پیارے چچا جان!
آداب۔ اس بڑھاپے میں ایک اور آمر کے دھچکے پر میں آپ کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔ دکھ کا اصل مقام تو یہ ہے کہ میرے سوا اس پورے ملک ِپاکستان کا ایک بھی شہری آپ کی ڈھار س بندھانے کو تیار نہیں۔ الٹا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ (سیاسی مرحوم) جنرل مشرف بارے ہر نوع کے لطیفے ای میل کیے جا رہے ہیں۔ ایس ایم ایس پر مشہور ہونے والا یہ شعر تو آپ کی جاسوس ایجنسی نے آپ تک ضرور پہنچایا ہو گا:
ہم تو شغل لگا رہے تھے فرازؔ
مشرف تو مائنڈ ہی کر گیا
چچا جان ! آپ کی آپ ہی جانیں لیکن آپ کی یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ آمر جب بر سر اقتدار ہوتے ہیں تو آپ کا ان سب کے ساتھ سلوک یکساں ہوتا ہے۔ وہ اسلام لاگو کریں یا روشن خیالی پھیلائیں۔ وہ ریفرنڈم میں پچانوے فیصد ووٹ لیں یا حسنی مبارک کی طرح ایک سو پندرہ فیصد، لیکن جب وہ بے چارے تخت و تاج سے محروم ہوتے ہیں تو آپ امتیازی سلوک پر اتر آتے ہیں۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ آپ نے جنرل مشرف کو سیاسی پناہ تک دینے سے انکار کر دیا جبکہ جنرل ایوب کو آپ تا دم مرگ سی آئی اے کے ملازم کے طور پر پنشن دیتے رہے۔ اوپر سے آپ جنرل مشرف کو سعودی عرب بھیج رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا مکے مدینے سے بلاوے آتے تھے۔ اب وہاں سے شہزادے آتے ہیں۔ آپس کی بات ہے ، شہزادے تو ستر کی دہائی میں بھی آتے تھے مگر ان دنوں آتے تھے اور دل بہلا کر چلے جاتے تھے۔ اب کچھ عرصے سے یہ شہزادے آتے ہیں اور ہمارے سابق حکمرانوں کوساتھ لے جاتے ہیں۔
چچا جان! سعودی عرب والے آپ کی بات توجہ سے سنتے ہیں۔ ہمارے ہاں صدر کا انتخاب ہونے والا ہے۔ آپ نے بھی خبریں پڑھی ہوں گی کہ آصف علی زرداری ملک کے صدر بننے والے ہیں۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ سعودی عرب والے ہمارے سابق کے ساتھ ساتھ دو چار آئندہ حکمرانوں کو بھی ساتھ لے جائیں؟
قائدِ تحریک الطاف حسین کا یہ بیان تو آپ کی نظر سے ضرور گزرا ہو گا کہ آصف علی زرداری کو صدر بنا کر محترمہ کی روح کو سکون پہنچائیں۔ سچ پوچھیے تو اگر سعودی شہزادے میرے مشورے پر عمل کریں تو محترمہ کی روح زیاد ہ سکون محسوس کرے گی ۔
خیر چھوڑیے پاکستان کو۔ یہاں عالم بالا میں خبر تھی کہ یورپ میں کوئی ملک کوسووو بھی ہے اور ابھی حال ہی میں آزاد ہوا ہے۔ میرے دوست استاد دامن نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے ، چار دفعہ میرے پاس یہ پوچھنے آ چکا ہے کہ اگر تمہارے چچا نے کوسووو پر حملہ نہیں کیا تو کوسووو آزاد کیسے ہو گیا؟
ہاں حملے سے یاد آیا۔ یہ کم بخت پوٹن کو کیا سوجھی ؟ بے چارے جارجیا پر فوج چڑھا دی۔ ان روسیوں کو دو وقت کی روٹی کیا ملنے لگی پھر سے سپر پاور بننے کے خواب دیکھنے لگے مگر ہیں نا نو دولتئے! دو چار ہفتے اوسیتیا میں گزارے اور فوجیں نکال لیں۔ آپ ہوتے تو پہلے گروزنی پر بم گراتے پھر جارجیا کے صدر کو پھانسی لگاتے ۔ اس کے بعد وہاں انتخابات کراتے۔اور ہاں! ان تمام اقدامات سے قبل آپ اقوام متحدہ سے ان حملوں کی اجازت حاصل کرتے۔ان کم بخت روسیوں کو ایک حامد کرزئی تک پورے جارجیا میں نہ مل سکا جو اپنے ملک پر حملوں کی حمایت کر سکتا۔
خیر چھوڑیے، ان روسیوں سے آپ کا کیا مقابلہ؟ میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ بڑھاپے کے باعث آپ کی یاداشت متاثر ہو رہی ہے۔ جارجیا پر روسی فوج کشی کے سلسلے میں آپ نے مذمتی بیان میں کہا تھا کہ اکیسویں صدی میں کسی ملک کی خوودمختاری پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔برا ہو مرضِ نسیان کا ! آپ کو یاد ہی نہیں رہتاکہ آپ نے اٹھارویں صدی میں جو فوجیں روانہ کی تھیں ان کی منزل منیلا اور میکسیکو تھے ۔ کابل اور بغداد والی فوجی مہم اتفاق سے اکیسویں صدی ہی میں شروع ہو سکی تھی۔ میرا مشورہ ہے بادام کھایا کیجیے۔ یاداشت کے لیے بھی اچھے ہوتے ہیں اور صحت کے لیے بھی۔یاداشت کی تو خیر ہے ، آپ کی گرتی ہوئی صحت کی مجھے بہت فکر ہے۔ اس گرتی ہوئی صحت کا ایک نتیجہ تو بیجنگ اولمپکس ہی میں آپ نے دیکھ لیا۔ آپ سونے کے تمغوں کی دوڑ میںچین سے مات کھا گئے۔ مجھے معلوم ہے یہ بات سن کر آپ مجھے یہ طعنہ ددیں گے کہ تم چپ رہو۔ تمہارے ملک کو توایک بھی تمغہ نہیں مل سکا۔ چچا جان کیا ہے کہ ہمارے ہاںتمغے کھلاڑی نہیں، فوجی لیتے ہیں۔
فقط
آپ کا تابعدار بھتیجا
سعادت حسن منٹو مرحوم
22 اگست 2008ء
…٭…