’’یہی بات ہے چچا! ہم لوگوں نے بھی الگ الگ چیزیں دیکھی تھیں۔ بس حامد نہیں بتاتا کہ اس نے کیا دیکھا۔‘‘
’’کیا کہتا ہے وہ؟‘‘
’’وہ کہتا ہے، اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس پر میں نے کہا کہ تم ہی نے تو سب سے پہلے اشارہ کیا تھا کہ ادھر نہر کے پار، شیشم کے دو درختوں کے بیچ، کچھ گھر جیسا بنا ہوا ہے۔ وہاں بھلا گھر کہاں سے آ جائے گا۔ تو اس پر وہ کہتا ہے کہ ہاں، بس ایک گھر نظر آیا تھا۔ وہ اور کچھ نہیں بتاتا۔ ڈر گیا ہے۔ بالک چپ ہو جاتا ہے۔ زیادہ پوچھو تو رونے لگتا ہے۔ لیکن۔۔۔ شریف چچا!‘‘
شریف چچا نے پلکیں اوپر اٹھائیں۔ ان کا چہرہ زرد ہو گیا تھا۔
’’تم نے کیا دیکھا تھا؟ چچا!‘‘ میرے بجائے جمال بولے تھے۔
’’میں سمجھ رہا تھا، تم یہی پوچھو گے۔ جو کچھ میں نے دیکھا تھا، وہ اگر تمھیں بتا دوں تو یقین کر لو گے؟‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہے تھے۔
’’تب مجھے میاں نے منع کر دیا تھا کہ کسی کو کچھ نہ بتاؤ، لیکن اب بہت دن بیت چکے ہیں اور تمھیں بھی نہر پر کچھ نظر آیا ہے، اس لئے آج بتا رہا ہوں۔۔۔ لیکن کیسا عجیب لگتا ہے یہ سوچ کر کہ ہم نے الگ الگ منظر دیکھا تھا۔ سنو! نور الدین نے دیکھا تھا کہ نہر کی پٹری پر یہاں سے وہاں تک تیل کے کنویں کھدے پڑے ہیں اور ان کنوؤں میں ایک ساتھ آگ لگ گئی ہے اور آگ کی لپٹیں اتنی اونچی ہیں جیسے آسمان سے زمین پر برس رہی ہوں اور ان آگ کی لپٹوں کے ساتھ، جا بجا چلتے ہوئے لمبے لمبے عمامے فضا میں لہرا رہے ہیں اور ’’یا حبیبی، یا حبیبی‘‘ کی بے چین صدائیں چاروں طرف گونج رہی ہیں۔ چند لمحوں تک یہ منظر اس نے دیکھا اور جب میں نے نور الدین کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں مردے کی آنکھیں لگ رہی تھیں۔‘‘
شریف چچا سانس لینے کو رُکے تھے اور پھر ہم سب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولے تھے، ’’تمھیں معلوم ہے میں نے کیا دیکھا تھا۔ میاں کے علاوہ آج پہلی بار سب کو بتا رہا ہوں۔ اس دن تمھاری چچی کو گزرے قریب ایک مہینہ بیت چکا تھا۔ مرنے سے پہلے مرحومہ کئی بار مجھ سے کہہ چکی تھیں کہ لاہور میں ان کے بھائی کو خط لکھ دوں کہ اب کی مرتبہ جب بزنس کے سلسلے میں ڈھاکا جانا ہو تو کسی آتے جاتے کے ہاتھ ململ کا ایک تھان ہندوستان بھیج دیں۔ بہت دن سے مہین کرتے نہیں پہنے ہیں۔ جب میں نے تمھاری چچی کو بتایا کہ کچھ دن ہوئے ڈھاکا پاکستان سے الگ ہو گیا ہے اور اب پاکستان والے وہاں نہیں جاتے تو یہ سب سُن کر ہذیانی انداز میں زور زور سے چلّانے لگی تھیں۔ جب میں نے انھیں پوری صورتِ حال سمجھائی تو وہ ایک دم کھلکھلا کر ہنسی تھیں اور پھر چپ ہو گئی تھیں۔ دوسرے دن سے ان کی کھانسی کے دورے تیز ہو گئے تھے۔ شام کو میرے پاس آ کر، میرے سینے پر سر رکھ کر، چپکے چپکے بولی تھیں کہ یہ سوچ سوچ کر ہمیشہ خود کو خوش کر لیتی تھی کہ لاہور والے بھائی جان، ڈھاکا والے رشتے داروں کے پاس جا کر، ململ کے تھان لے کر کسی آتے جاتے کے ہاتھ ہمیں ہندوستان بھیج دیں گے تو ہم سفید اجلے کُرتے پہن کر، پڑوس کے پنڈت کی بیوی سے کہیں گے کہ بی پڑوسن! ہمیں اچھے کپڑوں کی کیا کمی۔ ڈھاکا اور لاہور کے عزیز سلامت! جو ہمیں ململ خرید کر بھیج دیتے ہیں، لیکن۔۔۔ جب کل تم نے بتایا کہ اب لاہور اور ڈھاکے میں رشتہ نہیں رہا ہے تو میں نے سوچا کہ یہیں بازار سے کپڑے خرید لیں گے۔ تمھاری چچی نے پلنگ سے اٹھ کر مجھے جو کپڑے دکھائے وہ کھادی کے کرتے تھے۔ سفید، ہرے، نیلے اور گیروے رنگ کی کھادی، اور یہ کُرتے دکھا کر وہ پھر ہنسنے لگی تھیں۔ کچھ دن بعد وہ ایک رات گیروے رنگ کا کُرتا پہن کر سوئیں۔ میں انھیں دوا پلا کر اپنے بستر پر آ کر سو گیا۔ صبح فجر کے وقت میں نے انھیں جا کر جگایا تو وہ نہیں جاگیں۔ ان کی آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھیں اور ململ کی طرح سفید تھیں۔ اور اب تم سنو کہ اُس دن میں نے نہر پر کیا دیکھا تھا۔ اس شام سورج غروب ہو رہا تھا کہ نور الدین کے کہنے پر میں نے نہر کی پٹری پر شیشموں کی طرف دیکھا تو دیکھا کہ نہر کی پٹری پر تمھاری چچی کھڑی ہیں۔ وہ بالکل جوان ہیں جیسی اپنے گھر سے آئی تھیں۔ تمھاری چچی اوپر سے نیچے تک ململ کا تھان لپیٹے ہوئے ہیں اور مسکراتی ہوئی دونوں ہاتھوں سے اپنا لباس تھامے، میری طرف چلی آ رہی ہیں کہ اچانک نہر سے لمبے لمبے ناخنوں والے، بڑے بڑے، بہت سے ہاتھ باہر نکلے اور تمھاری چچی کے بدن سے کپڑے چھیننے لگے۔ وہ وحشت زدہ کھڑی دیکھتی رہیں۔ ان ہاتھوں نے ململ کا تھان اتار کر نہر کے دوسرے کنارے پر ڈال دیا اور تمھاری چچی بالکل بے لباس ہو گئیں۔ بے لباس کھڑے کھڑے انھوں نے تھوڑی دیر تک کچھ سوچا اور پھر زمین سے ایک کپڑا اٹھا کر اپنے بدن پر پہن لیا۔ وہ گیروے رنگ کا کُرتا تھا۔ تمھاری چچی لمبا کرتا پہن کر ایک دم زور سے کھلکھلا کر ہنسیں اور پھر اس قدر مطمئن ہو گئیں کہ میں اس خوف اور تحیّر کے عالم میں بھی چونک پڑا۔ بس اسی وقت میں نے نور الدین کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ مردے جیسی نظر آ رہی تھیں۔‘‘
شریف چچا جب خاموش ہوئی تو ہم اپنے دل کی دھڑکنیں واضح انداز میں سُن رہے تھے۔
اسی وقت غلام ماموں نے بیٹھک کا دروازہ کھولا تھا۔ سرد ہوا کا جھونکا اندر آیا تھا۔ تھوڑی دیر ٹھٹھکا تھا اور خاموشی سے واپس چلا گیا تھا۔
جمال نے دروازہ بند کیا تھا اور واپس آ کر پوچھا تھا، ’’یہ کیا بھید ہے شریف چچا؟‘‘
’’معلوم نہیں بیٹے! میرا دماغ کام نہیں کرتا۔ میاں سے پوچھا تو وہ خاموش ہو گئے تھے۔‘‘
’’لیکن چچا! ہم تو بچپن سے نہر پر شکار کھیل رہے ہیں۔ یہ خوف تو ہم سے ہمارا شوق بھی چھین لے گا۔ کیا نہر پر کوئی بڑی روح آ گئی ہے؟‘‘
’’کیا خبر! لیکن اب تم سب جا کر میاں سے کہو، وہی کچھ کریں گے۔۔۔‘‘
شام کو ہم سب میاں کے حجرے میں حاضر ہوئے تھے۔ اگر بتی کی خوش بو نے ماحول کو بوجھل بنا دیا تھا۔ میاں نے پوروں پر وظیفہ ختم کیا اور سفید پاکیزہ داڑھی سینے سے لگا لی اور تھوڑی دیر کے بعد جب اپنی نرم آنکھیں کھولی تھیں تو ہم سب نے اپنے آپ کو بہت محفوظ محسوس کیا تھا۔
