" We are against this War
Mr.Bush Shame on you!"
(Micheal Moore)
۔۔۔۔اقوام متحدہ میں کھلی سفارتی ناکامی کے بعد۲۰مارچ ۲۰۰۳ءکو امریکہ اور انگلینڈ نے مل کر عراق پر حملہ کر دیا ہے۔ عراق کوبارہ سال سے سخت ترین بین الاقوامی پابندیوں سے گزارنے کے بعد،اور حال ہی میں اقوام متحدہ کے اسلحہ انسپکٹرز کی طرف سے ہر طرح کی تلاشیاں لے کر عراق کو بالکل نہتا کردینے کے بعدامریکہ کی بہادر افواج نے عراق پر حملہ کردیا ہے۔اس سلسلہ میں ۲۰مارچ سے لے کر اب تک مختلف اردو اخبارات اورٹی وی چینلز پر ممتاز صحافیوں اور دانشوروں کی آراءاور تجزیوں سے باخبر رہنے کا موقعہ ملا۔خود کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔میں ذہنی اور قلبی طور پر شدید جذباتی کیفیات سے گزر رہا تھا،وہ کیفیات اپنے اثرات تو مرتب کر رہی ہیں لیکن اب ذہنی ہیجان کی حالت سے کچھ باہر آگیا ہوں۔اس لئے آج ۲۹مارچ کو اس مسئلہ کے بارے میں کچھ عرض کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔عراق پر امریکی حملہ کی جس انداز میں دنیا بھر نے شدید مذمت کی ہے اور اس پر جس طرح بلا امتیاز ہر طبقہ نے جارح حملہ آوروں کے خلاف شدیدغم و غصہ اور نفرت کا اظہار کیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ عالمی ضمیر نہ صر ف زندہ ہے بلکہ جھوٹے پروپیگنڈہ کو پوری طرح رد کرتا ہے۔اس معاملہ میں میرے جذبات بھی باقی ساری دنیا کے جذبات ہی کا حصہ ہیں۔اس عرصہ میں میں نے ٹی وی اور اخبارات پر جن دانشوروں کے تجزیوں اور تاثرات سے فیض اٹھایا ہے ان میں سے بعض کے ہاں مجھے ایسا لگا ہے کہ وہ پورے منظر کو اس کے سارے زاویوں سے دیکھنے کے بجائے صرف کسی ایک ہی زاویے سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں دوسرے زاویوں کو نظر انداز کر رہے ہیں یا رد کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں جو مختلف اور متضاد آراءسامنے آئی ہیں ان کا نقشہ کچھ یوں بنتا ہے۔
۱۔افغانستان سے عراق تک امریکی کاروائیاں تہذیبوں کے ٹکراؤکی تھیوری کے عین مطابق ہیں۔ٹکراؤشروع ہو چکا ہے۔(نہیں ایسا کوئی ٹکراؤنہیں ہورہا)۔
۲۔یہ صلیبی جنگ شروع کرنے کا اعلان امریکی صدر بُش نے کیا تھا اور واقعی یہ اسلام کے خلاف جنگ ہے۔(نہیں یہ صلیبی جنگ نہیں ہے)
۳۔یہ سارا امریکی کھیل تیل کے بڑے ذخائر پر قبضہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔(تیل کے ذخائر رکھنے والے بیشتر بڑے ممالک پہلے ہی امریکی اشارے پر چلتے ہیں۔اس لئے امریکہ کو محض تیل کے لئے خون خرابہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔یہ تیل کا کھیل نہیں ہے)
۴۔عرب خطے پر اسرائیل کے تحفظ اور بالا دستی کے لئے یہ حملے کئے جا رہے ہیں۔(نہیں جی اسرائیل کو پہلے ہی خطے پر بالا دستی حاصل ہے اور عربوں سے اس کی سلامتی کو کوئی خطرہ لا حق نہیں ہے۔عربوں میں اتنا دَم خم ہی نہیں ہے)
۵۔امریکہ ایسی کاروائیوں سے دنیا کی دوسری اہم طاقتوں پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے۔(ایسا لگتا نہیں ،اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔)
۔۔۔۔یہ میں نے مختلف زاویہ نگاہ رکھنے والوں کے موقف کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ امریکہ کا کوئی بھی اقدام صرف ایک زاویے کا حامل نہیں ہوتا۔وہ کثیرالمقاصد زاویوں کا حامل ہوتا ہے۔افغانستان سے عراق تک امریکی جارحیت مذکورہ سارے زاویوں کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔
۔۔۔۔تہذیبوں کے ٹکراؤکا امریکی مصنف عراقی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ایک امریکی ریڈیو پر اس حد تک بات کرتا ہے کہ ہمارا مسئلہ صرف بنیاد پرست اورانتہا پسند مسلمان نہیں ہیں بلکہ سارے مسلمان ہیں۔تو اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کے بُش گروپ نے واقعتاً تہذیبوں کی جنگ چھیڑی ہے۔اسی پس منظر میں جب امریکی صدر بُش کے ”صلیبی جنگوں کے آغاز“کے اعلان کو سامنے رکھا جائے تو اس کے بعد پیش آنے والے حالات کے پس منظر میں اسے محض اضطراری بیان کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔اب جب کہ عراق پر حملہ کے بعد امریکی ایوان صدر کے سب سے اہم اور قابلِ قدر پادری ڈاکٹر فرینکلن گراہم کی قیادت میں عراق میں مسیحیت کی تبلیغ کے لئے مشنری دستے تیار کئے جانے لگے ہیں تو اس جنگ کے صلیبی پہلو کو رد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔(یاد رہے کہ فرینکلن گراہم مشہور امریکی پادری ڈاکٹر بلی گراہم کے بیٹے ہیں اور اپنے اسلام دشمن بیانات کے سلسلہ میں خاصی شہرت رکھتے ہیں) اس سے ظاہر ہے کہ امریکی حکمرانوں کے دلوں اور ذہنوں کا فتور تہذیبی اور صلیبی دونوں ٹکراؤکرنے کا تھا۔اب اسے صدر بُش اور انتہا پسند مسیحی حلقوں کی بد بختی کہا جائے یا کچھ اور کہ امریکی جارحیت کے خلاف سب سے زیادہ موثر مظاہرے اور احتجاج خود ان ممالک میں ہوئے ہیں جو عددی اکثریت کے لحاظ سے مسیحی ممالک کہلا سکتے ہیں۔یورپ سے لے کر آسٹریلیا تک۔۔اور کینیڈا سے لے کر خود امریکہ تک انسان دوست مسیحی عوام نے مسلمانوں پر سبقت حاصل کرکے امریکی حکمرانوں کے عزائم کے خلاف عوامی ناراضی کا بے مثال نمونہ دکھا دیا ہے۔پھر خود عالمی مسیحی روحانی پیشوا پوپ جان پال نے ایک سے زائد بار امریکی جا رحیت کے خلاف اپنا باضابطہ بیان دے کر صدر بُش اوران کے دانشوروں کے دعووں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔خود جرمنی اور فرانس سمیت متعدد یورپی ممالک نے امریکی جارحیت کو سفارتی سطح پر جس طرح پسپا کیاہے وہ خود ایک الگ داستان ہے۔
۔۔۔۔جہاں تک تیل کے ذخائر پر قبضہ کے مذموم ارادے کا تعلق ہے یہ بھی سامنے کی بات ہے۔افغانستان پر حملہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔مگر ابھی تک وہاں افغان گوریلا مزاحمت کے باعث امریکہ اپنے اصل مقصد کے حصول میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکا۔شاید اس وجہ سے بھی صدر بُش نے مناسب سمجھا کہ عراق پر حملہ کرکے ابھی اس خفت پر پردہ ڈال لیا جائے۔سابق سوویت یونین کی تیل سے مالا مال ریاستوں کا تیل حاصل کرنے کا امریکی منصوبہ ابھی تک آئل مافیا کا منہ چڑا رہا ہے۔اوپر سے عراق پر حملہ امریکہ کے لئے مزید رسوائی کا موجب بن گیا ہے۔تیل سے مالا مال بیشتر عرب ممالک کی تمام تر نیازمندی کے باوجود امریکہ تیل کے ذخائر پر براہ راست قبضہ کرنے کے لئے تُل گیا ہے تو اس سے امریکی آئل مافیا کی ہوس کا اظہار ہوتا ہے۔ اپنے ہولناک اسلحہ کی آزمائش بھی ایک جزوی امریکی مقصد ہے۔ یقیناً اس طرح امریکہ اپنے اسلحہ کی عملی جانچ کرنے کے ساتھ روس ،چین اور کسی رنگ میں مقابل آنے والے دوسرے ممالک کو پیغام دینا چاہ رہا ہے کہ ہم اتنے طاقتور ہو چکے ہیں۔لیکن عراقی قوم نے جس طرح ابھی تک امریکی حملوں کا سامنا کیا ہے اور تمام تر بے سروسامانی کے باجود امریکی فوج کو جس طرح پریشان کردیا ہے،اس سے امریکہ کی دھاک بیٹھنے کے بجائے جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔اب تو میں روشن دن کی طرح کہہ سکتا ہوں کہ ایران اور شمالی کوریا کے خلاف امریکی حملہ کے نتیجہ میں امریکی افواج کو اتنی مار پڑے گی کہ وہ ویت نام کی مار کو بھی بھول جائیں گے۔ باقی ظاہری اسباب کے حوالے سے بے شک امریکہ بے سروسامان عراقیوں پر اپنی قاہرانہ قوت کے باعث وقتی غلبہ پا لے گالیکن ابھی اس کے لئے کئی بار امریکی افواج کو خاک چاٹنی پڑے گی اور کوئی بعید نہیں کہ کسی معجزانہ تبدیلی کے نتیجہ میں امریکہ کو اپنی جارحیت بند ہی کرنا پڑ جائے۔
۔۔۔۔ جہاں تک عرب خطہ پر اسرائیل کی بالا دستی کی بات کا تعلق ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔میں ان اسرائیلی کاریگروں کی کاری گری پر حیران ہوں جنہوں نے امریکی حکام کو اس حد تک اپنا گرویدہ بنا لیا ہے کہ وہ اسرائیلی مفادات کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اور یہ سب جو کچھ ہو رہا ہے امریکہ کی اپنی ترجیحات کے ساتھ ساتھ اسرائیلی مفادات کو بھی مد نظر رکھ کر ہو رہا ہے۔ یہ ساری وضاحت اس لئے کرنا پڑی کہ ہمارے جو بعض دانشور امریکی عزائم کے کسی ایک یا دو زاویوں کو درست مان کر باقی پہلوؤںکورد کر رہے ہیں انہیں یہ اندازہ ہو کہ اپنی اپنی جگہ سارے امریکی مقاصد اور زاویوں کی نشاندہی بالکل درست ہے۔یہ الگ بات کہ بعد کے حالات نے ان میں سے بعض مقاصد کو ضائع کردیا۔
۔۔۔۔عراق پر امریکی حملہ کے بعد ہمارے دانشور طبقہ کی طرف سے چند اہم اور دلچسپ باتیں کی گئی ہیں۔بوجوہ ان کا ذکر بھی یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
۔۔۔۔اردو کے بیشتر اہم ٹی وی چینلز پر بڑے زور کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی ہے کہ ”گریٹر اسرائیل“کے نقشہ میں مکہ مدینہ کو بھی شامل رکھا گیا ہے مجھے خوشی ہے کہ بیداری اور خطرے کی نوعیت کو سمجھنے والی یہ بیداری پیدا ہوئی ہے۔اسی حوالے سے متحدہ مجلس عمل کے مرکزی صدر مولانا شاہ احمد نورانی کا ایک بیان روزنامہ ”جنگ“کے انٹرنیٹ ایڈیشن مورخہ ۲۵مارچ ۲۰۰۳ءمیں شائع ہوا ہے۔اس کا یہ اقتباس دیکھئے:
”عراق پر امریکا کی جنگ صرف تیل کی خاطر نہیں یہ ”عظیم اسرائیل منصوبہ“کے لئے ہے جس کی تکمیل کی خاطر افغان اور عراق جنگ کی گئی اب اس کے بعد ایران،سعودی عرب اور پاکستان ،پھر دوسرے اسلامی ممالک کی باری ہے اور اسرائیل نے”عظیم اسرائیل منصوبہ“تیار کر رکھا ہے جس میں مکہ اور مدینہ بھی شامل ہیں۔اس نقشہ کی کاپی میرے پاس بھی موجود ہے۔۔۔۔یہودی مکہ اور مدینہ سے نکالے جانے کا بدلہ لینا چاہتے ہیں“
۔۔۔۔میں نے لگ بھگ ایک سال پہلے اپنے ۱۳مئی ۲۰۰۲ءکے کالم میں نہ صرف یہودی غصہ کے اسباب کو بعینہ بیان کیا تھا بلکہ یہ بھی لکھا تھا:
”اس اسرائیلی موقف کے خلاصہ کے ساتھ یہاں یہ واضح کردوں کہ آج سے لگ بھگ پچاس سال پہلے گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ بنا یا گیا تھا اس میں مکہ اور مدینہ دونوں کو اسرائیل میں شامل دکھایا گیا تھا۔“(کالم ”تاریخ سے فرار کیوں“۔آن لائن ۱۳مئی ۲۰۰۲ء)
۔۔۔۔پھر میں نے اپنے کالم”انتہائی خطرے کی گھنٹی“میں اُس وقت اسی بات کو دہرایا تھا جب امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے ”سعودی عرب کو بدی کا محور“ قرار دینے کی رپورٹ ریلیز کی تھی۔ویسے تو میرے مذکورہ دونوں کالم اسی ویب سائٹ پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن یہاں اپنے دوسرے کالم کا ایک اقتباس بھی درج کردینا ضروری سمجھتا ہوں:
