کشف اس کے کاندھے سے لگی رو رہی تھی اور جانے وہ کس الجھن میں تھا کہ اس کے کافی دیر رونے کے بعد اسے احساس ہوا کہ کشف کافی دیر سے رو رہی ہے اور وہ اسے تسلی تک نہ دے سکا۔
”کشف پلیز! خاموش ہو جاﺅ، دیکھو زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ ہے نا! ہم تو بے بس ہیں، اب رو مت…. چاچو کے لیے دعا کرو۔“
”بھیا! ابھی تو ہم ملے تھے اپنوں سے…. پہلی بار میں نے اپنے چاچو کو دیکھا تھا اور دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔“ وہ پھر رو پڑی۔
”مجھے علم ہے کشف! تم نے تو پھر بھی ان کے ساتھ اچھے دن گزارے ہیں،ہنستے مسکراتے، تمہاری یادوں میں وہ دن رہیں گے مگر میں ان سے پہلی بار ملا بھی تو اسپتال میں۔ جب وہ شدید تکلیف میں تھے۔ میرے پاس تو ان کے حوالے سے کوئی مسکراتی یاد بھی نہیں ہے۔“
”بھیا! ہم کو اتنا بڑا دھچکا لگا ہے تو مدھو کی حالت کیا ہو گی؟ ماں بچپن میں ہی اسے چھوڑ گئی تھیں اور باپ کا سایہ بھی نہ رہا، وہ تو مر مر کر جی رہی ہو گی۔ کاش ان لمحوں میں میں اس کے پاس ہوتی۔ میرا دل پھٹ رہا ہے یہ سوچ سوچ کر کہ وہ کس حال میں ہو گی۔ بھیا! آپ نے اسے تسلی دی تھی؟ وہ آپ کی کزن ہے، آپ نے….“ اس لڑکی کے نام سے ہی اسے شدید الجھن ہونے لگی تھی۔
”اوہو کشف! میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، تمہیں زیادہ شوق ہے نا اس سے ملنے کا تو ڈیڈ کے ساتھ آ رہی ہے وہ۔ کرتی رہنا اس سے ہمدردی!“
”بھیا….!“ وہ ششدر رہ گئی۔ شاید احزاز کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ جھنجھلاہٹ میں شاید وہ غلط زبان استعمال کر گیا ہے۔
”کشف پلیز! اس لڑکی کا ذکر میرے سامنے مت کرنا، میرا دماغ پھٹنے لگا ہے۔“ وہ غصے سے کہتا ہوا اٹھ گیا اور کشف کو حیران کر گیا لیکن یہ حیرت زیادہ دن نہ رہی۔ ایک ہفتہ کے بعد جب ڈیڈ آئے تو مدھو واقعی ان کے ساتھ تھی۔
”آ گیا تمہیں یاد…. اپنا گھر….“ بجائے اس کے کہ مما کسی افسوس کا اظہار کرتیں، انہو ںنے ڈیڈ کو دیکھتے ہی کاٹ دار لہجے میں کہا۔”اور یہ کون سا نیا تحفہ لائے ہو اب اپنے گاﺅں سے….؟“
”زبان سنبھال کر بات کو سلمیٰ! یہ میری بھتیجی ہے۔“
”تو….؟“ مما نے دوبدو کہا پھر تنقیدی نظروں سے مدھو کو دیکھا۔ ”کتنے دن کے لیے لائے ہو یہ دیہاتی میم….“
”یہ اب….“ وہ ابھی بات مکمل کر ہی رہے تھے کہ کشف آ گئی اور مدیحہ کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ گئی۔ مدھو کا دل پھر بھر آیا اور وہ رو پڑی۔ کشف خود بھی رو رہی تھی۔ ڈیڈ نے ان دونوں کو چپ کرایا۔ مما اب تک اسے یوں دیکھ رہی تھیں جیسے وہ انسان ہی نہ ہو۔
”کشف! مدیحہ کو اپنے ساتھ لے جاﺅ تاکہ یہ فریش ہو جائے پھر اسے کھانا کھلاﺅ۔“
”اوکے ڈیڈ!“ کشف اسے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے گئی۔
”کیا مصیبت پڑ گئی تھی تمہیں جو ایک اجڈ گنوار کو گھر اٹھا لائے…. حویلی میں اس کے لیے جگہ تنگ پڑ گئی تھی کیا؟ باپ کے مرنے کے بعد؟“
”تم سے بات کرنا انتہائی فضول ہے سلمیٰ بیگم! بس ایک بات کان کھول کر سن لو کہ مدیحہ اب یہیں رہے گا ہمارے ساتھ….“
”مگر کیوں شاہ نواز؟“
”اس لیے کہ اب وہ اس گھر کی بہو ہے، تمہارے بیٹے کی بیوی ہے۔“ یہ خبر کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہ تھی۔ لمحہ بھر کو سلمیٰ بیگم کچھ بھی بولنے کی سکت کھو بیٹھیں۔ احزاز شاہ بھی تبھی سٹنگ روم میں داخل ہوا تھا اور اپنے ڈیڈ کی بات سن چکا تھا۔ مما کی پھٹی پھٹی نظریں اب اس پر رک گئی تھیں۔ جو اپنی جگہ جیسے چور بن گیا تھا۔
”احزاز! شاہ نواز نے کشف نے جو کیا سو کیا مگر تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔“
”مجھے غلط مت سمجھیں مما! یہ نکاح میری خوشی یا خواہش نہیں، مجبوری بن گیا تھا۔“
ڈیڈ۔ نے تاسف سے بیٹے کو دیکھا، وہ اتنا جانتے تھے کہ احزاز اس نکاح سے خوش نہیں ہے مگر اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی ماں کے سامنے یوں خود کو بری الذمہ قرار دے گا۔
