ہنس پڑی۔ اور پھر وہ سب چیزیں لے کر واپس جانے کے لیے مڑی۔
" اور ہاں سب یاد رکھنا۔
Secrecy is the first rule. Understand!!"
وہاں سے نکلتء ہوئے مہک نے کہا تو سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر سامنے ہی انہیں لڑکا پارٹی کھڑی نظر آگئی۔
ایک بہترین دن گزار کر اب وہ واپس آرہے تھے۔۔
ایک اور رات ان کے راز اپنے سینے میں چھپائے دھل رہی تھی۔۔!!
مہندی کا فنکشن آج موئذ کے گھر رکھا گیا تھا۔ یہ کوئی باقائدہ فنکشن نہیں تھا بس سب دوست اکھٹے ہوئے تھے۔ لڑکیاں تو مہندی لگوانے میں مصروف تھی جبکہ لڑکے کبھی لڑکیوں کو آکر تنگ کرتے کبھی فل سپیکرز پر چلنے والے گانوں پر ڈانس کرتے۔ وہاں ان سب کے علاوہ بس بیوٹیشنز تھی جو لڑکیوں کو مہندی لگا رہی تھی۔
ڈانس کے دوران بھی وہ ڈانس کم کررہے تھے اور ایک دوسرے کو دھکے زیادہ دے رہے تھے۔
ڈانس کے دوران حازق آرام سے وہاں سے کھسک گیا۔ وہاں سے وہ بھاگتا ہوا لان کے پچھلی طرف آیا تھا۔ اور پھر وہاں آکر کچھ ڈھونڈنے لگا تھا۔ اور پھر وہ بیز مل جانے پر اس کی آنکھیں بمک اٹھی۔ چہرے پر شرارتی مسکراہٹ ناچنے لگی۔ پھر وہاں تسلی سے اپنا کام کرکے حازق وہ چیز پکڑے اندر لڑکیوں کی طرف بڑھ گیا۔ وہاں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس نے وہ چیز مہک کے ساتھ رکھی اور اور وہاں سے تھوڑا ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ جہاں سب لڑکے اب ڈانس روکے اب لڑکیوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہاں جا کر اس نے مہک کو مخاطب کیا۔
" مہک یہ چیز کتنی پیاری ہے جو تم لے کر آئی ہو۔ کہاں لگانی ہے تم نے یہ چیز" حازق نے اس کی توجہ اس چیز کی طرف کروائی تو اس نے پہلے حیرت سے حازق کو اور پھر اپنے ساتھ رکھی چیز کو دیکھا۔ اور پھر اس کی چیخ کی آواز اور اس کی آواز میں موجود "چھپکلی" کے نعرے کو سن کر پورا گھر باقی لڑکیوں کی چیخ سے بھی گونج اٹھا۔ جبکہ باقی لڑکے قہقے مارتے ہوئے انہیں دیکھ رہے تھے۔
اب لڑکیاں اب چھپکلی سے دور ہو کر کھڑی ہوئی تھی۔
اور پھر اچانک حازق نے آگے بڑھ کر کر ہاتھ پر پہنے سکن کلر کے گلو سے اس چھپکلی کو اٹھایا اور ندا کے پیچھے کھڑی مہک کی طرف بڑھ گیا۔ جس پر وہ سب چیخ چیخ کر اسے روکنے لگی۔ جبکہ لڑکے حازق کو ہنس کر دیکھ رہے تھے۔ ویسے تو یہ پلین میں شامل نہیں تھا مگر پھر بھی وہ لوگ مزے لے رہے تھے۔
حازق مہک کے پاس آکر رک گیا۔
" مہک اگرتم نہیں چاہتی نہ کہ میں یہ چھپکلی ندا پر پھینکو تو شرافت سے میرے ساتھ باہر چلو۔ مجھےتم سے بات کرنی ہے" حازق نے مہک کو دیکھتے ہوئے اور چھپکلی ندا کے سامنے لہراتے ہوئے کہا تو اس کی بات پر سب چیخنا اور ہنسنا بھول کر حیرت سے منہ کھولے حازق کو دیکھنے لگے۔
" اوئے۔ ندا پر کیوں پھینکے گا۔ مہک سے کام ہے تو اس پر پھیکنا" فہیم نے آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہا۔
