فرانس ماری اروئے جو ادبی دنیا میں صرف والٹیئر کے مختصر نام سے متعارف ہے، پیرس میں ۲۱؍نومبر ۱۶۹۴ء کو پیدا ہوا۔ اُس کا باپ متمول آدمی تھی۔ والٹیئر نے ابتدائی تعلیم Jesuit College ایسی نامی درس گاہ سے حاصل کی۔ گو یہ تعلیم پادریوں کے زیرِ اثر تھی مگر جیساکہ اناطول فرانس اپنی ایک تصنیف میں لکھتا ہے کہ کلیسا کے بدترین دشمن وہ ہوتے ہیں جو اُس کی آغوش میں پرورش پاتے ہیں۔ ہم اس کی زندگی کا بیشتر حصہ پادریوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے میں صرف ہوتا دیکھتے ہیں۔
شاعر، مورخ اور فلسفی کی حیثیت سے تو والٹیئر کے مقابلے میں چند اشخاص پیش کیے جاسکتے ہیں مگر طنزیہ نگاری اور ہجو گوئی میں اُس کا کوئی مدِمقابل نہیں۔ اس کے مشرقی رومان یا کہانیاں الف لیلہ کی طرز میں لکھی گئی ہیں۔
والٹیئر کی حاضر جوابی اور طنز گوئی کے متعلق بہت روایتیں مشہور ہیں۔ لوئی چہاردہم کے مرنے کے بعد جدید ناظم نے کفایت کی غرض سے شاہی اصطبل کے آدھے گھوڑے فروخت کردیے۔
والٹیئر نے وہ واقعہ سن کر کہا: ’’اس سے کہیں بہتر تھا کہ شاہی دربار سے نصف گدھوں کو نکال دیا جاتا‘‘۔
۱۷۷۰ء میں اُس کا مجسمہ قائم کرنے کے لیے چندے کی فہرست کھولی گئی۔ اس وقت والٹیئر کے چہرے کی رونق بڑھاپے کی نذر ہوگئی تھی۔ رخسار پچک گئے تھے۔ بدن کی یہ حالت تھی گویا پرانا چمڑا بوسیدہ ہڈیوں پر منڈھا ہے۔ آخر جب مجسمہ تیار ہوگیا تو والٹیئر نے شاہ فریڈرک کو لکھا: ’’مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ دیگر علوم و فنون کے علاوہ آپ علمِ ابدان کے سرپرست بھی ہیں جبھی تو میرا مجسمہ تیار کراکے جسم کا ڈھانچہ مطالعہ کے لیے پیش کردیا ہے‘‘۔
والٹیئر اپنے عہد کا سب سے بڑا شاعر، مفکر، تمثیل نگار اور ادیب تھا۔ فرانس کے عہدِ حاضر کے مشہور نوبل پرائز یافتہ انشاپرداز اناطول فرانس کے خیال میں جنسِ لطیف کی آئینہ برداری میں شیکسپیئر بھی والٹیئر سے لگا نہیں کھاسکتا۔ والٹیئر المیہ تمثیل نگاری کا بادشاہ ہے۔
انگلستان کا شہرۂ آفاق شاعر ٹامس گرے گو دہریہ خیال والوں سے متنفّر تھا مگر پھر بھی وہ والٹیئر کی ٹریجڈی کو شیکسپیئر کی تمثیلوں کا ہم پلہ قرار دیتا ہے۔
’’والٹیئر مشہور صحافی بھی تھا۔ وہ بہت کثرت سے خطوط لکھتا۔ اُس نے ایک سو کے قریب کتابیں لکھیں۔ اس کی تصانیف میں ایک لفظ بھی مہمل یا بیہودہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت تک اس کے دس ہزار مکتوب شائع ہوچکے ہیں‘‘۔
’’گر والٹیئر کی تمام کتابیں سوائے ’کینن وُڈ‘ کے تلف کردی جائیں تو بھی وہ فرانس کے ادیبوں کی صفِ اوّل میں جگہ پاتا ہے۔ یہ کتاب دراصل روسو کے ایک مکتوب کا جواب ہے جس میں روسو نے اسے بے دین اور ملحد قرار دیا تھا۔ اس تصنیف میں وہ تمام جسمانی گناہوں کا نقشہ اور انسانی تباہی و بربادی کی تصویر کھینچ کر اس بُری طرح مضحکہ اُڑاتا ہے کہ پڑھنے والا خودبخود مصنف کا شریک تبسم ہوجاتا ہے‘‘۔
والٹیئر کے آہنی قلم نے آسمانی صحیفوں پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ اس کے ذہن نے مذہب، فلسفے اور تاریخ کے میدانوں کو اپنی جولانگاہ بنایا۔ نثر، نظم، تاریخ، افسانہ ، رومان اور تمثیل میں ہر جگہ والٹیئر مذہب کی مخالفت کرتا ہے۔۔۔۔۔ کلیسا، حکومت کی گاڑی کا سب سے مضبوط گھوڑا تھا۔ والٹیئر کی بیدزنی سے وہ ادھ موا ہوگیا۔ حکومت کی گاڑی رُک گئی مگر والٹیئر اُسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکا۔
اُس کے نزدیک شخصی یا جمہوری حکومت میں کوئی فرق نہیں۔ غربا کے لیے دونوں باتیں یکساں ہیں۔ خواہ انھیں ایک شیر شکار کرے یا ایک ہزار چوہے ان کی متاعِ زیست پر ڈاکا ڈالیں۔۱
والٹیئر کی زندگی کے حالات پر جس کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں، اُس کی مثال نپولین کے سوا شاید ہی کوئی ہو۔ آخری عمر میں والٹیئر نے اپنی پژمردہ قوت کو اُبھارنے کے لیے شراب کا کثرت سے استعمال شروع کردیا۔ اس کے اثر کو زائل کرنے کی خاطر اس نے بعد ازاں افیون کھانا بھی شروع کردی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کی رہی سہی صحت بھی برباد ہوگئی۔ آخر ۳۰؍مئی ۱۷۷۸ء کو یہ باکمال شخص وفات پاگیا۔ اس کے مرتے ہی یہ احکام جاری ہوگئے کہ اسے گرجا میں دفن نہ کیا جائے، مگر والٹیئر کے احباب نے اس کی لاش کو رسوم کے بغیر مضافات کے ایک گرجا میں خفیہ طور پر دفن کردیا۔ اُس کی لوحِ مزار پر یہ الفاظ کندہ ہیں:
’’یہاں والٹیئر آرام فرما ہے‘‘
بعد میں فریڈرک اور دیگر مشاہیر یورپ نے پادریوں کو بہت لعن طعن کی اور اکادمی نے نفرت کا ووٹ پاس کیا۔۔۔۔۔ مورخ اس واقعے کو انقلابِ فرانس کا محرک و ممد خیال کرتے ہیں۔