میانی صاحب
14 جون 2005
پیارے چچا جان!
کیا بتائوں! سیاست دان ملک بیچ رہے تھے، جرنیل ملک خرید رہے ہیں۔ مولویوں کی تو پوچھئے مت۔ ایک طرف ایم ایم اے نے شور مچا رکھا ہے فحاشی مکائو، فحاشی مکائو۔ دوسری طرف مولانا قاضی روز بیان دیتے ہیں کہ صدر صاحب وردی اتارو، صدر صاحب وردی اتارو!
مولویوں کا ذکر چل نکلا ہے تو چچا جان ایک لطیفہ سنیئیَ:کوئی شخص اپنے بیٹے کو بریلوی مدرسے بھیج دیتا ہے۔ ہفتے بھر بعد بچہ گھر واپس آ جاتا ہے ۔ والد کے پوچھنے پر بچہ جواب دیتا ہے کہ وہ اس مدرسے نہیں جائے گاکیونکہ مولوی صاحب اس کے ساتھ فعلِ بد کرتے ہیں۔
باپ بیٹے کو ایک دیوبندی مدرسے میں داخل کروا دیتا ہے۔ ہفتے بھر بعد بچہ پھرگھر واپس آ جاتا ہے ۔ والد کے پوچھنے پر بچہ جواب دیتا ہے کہ وہ اس مدرسے بھی نہیں جائے گاکیونکہ مولوی صاحب اس کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔
باپ بیٹے کو ایک شیعہ مدرسے میں بھیج دیتا ہے۔ ہفتے بھر بعد بچہ گھر واپس آ جاتا ہے ۔ والد کے پوچھنے پر بچہ وہی کہانی دہراتا ہے کہ مولوی صاحب ۔۔۔۔
باپ بیٹے کو دلاسا دینے کے بعد کہتا ہے : بیٹا ہوئی تو بہت زیادتی ہے لیکن لیک اچھی بات یہ پتہ چلی ہے کہ کم سے کم ایک معاملے پر تینوں فرقوں میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔
چچا جان! آپ کہیں گے اس لطیفے کا آپ سے کیا تعلق؟ چچا جان !یوں ہے کہ گزشتہ دنوں آپ کے گرجا گھروں میں جاری کیتھولک پادریوں کے ’بچگانہ ‘ مشاغل کی خبریں عام ہوئیں تو میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ تہذیبوں کے تصادم والے اس دور میں کم سے کم ایک معاملہ تو ایسا ہے جس پر دونوں تہذیبوں میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ رہی بات گیارہ ستمبر کی تو چچا جان آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ یہ محض اوور ڈوز (over doze ) کا کیس ہے۔ اوور ڈوز کا قصہ تو آ پ نے سنا ہی ہو گا۔؟
اوور ڈوز کا قصہ یوں ہے کہ ایک شخص کو کسی لامذہبی خاتون سے محبت ہو گئی۔ اس شخص کی ماں کو لڑکی تو پسند آئی مگر ماں نے شرط یہ لگا دی کہ لڑکی خدا پر ایمان لائے۔ محبت کے مارے شخص نے لڑکی کو مذہب کی تبلیغ شروع کر دی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ماں نے بیٹے سے پوچھا: بیٹا تبلیغ کا کچھ اثر ہوا؟
’اثر تو ہوا ‘،آزردہ بیٹے نے جواب دیا، ’لیکن مجھ سے تھوڑی سی غلطی ہو گئی‘۔
’کیسی غلطی‘؟ ماں نے پاچھا۔
’میں نے تبلیغ کی اوور ڈوز دیدی ‘، بیٹے نے جواب دیا،’نتیجہ یہ نکلا کہ وہ راہبہ بن گئی ہے۔‘
تو چچا جان آپ نے افغان جنگ کے دوران جہاد کی جو ڈوز دی تھی، اس میں آپ سے تھوڑی سی غلطی ہو گئی تھی۔ نتیجہ گیارہ ستمبر۔
ویسے آپ ایم ایم اے کی شعلہ بیانی سے پریشان نہ ہوں۔ کہا جاتا ہے گزشتہ الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن حکومت بنانے کی خواہش لے کر جب ہمارے بلکہ آپ کے جنرل مشرف کے پاس گئے تو جنرل صاحب نے جواب دیا کہ مولانا آپ کو تو چچا سام کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ مولانا نے جنرل صاحب کا بیان سنا تو سکون سے فرمایا: جنرل صاحب ! آپ اس کی فکر نہ کریں ،ان سے ہم خود نپٹ لیں گے، ہم نے ماضی میں بھی ان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
ویسے چچا جان! خبریں تو یہ ہیں کہ افغانستان میں آپ مولانا کی مدد سے ہی کام نپٹا رہے ہیں۔ افغانستان کی ساری لڑائی اگر بقول شخصے تیل کی پائپ لائن کے لئے ہو رہی ہے تو مولانا ڈیزل تعاون نہیں کریں گے تو کیا مولانا سینڈوچ کریں گے۔
مولانا سینڈوچ سے یاد آیا کہ سینڈوچ آپ کے ہاں کھایا جاتا ہے لیکن مولانا سینڈوچ ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔ تہذیبوں کے تصادم والے اس دور میں بھی دیکھئے آپ کی ثقا فت کس تیزی سے ہمارے ہاں پھیل رہی ہے۔ کچھ ہی دنوں کی بات ہے مولانا میک برگر بھی ہمارے ہاں موجود ہوں گے۔
اب اجازت چاہتا ہوں کیونکہ آپ کو ایران جانے کی جلدی ہے۔ ایران سے شام جانا مت بھولئے۔ ساتھ ہی تو ہے۔ میرے ملک پاکستان کی فکر مت کیجئے، یہاں ا ب کوئی بھٹو بننے کی کوشش نہیں کرے گا۔
والسلام
آپ کا برخوردار بھتیجا
سعادت حسن منٹو مرحوم
…٭…