" تم تو چپ کرو یار۔ سعد پکڑ یار اسے تو" حازق نے جھنجھلا کر پہلے فہیم اور پھر سعد سے کہا۔
" مہک چل رہی ہو یا پہینکو میں پھر یہ چھپکلی" حازق نے اب کے مہک سے کہا اور چھپکلی والا ہاتھ ندا کے اور قریب لے گیا۔ جس پر اس نے چیخ کر مہک کو کہنی ماری۔
" مہک جاؤ یار۔ سن لو کیا کہنا ہے اس نے" ندا نے چیخ کر کہا۔
" کہاں جانا ہے۔ کیا بات کرنی ہے تم نے۔ دیکھو جو کہنا ہے یہی کہو۔ یہ کیسی چیپ ںلیک میلنگ ہے۔ مری ہوئی بھپکلی ہی تو ہے۔ اس نے کیا بگاڑ لینا ہے ہمارا" مہک نے اب کے غصے میں کہا۔
" اوکے " حازق نے چھپکلی والا ہاتھ ندا کے کندھے کی طرف بڑھایا۔
" نہیںںںں۔۔۔ میرا کیا قصور ہے۔ مہک جاؤ نہ۔۔ کیا تکلیف ہے تمھیں" ندا نے ڈر کر پیچھے ہو کر مہک کو آگے کی طرف دھکہ دیا تو مہک نے کھا جانے والی نظروں سے ندا کو گھورا۔
" دیکھو۔ تم نے کوئی گھٹیا مزاق کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا" مہک نے تنبہی لہجے میں کہا۔
" چلو چلو۔۔۔ ورنہ فلحال اس چھپکلی سے برا کوئی نہیں ہوگا" حازق نے اس کے ساتھ باہر کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ باقی سب آنکھیں پھاڑے حازق کو دیکھ رہے تھے۔
" یہ ہو کیا رہا ہے" موئذ کی کھوئی کھوئی سی آواز سنائی دی۔
" وہ دونوں اب باہر آگئے تھے۔ پچھلے لان کی طرف جہاں حازق نے وہ چھپکلی ڈھونڈ کر ماری تھی۔
" کیا چاہتے ہو تم مجھ سے" ندا نے غصے سے کہا تو حازق نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
" ہاتھ پکڑاؤ اپنا مجھے۔ ورنہ ابھی اندر جا کر یہ چھپکلی ندا پر پھینک دوں گا" حازق نے سنجیدگی سے کہا لیکن اس کی آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی۔ مہک ایک دم ہی بھڑک اٹھی۔
" تم۔۔۔ یو چیپسٹر۔ گھٹیا انسان۔ تمھاری اتنی ہمت۔ اتنی گھٹیا حرکت۔ سمجھتے کیا ہو تم خود کو۔ تم چھپکلی کی بات کرتے ہو۔ اگر تم گن بھی تان لو نہ مجھ پر یا کسی اور پر تب بھی ہاتھ تو کیا تمھیں میں ایک انگلی نہیں پکڑاؤ گی۔ تم۔۔۔ تم سےمجھے امید نہیں تھی۔" مہک ہذیانی انداز میں بولی تھی۔
"اب بھی نہیں پکڑاؤ گی ہاتھ" اب کی بار حازق نے وہ چھپکلی پھینک کر پیچھے سے گن نکال کر اس پر تانتے ہوئے پوری سنجیدگی سے کہا تھا۔
" بلکل بھی نہیں" مہک نے بھی گہرے سنجیدگی سے ہی جواب دیا تھا۔ گن دیکھ کر بھی اس پد زرا اثر نہیں ہوا تھا۔
اس کے جواب پر حازق نے گن لوڈ کی اور۔۔ اور چلا دی۔۔۔
پورے لان میں مہک کی چیخ گونجی۔ مہک کو اپنے سر پر گرمائش کا شدید احساس ہوا تھا۔
مگر گولی چلنے کی آواز بلکل نہیں گونجی تھی۔
خود کو صیحح سلامت دیکھ کر مہک نے اپنے کانوں سے ہاتھ اٹھا کر ھن کی طرف دیکھا جس میں سے آگ نکل رہی تھی۔۔۔ یہ کیا۔۔۔ کیا یہ لائٹر تھا۔ مہک نے حیرت سے اسے اور پھر گن واپس نیچے کرکے ہنستے ہوئے حازق کو دیکھا۔
" ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ اتنییییی ڈرپوک ہو تم۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ اب تو مجھے سوچنا پڑے گا کہ تمھیں بیوی بناؤ یا نہ بناؤ" حازق پہلے ہنستا رہا اور پھر مڑ کر اسے جاتے دیکھ کر اپنی ہنسی روک کر مسکراتے ہوئے آخری بات کی۔
جس پر وہ رک گئی۔ مڑی نہیں۔
" بہت محبت کرتا ہوں میں تم سے۔ یہ بات میں تم سے کبھی اس لئے نہیں کہہ سکا کہ پتا نہیں تم مجھ سے محبت کرتی بھی ہو کہ نہیں۔ اس لئے بس یہ دیکھنے کے لئے کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو کہ نہیں میں نے یہ سب کیا۔ اور مجھے یقین ہوگیا ہے کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو" حازق نے نسکراتے ہوئے کہا۔ اس کی بات سن کر مہک آہستہ سے مڑی۔
" کس نے کہا تم سے کہ مین تم جیسے چیپسٹر سے محبت کرتی ہو" مہک نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
" تم نے کہا۔ ابھی خود" حازق نے ایک قدم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
" کب"
" جب میں نے تم پر گن تانی۔ تم نے چیخ مار کر سب کو بلانے کی بجائے مجھے دیکھتی رہی۔ جن میں یقین تھا کہ میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔ اور ابھی جب میں نے کہا تم مجھ بھی سے محبت کرتی ہو۔ اس پر تم نے یہاں سے جانے یا مجھے تھپڑ مارنے کی بجائے یہ جاننے کہ لیے مجھ سے سوال کیا کہ تم سے کب اور کہاں وہ بھول یا علطی ہوگئی جس کی وجہ سے تمھاری مجھ سے محبت کا مجھے پتہ چل گیا" حازق نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تو مہک چپ کی چپ رہ گئی۔ جیسے سوچ رہی ہو۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ کوئی کیسے اتنے ٹھیک طرح سے دل کا حال جان سکتا ہے۔ اور پھر اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتی وہاں چھپے سب لوگ " اووووووؤ" کرتے ہوئے وہاں آگئے۔ حازق نے سب کو گھورا۔
" اوئے تو تو چھپا رستم نکلا" شارق نے اس کے کمر پر مکہ مارا۔
" مہک چڑیل تم نے بھی نہیں بتایا مجھے کچھ۔۔۔ بےوفا۔ میں نے آج تک تجھ سے کچھ چھپایا تھا کیا جس کا تم نے مجھ سے بدلہ لیا ہے" ندا نے بھی آگے بڑھ کر اس کے سر پر مارا تھا۔
" پاگل کو کیا تم۔۔۔ ایوی دماغ خراب ہوگیا اس کا۔ خود کو سائیکالوجسٹ سمجھ رہا ہے جو دوسروں کے چہرے پڑھ لیتے ہے۔۔ اور تم مجھے چھوڑ کر اس کا یقین کررہی ہو۔ بدتمیز۔۔ جاؤ بات نہیں کرو مجھ سے اب" مہک الٹا ندا کو ہی ڈانٹ کر وہاں سے واک آؤٹ کرگئی۔
" محبوب کے چہرے اور دل پڑھنے کے لئے سائیکالوجسٹ بننے کی ضرورت نہیں ہوتی محترمہ" حازق نے پیچھے سے چلا کر کہا جس پر وہ سب قہقہ مار کر ہنس پڑے جبکہ مہک اپنے دل سے گھبرا کر اندر کی طرف بھاگ گئی۔
اور پھر فائنلی وہ دن بھی آگیا جس میں دلہا اور دلہن کی پٹاخے دار انٹری ہونی تھی۔
