منٹو کے افسانوی فن کا ایک پہلو یہ ہے جس کا ذکر میں اب تک کرتا رہا ہوں اور جس میں افسانے کی مصنوعی ساخت، ترتیب، تشکیل اور تعمیر جیسی چیزیں شامل ہیں ۔ افسانے کی تمہید، اس کی اٹھان، اس کے واقعات کا اتار چڑھاؤ،پیچ اور الجھاؤکے بعد افسانے کا نقطہ عروج اور ا س کا خاتمہ ان سب چیزوں کا تعلق افسانے کے ڈھانچے اور ا س کی ساخت سے ہے اور اس ساخت میں افسانے کی ظاہری ہیئت اور اس ہیئت کا مجموعی تاثر پڑھنے والے کے لیے دو سب سے اہم چیزیں ہیں ۔
منٹو نے افسانوی فن کے اس ظاہری اور خارجی پہلو کو اور اس کے مختلف اجزاء اور عناصر کو جو اہمیت دی ہے اس سے ہمیں یہ اندازہ لگانے اور نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ منٹو ایک فن کار کی حیثیت سے فن کے ان ظاہری پہلوؤں کو اپنے افسانے کی ساخت اور تشکیل میں ایک بنیادی اور اہم حیثیت دیتے ہیں اور ان کی اہمیت ان کے نزدیک اس لیے کہ یہ پڑھنے والے کے ذہن اور قلب پر ایک مخصوص تاثر قائم کرنے کے یقینی وسائل ہیں گویا فن کار کا مقصد بالذات فن کے یہ ظاہری پہلو ہرگز نہیں ، وہ تو ان ظاہری پہلوؤں سے ایک اہم وسیلہ کا کام لے کر تاثر پیدا کرنے کا وہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے جو ہر اچھے فن کی مشترکہ خصوصیت ہے۔
اس لیے منٹو کے فن کا تجزیہ کرنے کی یہ ابتدائی منزل طے کر لینے کے بعد ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ منٹو نے اپنے افسانوں میں تاثر انگیزی کی خصوصیت کو فن کی بنیاد بنا کر اس کے حصوں کے لیے ان خارجی اور تکنیکی چیزوں کے علاوہ اور ایسے کون کون سے طریقے برتے اور استعمال کئے ہیں نہیں ہم ا س کے اسلوب نگارش کی خصوصیت کہہ سکیں ۔
یہ صحیح ہے کہ کسی افسانے کے مجموعی تاثر کو ایک خاص رنگ دینے میں فن کے ان ظاہری پہلوؤں کا بھی ایک خاص مقام ہے جن کا ذکر اب تک ہوتا رہا ہے لیکن ان سے بھی خاص حیثیت اظہار اور ابلاغ کے ان طریقوں کو حاصل ہے جنہیں ہر مصنف اپنی اپنی پسند، اپنی اپنی صلاحیت اور مذاق کے مطابق برتتا ہے۔ ایک سیدھی سادی یا پیچیدہ سے پیچیدہ بات کہنے کا اندازہ کیا ہو ا س کے لیے کسی خاص محل پر سیدھے سادے فقرات، اشارے، کنائے، تشبیہہ، استعارے، تضاد یا تکرار میں سے کون سا حربہ زیادہ موثر ثابت ہوگا۔ یہ بات ہر مصنف اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ان میں سے جس حربہ یا وسیلہ کو جس خاص محل کے لیے موزوں اور موثر سمجھتا ہے ، استعمال کرتا ہے۔
لفظوں ، فقروں ، اشاروں ، کنایوں ، تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال کا یہی مخصوص اور منفرد انداز ایک مصنف اور دوسرے مصنف کے اسلوب میں فرق پیدا کرتا ہے۔
منٹو کے افسانوی فن کو اگر اسلوب اور اظہار کے ان وسائل کے نقطہ نظر سے پرکھنے اور جانچنے کی کوشش کی جائے تو سب سے پہلی چیز جو پڑھنے والے کو شدت کے ساتھ متاثر کرتی ہے، یہ ہے کہ منٹو کے پاس معمولی سے معمولی بات کے اظہار کے لیے ایک غیر معمولی انداز موجود ہے۔
فقرہ کی ساخت میں معمولی سی تبدیلی لفظوں کے برتنے میں تھوڑی سی جدت پسندی اور بہت اہم اور بڑی گہری بات کو اس طرح ادا کر دینا جیسے وہ بات نہ اہم ہو نہ عمیق، منٹو کے انداز اظہار کے بعض واضح پہلو ہیں ۔
بعض ٹکڑے دیکھ کر ان کے اسلوب کی ان خصوصیتوں کو پرکھنے اور جانچنے کی کوشش کیجئے:
-1 سب سے پہلی مثال ’’نیا قانون‘‘ کی ہے۔ استاد منگو نئے قانون کی خبر سن کر آیا ہے اور یہ خبر کسی دوسرے تک پہنچانے کے لیے بے قرار ہے۔ اتنے میں نتھو گنجا اڈے پر آتا ہے۔ منگو بلند آواز میں اس سے کہتا ہے:
’’ہاتھ لا ادھر، ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے۔ تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اگ آئیں ۔‘‘
-2 ’’پہچان‘‘ میں بازار حسن کی عورتوں کے متعلق کہا گیا ہے........ ’’یہ رنگ برنگی عورتیں مکانوں میں پکے ہوئے پھلوں کے مانند لٹکتی رہتی ہیں ۔ آپ نیچے سے ڈھیلے اور پتھر مار کر انہیں گرا سکتے ہیں ۔‘‘
-3 ’’پہچان‘‘ ہی میں ایک لڑکی کا ذکر یوں آیا ہے ’’مروڑیاں اسی کے ہاتھوں سے کچے فرش پر گر رہی تھیں اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اناج رو رہا ہے اور یہ مروڑیاں اس کے آنسو ہیں ۔‘‘
-4 ’’پہچان‘‘ میں ایک اور بازاری عورت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’وہ اس انداز سے اپنا ہاتھ ہلا رہی تھی جیسے مکار دوکاندار کی طرح ڈنڈی مارے گی اور کبھی پورا تول نہیں تولے گی۔‘‘
-5 ’’شوشو‘‘ میں ایک جگہ کہا گیا ہے........ ’’شو شو........ شوشو........ ارے یہ کیا؟ دو تین بار اس کا نام میری زبان پر آیا تو میں نے یوں محسوس کیا کہ پیپر منٹ کی گولیاں چوس رہا ہوں ۔‘‘
-6 ’’شوشو‘‘ ہی میں سونے سے پہلے کی کیفیت یوں بیان ہوتی ہے........ ’’میری پلکیں آپس میں ملنے لگیں ۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں دھنکی ہوئی روئی کے بہت بڑے انبار میں دھنسا جا رہا ہوں ۔‘‘
-7 ’’خوشیا‘‘ میں ........ ’’کاشا کا ننگا جسم موم کے پتلے کے مانند اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور پگھل پگھل کر اس کے اندر جا رہا تھا۔‘‘
-8 آپ کو ایسے آدمی نظر آئیں گے جو محبت کرنے کے معاملے میں بانجھ ہیں ۔(بانجھ)
-9 ’’........ محبت کا اسقاط بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ (بانجھ)
-10 ’’اندر ہی اندر ا س نے اپنے ہر ذرے کو بم بنا لیا تھا کہ وقت پر کام آئے۔(نعرہ)
-11 ’’جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے اندر ربڑ کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں ۔(بلاؤز)
-12 نتھو کے دل پر ایک گھونسہ سا لگا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ دوپہر کی دھوپ میں اڑنے والی ساری چیلیں اس کے دماغ میں گھس کر چیخنے لگی ہیں ۔‘‘ (اس کا پتی)
-13 ’’کبھی کبھی اسے ایسا محسوس ہوتا کہ ہوا میں بہت اونچی لٹکی ہوئی ہو۔ اوپر ہوا نیچے ہوا، دائیں ہوا، بائیں ہوا۔ بس ہوا ہی ہوا ہے اور پھر اس ہوا میں دم گھٹنا بھی ایک خاص مزہ دیتا ہے۔‘‘ (ہتک)
-14 ’’فضاء میں نیندیں گھلی ہوئی تھیں ،ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔‘‘ (دھواں )
