حامد نے اُتھ کر میرے آنسو خشک کئے اور میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
میں نے دل ہی دل میں کہا: کیا دیکھ رہا ہے پگلے! اب ان آنکھوں میں کیا دھرا ہے۔ اب تو تُو نے وہ بھی خشک کر دئیے ورنہ آنسو ہی دیکھ لیتا۔ لیکن میں حامد سے کچھ نہیں کہہ پایا۔ وہ مجھے اچانک اپنی عمر سے بہت بڑا نظر آیا جیسے بیٹھے بیٹھے ان لمحوں میں اس نے پاس بیٹھے ہم سب لوگوں کی عمروں کا تھوڑا تھوڑا حصہ مانگ لیا ہو۔ مجھے معلوم نہیں کیوں، اس سے خوف محسوس ہوا۔ میں نے چاہا کہ اس کا ہاتھ چھوڑ دوں تاکہ وہ ان کم زور لمحوں میں میرے کانپتے ہوئے لمس سے کوئی نتیجہ نہ نکال لے۔ میں نے جب اس کا ہاتھ چھوڑنا چاہا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں اس کا ہاتھ نہیں پکڑے تھا بلکہ وہ میرا ہاتھ تھامے ہوئے تھا اور عزیز بھائی اور مجید بھیّا کی طرف دیکھ رہا تھا۔
عزیز اور مجید نے سوچا کہ پرسوں نہر کی پٹری پر جب چاند نہیں نکلا تو ہم لوگ ڈر گئے تھے کہ اس سال معلوم نہیں کیا ہو۔۔۔ پچھلے سال تو تیز اور گرم ہواؤں نے آم کی ساری فصل تباہ کر دی تھی اور اس سال سنا ہے وہاں لوگ لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان سے وہاں کوئی چیز نہیں جا سکتی۔ آم تو پھر شوقیہ کھانے کی چیز ہے۔ لڑائی کے عالم میں بھلا ہمارے آم کون پوچھے گا اور کسی کو بھلا کیا خبر کہ آم کی فصل ہی ہمارے بچوں کو سال بھر روٹی دیتی ہے، تو اس وقت حامد میاں نے اشارہ کر کے بتایا تھا کہ سامنے ان دو شیشموں کے بیچ ایک گھر سا بنا ہوا ہے۔
تو جب ہم نے دیکھا تو نظر آیا کہ ڈوبے ہوئے سورج کی زرد روشنی میں وہاں ایک گھر بنا ہے جس کے دروازے پر ہم کھڑے ہیں اور اس گھر کے چاروں طرف آم کے باغات ہیں اور ان آم کے باغوں میں چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ دھڑا دھڑ درخت جل رہے ہیں۔ پکے ہوئے آم آپ ہی آپ پھوٹ رہے ہیں اور ان میں سے انگارے نکل رہے ہیں، اور درختوں سے، جلے ہوئے مردہ پرندے ٹپک رہے ہیں اور جلتی ہوئی فاختائیں اور کبوتر پھڑک پھڑک کر دم توڑ رہے ہیں۔
ہم میں سب سے زیادہ سمجھ دار جمال میاں تھے تو ہم نے انھیں بتانے کے لئے جب ان کی طرف دیکھا تو وہ خود آنکھیں پھاڑے شیشموں کے بیچ کچھ دیکھ رہے تھے اور تبھی ہم نے دیکھا تھا کہ حامد میاں شاہد میاں کی کمر پکڑے بے ہوش ہو چکے ہیں۔
تب جمال نے خاموش بیٹھے پانچوں افراد کو باری باری دیکھ کر پھر سوچنا شروع کیا۔ پرسوں دو شیشم کے درختوں کے بیچ اس کنارے پر، نہر کی پٹری پر بنے گھر کی چھت پر اپنے آپ کو کھڑا دیکھ کر، اس کنارے پر خود کو میں نے کتنا غیر محفوظ محسوس کیا تھا۔ اچانک غلام ماموں نے اس کنارے پر کچھ دیکھا اور کہا۔
’’ارے! دیکھو! ہو سکتا ہے ان شیشموں کے درمیان دھوپ ڈھلتے وقت بڑے درختوں کا سایہ اس انداز سے پڑتا ہو کہ وہ جگہ ایک گھر کی طرح نظر آتی ہو۔ ابھی ابھی دوپ ڈھلے پر میں نے یہ محسوس کیا ہے۔ کیا تم لوگوں نے غور کیا؟‘‘