آج مائیوں کا فنکشن تھا جو کمبائنڈ تھا۔ وہاں ایک قریبی پارک میں ٹینٹ لگوائے گئے تھے اور سب تیاریاں لڑکا پاڑتی نے مل کر کی تھی۔ موئذ کنفیوز تھا کہ کس کی طرف سے جائے۔ ادھر بہن تھی جس کا صرف اسکا بھائی ہی تھا دوسری طرف دوست۔ مگر پھر سعد کے سمجھانے پر کہ کوئی شرعی رسم تو ہے نہیں کہ بھائی کو بہن کے ساتھ ہی رہنا ہے اور نہ ہی فنکشن الگ الگ جگہ پر ہورہا ہے اس لئے ایک ہی جگہ جانا ہے پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ کس کے ساتھ جارہے ہو۔ اور ان لڑکیوں نے بھی تو کوئی سرپرائز دینا تھا نہ۔ اس لئے تو ہمارے ساتھ ہی چل۔ اس طرح پھر موئذ ان کے ساتھ ہی آگیا تھا۔
وہاں سب موجود تھے سوائے دلہا پارٹی اور دلہن پارٹی کے۔ کسی کو نہیں پتہ تھا کہ ان سب نے کب آنا ہے اور کیا ہنگاما کرنا ہے۔
وہ لوگ ابھی انتظار ہی کررہے تھے جب سب کو باہر سے باجے بجنے کی آوازیں سنائی دی۔ جیسے باہر ہی کہیں بڑے بڑے بہت سارے باجے بج رہے ہو۔ ان آوازوں کے ساتھ ہی قریب سے باریک آوازیں سنائی دینے لگی جیسے کہی چھنچھنے بج رہے ہو۔ باجوں کی آواز میں چھنچھنوں کی آواز کم تھی مگر چھبنے والی تھی۔ یہ دونوں آوازیں سٹیج کے دونوں طرف سے آرہی تھی۔
ساتھ ہی سٹیج کے دونوں طرف سے دونوں پارٹیز برآمد ہوئی۔ دونوں ہی پارٹیز ایک دوسرے کی آمد سے بےخبر تھی۔ آوازیں تو دونوں کو آرہی تھی مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ کون بجا رہا ہے۔ اور پھر وہ دونوں پارٹیز سٹیج کے سامنے آکر رک گئی۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر لڑکوں کو کے منہ میں موجود بوجے بجنے بند ہوگئے تھے اور دوسری طرف لڑکیوں کے ہاتھ میں موجود چھنچھنے چھنکنے رک گئے تھے۔
وہ دونوں جوکرز پارٹی اور جوکرنیاں پارٹی ایک دوسرے کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
وہ واقعی جوکرز کا نظارہ پیش کررہے تھے۔
جوکرز پارٹی نے یلو پینٹ پر یلو شرٹز اور اس پر یلو ہی جیکٹز پہنی ہوئی تھی بس پر پتہ نہیں کیا کیا بنا ہوا تھا۔ ہاتھوں پر یلو بینٹذ چڑھائے ہوئے تھے۔ پاؤں میں یلو جوگرز پہنے۔ سروں پر پی ہیٹ جمائے۔ ہاتھوں میں باجے تھامے حیرت سے سامنے کھڑی جوکرنیوں کو دیکھ رہے تھے جو سیم ڈریسنگ میں کھڑی تھی۔
یلو کلر کے ٹراؤزر اور شرٹز پر یلو ہی جیکٹس پہن جس پر بہت کچھ بنا تھا۔ پیروں میں یلو سکول بوٹز پہنے۔ ہاتھوں پر بچوں والی گھڑیاں پہنے۔ سروں پر بچوں کے سٹائیل میں سکارف اوڑھے۔ اور ہاتھوں میں بچوں والے مھر کافی بڑے بڑے چھنچھنے پکڑے وہ بھی حیرت سے جوکرز کو دیکھ رہی تھی۔
نہیں مطلب اتنا سیم۔۔۔ کیسے۔۔۔ کلر سیم۔۔۔ کپڑے سیم۔ جوتے سیم۔۔ بچوں والی ڈریسنگ سیم اور تو اور انٹری بھی سیم۔۔۔
ہاں بس دلہا نے بینڈ، جوگرز اور جیکٹ کی بجائے گھڑی، بوٹ اور کوٹ(بنا اس پر بھی بہت کچھ تھا) پہنا تھا۔ اور دلہن نے گھڑی، جیکٹ اور بوٹ کی بجائے گجرے، لانگ کوٹ اور سینڈیلز پہنے ہوئے تھے۔
سب بڑے تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھےجبکہ باقی سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔
" یہ سب کیسے۔۔ کیا مطلب۔۔۔ اوئے سچ سچ بتاؤ تم سب۔۔۔ کس نے غدادی کی ہے ہم سے۔۔ کا نے بتایا ان لڑکیوں کو سب کچھ۔۔۔ موئذ۔۔ فہیم سچ سچ بتاؤ" سب سے پہلے حازق کو ہوش آیا۔ اپنا پلین خراب ہوتے دیکھ اس کا سب سے پہلا خک مویذ اور فہیم پر گیا۔
" ہم نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ یہ یہ جو لڑکیاں ہوتی ہے نہ ان کی تو عادت ہوتی کے چھپ چھپ کر باتیں سننے کی۔ انہوں نے بھی ہماری باتیں سنی ہے" شارق نے سب لڑکیوں کو گھورتے ہوئے کہا۔
"اوو ہیلو۔۔ ہم اتنے فارغ نہیں ہے کہ تم سب کی باتیں سنتے پھرے۔ یہ چیپ کام تم لوگوں کو ہی مبارک ہو" ندا نے آگے بڑھ کر جواب دیا۔
" اوو۔۔ ہیلو مسز۔۔ ہم لوگ فارغ تھے تو یہ ڈیلوریشن وغیرہ آپ نے کروائی ہے" فہیم نے بھی آگے بڑھ کر اسے جواب دیا۔
وہ سب اس وقت میدان مائیوں میں نہیں بلکہ میدان جنگ میں لگ رہے تھے۔
" اوو۔۔ تو تیاری آپ لوگوں نے کروائی ہے۔ تو چلے ایک بات بتائیں یہ ایک خفیہ راستہ تو سمجھ آتا ہے لیکن یہ دوسرا خفیہ راستہ آپ نے کیوں بنوایا تھا" مہک نے بھی ٹانگ آڑائی۔
" یہ دونوں ہی راستے ہم نے نہیں بنوائے تھے بلکہ یہ ٹینٹ لگانے والو نے کھولے تھے۔ مگر چلو ہم نے تو یہاں سب کروایا تھا مگر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہاں "خفیہ" راستے بنائے گئے ہے وہ بھی ہم نے" زمان نے آگے بڑھ کر ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ جس پر لڑکیاں یک دم گھبرائی۔ اب انہیں کیا بتاتی کہ جب وہ لوگ یہاں اپنی انٹری کا انتظام کررہے تھے تب وہ لوگ بھی مایا کے ڈرائیور کے ساتھ اپنی انٹری کا انتظام کرنے یہاں آئے تھے۔ اور چھپ کر ان کی انٹری کا دروازہ دیکھنے اور دوسری طرف کے دروازے کا راز جاننے کے بعد ان سے پہلے واپس جا چکی تھی۔
مگر اس سے پہلے کہ کوئی جواب دیتا وقار صاحب چہرے پر گہری سنجیدگی لئے ان کے بیچ آئے۔
انہیں دیکھ کر سب خاموش کے خاموش رہ گئے۔
" ہوگیا تم سب کا" آنہوں نے سرد لہجے میں لڑکا پارٹی کی ظرف رخ موڑ کر کہا تو سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
" چلو بس کرو اب لڑائی تاکہ جلدی سے رسم کریں " سعدیہ بیگم نے انہیں وقار صاحب سے بچاتے ہوئے کہا تو سب نے جھٹ پٹ اپنی جگہ سنبھال لی۔
سٹیج کو تینوں طرف سے خوبصورت پردے لگا کر سجایا گیا تھا۔ جس پر ایک بڑا صوفہ رکھا تھا۔ اور دونوں سائیڈوں پر ون سیٹر صوفے بھی۔سامنے شیشے کی میز بھی ابٹن کے سامان سے سجائی گئی تھی۔
مایا اور سعد صوفوں پر بیٹھ گئے۔
باقی سب دوست پیچھے کھڑے ہوگئے۔ سب نے باری باری رسم کی۔ رسم کے طور پر مویذ نے بھی شروع میں مایا کا بھائی بن کر تھوڑی تھوڑی ابٹن دونوں کو لگائی تھی اور اب وہ دوستوں کی لائن میں کھڑا تھا۔ جب سب نے دسم کرلی تو وہ سب اکھٹے ہی سامنے آگئے۔ اور پھر سب نے ابٹن کی ایک ایک پیالی اٹھا لی اور انہیں ابٹن میں نہلا دیا۔ ایک دوسرے کو بھی انہوں نے کافی ابٹن لگائی تھی۔ کافی ہلا گلا کرنے اور تصویریں بنوانے کے بعد وہ لوگ سٹیج سے اتر گئے۔