”یہ ڈیڈ اور چاچو کی خواہش تھی….“ وہ مزید صفائی دے رہا تھا۔
”اس انسان نے پہلے میری اور اب میرے دونوں بچوں کی زندگی برباد کی ہے۔ میرے ہی باپ کی غلطی ہے یہ جو مجھے اب تک سہنا پڑ رہا ہے اور جانے کب تک اور سہنا پڑے گا۔ لیکن احزاز! میں تیری زندگی برباد نہیں ہونے دوں گی۔ اس لڑکی کو میں ہرگز اپنی بہو تسلیم نہیں کروں گی۔ میرا نام بھی سلمیٰ نہیں جو شاہ نواز تمہاری اس دیہاتی میم کو میں نے دھکے مار کر باہر نہ نکالا۔“ وہ بُری طرح چیخ رہی تھیں۔ احزازانہیں خاموش کروا رہا تھا لیکن وہ ڈیڈ کو بھی دیکھ رہا تھا کہ وہ بھی زور سے بول پڑے تو ان کی طبیعت بگڑ جائے گی۔ مگر اس وقت اسے ڈیڈ کی آنکھوں میں صرف شکست نظر آئی تھی۔ انہیں احزاز سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ یوں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر کے اپنے باپ اور اس لڑکی کو بے مول کر دے گا، جس کی ساری زندگی اب اس سے وابستہ تھی۔
”مما پلیز! حوصلہ کریں۔“
”شکریہ بیٹا! تم نے کم از کم میرے مرحوم بھائی کے سامنے مجھے شرمندہ ہونے سے بچایا، تمہارا یہ احسان میں عمر بھر نہیں بھولوں گا۔ لیکن اب ساری عمر میں مدیحہ سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا کیونکہ میں تو اسے تمہارے نام کے حوالے سے اس گھر میں لایا تھا اور تم نے….“ مزید کچھ کہے بنا وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ض……..ض……..ض
”مدیحہ! یہ سچ ہے؟ اُف خدایا! میں بہت خوش ہوں۔“ یہ خبر سن کر وہ واحد انسان تھی گھر میں جو بہت خوش تھی۔ ”تم میری بھابی ہو؟ واہ….!“ اس نے مدیجہ کو گھما ڈالا تھا۔ دو دن ہو گئے تھے مدیحہ کو یہاں آئے وہ اس بات کا اندازہ اچھی طرح لگا چکی تھی کہ آنٹی اور احزاز کے لیے اس کا وجود کتنا حقیر اور بے معنی تھا۔
”اگر وہ مجھے دل سے نہیں اپنا سکتا تھا تو منع کر دیتا…. پتا نہیں کیوں بابا نے…. یہ…. سب کیا….“ اس نے گہری سانس خارج کی۔ کشف اس کی اس کشمکش سے واقف تھی۔
”فکر مت کرو مدھو! دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بھیا! تمہارے لیے اور تم ان کے لیے قطعی انجان ہو مگر جب ایک دوسرے کے قریب رہو گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میرے بھیا بہت اچھے ہیں بس تھوڑا وقت لگے گا تمہیں….“
”تم ٹھیک کہتی ہو کشف!“ اس نے پلکوں سے موتی صاف کیے۔
”پلیز مدھو! مما کی باتیں دل پر مت لینا۔“
”کشف! میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ انہیں ہم سب سے کتنی نفرت ہے۔ پھر یہ تو ان کے لیے ایک شاک ہی ہے۔ میں اتنی ناسمجھ تو نہیں کہ سمجھ نہ سکوں۔ تم بے فکر رہو، جب میں نے یہیں رہنا ہے تو ہر رویہ اور ہر قسم کی بات سننے کا حوصلہ بھی پیدا کر لوں گی۔“ مدیحہ نے سچائی سے کہا تو کشف کو شرمندگی نے گھیرلیا۔
”اچھا تم اٹھو…. اپنا حلیہ درست کرو پھر میرے ساتھ شاپنگ کے لیے چلو۔ مجھے تمہارے لیے تمہاری شادی کا گفٹ بھی لینا ہے۔“
”میرا دل نہیں چاہ رہا کشف!“
”ارے میں تم سے پوچھ کب رہی ہوں، میں تمہیں آرڈر کر رہی ہوں، اوکے….؟ پانچ منٹ میں تیار ہو کر نیچے آ جاﺅ۔“ کشف نے اسے زبردستی واش روم میں دھکا دیا۔ وہ مجبوراً تیار کو ہر جب باہر نکلی تو احزازشاہ سے سامنا ہو گیا۔
”تم میرے روم میں…. کیا لینے آئی تھیں؟“
”وہ کشف نے مجھے زبردستی….“ اس قدر سخت لہجہ اور لفظوں پر یکدم اس کا لہجہ اور آنکھیں بھر آئی تھیں۔ مگر شاہ نواز نے جو اسی وقت وہاں آئے تھے فوراً اس کا دفاع کیا۔
”تمہارا اور اس کا روم اب الگ تو نہیں ہے احزاز! وہ تمہاری بیوی ہے اور….“
”مگر ڈیڈ….“ اس نے درمیان میں ہی ڈیڈ کو ٹوکا۔ ”آپ جانتے ہیں کہ میں اپنی چیز انجان لوگوں سے شیئر نہیں کرتا۔“
”جس کے ساتھ زندگی شیئر کی ہے اس کے ساتھ ہر چیز شیئر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