-15 ’’میں نے انگلیوں سے اس کے بالوں میں کنگھی کرنا شروع کر دی۔ میں یہ محسوس کرنے لگا کہ ا س کے بال میرے الجھے ہوئے خیال ہیں جن کو میں اپنے ذہن کی انگلیوں سے ٹٹول رہا ہوں ۔‘‘
-16 ’’اسے صرف اپنے آپ سے غرض تھی اور بس۔ دوسروں کی جنت پر وہ ہمیشہ اپنی دوزخ کو ترجیح دیتا تھا۔‘‘ (نیا سال)
-17 ’’محبت ایک عام چیز ہے۔ حضرت آدم سے لے کر ماسٹر نثار تک سب محبت کرتے ہیں ۔(قبض)
-18 ’’زندگی کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ادنی جراب ہے جس کے دھاگے کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ ہم اس جراب کو ادھیڑتے رہتے ہیں ۔ جب ادھیڑتے ادھیڑتے دھاگے کا دوسرا سرا ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا تو یہ طلسم جسے زندگی کہا جاتا ہے ، ٹوٹ جائے گا۔‘‘(مصری کی ڈلی)
منٹو کے افسانوں کے یہ متفرق اقتباسات اس کے انداز بیان کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں ۔ مثال نمبر1 میں منگو نے جب یہ بات کہی کہ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے تو یہ معمولی سی بات تھی لیکن یہ بظاہر معمولی ہونے والی بات منگو کے نزدیک بہت اہم تھی۔ منٹو نے منگو کے مزاج، اس کی ذہنی سطح اور گنجے نتھو کی مختلف خصوصیتوں کو جمع کر کے ایک ایسا جملہ لکھا جو منگو کی ذہنی کیفیت کی پوری ترجمانی کرتا ہے۔ منگو کی جذباتی شدت کے اظہار کے لیے منٹو نے جو جملہ واضح کیا ہے، وہ منٹو کا منفرد رنگ ہے۔ ایک چلتے ہوئے غیر سنجیدہ فقرے کو ایک بے حد اہم اور گہرے مفہوم کا حامل اور ترجمان بنانا منٹو کے جدت پسند اسلوب کی ایک خصوصیت ہے۔
مثال نمبر2 میں پڑھنے والے کے سامنے جو تشبیہہ آتی ہے اسے دیکھ کر پڑھنے والے کو اس کے نئے پن کا احساس تو ضرور ہوتا ہے لیکن وہ سوچتا ہے کہ اس تشبیہہ میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ منٹو کے سوا کسی اور کا ذہن اس تک نہ پہنچ سکتا لیکن منٹو یہ کہتے ہیں کہ ’’آپ نیچے سے ڈھیلے اور پتھر مار کر انہیں گرا سکتے ہیں ۔‘‘ تو پوری تشبیہہ پر منٹو کے منفرد اور امتیازی اسلوب کا رنگ چھا جاتا ہے اس لیے کہ یہ جملہ جو خیال یا زبان کے اعتبار سے بالکل معمولی سا اور چلتا ہوا ہے، بازاری عورت کے کردار اور اس کی ان خصوصیات کو پوری طرح بے نقاب کر دیتا ہے جو اس جماعت کی عورتوں کی زندگی کا امتیاز سمجھی جاتی ہے۔
تیسری مثال میں ابتدائی ٹکڑے میں مشاہدہ کی جو باریک بینی ہے، وہ خود اپنی جگہ منٹو کے طرز فکر کی ایک خصوصیت ہے لیکن جس عورت کے ہاتھ سے وہ مروڑیاں نیچے گر رہی تھیں اس کے لیے منٹو کے دل میں گھن بھی ہے اور نفرت بھی۔ اس گھن اور نفرت کا اظہار کرنے کے لیے اکثر لکھنے والوں کو بحر فکر میں غوطہ زنی کر کے نہ جانے کیسے کیسے گوہر آبدار نکالنے کی فکر ہوتی ہے لیکن منٹو کے پاس شدید سے شدید جذبہ کے اظہار کے لیے آسان سے آسان لفظ موجود ہیں اور ان لفظوں کو ایک ایسی ترتیب دینا کہ جملے کی ظاہری حیثیت تو سادہ و حقیر ہو جائے لیکن اس کی معنویت کئی گنا زیادہ ہو جائے۔ منٹو کی قدرت بیان کا ایک ادنی کرشمہ ہے۔ ادنی اس لیے کہ یہ کرشمہ کبھی کبھی نہیں ہمیشہ ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔
یہی صورت مثال نمبر 4کی ہے جہاں منٹو نے اسی طرح کی ایک اور عورت کا ذکر کیا ہے جو ان کے نزدیک قابل نفرین ہے۔ اگر ایسے لفظوں کے ذریعے ظاہر کی جائے جو بدیہی طور پر جذبہ نفرت کے مظہر ہوں تو بیان میں عمومیت آ جائے۔ منٹو نے اپنے انداز کو ہمیشہ عمومیت سے بچایا اور سادگی بیان کو گہری معنویت کا ترجمان بنایا ہے۔
مثال نمبر 5تاثر انگیزی کی خصوصیت کے لحاظ سے اوپر کی دونوں مثالوں سے ملتی جلتی ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں پیپر منٹ کی ایک سادہ سی مثال نے پڑھنے والے کے لیے بھی شوشو کے نا م میں وہی لذت پیدا کر دی ہے جس سے افسانہ نگار کا دل پوری طرح آشنا ہے۔
چھٹی اور ساتویں مثال منٹو کے انداز بیان کی ندرت اور قدرت کلام کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ منٹو انسانی ذہن کے شدید سے شدید تاثر اور ا س کے دل کے نازک سے نازک اور لطیف سے لطیف جذبہ کا بیان ایسے لفظوں میں کر دیتے ہیں کہ وہ شدید تاثر اور نازک اور لطیف جذبہ مجسم ہو کر پڑھنے والے کے سامنے آ جاتا ہے۔ ایک غیر مرئی اور غیر مادی حس ایک ٹھوس اور مرئی حقیقت بن کر نظر کے سامنے آتی ہے۔
آٹھویں اور نویں مثالوں میں منٹو نے دو نئے تصورات پیش کئے ہیں ۔ بانجھ اور اسقاط کا ایک واضح لغوی مفہوم ہمارے ذہن میں موجود ہے ا س لیے منٹو جب محبت کے لیے یہ کہتے ہیں کہ وہ بانجھ ہو سکتی ہے۔ ا س کا اسقاط ہو سکتا ہے تو ہمارا ذہن اس کا جو فوری تاثر قبول کرتا ہے اس میں الجھن اور تکدر کی ایک ملی جلی کیفیت ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب وہ نئے سیاق و سباق میں ان لفظوں کے مفہوم پر غور کرنا شروع کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ منٹو نے ایک گہرے فلسفیانہ خیال کے اظہار کے لیے دو ایسے لفظوں کا انتخاب کیا ہے جو کسی طرح بھی اس فلسفہ اور بوجھ اٹھانے کے اہل نہیں تھے لیکن منٹو کی چابکدستی کی بدولت اور دونوں معمولی اور حقیر لفظوں کی حیثیت بالکل بدل گئی۔ انہوں نے نہ صرف ایک ایسی حقیقت کا اظہار بڑی کامیابی سے کر دیا جس کے وہ اپنی ذاتی حیثیت سے اہل نہیں تھے لیکن پڑھنے والوں کے لیے سوچ بچار کے دروازے بھی کھول دیئے۔ منٹو کے اسلوب کی جدت پسندی نے بعض اوقات چھوٹے لفظوں سے بڑا کام لیا ہے اور اس طرح معمولی لفظوں میں وقتی طور پر ایک گہرائی اور گیرائی پیدا ہو گئی ہے۔ یہی صورت ان دونوں مثالوں میں ہے۔
دسویں سے لے کر پندرھویں مثال تک ہر جملہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ منٹو کے طرز اور اسلوب نگارش کی اس خصوصیت کا حامل ہے کہ وہ کسی کردار کی ذہنی کیفیت کی ساری شدتوں اور گہرائیوں کو کبھی بالکل سادہ جملوں سے، کبھی ایسی تشبیہوں اور مثالوں سے جو دوسرے لکھنے والے کو یقیناً اس موقع پر بے محل معلوم ہوئیں ۔ جہاں منٹو نے انہیں کامیابی سے برتا ہے اور کبھی بہت سی ملی جلی واضح تصویروں سے اس طرح بیان کر دیتے ہیں کہ پڑھنے والا کسی طرح کی حیرت کے بغیر اس جذباتی شدت اور گہرائی کا مکمل تاثر قبول کر لیتا ہے۔ دل کی بات ایک زندہ اور مرئی حقیقت بن کر ا س کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور بالاعلان کہتی ہے کہ دیکھو یہ میں ہوں مجھے اچھی طرح پہچان لو اور دیکھنے والا ایک ہی نظر میں اس زندہ حقیقت کو اس طرح پہچان لیتا ہے کہ وہ اس کے لیے ناقابل فراموش بن جاتی ہے۔