سٹیج سے اترنے کے بعد مہک ایک کونے میں کھڑے ہو کر تصویریں بنا رہی تھی جب حازق موقع دیکھ کر ابٹن کی دو پیالیاں اٹھا کر اس کے پیچھے گیا اور کچھ بھی دیکھے بنا دونوں پیالیاں اس پر الٹا دی اور دوڑ لگا دی۔ مہک نے بھی ٹیبل پر جا کر دو پیالیاں اٹھائی اور اس کے پیچھے بھاگی۔ سب دوست دیکھ کر ہنسنے لگے۔ جبکہ ندا ان کی ویڈیوں بنانے لگی۔
ان خوبصورت لمحوں کو محسوس کرتے یہ تقریب ختم ہوئی اور سب آپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔۔۔
وہ سب لوگ رات ماہیوں کے فنکشن سے کافی لیٹ واپس آئے تھے۔ اسی لئے سعد ابھی تک سو رہا تھا۔ زیادہ کام نہیں تھا۔ اس لئے کسی نے پہلے اسے اثھایا بھی نہیں تھا۔ لیکن اب تھوڑی دیر پہلے سعدیہ بیگم نے اسے اٹھایا دیا تھا۔
اور اب وہ فریش ہو کر باہر آیا تھا تو اس نے بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اب وہ شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال سیٹ کرنے لگا۔
اسے آج انجانی سی خوشی محسوس ہورہی تھی۔ سکون سا۔۔۔ عجیب ہی۔ ایسا تو اسے اپنی پسند کے مل جانے پر بھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ پھر۔ یہ کیا ہورہا تھا۔ شاید یہ مکمل خوشی ہی وہ وجہ تھی جو ندا اس کی نہیں ہوئی تھی۔ بےشک اللّٰہ کا فیصلہ بہترین ہوتا ہے۔۔۔
مایا کا خیال آنے پر وہ مسکرایا تھا اور اپنی اور اسکی کل مائیوں کی تصویر دیکھنے کے لئے اس نے موبائل کھولا۔ مگر وہاں انجان نمبر سے مسج آئے ہوئے تھے۔ سعد نے وہ مسجز کھولے تو وہ کچھ یوں تھے۔
" ہیلو سعد۔ میں شعیب ہوں۔ امید کرتا ہوں تم میری پوری بات سنو گے۔ دیکھو تم پلیز مایا سے شادی مت کرو۔ میں تو اس سے محبت کرتا ہی ہوں مگر کل رات مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ مایا بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔ اگر اس کا مسج مجھے کل رات نہ ملتا فو یقین کرو میں کبھی تمھارے راستے میں نہ آتا۔ مگر کل اس نے مجھے مسج کر کے میری محبت کو جگا دیا ہے۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے اور یہ بات اس نے خود مجھے کل رات بتائی ہے۔ بس وہ اپنے بھائی کو کھونا نہیں چاہتی اس لئے تم سے شادی کررہی پے۔ اپنے بھائی کو بتانے سے ڈر رہی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ تم میری بات کا یقین نہیں کرو گے اسی لئے یہ کچھ تصویریں بھی ہے جو کل رات میری اور مایا کی چیٹ کی ہے۔ یہ پڑھ کر تمھیں میری بات کا یقین آجائے گا۔ میری تم سے ریکیوسٹ ہے تم پلیز مایا کو چھوڑ دو" مسج پڑھتے سعد کے چہرے پر چٹانوں جیسی سنجیدگی تھی۔
اس نے وہ سکرین شوٹز کھولے جن میں مایا اور شعیب کی چیٹ تھی. وہ کچھ یوں تھی۔ مایا اس سے کہہ رہی تھی کہ