ہم سب نے ان کا یہ جملہ سنا اور بہتی ہوئی نہر کو دیکھا اور سامنے ان شیشموں کو دیکھا اور ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا اور بہتی ہوئی نہر کی گمبھیر خاموشی کے اوپر سے واپس آتے ہوئے ہم نے شاید ایک ساتھ سوچا کہ سب دھوکا ہے اور سب وہم ہے۔ لیکن یہ بہتی ہوئی نہر حقیقت ہے اور ڈھلتا ہوا یہ سورج حقیقت ہے اور ہم بیٹھے ہوئے یہ سارے افراد حقیقت ہیں۔
جمال نے سوچا، پرسوں حامد نے جیسے ہی اشارہ کیا تھا، میں نے اُدھر دیکھا تھا۔ میں اس نیم تاریک گھر کی چھت پر کھڑا تھا۔ سامنے دور دور تک میدان تھا جس میں بے شمار قافلے خاموشی سے چلے جا رہے تھے۔ قافلے والوں کے کندھوں پر جلتی ہوئی مسجدیں رکھی تھیں جن کے مناروں سے شعلے اٹھ رہے تھے۔ جلتے ہوئے مناروں کو دیکھ کر قافلے والے اپنی پیشانیوں کے زخموں سے بہتے ہوئے لہو کو اپنے ہاتھوں سے روکتے، ایک لمحے کو رکتے، سرخ ہتھیلیوں کو دیکھتے اور پھر قدم بڑھا دیتے تھے۔ بڑے میدان کو پار کر کے قافلے والے آہستہ آہستہ نیلے سمندروں میں اتر رہے تھے اور بے آواز سکون کے ساتھ ڈوب رہے تھے اور جو قافلہ سمندر کی جانب سے رخ موڑتا اور کوئی اور سمت اختیار کرتا تو اس قافلے میں بھگدڑ مچ جاتی۔ اصیل گھوڑے بدن سے بدن ملائے، اگلے سُموں کو اوپر بلند کرتے، دُم کو سیدھا کرتے اور سانپ کی طرح پھنکار پھنکار کر ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے اور ان کے سُموں سے آگ کی چنگاریاں نکلتیں۔ بلبلاتے ہوئے اونٹ بھاگتے اور ٹھوکریں کھا کر سر کے بل گرتے اور تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے۔ وجیہہ سپاہی، چلوں میں تیر جوڑتے اور کھڑے کھڑے بت بن جاتے۔ حسین اور طویل قامت عورتیں مشکیزوں میں پانی بھر بھر کے لاتیں اور لاشوں کے منھ میں پانی ڈال ڈال کر، ان لاشوں کی آنکھیں کھول کھول کر دیکھتیں اور ان آنکھوں میں لپٹی ہوئی موت کا نوحہ پڑھتیں اور ان جسموں کو یاد کرتیں جن کی قربت انھیں میسّر تھی اور پھر طویل گریے کے بعد وہ اپنی چوڑیاں توڑتیں اور کلائیوں میں سیاہ کلاوے باندھ کر سفید چادر ڈال لیتیں جنھیں دوسرے قافلے کے سپاہی کھینچ کھینچ کر وحشیانہ قہقہے لگاتے اور پھر خاموش قافلوں کا سفر شروع ہوتا جو اپنے شانوں پر جلتی ہوئی سفید مسجدیں اٹھائے رواں تھے اور گہرے سمندروں میں غرق ہونے کے لئے آہستہ آہستہ بڑھا رہے تھے اور جیسے ہی قافلہ سمندروں میں ڈوبنے سے انکار کرتا، اس قافلے کے گھوڑے سُموں کو بلند کرتے، سانپ کی طرح پھنکارتے اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے اور بلبلاتے ہوئے اونٹ ٹھوکریں کھا کر گرتے اور تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتے۔
جمال نے سوچا: شکار پر آنے سے پہلے میاں سے پوچھا تھا، ’’میاں! عہد وسطی کی تاریخ پڑھانا کس قدر مشکل کام ہے!‘‘