سولہویں مثال میں منٹو کے اسلوب کی یہ خصوصیت نمایاں ہے کہ کسی واقعہ یا کردار کے سلسلہ میں قاری کو کوئی خبر سنا کر فوراً ایک دوسرے جملے سے اس خبر کی وضاحت کرتے ہیں اور اس وضاحت کے بعد واقعہ کا وہ پہلو یا کردار کی وہ مخصوص کیفیت جس کا بیان مقصود ہے۔ آئینہ کی طرح روشن اور سورج کی طرح تاباں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔
سترھویں مثال بھی اسی طرح کی وضاحت کی ایک دوسری شکل ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے ہمیں ایک خبر یہ کہہ کر سنائی کہ محبت ایک عام چیز ہے اور اس خبر کی وضاحت کے لیے جو مثال پیش کی، وہ بظاہر مذاق اور طنز کی معمولی سہاروں کی محتاج نہیں ۔ یہاں بھی سادگی بیا ن اور اہم ترین بات کو حد درجہ معمولی سمجھ کر اس کی اہمیت بڑھانے کی خصوصیت برابر کار فرما ہوتی ہے۔
آخری مثال میں بھی منٹو کے فکر اور اسلوب کی اسی خصوصیت کی آمیزش اور امتزاج ہے جہاں گہرے خیال اور سیدھی سادھی عبارت اور معمولی سی تشبیہہ کو اس طرح ایک ہی زنجیر کی کڑیاں بنایا جاتا ہے کہ پڑھنے والا سوچنے لگتا ہے کہ گہری باتیں اور فلسفیانہ حقیقتیں واضح کرنے کا بہترین اور موثر ترین انداز وہ ہے جسے منٹو نے اپنایا ہے۔
منٹو نے اپنے افسانوں میں سیدھے سادھے روزمرہ کی بول چال کے جملوں سے ایسی مثالوں اور تشبیہوں سے جو دوسروں کی نظر میں بالکل حقیر اور بے حقیقت تھیں اور ایسے چلتے ہوئے فقروں میں سے جن میں سنجیدگی و متانت کا شائبہ تک نہیں ہوتا، گہری سے گہری، سنجیدہ سے سنجیدہ اور موثر سے موثر بات کہنے کا کام لیا ہے اور ہر جگہ اس سادگی اور عمومیت کو تصور آفرین، فکر انگیز اور خیال افروز بنایا ہے۔ پھر بھی بہت کم مقامات ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری کے دل میں یہ بات آتی ہو کہ دوسروں کے فکر اور تخیل کی شمع جلانے والے منٹو نے یہ باتیں کہنے کے لیے اپنے ذہن پر زور دیا ہے۔ منٹو نے جو کچھ کہا ہے اس میں آورد نام کو نہیں ایک ایسی آمد ہے جو شخصیت کے زور اور اس کے بے لوث خلوص کی مظہر ہے۔ منٹو کے پورے اسلوب پر یہی بے تکلفی اور بے ساختگی چھائی ہوئی ہے۔ اس کا پرتو ہمیں منٹو کی ان تشبیہوں میں بھی نظر آتا ہے جو اس کے ترکش فن کے بڑے جید افگن تیر ہیں ۔
ایسے تیروں کی منٹو کے ترکش میں کوئی کمی نہیں ۔ بے شمار تشبیہوں میں سے چند پر نظر ڈال کر اندازہ لگائیے کہ منٹو کا ہمہ رنگ اور ہمہ صفت فن ان تشبیہوں میں سے کب کب اور کس کس طرح کام لیتا ہے۔
استاد منگو نے فوجی گوروں کے چہرے کا جو تصور پیش کیا ہے وہ کس قدر مکروہ اور گھناؤناہے:۔
’’ان کے لا ل جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔‘‘ (نیا قانون)
منٹو کے دل میں (یا منٹو کے کسی کردار کے دل میں ) کسی چیز ، کسی واقعہ یا شخص کا جو تصور ہے اسے دوسرے کے ذہن تک جوں کا توں پوری طرح منتقل کرنے کے لیے منٹو کے پاس الفاظ فقروں اور جملوں کی کمی نہیں ۔
اسی طرح ان کا ذہن تازہ مشکل سے مشکل ذہنی اور جذباتی تجربہ کو اس کی مکمل نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایسی تشبیہیں وضع کر لینے پر قادر ہے جن کی طرف کسی اور کا ذہن منتقل بھی نہیں ہوتا۔ یہی خصوصیت اوپر کی مثال میں ہے۔
منٹو جس طرح الفاظ اور جملوں کے ذریعہ محبت، نفرت ، حقارت، رشک، حسد ، خلوص، صداقت اور رحم و کرم کے احساسات میں قاری کو پوری طرح اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں اسی طرح تشبیہوں کی مدد سے اور اکثر بالکل معمولی معمولی تشبیہوں سے وہ ہر طرح کے احسا س اور جذبہ کو اس طرح جیتا جاگتا بنا کر پڑھنے والے کے ذہن میں اتار دیتے تھے کہ وہ جذباتی طور پر اپنے آپ کو افسانہ نگار کے سپرد کر دیتا ہے۔
استاد منگو کی زبان سے ماروا ڑیوں کو غریبوں کی کٹیا میں گھسے ہوئے کھٹمل کہلوانے اور اس بات کو اس طرح مکمل کرنے میں کہ ’’نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا‘‘ منٹو کے فن کی یہ خصوصیت نمایاں ہے۔
جب استاد منگو کی نگاہیں گورے کی آنکھوں سے چار ہوئیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں کی گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں ۔ بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں کی تشبیہہ میں کوئی نئی بات نہیں لیکن اس کے برمحل صرف نے ایک شدید احساس کو ایک واضح اور مڑی ہوئی شکل دے دی ہے۔
ایسی تشبیہیں جن میں یوں بظاہر کوئی نیا پن نہ ہو، دوسروں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتیں لیکن منٹو کا دور رس تصور ہمیشہ دو چیزوں میں موزوں ترین مشابہت تلاش کر کے اسے بڑی برجستگی سے صرف کرتا ہے اور ایک معمولی اور بظاہر بے حقیقت سی تشبیہہ ایک مکمل مفہوم کی حامل اور ایک گہرے تجربہ کی عکاس بن جاتی ہے۔
بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں جیسی اور بہت سی سیدھی سادھی لیکن اپنے تاثر کے لحاظ سے اہم تشبیہیں منٹو کے ہر افسانہ میں قدم قدم پر ملتی ہیں ۔
ایسی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:۔
’’وہ بڑی خوفناک عورت تھی۔ اس کا منہ کچھ اس انداز سے کھلتا تھا جیسے لیموں نچوڑنے والی مشین کا کھلتا ہے۔(پہچان)
’’اس کی آنکھیں مست تھیں اور ہونٹ تلوار کے تازہ زخم کے مانند کھلے ہوئے تھے۔(شوشو)
خوشیا کے مردانہ وقار کو اس بات سے سخت دھکا لگا ہے کہ کانت برہنہ اس کے سامنے آ کھڑی ہو گئی اور اپنی اس حرکت کا جواز اس نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ ’’کیا حرج ہے اپنا خوشیا ہی تو ہے۔‘‘ یہ بات خوشیا کے دماغ میں طرح طرح کے روپ بھر کر اسے ستاتی اور پریشان کرتی ہے۔ ان بے شمار رویوں میں سے ایک یہ ہے:
’’خوشیا نہ ہوا سالا وہ بلّا ہو گیا جو ا س کے بستر پر ہر وقت اونگھتا رہتا ہے۔‘‘(خوشیا)