”پلیز ڈیڈ! یہ میرے بس سے باہر ہے۔“ اس نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی اور ڈیڈ کو جواب دے کر کمرے میں چلا گیا۔
”آئی ایم سوری مدیحہ بیٹا! شاید میں ہی تمہارا قصوروار ہوں مگر بیٹا! مجھے یقین ہے دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ مدیحہ کی آنکھوں کی نمی ان سے چھپ نہیں سکی تھی۔
”نہیں بابا!“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا پھر خود ہی لب کچل گئی۔
”مدھو!“ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ دھرا۔ ”میں تمہارے لیے بابا ہی ہوں تمہارا…. مجھے خوشی ہو گی اگر تم مجھے بابا کہوں گی۔“
”تھینک یو!“ وہ یک دم ان کے سینے سے لگ گئی اور بے اختیار رو پڑی۔
ض……..ض……..ض
کچھ دن تو لگے مگر پھر وہ اس گھر کی روٹین کی عادی ہو گئی تھی۔ کشف کی پوری کوشش ہوتی کہ اسے بور نہ ہونے دے۔ بابا آفس کے بعد سارا وقت اس کے ساتھ ہی گزارتے تھے۔ آنٹی کی مصروفیات تمام گھر سے الگ تھیں۔ وہ رات کے دوسرے پہر گھر آتی تھیں اور دوپہر کو اٹھتیں، ناشتے کے بعد پارلر چلی جاتیں۔ فارغ ہوتیں تو ان کی فرینڈز گھر پر ہی آ جاتیں۔ ایسے میں وہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی تھی۔ ویسے بھی اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کم سے کم ان کے سامنے آئے۔ رہا احزاز تو وہ سامنے ہو تو اسے اس کے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ صبح ناشتے کے بعد وہ آفس جاتا، شام کو آتا چائے وغیرہ کے بعد باہر نکل جاتا پھر رات گئے لوٹتا تھا۔دھیرے دھیرے وہ اس کی ساری روٹین سمجھ گئی تھی اور اب اس نے بوریت سے بچنے کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ وہ گھر کے مختلف کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی۔ خاص کر احزاز کے سارے کام…. اس کے کپڑے پریس کرنا، پالش کرنا، اس کے کمرے کی صفائی، حتیٰ کہ اس کے لیے کھانا بھی وہ خود پکاتی تھی حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ سب کر کے بھی اسے کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ احزاز کی نظر میں وہ آنٹی کی طرح تھی قابل نفرت…. احزاز اسے گھر میں اِدھر اُدھر نوکروں کی طرح کام کرتے دیکھ کر مزید چڑ جاتا تھا۔ لائف پارٹنر کے حوالے سے اس نے کیا سوچا تھا اور ڈیڈ نے یہ جاہل، گنوار اس کے لیے منتخب کی تھی۔ اسے تو پڑھی لکھی، قدم سے قدم ملا کر چلنے والی بیوی چاہیے تھی۔ بااعتماد اور اس کی تمام تر سوشل ایکٹیویٹیز میں حصہ لینے والی…. جس کو اگر اپنے فرینڈز سے ملواتا تو شرمندگی نہ ہوتی اور اب وہ کس منہ سے بتائے گا سب کو کہ وہ شادی کر چکا ہے، وہ بھی ایک دیہاتی اجڈ گنوار سے۔ جسے نوکروں والے سارے کام آتے ہیں۔
”یہ ہے اس کی لائف پارٹنر….!“ وہ شدید الجھن کا شکار ہو جاتا تھا مگر ڈیڈ کا کیا کرتا، صرف ان کی خاطر وہ اسے برداشت کرنے پر مجبور تھا اور اسی رات ڈیڈ نے اس سے کہا۔
”میں تمہاری شادی کا باقاعدہ اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ تم خود دن سلیکٹ کر لو۔“
”ڈیڈ یہ ضروری ہے…. میرا مطلب ہے کہ اس سب کی کیا ضرورت ہے؟“ ڈیڈ نے حیرت سے اس کی شکل دیکھی۔
”احزاز تمہاری شادی کی پارٹی ضروری نہیں؟ تم اپنے دوستوں کو یہ بتانا نہیں چاہتے کیا؟“
”نو ڈیڈ! میرا مطلب ہے خود ہی سب کو پتا چل جائے گا۔“”میں فیصلہ کر چکا ہوں احزاز تم اور تمہاری ماں سن لے، بہتر ہو گا کہ کوئی بھی بدمزگی نہ ہو۔“
”مما تو جمعہ کو اسلام آباد جا رہی ہیں۔“ اس نے اطلاع دی۔
”تو ٹھیک ہے، اتوار کو رکھ لیتے ہیں۔“
”جو آپ بہتر سمجھیں۔“ اسے ناچار ماننا پڑا۔
جب دل کی مرضی ہی نہیں تھی تو پھر…. مما کو پتا چلا تو انہوں نے مدھو کو بہو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
”تم تسلیم نہ کرو مگر حقیقت بدل نہیں سکتی، مدیحہ اب اس گھر کی بہو ہے۔“