تو میاں نے آہستہ سے کہا تھا، ’’اس سے بھی زیادہ مشکل تاریخ ایک اور دور کی ہے۔‘‘
’’وہ کون سا دور ہے میاں؟‘‘
تو میاں نے میری طرف اتنی مایوس نظروں سے دیکھا تھا کہ مجھے لگا جیسے میں اپنا پڑھا لکھا سب بھول چکا ہوں۔ پھر میاں نے اپنے شانوں پہ بکھری ہوئی سفید کاکلوں میں انگلیاں ڈال کر انھیں الجھا لیا تھا۔ گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے نیچے تک چاک کر دیا تھا اور آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر مجھ سے کہا تھا، ’’صبر کرو! صبر کرو! اور کم از کم ایمان کے ادنا درجے سے کبھی گریز نہ کرو۔ اور شکر کرو کہ سارے دکھ سکھ تمھارے اپنے ہیں، تمھاری اپنی مِلک۔ اب جاؤ اور دیکھو! گھبرایا مت کرو۔ لکھنؤ والے بھائی کو دیکھو! دنیا جہان کی درد ناک خبریں صبح و شام جمع کرتا ہے، انھیں پڑھتا ہے اور صبر کرتا ہے اور مجھے وہاں سے لکھتا ہے کہ اسے اب شب خون کا خطرہ نہیں رہا۔ اس نے خیموں کو جلا کر صحرا روشن کر لیا ہے اور اُس موج خون سے اپنا چہرہ گل نار کر لیا ہے، جس سے کبھی دجلے کا پانی روشن ہوتا ہے، کبھی گنگا کا۔ اس نے مجھے یہ بھی لکھا ہے کہ جمال کو بتا دیجئے کہ جب بھی کہنہ محرابوں سے دھواں اٹھتا محسوس ہو تو خوابوں کا پھریرا روشن کر لے۔ بس اب۔۔۔ جاؤ! تمھارے ساتھی شکار کے لئے تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
وہاں سے نکل کر شکار کے لئے میں نہر پر آ گیا جہاں وہ منظر دیکھا۔
جمال سوچ کی دلدل سے آہستہ آہستہ اوپر ابھرا تو پانچوں ساتھی نیچے سر ڈالے خاموش بیٹھے تھے۔ جمال کو محسوس ہوا کہ سرد موسم کے ڈھلتے ہوئے دن کی شام کو، بہتی ہوئی نہر کے کنارے، اس چھوٹے سے ٹیلے پر ہم سب لوگ صدیوں پرانے کھنڈر ہیں جو خود اپنے آپ کو اپنی داستان سنا رہے ہیں۔ ہر جگہ ایسے ہی کھنڈر بکھرے پڑے ہیں جہاں داستانیں سنائی جا رہی ہیں۔ پوری داستان یاد نہیں رہی ہے۔ جو حصہ یاد آ جاتا ہے وہیں سے قصہ شروع ہو جاتا ہے۔ اصل سرا ہاتھ سے چھوٹ کر کہیں کھو گیا ہے۔
تبھی ایک کھنڈر نے اپنا سر سینے سے اٹھایا اور بولا، ’’میاں نے چلتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ آج نہر پر زیادہ دیر نہ کرنا۔ اب حامد سے پوچھ لیں کہ اس نے پرسوں شیشم کے درختوں کے بیچ کیا دیکھا تھا؟‘‘
غلام ماموں کی آواز سُن کر جیسے ہم لوگ جاگ پڑے اور ہم سب کو ایسا محسوس ہوا جیسے ہم سب ایک ساتھ الگ ہوئے تھے اور برسوں کا سفر طے کر کے، کوسوں کی مسافت کے بعد ابھی ابھی واپس آئے ہیں۔ مجھے لگا جیسے اس پورے عرصے میں ہم لوگ ایک دوسرے سے بالکل اجنبی ہو گئے تھے اور سارے لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو کر علاحدہ علاحدہ آسیب زدہ اور خاموش جزیروں میں بیٹھے ہوئے، اپنے سینے پر لکھی ہوئی وہ دھندلی تحریر پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے جس میں جزیرے سے باہر نکلنے کا راستہ لکھا تھا۔