’’بانجھ‘‘ میں ایک منظر کا تصور منٹو نے اس طرح پیش کیا ہے:۔
’’کبھی کبھی کسی آنے یا جانے والے موٹر کے ہارن کی آواز بلند ہوتی اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بڑی دلچسپ کہانی سننے کے دوران کسی نے زور سے ہوں ، کی ہے۔‘‘
یہ تشبیہہ بھی غیر معمولی نہ سہی لیکن اس تک منٹو کے سوا کسی اور کے ذہن کی نا رسائی اسے غیر معمولی بھی بنا دیتی ہے اور منٹو کی فنی عظمت کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے۔
’’گالی........ یوں سمجھئے کہ کانوں کے راستے پگھلا ہوا سیسہ شائیں شائیں کرتا اس کے دل میں اتر گیا۔‘‘(نعرہ)
’’بار بار یہ دو گالیاں ،جو سیٹھ نے بالکل پان کی پیک کے مانند اپنے منہ سے اگل دی تھیں ، اس کے کانوں کے پاس زہریلی بھڑوں کی طرح بھنبھنانا شروع کر دیتی تھیں ۔(نعرہ)
’’دو گالیاں ........ اس کے جی میں آئی کہ اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ ان دو پتھروں کو جو کسی حیلے گلتے ہی نہ تھے ، باہر نکال سکے۔‘‘(نعرہ)
ایک گالی یا دو گالیاں ........ میرے اور آپ کے لیے دو سنی سنائی بے حقیقت باتیں ہیں جنہیں آدمی صبح سے شام تک ہر ایک کے منہ سے نکلتے سنتا ہے لیکن کیشو لال کے دل میں ان گالیوں نے جو اثر کیا ہے اس کی شدت اور تڑپ کو منٹو ان گنت تشبیہوں کے ذریعہ پوری طرح واضح کر دینے پر قادر ہے۔
اوپر کی چاروں تشبیہوں میں کوئی نیا پن نہیں لیکن ان فرسودہ تشبیہوں سے منٹو نے بار بار جو کام کیا ہے اس سے عمومیت میں خصوصیت پیدا ہوئی ہے ہر سطحیت میں گہرائی آئی ہے۔
منٹو نے ایک ہی تشبیہہ سے ایک بہت وسیع منظر کی تصویر کھینچنے اور فضاء قائم کرنے کی جو خدمت لی، اس کی چند اور تصویریں دیکھئے۔ پہلی دو تصویریں ’’دھواں ‘‘ کی ہیں :
’’موسم کچھ ایسی ہی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘(دھواں )
’’ایک کبوتر اور کبوتری پاس پاس پر پھیلائے بیٹھے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں ۔‘‘(دھواں )
’’وہ کچھ اس طرح سمٹی جیسے کسی نے بلندی سے ریشمی کپڑے کا تھان کھول کر نیچے پھینک دیا ہے۔‘‘(مصری کی ڈلی)
دو ایک مزے دار تشبیہیں اور دیکھئے اور اندازہ لگائیے کہ منٹو چیزوں کو کیسے کیسے گوشوں میں سے نکال کر منظر عام پر لاتا اور پڑھنے والے کے ذہن کو ہر دم ایک نیا نقش بنانے میں مدد دیتا ہے۔
’’یہ اشوک کمار بھی عجیب چیز ہے، پردے پر عشق کرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کاسٹر آئل پی رہا ہے۔‘‘ (سجدہ)
’’اپنے آپ کو چھپانے کی بھونڈی کوشش میں وہ ایک ایسا بے جان لطیفہ بن کر رہ گیا تھا جو بڑے ہی خام انداز میں سنایا گیا ہو۔‘‘(سجدہ)
’’وہ کرسی پر اس انداز میں اکیلا بیٹھا تھا جیسے شطرنج کا پٹا ہوا مہرہ بساط سے بہت دور پڑا ہے۔‘‘ (سجدہ)
’’اس کی شرارت اب دم کٹی گلہری بن کر رہ گئی تھی۔‘‘(سجدہ)
’’نئے سال کی آمد پر وہ خوش تھا جیسے اکھاڑے میں کوئی نامور پہلوان اپنے تئے مدمقابل کی طرح خم ٹھونک کر بڑھتا ہے۔‘‘(نیا سال)
یہ سب تشبیہیں پڑھنے والے کے تصور اور تخیل کو زندگی کی ایک لہر دے کر اسے ایک ایسی تصویر بنانے میں مدد دیتی ہیں جس کا ہر رنگ تیکھا اور ہر نقش واضح ہے۔
منٹو کی تشبیہوں کا یہ امتیاز ہے کہ ان میں سے ہر کوئی زندگی کی تڑپ اور تیزی سے خالی نہیں ۔ ہر تشبیہہ کے پیچھے ایک مکمل اور واضح تصویر چھپی ہوئی ہے جسے منٹو کی فنی چابکدستی اس طرح برمحل استعمال کرتی ہے کہ پڑھنے والا اس تصویر کا پورا تاثر قبول کرتا ہے اور وہی ذہنی اور جذباتی نتائج اخذ کرتا ہے جو افسانہ نگار کے ذہن میں ہیں ۔
منٹو کا اسلوب اظہار جس میں الفاظ، فقروں اور تشبیہوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے، مکمل تاثر کی تخلیق کو اپنا نصب العین بناتا ہے اور شاید بہت کم موقعے ایسے ہیں جن پر اسے اپنا فن مقصود حاصل کرنے میں پوری کامیابی حاصل نہ ہوئی ہو۔ اس کی اس کامیابی میں تشبیہوں کے علاوہ ایک اور خاص چیز کو بھی دخل حاصل ہے اور وہ ہے تکرار۔
تکرار، مشرقی اسلوب اظہار کی ایک ایسی خصوصیت ہے جسے نثر سے زیادہ نظم میں برتا گیا ہے لیکن اردو اور فارسی میں عموماً ’تکرار‘ کو ایک لفظی صنعت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظی صنعت سے لکھنے والوں نے عموماً صوتی ترنم اور تاثر انگیزی کا کام لیا ہے۔ گو کبھی کبھی یہ تاثر محض صوتی ترنم و تا ثر کے علاوہ جذباتی کیفیت کے اظہار کا وسیلہ بھی بنتا ہے۔
نثر میں مغربی اسالیب کے اثر سے لفظوں اور فقروں کی تکرار خاصی عا م ہو گئی ہے چنانچہ ہمارے افسانہ نگاروں کے یہاں جا بجا اس کی مثالیں ملتی ہیں لیکن کسی افسانہ نگار نے اظہار کے وسیلہ کو اپنے فن میں اس طرح شامل نہیں کیا جیسے منٹو نے۔ منٹو کے مشہور افسانوں میں سے ’خوشیا‘ ’نعرہ‘ ’ہتک‘ ’نیا قانون‘ اور نسبتاً کم معروف افسانوں میں ’الو کا پٹھا‘ اور ’قبض‘ اس فن کے بڑے کامیاب مظہر ہیں ۔
’نعرہ‘ میں کیشو لال اپنے سیٹھ کے ساتویں منزل والے بالا خانے سے نیچے اترا تو افسانہ نگار کے لفظوں میں :۔
’’اسے یوں محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کاندھوں پر دھر دی گئی ہیں ۔‘‘
اس لیے کہ دو مہینے کا کرایہ ادا نہ کرنے کی سزا میں سیٹھ نے اسے دو گالیاں دی تھیں اور وہ گالیاں اس کے پورے وجود میں سمائی جا رہی تھیں ۔
ان گالیوں سے کیشو لال کے دل پر جو کچھ بیت رہی ہے ا س کے اظہار کا بہترین ذریعہ منٹو نے تکرار کو بنایا ہے۔ یہ گالیاں اس کے ذہن اور جذبات بلکہ اس کے وجود پر کس طرح چھائی ہوئی ہیں ، اس کی تفصیل منٹو کی زبانی سنئے:۔
’’........ مالک مکان نے غصے میں آ کر اس کو گالی دی........ گالی........یوں سمجھئے کہ کانوں کے راستے پگھلا ہوا سیسہ شائیں شائیں کرتا اس کے دل میں اتر گیا اور اس کے سینے کے اندر جو ہلڑ مچ گیا ، اس کا تو کچھ ٹھکانہ ہی نہ تھا۔‘‘
اس کے جی میں آئی کہ ا س گالی کو جسے وہ بڑی حد تک نگل چکا تھا، سیٹھ کے جھریوں بھرے چہرے پر قے کر دے مگر وہ اس خیال سے باز آ گیا کہ اس کا غرور تو باہر فٹ پاتھ پر پڑا ہے........
سیٹھ نے اسے پھر گالی دی۔ اتنی موٹی جتنی اس کی چربی بھری گردن تھی اور اسے یوں لگا کہ کسی نے اوپر سے اس پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا ہے........