”کم از کم میرے بیٹے کے قابل تو بہو لاتے شاہ نواز! لڑکی تو ہمارے گھر کے نوکروں سے بھی گئی گزری ہے۔“
”خاموش رہو سلمیٰ بیگم!“ ڈیڈ نے انگلی اٹھاکر انہیں چپ کرایا۔
مما کی ناں ناں کے باوجود گھر میں پارٹی کی تیاریاں زور و شور سے ہو رہی تھیں۔ شاہ نواز نے اپنے تمام بزنس سے وابستہ دوستوں کو مدعو کیا تھا اور احزاز کے حلقہ ¿ احباب کو بھی انہوں نے خود مدعو کیا تھا۔
اتوار کی شام ان کے گھر میں چہل پہل کا سماں تھا۔ مدیحہ کو کشف نے بہت خوبصورت دلہن کا روپ دیا تھا۔ ڈیڈ نے احزاز سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مہمانوں کے سامنے مِس بی ہیو نہیں ہونا چاہیے۔ سو مجبوراً اسے اپنے ساتھ مدیحہ کو لیے ہر ہر شخص سے تعارف کرانا تھا۔
”واہ یار! بھابی تو بہت پیاری ہیں، تم تو بہت اسمارٹ نکلے۔“
”بہت خوب!“
”حسین ترین!“
یہ الفاظ اس کے لیے حیران کن تھے، اس کے حلقہ احباب میں تمام لوگوں نے اس کی تعریف کی تھی۔ مما کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا یہ سب کرنا۔ ان کی فرینڈز ان سے گلہ کر رہی تھیں۔
”سلمیٰ! ہم خفا ہیں تم سے، تم نے ہم سے چھپایا اپنی بہو سے ملوایا بھی نہیں؟“
”دراصل یہ سب بہت اچانک ہوا، کسی کو بتا بھی نہ سکے اور یہ پارٹی ہم نے اسی لیے تو دی ہے نا!“ انہوں نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا۔
”ماشاءاللہ تمہاری بہو بہت پیاری ہے….“ ان کی قریبی دوست نے دور کھڑے احزاز اور مدیحہ کو توصیفی نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ”بہت خوب صورت جوڑا لگ رہا ہے۔“
”شکریہ!“ انہوں نے نظر گھمائی تو اس وقت وہ گنوار واقعی میک اَپ کے باعث اچھی لگ رہی تھی۔ کشف بھی اسے بہت سراہ رہی تھی۔
”مدیحہ! آج تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔“
”تھینک یو!“
”ہے نا بھیا! مدھو پیاری لگ رہی ہے نا!“ کشف نے احزاز کو شرارتی نظروں سے دیکھا۔ وہ لب بھینچ گیا۔
”پتانہیں!“ جہاںاس نے کشف کو حیران کیا تھا، وہیں اس کی ساری خوش فہمی بھی خاک میں ملا دی تھی۔ وہ جھنجلا کے دور کھڑے اپنے دوست کی طرف بڑھ گیا۔ پارٹی رات گئے تک جاری رہی مگر مدیحہ تھک گئی تھی۔ ایک تو اس نے اتنے بھاری کپڑے زندگی میں پہلی بار پہنے تھے، اتنی جیولری اور میک اَپ سے اب اسے الجھن ہونے لگی تھی تب ہی جب اس نے دیکھا کہ سب اِدھر اُدھر مصروف ہیں تو وہ خاموشی سے اندر کی طرف بڑھی تھی مگر قسمت….! راستے میں ہی احزاز مل گیا۔
”تم کہاں جا رہی ہو؟“
”وہ…. میں….“ وہ گڑبڑا گئی۔ احزاز نے بے ارادہ نظر بھر کر اسے دیکھا تھا پل بھر کو وہ نظریں ہٹانا بھول گیا۔ سرخ اور گولڈن لباس اسکی سفید رنگت پر دمک رہا تھا۔ گہرا میک اَپ اور جیولری پہنے وہ دلہن کے روپ میں کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔
”میں تھک گئی ہوں، آرام کرنا چاہتی ہوں۔“
”یہ پارٹی ڈیڈ نے تمہارے اعزاز میں دی ہے میڈم! اور تمہیں نخرے سوجھ رہے ہیں۔“
”پلیز میں مزید اتنے بھاری ڈریس میں نہیں گھوم سکتی۔“ وہ التجائیہ انداز میں بولی شاید وہ خود بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ کئی گھنٹے اتنا وزن اٹھائے گھومنا مشکل ہے۔
”اوکے!“ سر جھٹک کر جیسے اس پر احسان کرتا وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا اور مدیحہ نے اندر جا کر سکھ کا سانس لیا۔ کپڑے تبدیل کیے، جیولری، میک اَپ، صاف کر کے وہ سکون سے لیٹی تو پل بھر میں نیند آ گئی۔ جب تمام مہمانوں سے فارغ ہو کر وہ کمرے میں آیا تو اپنے بیڈ پر محترمہ کو سوتا پا کر جی جان سے جل گیا۔
”ڈیڈ بھی نا!“ اسے پتا تھا کہ یہ مدھو کی ہمت نہیں ہو سکتی تھی۔ صرف ڈیڈ کے کہنے پر وہ اس کے کمرے کی شکل دیکھتی تھی۔ وہ تیزی سے لپکا تو اسے اٹھانے تھا مگر بے سدھ سوتا دیکھ کر دل نہیں چاہا اور اس وقت تماشا کرنا بھی بے کار ہے۔ ڈیڈ سے کچھ کہوں گا تو مما الگ ہنگامہ کھڑا کر دیں گی۔ وہ تکیہ اٹھا کے صوفے پر آ گرا۔
رات دیر سے سونے کے باوجود صبح انجانی سی آواز پر آنکھ کھل گئی تھی اس کی۔ مدیحہ جائے نماز بچھائے فجر کی نماز ادا کر رہی تھی اور اس کی چوڑیوں کی چھن چھن نے اسے ڈسٹرب کیا تھا نیند سے۔ وہ اٹھ کر بیڈ پر چادر تان کر لیٹ گیا، مگر پھر بھی اسے نیند نہیں آئی۔ نماز کے بعد اس نے قران پاک کی تلاوت کی، اس کے بعد کمرے میں بے ترتیب چیزیں درست کیں۔ احزاز کے کپڑے، جوتے، تولیہ…. ہر چیز تیار کر کے رکھی پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور بال سلجھانے لگی۔ احزاز نے بنا دوپٹے کے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کے بال بہت خوبصورت تھے، لمبے سیاہ بال جنہیں چوٹی کی شکل میں گوندھ کر اس نے پھر سے دوپٹا سر پر جمایا تھا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ وہ سونا چاہتا تھا مگر نیند اُڑ گئی تھی لہٰذا اٹھ کر واش روم میں گھس گیا۔ تیار ہو کر نیچے آیا تو وہ ڈیڈ اور کشف کے ساتھ بیٹھی ناشتا کر رہی تھی۔
”گڈ مارننگ!“ کہتا وہ بھی ان کے ساتھ ناشتے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر آ گیا تھا۔
”ڈیڈ! آپ آفس نہیں جائیں گے؟“ ڈیڈ کو عام سے حلیے میں دیکھ کر اس نے پوچھا۔
”نو بیٹا! آج کچھ تھکن محسوس کر رہا ہوں، آرام کروں گا۔“
”ڈیڈ! پھر آپ آج مدھو کو لے کر اسپتال آجائیے گا۔ میں اسے اپنے کولیگز سے ملواﺅں گی اور وہیں سے ہم گھومنے جائیں گے۔ آج ڈنر باہر کریں گے۔ یہ بے چاری تو گھر میں بور ہوجاتی ہو گی۔“ کشف ڈیڈ سے مخاطب ہوئی۔
”نہیں بابا! میں گھر میںٹھیک ہوں۔“ مدیحہ دھیمے لہجے میںبولی تھی۔ احزاز نے ایک نظر اسے دیکھا پھر سر جھٹک گیا۔
”کشف! تم کہاں اپنا ٹائم ضائع کرو گی۔ انہیں گھر کے کام کرنے کی عادت ہے اور بس….“ وہ بھناتا ہوا اٹھا اور اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا۔ مدھو لب کچلنے لگی۔
”مدھو! تم ان کی بات کا بُرا مت مانا کرو۔“ کشف نے اس کی اُتری صورت دیکھی تو کہا۔
”کشف! تم جاﺅ تمہیں دیر ہو رہی ہے، میں مدیحہ سے بات کروں گا۔“ ڈیڈ نے کہا وہ مدھو کا رخسا تھپتھپاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ناشتے کے بعد بابا اسے اپنے ساتھ اسٹڈی روم لے آئے۔ ”مدیحہ! یہاں بیٹھو….“ اسے اپنے پاس بٹھایا، انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر تھپکا۔ ”بچے! میں جانتا ہوں، تم دونوں کے درمیان آج جو رشتہ ہے، وہ صرف ہماری مرضی سے ہے۔ تم دونوں کی خوشی سے نہیں لیکن بیٹا! اب جو ہو گیاو ہ ہو گیا۔ اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تم دونوں یہ فاصلہ کس طرح ختم کرتے ہو۔ یہ سچ ہے کہ گھر بسانے کے لیے عورت کو سب سے زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بچے! احزاز کے اور تمہارے مزاجوں میںبہت فرق ہے اور یہ فرق مٹانے کے لیے تمہیں خود کو بدلنا ہو گا۔“
”بابا! میں کوشش تو کرتی ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ میں ان کے معیار پر پوری نہیں اتر سکتی۔“
”نہیں میرے بچے! مایوس نہیں ہوتے۔ وہ بظاہر پتھر بنا رہتا ہے مگر اندر سے بہت نرم ہے۔ بیٹا دیکھو! وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز بدل جاتی ہے، مجھے امید ہے کہ اگر تم کوشش کرو تو احزاز بھی بدل جائے گا۔“ انہوں نے پیار سے سمجھایا۔ ”اسے یہ سادہ سی ہر وقت گھر کے کام کرنے والی بیوی نہیں چاہیے۔ تم جان گئی ہونا تو سب سے پہلے خود میں بدلاﺅ، لاﺅ۔ اپنا رہن سہن بدلو، ڈریسنگ بدلو۔ خود کو ہر وقت اس حلیے میں مت رکھا کرو۔ اپنی آنٹی کی طرح تیار رہا کرو۔ مصروفیت صرف گھر کے کام میں نہیں ہوتی…. اپنے لیے کوئی تفریح ڈھونڈو، خود کو مصروف رکھو بس احزاز کا خیال رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے، وہ مت بھولنا۔“
”پر بابا! میں یہاں کسی سے واقف نہیں ہوں، یہ شہر، یہاں کے لوگ میرے لیے نئے ہیں۔“
”مجھے پتا ہے، یہ ہی اعتماد تو میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر پیدا ہو کہ تم نئے ماحول اور نئے لوگوں میں خود کو ایڈجسٹ کرو کہ لوگ تم پر رشک کریں۔ احزاز کو پانا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ اب میں تہیں بتاتا ہوں کہ تم کیسے خود کو اس کی پسند کے مطابق ڈھال سکتی ہو اور جو تم چاہتی ہو کہ احزاز میں یہ کمی یا خامی ہے وہ دور ہو جائے تو وہ بھی تم کر سکتی ہو۔ اب تم میری باتیں دھیان سے سنو….“ انہوں نے مدیحہ کو پیار سے سمجھایا۔ ساتھ ساتھ اسے وہ تمام باتیں بھی بتائیںجن سے ان کی زندگی بدل سکتی ہے۔
😇
وہ رات گئے لوٹا تو تمام ملازم سونے جا چکے تھے اور بھوک سے اس کا بُرا حا تھا۔ وہ خود کچن کی طرف بڑھا مگر تب ہی کچن کی لائٹ آن ہوئی۔ اس نے حیرت سے دیکھا، مدیحہ اس کے لیے کھانا نکال رہی تھی۔
”آپ ہاتھ دھو لیں، میں کھانا گرم کر دیتی ہوں۔“ اس کی آواز پر اس نے وہیں سنک میں ہاتھ دھوئے اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ مدیحہ نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا، وہ خاموشی سے کھانے لگا۔
”کافی بنا دوں؟“ وہ جان چکی تھی کہ اس وقت وہ کافی پیتا ہے۔
”تم رہنے دو، میں دودھ پی لوں گا۔“ یہ ہی وہ چاہتی تھی کہ رات کے وقت کافی چھڑوا دے کیونکہ نیند خراب ہوتی ہے۔ وہ کھانا کھا کے کمرے میں چلا گیا اور برتن وغیرہ دھو کر جب وہ اوپر آئی تو اس کے لیے دودھ لانا نہیں بھولی تھی۔
”یہ دودھ….“ وہ جو اس وقت فائل پھیلاوے جانے کیا کھوج رہا تھا، حیران رہ گیا۔ یعنی اسے یاد تھا۔ مدھو نے تکیہ اٹھایا اور صوفے پر جالیٹی۔ احزاز نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی پھر کام میں لگ گیا۔
صبح الارم کی تیز آواز پر اس کی آنکھ کھلی۔ مدیحہ خود الارم لگا کر واش روم میں چلی گئی تھی، غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے اس نے الارم بند کیا تب تک وہ باہر آ چکی تھی۔ جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنے لگی شاید احزاز کو اس کی یہ واحد خوبی بھائی تھی وہ عجیب سے احساس سے دوچار ہوا تھا۔ نیند بھک سے اُڑ گئی تھی۔ وہ اٹھا، وضو کیا اور نماز کے لیے چلا گیا۔ یہ دیکھ کر مدیحہ کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ یعنی بابا ٹھیک کہتے ہیں، کوشش کرنے سے ہر چیز بدل جاتی ہے۔ یہ اس کی پہلی کامیابی تھی اور وہ بہت خوش تھی۔نماز کے بعد احزاز کمرے میں آیا تو وہ غائب تھی البتہ کمرے کی صفائی حیران کن تھی۔ اس ایک ڈیڑھ ماہ میں اس کا کمرہ ہر وقت چمکتا تھا اور اسے ملازم کے پیچھے چیخنا بھی نہیں پڑتا تھا۔ ناشتے کے لیے آیا تو وہ ٹیبل پر ناشتا لگا رہی تھی۔ آج اس کے چہرے پر عجیب سی چمک تھی، مسکراہٹ بھی الگ تھی۔ ڈیڈ اور کشف شاید اب تک سوئے ہوئے تھے۔ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”ڈیڈ اور کشف نہیں کریں گے ناشتا؟“
”کشف رات دیر سے آئی تھی۔ کسی آپریشن میں مصروف تھی اور بابا آفس جا چکے ہیں۔“ اس کے منہ سے ”بابا“ بہت بھاتا تھا اسے بنا جواب دیئے ناشتا کر کے وہ بھی چلا گیا اور مدیحہ جلدی جلدی کام ختم کرنے لگی کیونکہ آج اسے کشف کےساتھ پارلر جانا تھا۔ اس کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ گئی۔
ہر دن احزاز کو مدیحہ کا ایک نیا روپ دکھتا تھا۔ وہ اس پر توجہ دینا نہیں چاہتا تھا مگر جانے کیسے خودبخود وہ اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی تھی۔ اس کے اندر آنے والا چینج بہت انوکھا تھا۔ آج انہیں کسی بزنس پارٹی میں جانا تھا اور ڈیڈ کا حکم تھا کہ مدھو ساتھ جائے گی کیونکہ تمام لوگ ہی اپنی بیگمات کے ساتھ ہوں گے۔
”لیکن بابا….!“ آج ڈیڈ کی جگہ بابا کہا تو خود ہی سٹپٹا گیا۔ شاہ نواز کے لیے بھی یہ حیران کن مگر خوشگوار تھا۔
”بہت خوبصورت لگتا ہے تمہارے منہ سے بابا کہنا…. ڈیڈ مت کہا کرو۔“
”وہ کہاں ہمارے ساتھ جائے گی، آپ جانتے ہیںنا کہ وہاں کس طرح کے لوگ آئیں گے اور….؟“
”بابا میں تیار ہوں۔“ چہکتی آواز کے ہمراہ وہ آئی تھی اور پل بھر کو تو احزاز نے اسے پہچانا تک نہیں۔
بلیو ساڑھی، خوبصورت ہیئر کٹنگ، میک اَپ اور میچنگ جیولری ہر لحاظ سے بہترین۔ وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا کہ یہ مدیحہ ہے۔
”احزاز! تم تیار ہو جاﺅ، میں تمہاری مما کو دیکھتا ہوں۔ ان کی تیاری میں تو رات ہو جائے گی۔“ ڈیڈ اسے حکم دے کر چلے گئے اور وہ اپنی حیرت چھپاتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کی ہر چیز بیڈ پر رکھی اس کی منتظر تھی۔ پانچ منٹ لگے تھے اسے تیار ہونے میں…. جب وہ نیچے آیا تو مما اور ڈیڈ اپنی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے اور مدیحہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے بال بہت خوبصورت تھے اور اب اس نئی ہیئر کٹنگ نے ان کو مزید سنوار دیا تھا۔ کھلے بالوں میں وہ اچھی لگتی تھی۔ وہ دل کو روک رہا تھا مگر وہ خود ہی تعریف کرنے پر مجبور تھا۔
”چلو….!“ بے نیازی کی اداکاری کرتا وہ گاڑی کی طرف بڑھ گیا اور مدیحہ بھی چپ چاپ اس کے ہمراہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
ض……..ض……..ض
دھیرے دھیرے اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کے تمام کام بہت اچھے طریقے سے ہونے لگے ہیں۔ شاید اس کے لیے مدیحہ اس کے تمام کام خود کرتی تھی اور اب جب وہ ان تمام چیزوں کا عادی ہونے لگا تو یک دم ہی پھر چینج آ گیا۔ مدیحہ کے ہاتھ کا ناشتہ کرنے کی عادت پڑی تو اب اسے ملازم کے ہاتھ کا کھانا پسند نہ آتا اور آج جب ناشتا ملا تو وہ چڑ گیا۔
”کیا مسئلہ ہے، آج نہ چائے میں ذائقہ ہے، نہ آملیٹ مزے کا ہے۔“
”بھیا جی! دراصل بھابی آج جلدی میں تھیں۔ ناشتا میں نے بنایا ہے۔“ یعنی آج مدیحہ کے ہاتھ کا بنا ناشتہ نہیں تھا مگر اسے کیا جلدی تھی۔ صبح کمرے میں بھی وہ اس کی افراتفری نوٹ کر رہا تھا۔
”پھر کھا بھی خود لینا۔“ وہ ناشتا چھوڑ کر اٹھ گیا۔ شاہ نواز احمد کے ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ بہت جاندار تھی، یعنی ان کا بیٹا یہ تمام چیزیں نوٹ کر رہا تھا۔ اب وہ مدیحہ کے ہاتھ کے ذائقے کا عادی ہو چکا تھا اور اس کی کمی اب محسوس کرے گا، ضرور کرے گا۔
شام میں وہ آفس سے لیٹ آیا تھا چونکہ اب وہ بہت کم رات کو باہرجاتا تھا، کھانا اکثر اب ڈیڈ کے ساتھ کھاتا تھا پھر آفس کا کام جو ہوتا وہ دیکھ کر جلد سو جاتا تھا تاکہ فجر کی نماز مس نہ ہو۔ ہاں مدیحہ نے اسے یہ احساس دلایا تھا۔ بے شک زبان سے نہیں، اپنے عمل سے سہی، اس کی کوشش ہوتی تھی کہ ساری نمازیں باقاعدگی سے ادا کرے مگر چونکہ نئی نئی روٹین تھی تو عادی ہونے میں ٹائم تو لگنا تھا۔
رات کے کھانے پر صرف ڈیڈ تھے۔ اسے کشف اور مدیحہ کی کمی محسوس ہوئی مگر بولا نہیں۔ مگر کھانا شروع کرتے ہی چپ نہ رہ سکا۔
”آخر ہو کیا گیا ہے تمہیں مانی! تمہارا کام پر دھیان کیوں نہیں رہا۔“
”کیوں بھیا جی! کیا ہوا؟“
”کوفتے تم نے بنائے ہیں نا! پچھلے ہفتے کتنے مزے دار بنے تھے مگر آج ان میں ذرابھی مزا نہیں ہے۔“
”بھیا جی! پچھلے ہفتے کوفتے بھابی جی نے بنائے تے آج انہیں کشف باجی کے ساتھ پارٹی پر جانا تھا نا! اس لیے کھانا مجھے بنانا پڑا۔“ مانی کی وضاحت سے اس کا دماغ گھوم گیا۔ نہ صبح ناشتہ کیا، نہ رات کا کھانا اچھا لگا۔
”ڈیڈ! آج کل آپ کی چہیتی کہاں مصروف رہتی ہیں؟“ شاہ نوازکے لیے یہ سوال خوشی کا باعث تھا یعنی مدیحہ کا وجود اس کے لیے بے معنی نہیں رہا۔ دھیرے دھیر وہ اس کی زندگی میں شامل ہو رہی تھی، چاہے وہ اس بات کا اظہار برملا نہ کرے مگر اس کے تیور اس کا ثبوت ہیں۔
