’’پیارے چچا جان!
عالم ِ بالا میں ہم نے بار بار ’الجزیرہ‘ پر بغداد میں آپ کی پریس کانفرنس کے وہ دل خراش مناظر دیکھے جن میں ایک عراقی صحافی منتظر الزیدی آپ پر جوتے چلا رہا ہے اور آپ بے بسی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں(عا لمِ بالا میں کیبل آپریٹرز کو صرف’ الجزیرہ‘ دکھانے کی اجازت ہے کیونکہ یہاں کی سرکاری زبان عربی ہے)۔ آپ کی بے بسی دیکھی تو اپنے استاد فیض احمد فیض یاد آئے:
چنگا شاہ بنایا ای رب سائیاں ، پُولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
چچا جان! ایسی جگ ہنسائی تو ویت نام میں بھی نہ ہوئی تھی۔وینزویلا والاوہ گول مٹول سا ہیوگو شاویز تو اب ہر پریس کانفرنس سے پہلے دانت نکالتے ہوئے کہتا ہے اسکی پریس کانفرنس میں یہ پابندی نہیں ہے کہ صحافی صرف ننگے پائوں شریک ہو سکتے ہیں۔ ویسے اب آپ کو یہ سمجھ تو آ گئی ہو گی کہ عرب دنیا کو بھوکا رکھنا ہی کافی نہیں۔ اسے ننگا یا کم از کم پائوں سے ننگا رکھنا بھی ضروری ہے۔
خاطر جمع رکھئے!ان جوتوں کو اپنی کمزوری بنانے کی بجائے اسے اپنی طاقت بنائیں۔ آئندہ آپ کو ایران پر قبضہ کرنے کی سوجھی تو یہ جوتے بہت کام آئیں گے۔ اب نہ تو آپ کو وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار وں کی تلاش میں سر کھپانے کی ضرروت ہے نہ القاعدہ کا سہارا تلاش کرنے کی ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایرانیوں نے جو جوتے پہن رکھے ہیں ان سے آپ پر حملہ ہو سکتا ہے۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا اس ملک کواچھی طرح سمجھتا ہوں ۔ میرا مشورہ ہے آپ اسلام آباد کا رخ کرنے کے لئے یہ بہانہ مت بنائیے گا کہ آپ جوتوں سے مسلح پاکستانیوں کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام اپنے جوتے آپ سے زیادہ اپنے حکمرانوں کے لئے استعمال کرنے کے متمنی ہیں‘‘۔
آپ کا سعادت مند پاکستانی بھتیجا
سعادت حسن منٹو