ایک نہیں دو گالیاں ........ بار بار یہ دو گالیاں جو سیٹھ نے بالکل پان کی پیک کی مانند اپنے منہ سے اگل دی تھیں ۔ ا س کے کانوں کے پاس زہریلی بھڑوں کی طرح بھنبھنانا شروع کر دیتی تھیں اور وہ سخت بے چین ہو جاتا تھا۔‘‘
چلتے چلتے ایک لنگڑے کتے سے اس کی ٹکر ہوئی۔ کتے نے اس خیال سے کہ شاید اس کا زخمی پیر کچل دیا گیا ہے ’چاؤں ‘ کیا اور پرے ہٹ گیا اور وہ سمجھا کہ سیٹھ نے اسے پھر گالی دی ہے........ گالی........ گالی ٹھیک اس طرح سے الجھ کر رہ گئی تھی جیسے جھڑ بیری کے کانٹوں میں کوئی کپڑا۔ وہ جتنی کوشش اپنے آپ کو چھڑانے کی کرتا ہے اتنی ہی زیادہ زخمی ہوتی جا رہی تھی۔
سیٹھ نے ایک گالی دی اور وہ کچھ نہ بولا........ دوسری گالی دی تو بھی وہ خاموش رہا جیسے وہ مٹی کا پتلا ہو........ پر مٹی کا پتلا کیسے ہوا؟ اس نے ان دو گالیوں کو سیٹھ کے تھوک بھرے منہ سے نکلتے دیکھا ، جیسے دو بڑے بڑے چوہے موریوں سے باہر نکلے ہوں ۔
جب اس کے سامنے ایک موٹر نے اپنے ماتھے کی بتیاں روشن کیں تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ وہ دو گالیاں پگھل کر اس کی آنکھوں میں دھنس گئی ہیں ۔
گالیاں ........ گالیاں ........ کہاں تھیں وہ گالیاں ؟ اس کے جی میں آئی کہ اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ ان دو پتھروں کو جو کسی حیلے گلتے ہی نہ تھے، باہر نکال لے اور جو کوئی بھی اس کے سامنے آئے اس کے سر پر دے مارے۔‘‘
اس کے دماغ میں آگ کا ایک چکر سا بن گیا۔ اس چکر میں اس کے سارے پرانے اور نئے خیال ایک ہار کی صورت میں گندھ گئے۔ دو مہینے کا کرایہ، اس پتھر کی بلڈنگ میں درخواست لے کر جانا........ سات منزلوں کے ایک سو بارہ زینے،سیٹھ کی بھدی آواز، اس کے سر پر مسکراتا ہوا بجلی کا بلب اور........ یہ موٹی گالی ........پھر دوسری اور ا س کی خاموشی ..... ... یہاں پہنچ کر آگ کے اس چکر میں تڑ تڑ گولیاں ہی نکلنا شروع ہو جاتیں اور اسے ایسا محسوس ہوتا کہ ا س کا سینہ چھلنی ہو گیا۔
’’نعرہ‘‘ میں گالیوں والے واقعہ کی تکرار سے منٹو نے آہستہ آہستہ کیشو لال کے ذہنی اور جذباتی ہیجان کو واضح کرنے میں مدد لی ہے اور اس تکرار اور بڑھتے ہوئے ہیجان میں مکمل ہم آہنگی پید ا کر کے اس انجام کے لیے نفسیاتی اور فنی جواز پیدا کیا ہے جس میں کیشو لال کے دل کا سارا درد اور اس کی شخصیت کا سارا کرب و اضطراب سمٹ کر وہ نعرہ بن گیا جس سے کیشو لال کے دل کو ضرور تسکین مل گئی لیکن سننے والوں نے صرف یہ تبصرہ کیا کہ ’’پگلا‘‘ ہے۔‘‘
منٹو اپنے فن میں افسانہ کی تمہید، اس کی اٹھان، اس کے نکتہ عروج اور ا س کے انجام کو جو اہمیت دیتے ہیں اور ان مختلف مراحل کے درمیان پورے خلوص اور انہماک سے ربط اور تسلط کا جو رشتہ قائم کرتے ہیں ، وہ نعرہ، میں گالیوں کے ذکر کی تکرار سے پورا ہوا ہے ’تکرار‘ ہی نے اس افسانے میں ایک خاص کردار کی ذہنی کیفیت کے اضطراب کی مصوری کی ہے۔ تکرار ہی نے افسانہ کو آہستہ آہستہ اٹھان کی طرف لے جا کر ایک سوچے سمجھے انجام تک پہنچایا ہے اور تکرار ہی نے اس تاثر کی تکمیل کی ہے جو قاری کے نقطہ نظر سے اس کا مقصود ہے۔
’’بلاؤز‘‘ شباب کی نازک اور جاں گداز منزل میں قدم رکھنے والے مومن کی اس جنسی بیداری کی کہانی ہے جس کے معنی اسے خود بھی اچھی طرح معلوم نہیں ۔ اس نازک نفسیاتی موضوع کی کہانی منٹو نے چند تاثرات اور تصورات کو ایک ہی کڑی میں پرو کر تصورات کی تکرار کی زبان سنائی ہے۔ اس کی ابتداء یوں ہوتی ہے کہ ایک دن مومن کو:۔
’’شکیلہ کی بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آگیا........ یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش ا س کے دل میں پیدا ہوئی کہ یہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں ۔‘‘
مومن کے دل میں اس کے بعد دھندلے دھندلے خیالات پیدا ہوتے رہے لیکن وہ ان کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہا اور آخر ایک دن جب ا س نے اپنا ٹرنک کھول کر اپنے عید کے لیے بنے ہوئے کپڑوں پر نظر ڈالی تو:۔
’’رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی اس کے سامنے اس کا پھندنا آگیا اور پھندنا فوراً ہی ان کا لے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا جو ا س نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔‘‘
اور پھر کمرہ صاف کرتے ہوئے اس نے ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں اور اگلے دن یوں ہی الگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دیئے:۔
’’حتی کہ دھاگے کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا۔ اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا لیکن ا س کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا۔‘‘
اس کے بعد وہ جب بھی اندر آ کر بلاؤزکو دیکھتا تو :۔
’’اس کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو ا س نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے اور بالآخر ایک رات کو جب وہ سویا تو ا س نے کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔ ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اس سے کوٹنے کو کہا۔
جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا۔ یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے جن کا گولہ بنا ہوا تھا پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنے شروع ہوئے۔ بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا۔ پھندنے کی تلاش میں نکلا۔ دیکھی اور ان دیکھی جگہوں پر گھومتا رہا۔ ایک کالی ساٹن کے بلاؤزپر اس کا ہاتھ پڑا۔ کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا پھر دفعتاً بڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ نہ سمجھ سکا کہ کیا ہو گیا ہے۔‘‘
اس نفسیاتی افسانے کی فنی ترتیب، اس کی اٹھان، اس کے ارتقاء اس کے منتہا اور اس کے انجام اور پھر سب کے باہمی ربط اور توازن میں منٹو نے ایک خاص تصور کی تکرار کو فن کی بنیاد بنایا ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار نے ذہنی کشمکش کے جو مراحل طے کئے ہیں ، ان کے اظہار کے اور طریقے بھی ہو سکتے تھے لیکن منٹو کے اس افسانے کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے تصورات کی جس تکرار کو ایک خاص تاثر پیدا کرنے کا فنی وسیلہ بنایا ہے وہی وسیلہ اس مقصد کے حصول کا بہترین ذریعہ ہو سکتا تھا۔
فن کار کی حیثیت سے منٹو نے اپنے لیے یہ امتیاز مخصوص کیا ہے کہ جب کسی خاص محل پر وہ کسی فنی اسلوب سے کوئی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہی فنی اسلوب اس محل کا بہترین اسلوب معلوم ہوتا ہے۔
نعرہ اور بلاؤزکی مثالوں سے منٹو کے فن میں تکرار کی جس اہمیت کی وضاحت ہوتی ہے، وہی ایک نئے اسلوب سے ’ہتک‘ ’خوشیا‘ ’الو کا پٹھا‘ اور ’قبض‘ جیسے افسانوں میں بھی اجاگر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
منٹو نے ’تکرار‘ کی طرح ’تضاد‘ کو بھی اپنے تاثرات کے اظہار کا ایک وسیلہ بنایا ہے اور اسے طرح طرح سے اپنے افسانوں میں برتا ہے۔ ہماری سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی زندگی میں قدروں کا جو حیرت انگیز تضاد ہے اسے منٹو نے ہمیشہ بڑے اندیشے اور تشویش کی نظر سے دیکھا اور اپنے افسانوں کے ذریعہ اس تضاد کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