دھوپ اب زرد ہو گئی تھی اور بہت دور کے کھیت، دھُند میں آہستہ آہستہ گم ہو رہے تھے۔ بڑی فاختہ خاموش ہو چکی تھی۔ نہر دھیمے دھیمے بہتی چلی جا رہی تھی اور ہمیشہ کی طرح شام ہونے پر اور زیادہ گہری محسوس ہونے لگی تھی۔ اور سردیوں کی اس خاموش اور اجنبی شام میں ہم سب لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا وہ لڑکا، ہم سب کو باری باری غور سے دیکھ رہا تھا۔
جس وقت اس نے اپنی زبان سے پہلا لفظ کہنا چاہا، اس وقت میں نے ہی نہیں، ہم سب نے محسوس کیا کہ وہ اَن جان لمحہ آ گیا جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ ہم سب جو اَب اپنی اپنی واردات سے واقف تھے، ایک دوسرے سے خود کو منسلک بھی سمجھ رہے تھے اور جدا بھی۔ اس بے نام کیفیت میں معلوم نہیں کیوں، ہم سب نے خود کو مجرم محسوس کیا۔
حامد نے تمام سہمے ہوئے چہروں کو ایک بار پھر غور سے دیکھا تو غلام ماموں نے کہا، ’’آج میاں نے صبح ہی صبح اسے گھر سے بلا کر اس پر دعا دم کی اور اس سے پوچھا کہ اس نے کیا دیکھا تھا؟ حامد نے جب اپنا دیکھا میاں کو سنایا تو وہ بہت روئے اور جب یہ ان کے روئے سے گھبرا کر خود بھی رونے لگا تو میاں نے اس کے آنسو پونچھ کر اس سے کہا، تو ابھی بہت کم عمر ہے۔ تُو نے ابھی کھویا ہی کیا ہے کہ تجھے صبر کی تلقین کروں۔ بس اللہ تجھے توفیق دے کہ تُو اپنے بڑوں کا قرض ادا کر سکے اور اس کے دکھ برداشت کر سکے۔ اللہ تجھے ہمّت دے اور پُر امید رکھے۔ پھر میاں نے حامد سے کہا کہ آج تُو نہر پر سب کے ساتھ جائے گا۔ کوئی اپنا منظر نہیں بتائے گا، میں غلام کو منع کر چکا ہوں۔ لیکن تجھے تو بتانا ہو گا۔ تجھے تو بتانا ہو گا میرے پُوت!‘‘
اسی وقت ہوا کسی درخت کی ٹہنیوں سے الجھ کر نکلی اور ہم لوگوں کے سروں پر ناچنے لگی اور ہم نے خود کو بہت کم زور محسوس کیا۔
تبھی حامد نے دھیمے دھیمے کہنا شروع کیا، اور جب وہ اپنا منظر بیان کر کے خاموش ہوا، ہم سب کی پتھرائی ہوئی، ساکت پُتلیاں اس کا چہرہ تک رہی تھیں اور وہ بے رحم نظروں سے ہماری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
غلام ماموں پسینے سے تر ہو گئے تھے۔ ہم لوگوں کی بھیگی ہوئی پیشانیوں کو دیکھ کر انھوں نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور بہت تھلی ہوئی آواز میں کہا۔
’’یہ پورا منظر بیان کر کے حامد نے میاں سے پوچھا تھا کہ یہ سب کس نے کیا ہے تو۔۔۔ تو میاں نے اسے بتا دیا کہ یہ کس کا کام ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غلام ماموں نے اپنا سر نیچے ڈال لیا۔ ہم سب نے بھی خاموشی کے ساتھ اپنے سر جھکا لیے کہ اور چارہ بھی کیا تھا۔