" شعیب۔ میں مایا ہوں۔ پلیز میری بات سنو۔ دیکھو۔ میں جانتی ہوں میں نے تمھارے ساتھ بہت برا کیا ہے۔ مگر اب میں تم سے سخت شرمندہ ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کب کس وقت کہاں مجھے تم سے محبت ہوگئی۔ شاید یہ تمھاری محبت کی شدد ہی ہے کہ میں تم سے محبت کرنے سے خود کو روک نہ سکی اور آج دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر تمھیں بتارہی ہوں۔ پلیز مجھے اپنالو۔ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مجھے سعد سے شادی نہیں کرنی ہے۔ مگر میں اپنے بھائی کو بھی نہیں کھو سکتی۔ میں اپنا اعتبار ان کی نظروں میں بلکل بھی کھونا نپیں چاہتی ہوں۔ انہوں نے میرے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ میری ہر خواہش پوری کی ہے میں اب ان کی یہ خواہش رد نہیں کر سکتی۔ اور سعد کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتی۔ پلیز تم کچھ کرو۔ اب تم ہی فیصلہ کرو کہ تم مجھے جیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہو یا نہیں۔ کیونکہ تمھارے بغیر میں زندہ تو رہو گی مگر جی نہیں پاؤ گی۔ اب فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے۔ امید کرتی ہو تم میرے لئے اپنی محبت کو بھولے نہیں ہوگے۔ اللّٰہ حافظ۔۔!!" سعد کو یہ سب پڑھ مر اپنے کانوں میں سے دھویا نکلتا محسوس ہورہا تھا۔
اور پھر وہ موبائل جیب میں ڈال کر چابی اٹھا کر بغیر اوپر کچھ پہنے باہر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے کس نے آواز دی کس نے روکا اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ تیز رفتاری سے جا کر گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی نکال کر فل۔سپیڈ میں موئذ کے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ گھر پہنچ کر اس نے گاڑی باہر ہی لاک کی اور بیل کے بٹن کو تب تک دبائے رکھا جب تک دروازہ نہ کھل گیا ہو۔ دروازہ کھلنے پر سلام دعا کئے بنا کی وہ موئذ کو آوازیں دیتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ موئذ اندر لاؤنج میں ہی کھڑا تھا۔ سعد کو دیکھ کر حیران ہوا۔ سعد کی آنکھیں لال انگارا ہورہی تھی۔ اور سانس اتنا تیز چل رہا تھا جیسے وہ اپنے گھر سے یہاں تک بھاگ کر آیا ہو۔
" سعد۔۔ کیا ہوا ہے سعد۔ ٹھیک تو ہے نہ تو۔ کیا ہوا ہے تجھے" موئذ نے آگے بڑھ کر اس کے بازو پکڑ کر پریشانی سے پوچھا۔ اتنا غصہ تو اسے اپنے پچھلے نکاح پر بھی نہیں آیا تھا۔
" نہیں کچھ بھی ٹھیک نہیں تو بس مایا کو بلا۔۔ ابھی۔۔" سعد نے کوئی بھی لحاظ کئے بغیر سنگین لہجے میں کہا۔ موئذ نے کچھ پوچھنا چاہا مگر سعد کے چہرے اور لہجے کی سنگینی محسوس کر کے مایا کو آواز دی۔
" مایا"
اندر موجود مایا کا دل سعد کی آواز اور بات سن کر زور سے ڈھرکا تھا۔ جیسے جس چیز کا خوف ہو وہ ہوگیا ہو۔۔!!