سماج کے مختلف طبقوں میں اونچ نیچ اور معاشرتی و معاشی کشمکش، زندگی کے متعلق دو مختلف افراد کے خیالات اور نظریات میں اختلاف اور ضد، ایک ہی فر د کے ظاہر و باطن میں بدیہی فرق اس تضاد کی بعض نمایاں شکلیں ہیں ۔
منٹو نے اس تضاد کو اور اس کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ظاہر ہونے والے ہر ایسے تضاد کو جو انسان کو فریب میں مبتلا کرتا اور اس کے سکون و مسرت کی بربادی کا باعث بنتا ہے، ایسے اسلوب ادا سے جس میں لفظ، فقرے اور افسانے کے مختلف اجزاء مل جل کر ایک خدمت انجام دیتے ہیں ، بے نقاب کیا ہے۔
تضاد کی یہ مختلف صورتیں کس کس شکل میں ان کے افسانوں میں نمایاں ہوتی ہیں ، ا س کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔
پہلا اقتباس ’نعرہ‘ کا ہے جس میں کیشو لال کے جذبات کی مصوری میں تصورات کے اس تضاد سے مدد لی گئی ہے جو طبقاتی اونچ نیچ کا پیدا کیا ہوا ہے:۔
’’اس گھر کا اندھا لیمپ کئی بار بجلی کے اس بلب سے ٹکرایا جو مالک مکان کے گنجے سر کے اوپر مسکرا رہا تھا۔ کئی بار اس کے پیوند لگے کپڑے ان کھونٹیوں پر لٹک کر، پھر اس کے بدن سے چمٹ گئے جو دیوار میں گڑی چمک رہی تھیں ۔‘‘
اسی طبقاتی تضاد کی ایک شکل ’بلاؤز‘ میں ا س طرح دکھائی دیتی ہے:۔
’’........نوکروں کے متعلق کون غور کرتا ہے۔ ہم بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کر جاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔‘‘
دو کردار ایک ہی صورت حال کو اپنے اپنے جذبات اور تصورات کی روشنی میں کس کس رنگ میں دیکھتے ہیں ، اس کا اظہار ’ہتک‘ میں کئی جگہ مادھو اور سوگندھی کے جذبات کو واقعات کی شکل دے کر کیا گیا ہے ، ان کئی تصویروں میں سے ایک یہ ہے:۔
’’ایک ہاتھ سے سوگندھی نے پگڑی والے کی تصویر اتاری اور دوسرا ہاتھ اس فرم کی طرف بڑھایا جس میں مادھو کا فوٹو جڑا تھا۔ مادھو اپنی جگہ سمٹ گیا جیسے ہاتھ اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک سیکنڈ میں فریم کیل سمیت سوگندھی کے ہاتھ میں تھا۔
زور کا قہقہہ لگا کر اس نے ’’اونہہ‘‘ کی اور دونوں فریم ایک ساتھ کھڑکی میں سے باہر پھینک دیئے۔ دو منزلوں سے جب فریم زمین پر گرے اور کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی تو مادھو کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے ہنس کر اتنا کہا ’’اچھا کیا، مجھے بھی یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔‘‘
آخری جملہ میں مادھو نے جو کچھ کہا ہے ، وہ اس کے دل کی بات نہیں ، اس مجبوری اور بے بسی نے ایک پر فریب جھوٹ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس مجبوری اور بے بسی اور ظاہرو باطن کے تضاد کی ایک اور تصویر دیکھئے:۔
’’........مادھو ڈرگیا۔ وہ گری ہوئی ٹوپی اٹھانے کے لیے جھکا تو سوگندھی کی گرج سنائی دی۔ ’’خبردار! پڑی رہنے دے وہیں ........ تو جا، تیرے پونا پہنچتے ہی میں اس کو منی آرڈر کر دوں گی۔‘‘
سوگندھی کے اس تلخ طنز بھرے جملے میں کئی تضاد ایک جگہ آ کر جمع ہو گئے ہیں ۔ ایک تضاد تو وہ ہے جو سوگندھی کے ان جذبات کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جن میں حالات نے ایک نمایاں تغیر اور انقلاب پیدا کیا ہے۔ دوسرا تضاد اس طنز میں پوشیدہ ہے جس میں سوگندھی کا ایک ایک لفظ ڈوبا ہوا ہے۔ تیسرا تضاد الفاظ کے اس مفہوم سے ظاہر ہے جو گزرے ہوئے واقعات اور موجودہ صورت حال میں تضاد بن کر رونما ہوا ہے۔
’ہتک‘ کا خاتمہ جذباتی کشمکش کے اس تضاد کی ایک نفسیاتی اور فن کارانہ تصویر ہے:۔
’’بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اس کو اپنا دل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اس نے اپنے خارش زدہ کتے کو گو دمیں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اسے پہلو میں لٹا کر سو گئی۔‘‘
معاشرتی، جذباتی اور نفسیاتی کیفیتوں کے تضاد کو ظاہر کرنے پر منٹو کو جو قدرت حاصل ہے اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں یہ تضاد بعض دوسری لفظی اور معنوی صورتوں میں بھی رونما ہوتا ہے۔
ان کے فن کے دوسرے پہلوؤں کی وضاحت کے لیے اب تک جو بہت سی مثالیں پیش کی گئیں ، ان میں جگہ جگہ اس کے مختلف رنگ چمکتے دکھائی دیتے ہیں مثلاً ’نعرہ‘ کے پورے افسانے میں ابتداء اور انجام کا تضاد، دو طبقوں کے اندر کی زندگی کا تضاد اور دو مختلف آدمیوں کے ایک ہی بات کو دو متضاد رنگوں میں دیکھنے کا تضاد پوری طرح نمایاں ہے۔
اور اس ذکر کو ختم کرتے وقت محبت کے سلسلہ میں منٹو کی کہی ہوئی وہ بات اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہے کہ حضرت آدم سے ماسٹر نثار تک ہر انسان نے محبت کی ہے۔
منٹو کے فن کی وہ ساری خصوصیتیں جن کا تعلق ایک طرف تو فن کے ان مطالبات سے ہے جنہیں ہم تکنیک کے مبادیات اور اس کے لوازم کہہ سکتے ہیں اور دوسری طرف زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ کے ان وسائل سے جن کی بدولت افسانہ نگار کا خیال اس کے تاثرات و تصورات دوسروں کے ذہن اور قلب میں جگہ کرتے ہیں لیکن افسانہ نگار زندگی کے متعلق جو کچھ کہتا ہے، وہ صحیح مشاہدہ کی مدد سے اور کسی خاص تجربہ کی تفصیلات میں سے اپنے کام کی جزئیات منتخب کر کے، تفصیلات کا مکمل مشاہدہ اور کسی خاص محل کی ضروریات کے مطابق ان میں سے موزوں جزئیات کا انتخاب، یہ افسانہ نگاری کے فن کے بڑے ضروری مطالبات ہیں ۔ ہمارے اکثر اچھے افسانہ نگار ان مطالبات سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ ہر ایک نے اپنی مخصوص شخصیت اور منفرد انداز فکر کی بناء پر جزئیات نگاری کا ایک نیا انداز قائم کیا ہے چنانچہ اس خاص نکتہ نظر سے منٹو کا ایک اپنا رنگ ہے جو کسی دوسرے کے رنگ سے نہیں ملتا۔
منٹو نے ہمیشہ کسی واقعہ یا کردار کے تاثرات و نقوش کی وضاحت کے لیے ایسی جزئیات کو زیادہ اہمیت دی ہے جنہیں دوسرے عموماً غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتے۔
منٹو جس طرح بیان و اظہار خیال کے معاملہ میں اور اپنے تصورات کی وضاحت کے لیے تشبیہوں کا استعمال کرتے وقت غیر اہم کو اہم اور غیر ضروری کو ضروری اور معمولی کو غیر معمولی پر ترجیح دے کر تاثر کی شدت اور گہرائی پیدا کرتے ہیں ، اس طرح جزئیات کے انتخاب کے سلسلہ میں بھی انہوں نے بظاہر غیر اہم اور معمولی پہلوؤں کو ترجیح دی ہے اور اپنی تصویر کو خواہ واقع کی ہو یا کردار کی انہیں معمولی رنگوں سے شوخ اور تیکھا بنایا ہے۔ اس اجمال کی تصویر چند مثالوں میں دیکھئے:۔
’’مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر کی لسی پی کر ایک بڑی ڈکار لی اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔ ’’ہت تیری ایسی کی تیسی۔‘‘
یہ استاد منگو ہیں ’’نیا قانون‘‘ میں ۔ اسی افسانے میں انہی کی دو تصویریں اور ملاحظہ ہوں :۔
’’چھاؤنیپہنچ کر منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا اور اگلی نشست کے گدے پر بیٹھ گیا۔‘‘
گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگہ ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے گورے سے پوچھا:۔
’’صاحب بہادر! کہاں جانا مانگتا ہے؟‘‘
اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا۔ صاحب بہادر کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کھینچ گیا اور پاس ہی گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آ رہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہو گئی۔‘‘