’’شام ہو رہی ہے۔ گھر واپس چلو!‘‘ غلام ماموں کی آواز بہت شکستہ تھی اور واپسی میں ابھی قصبہ دور تھا کہ سورج ڈوبنے لگا۔ سڑک کے دونوں طرف کے درختوں نے راستے کو مزید دھندلا کر دیا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کے قریب قریب چل رہے تھے کہ اچانک کوئی سیار زور سے رویا اور ہمیں آسمان کے نچلے کنارے پر، شروع تاریخوں کا مہین، اجنبی چاند نظر آیا اور اسی وقت ہم نے دیکھا کہ خلافِ معمول آج حامد نے غلام ماموں سے بندوق لے کر اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ معاً ہمیں خیال آیا کہ حامد نے ابھی بندوق چلانا سیکھا ہی نہیں ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہم سب کو ایسا اطمینان محسوس ہوا جیسے دل بھر کے رونے کے بعد ابھی خاموش ہوئے ہوں۔ ہم سب نے چور نگاہوں سے حامد کی طرف دیکھا جس نے تھوڑی دیر پہلے نہر کی پٹری پر اپنا منظر بیان کرتے وقت کہا تھا، ’’پرسوں جب چاند نہیں دِکھا اور جمال بھائی نے کہا کہ چاند تیسا تھا، نہ بھی نظر آئے تو کیا فرق پڑے گا تو بس یہی سن کر مجھے امی کی بات یاد آئی کہ عید آئے تو کیا فرق پڑے گا تو بس یہی سن کر مجھے امی کی بات یاد آئی کہ عید تو بچوں کے لئے ہوتی ہے اور چاند نکلتے ہی شروع ہو جاتی ہے تو میں نے سوچا کہ چاند ہی نہیں تو عید کیسے شروع ہو پائے گی۔ بس اسی وقت سامنے والے دو درختوں کے بیچ مجھے ایک گھر سا بنا ہوا دکھائی دیا اور اس گھر سے میں نے اپنے آپ کو نکلتے دیکھا۔ میری دونوں آنکھوں پھوٹی ہوئی تھیں اور کان بند تھے اور زبان کٹی ہوئی تھی۔ میں پھر ٹھوکریں کھاتا ہوا آگے بڑھا کہ وہ لڑکا باہر نکلا۔ اس بار، معلوم ہے، کون تھا؟ اس بار بھی میں ہی تھا اور میری دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی تھیں اور کان بند تھے اور زبان کٹی ہوئی تھی۔
’’اس گھر سے مسلسل میں ہی باہر نکل رہا تھا اور ٹھوکریں کھاتا ٹٹولتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
’’اُسی وقت میں نے آپ سب کو جلدی سے دکھایا تھا کہ وہ سامنے کیا ہے، شیشم کے نیچے۔ آپ سب لوگ دیکھنے میں لگ گئے اور کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ سامنے اس گھر میں سے جو لڑکے باہر آ رہے تھے، ان کی صورت میری جیسی کیوں ہے اور میری آنکھیں کس نے پھوڑی ہیں، میرے کان کس نے بند کیے ہیں، میری زبان کس نے کاٹ ڈالی ہے؟ لیکن اب۔۔۔ میاں مجھے بتا چکے ہیں۔‘‘
چلتے میں حامد نے تیز نظروں سے ہم سب کو باری باری دیکھا جیسے کچھ پوچھنا چاہتا ہو لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس حالت میں نہیں تھا کہ اسے جواب دے سکے۔
تو جب قریب کے درختوں کی پرچھائیوں نے دور کے درختوں کی پرچھائیوں کو کاٹا اور اس عالم میں ہم لوگوں کے لمبے لمبے سائے، دھند میں ڈوبی نیم تاریک بستی میں داخل ہوئے تو ہم مجبور لوگوں نے بہت بے بسی کے ساتھ، بے حد واضح طریقے سے محسوس کیا کہ اب ہم سب کے سب اس اناڑی بندوق والے کی رہ نمائی میں پیچھے پیچھے چل رہے ہیں جس کی دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔
٭٭
ادب ساز، دہلی، شمارہ ۱، اپریل تا جون ۲۰۰۶ء، مدیر: نصرت ظہیر
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید