میانی صاحب
4اکتوبر2006ء
پیارے چچا جان!
امید ہے آپ’’ان دی لائن آف فائر‘‘پڑھنے میں مصروف ہوں گے۔ ہمارے بدگمان پاکستانی بھائی بہن یہ سوچنے میں مصروف ہیں کہ جنرل مشرف نے اتنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود کتاب کیسے لکھ ماری۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ کسی گھوسٹ رائٹر نے لکھی ہے۔ چلو ہمیں کیا۔ ہمیں تو اس بات پر حیرت ہے کہ آپ نے اتنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود یہ کتاب پڑھ کیسے لی کہ آخر آپ کتاب خریدنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو کتاب پڑھنے کے بعد ہی دے رہے ہوں گے۔ یا شاید ممکن ہے جس طرح ہمارے(بلکہ آپ کے) جنرل مشرف نے گھوسٹ رائٹر کے ذریعے کتاب لکھی ہے اسی طرح آپ نے گھوسٹ ریڈر کے ذریعے کتاب پڑھ لی ہو۔ کچھ بھی ہو جنرل مشرف کی یہ کتاب آپ کی آشیر باد سے کامیاب جارہی ہے۔ ورنہ آپ کو تو یاد ہی ہوگا کہ جنرل ایوب کی کتاب کا کیا حشر ہواتھا۔
سنا ہے کوئی شاعر کتاب چھپوانے کے لئے کسی پبلشر کے پاس گیا۔ پبلشر نے یہ کہہ کر کتاب چھاپنے سے انکار کر دیا کہ ملک کے سارے پبلشر جنرل ایوب کی کتاب چھپوانے میں مصروف ہیں لہٰذا آپ کی کتاب نہیں چھاپ سکتے۔
شاعر بھی ضد کا پکا تھا۔ اس نے آخر ایک پبلشر ڈھونڈ نکالا جو اس کی کتاب چھاپنے پر تیار ہو گیا۔
پبلشر نے جب چھاپہ خانہ والوں سے رابطہ کیا تو جواب ملاکہ ملک کے سارے چھاپہ خانے جنرل ایوب کی کتاب چھاپنے میں مصروف ہیں اس لئے کوئی اور کتاب نہیں چھاپ سکتے۔
پبلشر بھی ضد کا پکا تھا۔ اس نے آخر ایک پریس ڈھونڈ نکالا جس نے یہ کتاب شائع کر دی۔
کتاب بیچنے کے لئے جب کتاب گھر والوں سے رابطہ کیاگیا تو کتابوں کی ہر دکان سے یہی جواب ملا کہ سارے ملک کے کتاب گھر صرف جنرل ایوب کی کتاب بیچنے میں مصروف ہیں لہٰذا یہ کتاب نہیں رکھ سکتے۔
آخر تنگ آکر پبلشر نے شاعر کو بلایا اور اس کی کتاب کے سارے مسودے واپس کرتے ہوئے مشور دیا کہ انہیں ردی والے کے پاس بیچ دو۔
شاعر نے جب ردی والے سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ وہ ردی کا کوئی نیا آرڈر وصول نہیں کر رہے کیونکہ سارے ملک کے ردی والے جنرل ایوب کی کتاب چھاپہ خانوں اور کتاب گھروں سے اٹھانے میں مصروف ہیں۔
چچا جان! اس لمبی تمہید کے لئے معافی چاہتا ہوں۔ مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ جس فوج کو آپ نے عربوں کے تیل کے کنوئوں کی حفاظت اور ہمارے ملک کو بدبخت کمیونسٹوں سے محفوظ رکھنے کے لئے بنایا تھا آج وہ فوج نہ صرف ہمیں کمیونسٹوں سے محفوظ بنا چکی ہے بلکہ ہماری تمام ضروریات کا خیال رکھ رہی ہے۔ ویسے ہوا تو یہ سب آپ کی مہربانی سے لیکن پاکستانی فوج کی تعریف نہ کرنا سراسر زیادتی ہوگی۔ وہ جو سویڈن کی نام نہاد فلاحی ریاست بارے کہتے ہیں ناکہ وہ مہد سے لحد تک اپنے شہریوں کا خیال رکھتے ہیں درحقیقت محض ایک نعرہ ہے۔ مہد سے لحد تک اگر کوئی اپنے شہریوں کا خیال رکھتی ہے تو یہ ہماری فوج ہے۔
دیکھئے نا! بچہ پیدا ہو تو اسے سب سے پہلے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے فوجی بھائیوں نے اوکاڑہ سے لیکر سرگودھا تک بڑے بڑے ڈیری فارم کھول رکھے ہیں جہاں یہ بچوں کے لئے دودھ کی ضروریات پوری کرتے ہیں وہاں بڑے پروٹین کی کمی دور کرنے کے لئے ان سے گوشت بھی خرید سکتے ہیں۔ اب تو ثوابِ دارین کے حصول کی خاطر بکر عید کے مبارک موقع پر کراچی ایسے شہروں میں بکر منڈی لگا کر قربانی کے جانور بھی فروخت کئے جاتے ہیں۔
دودھ کی بات ہورہی تھی تو فوجی بھائی بھلا یہ کیسے بھول سکتے تھے کہ بچے میٹھا دودھ پیتے ہیں لہٰذا انہوں نے فوجی شوگر ملز اور آرمی ویلفیئر شوگر ملز کے نام سے چینی کے کارخانے بھی کھول دئیے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ آپ کی بھابی یعنی میری والدہ میرے شیر خواری کے دنوں میں لکڑیوں پر میرے لئے دودھ گرم کیا کرتی تھیںتو کیسے دھوئیں سے ان کی آنکھیں پانی پانی ہوجاتی تھیں۔ پاکستانی مائوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے فوجی بھائیوں نے مری گیس کمپنی اور فان گیس کے ذریعے ہماری خواتین کو لکڑی والے روایتی چولہوں سے نجات دلادی۔
پیارے چچا جان! کیا بتائوں آپ کی پالی ہوئی یہ فوج کس کس طرح پاکستانیوں کاخیال رکھتی ہے ان کے رہائشی مسائل حل کرنے کے لئے ملک بھر میں ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیز اور عسکری بنگلوں کا جال بچھایا گیا ہے۔ ہمارے فوجی افسر بھائیوں کو جو پلاٹ ملتا ہے وہ اسے وصول کرتے ہی بلڈی سویلین حضرات کو بیچ دیتے ہیں۔
ان رہائشی کالونیوں میں یہ بلڈی سویلین قبضہ گروپوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہو گا قبضہ گروپوں نے کس طرح پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ امن عامہ کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ بعض لوگ اس کا ذمہ دار آپ کی افغان جنگ کو قرار دیتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو بہرحال فوجی بھائیوں نے ان حالات کے پیشِ نظر ملک میں جگہ جگہ عسکری بنک کی شاخیں کھول دی ہیں تاکہ بعض لوگ اپنی جمع پونجی وہاں رکھ کر خود اطمینان کی نیند سوئیں۔ یہ درست ہے کہ پیسے تو بنکوں میں رکھوائے جاسکتے ہیں مگر انسان سوتا تو گھر پر ہے۔تو کیا ہے کہ ہمارے فوجی افسر بھائی ریٹائرہوتے ہی سیکورٹی ایجنسی کھول لیتے ہیں جس میں ریٹائرڈ فوجی بھرتی کرتے ہیں۔ یوں ریٹائر ہونے کے بعد بھی یہ لوگ ہماری حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
پھر آپ کو پتہ ہو گا ہمارے ملک میںتعلیم کی کتنی کمی ہے؟ اس کمی کو دور کرنے کے لئے فوج نے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھول دی ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ نوجوان ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد نوکری کے لئے دھکے کھاتے تھے چنانچہ ہماری فوج نے ان کے لئے نہ صرف ریکروٹنگ ادارے بلکہ آسان شرائط پر قرضے دینے کی سکیم شروع کر ڈالی۔
پاکستان کے قومی شاعر نے کہاتھا
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
یہ بات انہوں نے ہماری فوج بارے ہی کہی تھی۔اب وہ قومی شاعرمیری طرح عالم بالا کے باسی ہیں اور اس بات پر شدید برا مناتے ہیں جب ہم انہیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان کا خواب آپ نے دیکھا تھا۔ پاکستان جوں جوں بڑا ہورہا ہے…… میری مراد ہے عمر میں بڑا ہورہا ہے کہ رقبے کے لحاظ سے پہلے ہی آدھا تھا اوپر سے جو آپ کے تھنک ٹینک نئے نقشے جاری کر رہے ہیں ان میں وہ مزید چھوٹا ہورہا ہے……توں توں اس کے قومی شاعر کا حسین خواب آپ کی مادری زبان کے مطابق نائٹ میئر بنتاجارہا ہے۔
خیر چھوڑئیے! ہم عالم بالا کے باسیوں کی باتیں۔ بات ہورہی تھی آپ کی پاک فوج کی۔ حال ہی میں محقق عائشہ آغا نے بتایا کہ ملک کے کل زرعی رقبے کا دس فیصد فوج کے پاس ہے۔ مجھے یہ خبر پڑھنے کو ملی تو دل باغ باغ ہوگیا آپ کو تو پتہ ہے ہمارے کسان کتنے کاہل ہیں۔ یہ ان کی کاہلی کا نتیجہ ہے کہ ملک آج تک گندم میں خود کفیل نہیں ہوسکا۔ میری تو رائے یہ ہے کہ دس فیصد کیوں صد فیصد ہماری فوج کے پاس ہونا چاہئے۔ اس طرح نہ صرف ہم گندم میں خود کفیل ہوجائیں گے بلکہ ایف سولہ کی رقم کے بدلے آپ کو بھی ایف سولہ ہی بھیجنا پڑیں گے نہ کہ آپ کے کسانوں کی محنت سے اگائی ہوئی گندم۔
بات طویل ہوتی جاتی ہے۔میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے گھوسٹ ریڈر کے ذریعے جنرل مشرف کی کتاب کے ساتھ ساتھ عائشہ آغا کی کتاب بھی پڑھ ڈالیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ہماری فوج ہمارے لئے روٹی کپڑا مکان ہی نہیں بلکہ جوتے، انڈروئیر، کیک اور پیسٹریاں تک بنارہی ہے۔
آخر میں آپ سے رخصت کے ساتھ ساتھ ایک سوال بھی پوچھنا چاہوں گا جو آج کل ایک موبائل کمپنی کے اشتہار سے ملتا جلتا ہے: کیا آپ کی فوج میں ہے یہ بات؟
والسلام
آپ کا بھتیجا
سعادت حسن منٹو مرحوم
…٭…