انہی چھوٹی چھوٹی جزئیات سے ہمیں استاد منگو کو پوری طرح پہچاننے اور اس کی شخصیت کی گہرائیوں میں جذب ہونے کا موقع ملا ہے۔
’’پھاہا‘‘ میں گوپال کے پتا جی کا ذکر ایک جگہ اس طرح آیا ہے:۔
’’اس کو اپنے پتا جی کی ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی۔ اس کے پتا جی لالہ پرشوتم داس تھانے دار لنگوٹ باندھے نل کی دھار کے نیچے اپنی گنجی چندیا رکھے اور بڑی توند بڑھائے مونچھوں میں سے آم کا رس چوس رہے تھے۔‘‘
’’پہچان‘‘ میں کچھ شب زندہ داروں نے جن کمروں کا جائزہ لیا تھا ، ان میں سے ایک کی تصویر منٹو نے یوں بنائی ہے:۔
’’کونے میں ایک بہت بڑا پلنگ تھا جس کے پائے رنگین تھے۔ اس پر میلی چادر بچھی ہوئی تھی، تکیہ بھی بڑا تھا جس پر سرخ رنگ کے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ پلنگ کے ساتھ والی دیوار کے کارنس پر تیل کی ایک میلی بوتل اور لکڑی کی کنگھی پڑی تھی۔ ا س کے دانتوں میں سر کا میل اور کئی بال پھنسے ہوئے تھے۔ پلنگ کے نیچے ایک ٹوٹا ہوا ٹرنک تھا جس پر ایک گالی گرگابی رکھی تھی۔‘‘
’’کپڑے اس کے خستہ حالت میں تھے لیکن میلے نہیں تھے۔کوٹ کی آستینوں کے آخری حصے کثرت استعمال سے گھس گئے تھے اور پھوہڑے نکل آئے تھے، کالر کھلا تھا اور قمیض بھی ایک اور دھلائی کی مار تھی۔‘‘(بانجھ)
’’باورچی خانے میں گرم مصالحہ کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی۔‘‘ (بلاؤز)
’’وہ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ ا س کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں ۔ پتنگ کی کانپ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جدا ہو جائے۔ دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت ابھرا ہوا تھا جو بار بار مونڈھنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کر گیا تھا، جیسے نچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں رکھ دیا گیا ہے۔‘‘(ہتک)
یہ منٹو کی جزئیات نگاری کی صرف چند مثالیں ہیں اور جن کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ منٹو نے کسی واقع کی مصوری کرنے، کسی ماحول یا فضاء کا مجموعی تاثر قائم کرنے یا کسی کردار کی ظاہری ہیئت اور باطنی کیفیات بنانے کے لیے جو باتیں بیان کی ہیں ان میں کبھی چھوٹی چیز اور چھوٹی بات کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا۔
منٹو فن کار تھا اور فن کار کے نزدیک کوئی بات اور کوئی چیز معمولی اور حقیر نہیں ہوتی۔ دوسروں کو حقیر اور معمولی نظر آنے والی چیزیں غیر معمولی تاثرات اور نتائج کی حامل بن سکتی ہیں بشرطیکہ فن کار انہیں صحیح انداز سے اور برمحل برتنے پر قادر ہو اور یہ قدرت منٹو میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
چھوٹی سے چھوٹی جزئیات انہیں عزیز بھی ہیں اور ان کی نظروں میں محترم بھی۔ جزئیات کی قدر پہچاننے ، انہیں عزیز رکھنے اور محترم سمجھنے نے منٹو کے فن کو اکثر نگاہوں میں پسندیدہ بنایا ہے۔
منٹو کے فن کے مختلف پہلو، جن میں افسانہ کی ساخت، تشکیل اور اس کے اجزاء کے علاوہ اسلوب نگارش کی ساری خصوصیتیں شامل ہیں یعنی تشبیہیں ، استعارے، کنائے، الفاظ اور فقروں کی تکرار اور ان کے استعمال میں تضاد کا صرف، اس کی شخصیت، مزاج اور انداز نظر سے متاثر ہوئے ہیں ۔
منٹو کے سوچنے کا ایک خاص انداز ہے۔ وہ زندگی اور اس کے مسائل کو مختلف اوقات میں مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے اور سوچتا ہے اسے بغیر جھجک، خوف اور اندیشے کے جرات کے ساتھ بیان کر دیتا ہے۔ ان سب باتوں میں اس کے جدت پسند مزاج اور توانا شخصیت کو بڑا دخل ہے۔
منٹو کی نظر میں گیرائی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ سیاست، معاشرت، دین، اخلاق، معاشرہ اور فرد ان سب پر اس کی گہری نظر ہے۔ اس کی باریک بینی اور نکتہ رس نگاہ ہر ایک کے حسن و قبیح، اچھائی، برائی اور عیب و ہنر کو اس طرح دیکھتی ہے کہ اجتماعی و انفرادی زندگی کی کوئی حقیقت اس سے پوشیدہ نہیں رہتی۔ اس طرح عیب و ہنر پوری طرح احاطہ کر لینے کے بعد وہ ان میں سے ہر ایک کا اس نظر سے تجربہ کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ’’انسان نے انسان کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے اور ایک ایسے انداز سے کی ہے کہ ناانصافی کا شکار ہونے والے خود نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ کون ناانصافی کر رہا ہے اور کس کس طرح کر رہا ہے۔ منٹو نے اس ناانصافی کو مٹانے اس کا پردہ فاش کرنے اور اس کا طلسم توڑنے کو اپنے فن کا مقصود بنایا ہے۔
زندگی کے اس بہت بڑے اور بے حد اہم کا م کا بیڑہ اٹھانا بجائے خود ایک مہم ہے لیکن اس سے سخت تر مہم یہ ہے کہ اسے کوئی عملی شکل دی جائے۔
منٹو کی مخصوص نظر نے انہیں جو کچھ دکھایا اور اس مشاہدہ کے بعد ان کے احساس درد نے انہیں جس کام کی طرف مائل کیا اس کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں ۔ ہر ناانصافی کرنے والا سیاستدان، معیشت، دین اور اخلاق کے اداروں میں اجارہ داری کی لذتوں کے راز جاننے والا ایسے لوگوں کا سب سے بڑا دشمن ہے جو اس کے رخ سے فریب اور طلسم کے پردے اٹھا کر اس کی حقیقت کے گھناؤنےپن کو رسوا کرتا ہے اس لیے اس اہم کام کا بیڑہ اٹھانے والے کو اتنا نڈر، اتنا بے خوف اور جبری ہونا چاہیے کہ وہ ہر دشمن کے مقابلے کے لیے سینہ سپر رہے۔
منٹو کو فطرت کی طرف سے یہ بے خوفی، یہ جرات اور یہ مردانگی عطاء ہوئی تھی۔ اس کے اعصاب میں اتنی قوت تھی کہ وہ ہر وار کو دلیری سے روکے اور اس کی ضرب کو بے نیازی اور شگفتہ طبعی سے جھیل لے۔
منٹو کے فن پر ان کی اس بے خوفی نے بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ اچھا بھی اور برا بھی۔ اچھا اس طرح کہ زندگی کی خرابیوں کا تجزیہ کر کے انہیں بے نقاب کر کے اور اس پر اکثر اوقات ایسی کاری ضرب لگائی کہ چوٹ کھانے والا تلملا کر رہ جائے، انسان اور زندگی کی بڑی خدمت کی ہے اور برا اس طرح کہ حیات انسانی کے بعض مستور پہلوؤں اور پوشیدہ رازوں کو اپنی دزدیدہ نگاہی سے یوں بے نقاب کیا ہے کہ چھپے ہوئے ناسوروں کی نمائش کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کبھی کبھی حقیقت بینی اور حقیقت نگاری سے دنیا والوں کو صرف عریانی سکھائی ہے۔ یوں اس برے پہلو کا ایک اچھا پہلو یہی ہے اور اس کی تاویل یہی کہہ کر کی کی جا سکتی ہے کہ یہ سب کچھ منٹو کا مزاج تھا۔ اس کی شخصیت تھی اور منٹو فریب کھانے کی طرح فریب دینے کو بھی گناہ سمجھتا ہے۔ اس نے اپنے فن پر اپنے آپ کو پوری طرح بے نقاب کیا ہے۔
منٹو کے مزاج کی یہ سب خصوصیتیں جنہوں نے ان کی شخصیت اور فن دونوں میں امتیاز اور انفرادیت کے پہلو نمایاں کئے ہیں ۔ سیاسی ماحول، معاشرتی انتشار، معاشی کشمکش اور بعض صورتوں میں ذاتی اور نجی حالات سے متاثر ہوتی رہی ہیں ۔
منٹو نے اپنی زبردست قوت ارادی سے ہر طرح کے انتشار و کشمکش اور رکاوٹیں پیدا کرنے والے حالات کا مقابلہ بڑی دلیری اور جوانمردی سے کیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا ہے کہ اکثر منٹو نے ان سب قوتوں کو مغلوب کر کے اپنے لئے فتح کی راہ نکالی اور اپنے فن کو زندہ رکھا ہے لیکن دیکھنے والوں نے بڑے درد و غم کے ساتھ حالات کے طوفان، انتشار اور کشمکشوں کی ٹکراؤاور ریلے سے اس کے پیروں کو ڈگمگاتے بھی دیکھا ہے۔ زندگی کے دشوار گزار سفر کے بعض سخت مرحلوں پر اور بعض منزلوں پر ا س نے اپنے آپ کو بے دست و پا محسوس کیا اور اپنے آپ کو عارضی شکست قبول کر لینے پر آمادہ پایا ہے۔ شکست کے اس احساس نے اس کے اعصاب پر برا اثر ڈالا اور جب اس نے اعصاب کی قوت برقرار رکھنے کے لیے کسی آب زندگی کو اپنا سہار ا بنایا تو اس کے اعصاب پہلے سے بھی زیادہ بے بس اور مجبور ہو گئے۔ یوں کبھی اعصاب کی اس سخت کشمکش اور خارجی ماحول اور بیرونی زندگی کے اس تصادم میں کبھی کبھی اس کی شخصیت کی توانائی ہر چیز پر غالب بھی آ جاتی ہے اور منٹو کی شخصیت کی عظمت اور نمایاں ہوئی ہے لیکن یہ عارضی فتح عموماً اعصاب کو اور زیادہ مغلوب اور پسپا بنانے کا پیش خیمہ بنی ہے۔
منٹو کی زندگی میں ماحول اور اعصاب کی یہ جنگ یوں تو اس کی حیات فن کے ہر دور میں جو کچھ لکھا ہے اس میں اس شکست و فتح کے تواتر کی جھلک نمایاں ہے کہ منٹو نے مدتوں کچھ نہیں لکھا۔
کبھی ایسا ہوا ہے کہ اس نے کئی کئی دن تک مسلسل ہر روز ایک افسانہ لکھا ہے اور اس طرح تواتر اور تسلسل سے لکھے ہوئے افسانوں میں بھی کسی ایک سلسلہ میں وہ کوئی اچھا افسانہ نہیں لکھ سکا اور کبھی ہر روز ایک اچھا افسانہ لکھا مثلاً منٹو کے مجموعے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے سب افسانے (سوائے ٹھنڈا گوشت کے) 23اور31 جولائی1950کے درمیان لکھے گئے۔
’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ (مجموعہ) سب افسانے یکم جون 50ء اور 14جون50ء کے درمیان لکھے گئے۔ اسی طرح ’’یزید‘‘ (مجموعہ) کے سب افسانے 4اکتوبر اور 15نومبر 1951ء کے درمیان لکھے گئے۔
منٹو کے آخری دور کے بعض مجموعے جو زیر ترتیب اور زیر اشاعت ہیں ۔ منٹو کی اس ذہنی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان افسانوں کو پڑھ کر پڑھنے والا نمایاں طور پر تین باتیں محسوس کرتا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اس دور کے لکھے ہوئے افسانوں میں سے اکثر مجموعی حیثیت سے منٹو کے کم تر درجے کے افسانے ہیں
دوسری بات یہ ہے کہ اس دور میں بھی جب بظاہر منٹو کا فن انحطاط کی منزلوں سے گزر رہا ہے۔ چند اچھے اور بہت اچھے افسانے بھی لکھے ہیں اور تیسرے یہ کہ ان افسانوں میں بھی جنہیں ہم مجموعی حیثیت سے ان کے اچھے افسانے نہیں کہہ سکتے۔ جا بجا منٹو کی ذہانت ان کی جدت پسندی، ان کی شوخی طبع، ان کی گہرا طنز اور فن کے ساتھ ان کی فطری مناسبت جلوہ گر نظر آتی ہے۔
منٹو کی قادر الکلامی اور اس سے بھی بڑھ کر ان کے فن کی یہ خصوصیت کہ وہ کہانی کہنا جانتے ہیں ۔ اس دور میں بھی اسی تازگی اور توانائی کے ساتھ نمایاں ہے۔
منٹو کے ہر دور کے افسانے۔ بہت اچھے اور برے سب افسانے دیکھ کر پڑھنے والا ان کی جس خصوصیت سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ یہی ہے کہ ان افسانوں میں کہانی کی لذت ہے۔
منٹو کو فطرت نے ایک قصہ گو بنا کر بھیجا تھا۔ اس نے جب افسانہ نگاری شروع کی جب بھی اس میں فطرت کی دی ہوئی اس صلاحیت کو برتنے کی پوری قوت تھی اور جب اس نے مجبور اور بے بس ہو کر مرنے سے چند دن پہلے تک افسانے لکھے تو اس کی یہ صلاحیت ا س میں اپنے پور ے محاسن کے ساتھ موجود تھی۔
منٹو کو ایک قصہ گو کی حیثیت سے کئی گُر کی باتیں معلوم تھیں اور قصہ گوئی کے ساتھ اس کے فطری بیان اور فن کے ساتھ ا س کے بے پایاں لگاؤنے اس میں ان گر کی باتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی عادت پیدا کر دی تھی۔
منٹو کو علم تھا کہ زندگی میں ہر قدم پر ایک کہانی ہے۔ ہر انسان اور واقعہ خواہ وہ کتنا ہی کم حیثیت اور کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، کہانی کا بڑا موزوں اور دلچسپ موضوع ہے لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے اور بظاہر بہت معمولی ہونے کے باوجود یہ شرط قصہ گوئی کے لیے بڑی اہم ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ کہانی کہنے والا ایک ایسا انداز اختیار کرنا جانتا ہو کہ کہانی شروع ہوتے ہی اس میں اور کہانی سننے یا پڑھنے والے میں انتہائی یگانگت اور بے تکلفی کا رشتہ قائم ہو جائے۔
پڑھنے یا سننے والا یہ محسوس کر سکے کہ قصہ گو اسے اپنا ہمراز سمجھ کر اسے اپنے د ل کی بڑی سے بڑی بات بتانے میں بھی تامل نہیں کرے گا۔ وہ اپنی خوشی اور غم میں اسے پوری طرح شریک کرے گا۔
کہانی سننے والے کے دل میں اپنی طرف سے یہ اعتماد پیدا کرنا اور ایک جان دو قالب ہو کر اس سے معمولی سے معمولی بات بھی اس طرح کہنا کہ جیسے وہ بے حد اہم ہے، کہانی کہنے والے کی بڑی حیثیت ہے۔
منٹو قصہ گوئی کے میدان میں یہ جیت حاصل کرنے میں ماہر تھا۔ وہ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات اس طرح باتیں کرنے کے انداز میں دوسروں سے کہہ سکتا تھا کہ دوسرے اس کے جھوٹ کو، اس کے پر فریب تخیل کو، اس ذہانت کی آغوش میں پلے ہوئے عجیب و غریب تصور کو سچ سمجھ کر قبول کرتے اور اس سے لطف لیتے تھے۔ معمولی سے بے حقیقت بات کس طرح کہانی بن سکتی ہے اس کی مثال منٹو کا افسانہ ’’چوہے دان‘‘ ہے۔ کہانی میں کس طرح باتوں کا مزہ پیدا کر کے اپنے پڑھنے والے کے احساسات میں مکمل مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کا اندازہ چغد،مس ٹین والا،میرا نام رادھا ہے،ٹوٹو،ننگی آوازیں ، حامد کا بچہ، رحمت خداوندی کے پھول، خورشٹ، باسط، ٹیٹوال کا کتا، چور، نکی اور والد صاحب، کے افسانوں کو پڑھ کر ہو سکتا ہے کہ کسی طرح عجیب و غریب اور ناقابل اظہار خیال افسانوں میں جگہ پا کر اور منٹو کی چابکدستی کے حلقہ بگوش بن کر پڑھنے والوں کا دل موہ سکتے ہیں ۔
منٹو اپنے قریبی ماحول میں سے اتنی آسانی سے کوئی کہانی پیدا کر لیتا تھا کہ دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی تھی۔ وہ گپ کوکس طرح سنجیدہ مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔ یہ بات اور بھی زیادہ حیرت کی تھی لیکن یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ منٹو کہانی کہنا جانتا تھا اور اپنی اور بہت سی فنی کمزوریوں کے باوجود اپنے آخری دور انحطاط میں بھی وہ کہانی کہنا بھولا نہیں تھا اس لیے اس انحطاط کے زمانے میں منٹو کے افسانے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔
یہی ساری باتیں ہیں جو مل جل کر منٹو کے فن میں زندگی بھی پیدا کرتی ہیں اور انفرادیت اور عظمت بھی لیکن منٹو میں اگر سکینڈل کو افسانوں کا موضوع بنانے کی کمزوری نہ ہوتی، پڑھنے والوں میں کبھی کبھی ایک ہنگامہ اور گرما گرمی پیدا کر دینے والے کے لیے وہ اگر چونکا دینے والی باتیں کہنے اور لکھنے پر اصرار نہ کرتا، وہ اگر اپنی طنز کو اصلاح کے بلند مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بجائے کبھی کبھی اس زہر میں بجھے ہوئے تیروں کی طرح برتنے اور دوسروں کو کچوکے دے کر اس میں لذت محسوس کرنے کی عادت ترک کر سکتا اور جنسی تجزیہ کو نفسیات کی نازک حدود میں رکھنے کی بجائے اسے کوچہ و بازار میں رسوا کرنے سے پرہیز کر سکتا تو منٹو یقیناً اس سے بھی بڑا فن کار ہوتا جیسا کہ وہ اب تھا۔
اس لیے کہ اس سے انکار کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں کہ وہ ان چند کمزوریوں کے باوجود بہت بڑا فن کار تھا۔ اس کے مشاہدے، تخیل، تصور، فکر اور احساس میں اس کی شخصیت کا گہرا رنگ ہے اور شخصیت میں غیر معمولی قوت و توانائی، وہی قوت و توانائی اس کے پورے فن پر چھائی ہوئی ہے اور آنے والے ہر دور میں ہر طرح کے حوادث کے خلاف سپر بن کر اس کی حفاظت کرے گی اور اسے زندہ رکھے گی........ منٹو مر گیا........ لیکن اس کا فن اسے مرنے نہیں دے گا۔
٭٭٭