۔۔۔۔”میں نے اپنے کالم زیر ذیلی عنوان ”تاریخ سے فرار کیوں؟“میں واضح کیا تھا کہ گریٹر اسرائیل کے لگ بھگ نصف صدی پرانے نقشہ کے مطابق یہودیوں نے مکہ اور مدینہ کو بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ بنا رکھا ہے۔اور یہی امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ ریلیز کرنے کا دوسرا اور اہم مقصد ہے ۔عراق اورایران سے نمٹنے کے بعدامریکہ اندازہ لگائے گا کہ اب وہ قلب اسلام پر حملہ کردے یا نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا ایک نتیجہ تو امریکہ کی اپنی توقعات کے مطابق ہو سکتا ہے کہ وہ جیسے ساری دنیا میں دندناتا پھرتا ہے ویسے ہی عالم اسلام کے مقدس ترین مقامات کو بھی یہودی عزائم کے مطابق کر دے۔لیکن اس کا دوسرا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ پورے عالم اسلام کی حکومتیں بے بس ہو جائیں اور پورا عالم اسلام ”ناقابل تسخیر“سمجھے جانے والوں کی تاریخ اور جغرافیہ سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دے۔ ابابیلوں کا ایک واقعہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔“
(کالم ”انتہائی خطرے کی گھنٹی“ آن لائن ۱۲اگست ۲۰۰۲ء)
۔۔۔۔مجھ جیسے گمنام بندے کے لکھے ہوئے اور نشان زد کئے ہوئے خطرے کو کسی رنگ میں سہی بڑی قومی سطح پرنہ صرف قابل اعتنا سمجھا گیا ہے بلکہ اس پر ممکنہ رد عمل بھی سامنے آرہا ہے۔میری غرض بھی اتنی تھی کہ خطرے کا ادراک کیا جائے۔نام کسی کا بھی ہو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔میرے مذکورہ حوالے میں مکہ مدینہ کے حوالے سے ”ابابیلوں“کا واضح اشارا دیا گیا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ اے آر وائی چینل کے معروف پریزینٹر ڈاکٹر شاہد مسعود نے اسے حالیہ دنوں میں اتنے موثر اور عمدہ طریقے سے اپنے پروگراموں میں دہرایا ہے کہ اب ابابیلوں کا ذکر ان سے ہی منسوب اچھا لگتا ہے۔
۔۔۔۔ آخر میں ایک اور خطرہ کی نشاندہی بھی بروقت کر دوں۔امریکہ نے عراقی عوام کی حیران کن مزاحمت سے بوکھلا کر پہلے روس پر الزام لگایا کہ وہ عراق کی مدد کررہا ہے۔اب وہ شام پر یہی الزام لگا رہا ہے اور ایران کو بھی اس قضیہ میں غیر ضروری طور پر ملوث کرنے لگا ہے۔اگر تو یہ محض امریکی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے اور محض بیان بازی ہے تو اس سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ اس کی سوچی سمجھی چال ہے تو پھر امریکہ پوری انسانیت کو تیسری عالمگیر جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔صرف روس یا ایران کی حد تک ا مریکی الزام تراشی محدود رہے تو اس سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے لیکن اگر شام کو اس معاملہ میں پوری طرح شامل کر لیا گیا تو پھر اس لڑائی کا مرکز ملک عراق نہیں بلکہ ملک شام ہو جائے گا۔ اور اگر ملک شام اس لڑائی کا مرکز بن گیا تو پھر تیسری عالمگیر جنگ اور عالمی ایٹمی تباہی کو روکنا امریکہ کے بس میں بھی نہیں رہے گا۔میرے اس تجزیہ میں میری ذاتی سوجھ بوجھ سے زیادہ میرے اس مطالعہ کا دخل ہے جس میں آسمانی اوردینی کتب سے بہت کچھ اخذ کیا گیا ہے۔اس کے نتیجہ میں امریکہ ساری دنیا کو بھی لے ڈوبے گا اور خود بھی نہیں بچے گا۔ اپنے آج کے کالم کو آسکر ایوارڈ جیتنے والے معروف امریکی فلمسازMicheal Moore کے اُن الفاظ پرختم کرتا ہوں جو انہوں نے اسی ماہ آسکر ایوارڈ وصول کرتے ہوئے صدر بُش کو مخاطب کرتے ہوئے کہے تھے۔
We are against this war Mr.Bush shame on you!
٭٭٭