تب میاں نے ٹھہری ہوئی آواز میں دھیمے سے کہا تھا، ’’صحابہؓ کے حلقے میں بیٹھے ہوئے سرور کائناتؐ نے فرمایا تھا: اے لوگو! جو مجھے معلوم ہے، اگر تمھیں اس کی خبر ہو جائے تو کبھی ہنسنے کی ہمّت بھی نہ کرو۔‘‘
میاں نے یہ کہہ کر اپنے آنسو خشک کر کے پوچھا تھا، ’’تم لوگوں کو معلوم ہے کہ حضوؐر کو کیا کیا معلوم تھا؟‘‘
ہم سب خاموش رہے۔ وہ سوال کر کے جواب خود ہی دیتے تھے۔ ہم سب ان کے جواب کے منتظر تھے لیکن جب وہ خاموش رہے تو ہم سب بے چین ہوئے۔
’’میاں! حضوؐر کو کیا کیا معلوم تھا؟‘‘ مجید بھیّا نے ہمّت کی تھی۔
میاں پھر بھی نہیں بولے تھے۔
اگر کا دھواں ہمارے سروں پر گاڑھا ہو رہا تھا اور خاموشی اس سے بھی زیادہ گاڑھی ہو چکی تھی۔
میاں آہستہ آہستہ رو رہے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے آنکھیں اٹھا کر مجید بھیّا کو مخاطب کیا تھا، ’’کیا نظام علی کا پوت ہے؟‘‘
’’جی ہاں! میں ہوں مجید‘‘ مجید بھیّا نے جواب دیا تھا۔
پھر میاں نے کہا تھا، ’’مجھے بھی نہیں معلوم ہے کہ انھیں کیا کیا معلوم تھا لیکن ربِّ علیم کی قسم! انھیں ہر چیز معلوم تھی۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر سب کو ہر چیز معلوم ہو جائے تو کبھی کوئی ہنسنے کی ہمّت بھی نہ کرے۔ اس خرابے کی ساری خرابیاں ان پر روشن تھیں۔ اس خرابے کے چاروں طرف جو کائنات ہے، اس میں ہر جگہ دکھوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے جو صاحبِ توفیق ہیں وہ دکھوں کے اس ڈھیر پر بیٹھے، دکھی نگاہوں سے، دکھ کا اتنا بڑا تماشا دیکھ رہے ہیں لیکن ہم دکھوں کی ماہئیت سے اَن جان ہیں، صرف صورت آشنا ہیں۔ وہ ان سب کی ماہئیت سے بھی واقف تھے۔ تبھی تو کہا تھا کہ جو کچھ مجھے معلوم ہے، وہ اگر سب لوگ جان لیں تو پھر کبھی کوئی نہ ہنسے۔‘‘
میاں کچھ دیر خاموش رہے تھے اور پھر بہت بھاری آواز میں کہا تھا، ’’تم سب لوگ جان لو کہ اب تمھاری دنیا میں دکھ بہت پیچیدہ ہو گئے ہیں ورنہ نہر پر تمھیں وہ منظر نظر نہ آتے۔ عید کا چاند محنت اور بندگی کا انعام ہوتا ہے۔ تمھاری محنت اور بندگی نامقبول ہوئی ورنہ چاند کیوں نہ دکھائی دیتا۔ ہم سب کے روزے گزرے ہوئے کل کی شام کو، زمین و آسماں کے درمیان معلق رہے ہوں گے اور دعا کرتے ہوں گے کہ اے خدا! اشرف المخلوقات کو ان کا انعام دے۔ انھیں چاند کا دیدار دے تو وہ صدقہ دیں اور ہم تیری بارگاہ میں مقبول ہوں۔ لیکن۔۔۔ خدا نے ہم میں سے کسی کو چاند کا دیدار نہیں دیا۔ ہمارے روزے درمیان میں معلق ہیں۔‘‘
مجھے حجرے کے نیم تاریک ماحول میں بیٹھے بیٹھے نظر آیا جیسے صحرا میں اونٹوں کا طویل قافلہ چلا جا رہا ہو اور کسی بڑے دشمن کے نیزہ بردار سپاہیوں نے تیز اور لمبے نیزوں سے، اونٹوں کی گردنوں کو چھید دیا ہو اور زخمی اونٹ بلبلا بلبلا کر چیخ چیخ کر تڑپ رہے ہوں۔