”مائی سن! اس میں بھڑکنے کی کیا بات ہے؟ وہ بھی ہماری طرح جیتی جاگتی انسان ہے، بوریت سے تنگ آ گئی تھی سو اس نے جاب کرلی۔“
”جاب! گھریلو ملازمہ کی؟“ اس کے لہجے میں طنز امڈ آیا۔
”وہ اسکول ٹیچر ہے احزاز!“ شاہ نواز نے ٹوکا۔
یہ بات اس کے لیے جھٹکے سے کم نہ تھی کیونکہ مما کے بقول گاﺅں میں تعلیم کا تصور نہیں ہوتا اور لڑکیوں کی تعلیم کے تو وہ لوگ سخت خلاف ہوتے ہیں۔
”ٹیچر! کیا مطلب؟ وہ تعلیم یافتہ ہے؟“
”اس نے گریجویشن کر رکھا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں ہم شہر میں رہنے والوں کی طرح شو آف کرنے کی عادت نہیں ہے۔ سارا دن وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی، میں نے اسے مشورہ دیا اور اسے ٹیچر کی جاب دلوائی۔“
”یہ ہی جاب سوٹ کر سکتی تھی آپ کی دیہاتی بہو پر…. چلو دو چار ہزار روپے تو مل ہی جائیں گے۔“ جانے مما کب آ گئیں۔ ایک تو جس دن مما گھر پر ہوتی تھیں جھگڑا تو لازمی ہوتا تھا۔
”تم سے تو لاکھ درجے بہتر ہی ہے نا سلمیٰ! لوگوں کو تعلیم کا شعور دیتی ہے۔ خود کو باشعور کہنے والے جاہل لوگوں سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ وہ جنہیں استاد جیسے عظیم پیشے کا احساس تک نہیں ہے“ ڈیڈ نے کاٹ دار لہجہ اختیار کیا۔
”مما پلیز! آپ ہر دم کیوں اپنا بلڈ پریشر ہائی رکھتی ہیں؟ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی ڈیڈ سے آرام سے یا پیار سے بات کی ہو۔ ایک عورت کی ذمہ داری میں اس کا شوہر سب سے پہلے آتا ہے مگر آج تک میں نے کبھی آپ کو ڈیڈ سے دھیمے لہجے میں بات تک کرتے نہیں دیکھا، ان کی ضرورت کا خیال رکھنا تو دور کی بات ہے۔“ جانے یہ مدیحہ کی ذمہ دار طبیعت کا نتیجہ تھا یا کچھ اور…. اب اسے مما کی یہ ٹوٹلی سوشل لائف کھٹکنے لگی تھی۔ انہیں بابا کا خیال رکھنا چاہیے الٹا ہر وقت وہ لڑتی رہتی ہیں ان سے….
”احزاز ڈئیر! بے جوڑ شادی میں یوں ہی ہوتا ہے۔ تمہارے ڈیڈ میرے قابل کبھی تھے ہی نہیں پھر بھی میں نے ساری عمر گنوا دی ان کے لیے…. اب یہ ہی تمہارے ساتھ ہو گا۔ بہتر ہو گا کہ ابھی فیصلہ لے لو ورنہ میری طرح ساری عمر فرسٹریشن کا شکار رہو گے۔“ مما کی اس بات نے اسے دلی دکھ دیا تھا۔ ”بابا جیسے باظرف انسان کو مما کس طرح سے بے عزت کر رہی تھیں۔ یہ واقعی ڈیڈ کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے ساری عمر مما کی ہر بات نظرانداز کی تھی۔
”مما! کبھی اپنی ذات کے خول سے باہر نکلیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے ڈیڈ کتنے اچھے ہیں۔“ جانے کیوں آج وہ ڈیڈ ی بے عزتی برداشت نہ کر سکا۔ مما حیران تھیں کہ اسے کیا ہوا اور ڈیڈ کی آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے۔ آج انہیں علم ہوا کہ تربیت کا اثر ضرور ہوتا ہے انسان پر…. وہ اپنے کمرے میں آ گیا مگر نیند آنکھوں سے دور تھی۔ بارہ بجے تھے اور مدیحہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔تقریباً ڈیڑھ بجے ہلکی سی آہٹ سے دروازہ کھلا تھا اور محترمہ تشریف لائی تھیں اور کچھ دیر بعد فریش ہو کر وہ لیٹ گئی۔ ادھر بھوک سے اسے نیندنہیں آ رہی تھی۔
”اُف خدایا! تھوڑا بہت کھانا کھا لیا ہوتا تو اب یوں نہ تڑپ رہا ہوتا۔محترمہ نے آج دودھ تک نہیں پوچھا، بمشکل دو بجے کے بعد سویا تھا اور اذان کی پہلی آواز رپر اس کی آنکھ کھل گئی مگر آج مدیحہ اب تک نہیں جاگی تھی۔ اس کی نماز قضا ہو جانے کے خیال سے وہ اسے جگانے آیا مگر اک ہچکچاہٹ تھی جو اسے ایسا کرنے نہیں دے رہی تھی۔ کتنے لمحے وہ تذبذب کا شکار رہا پھر ہلکے سے کاندھے پکڑ کر اسے ہلایا۔ وہ یکدم اٹھ بیٹھی پھر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
”نمازنکل جائے گی تمہاری….“ نظریں چرائے وہ کہہ کر خود چلا گیا۔ مدیحہ کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ ان لمحوں میں کھو جاتی، نمازکا سوچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
ض……..ض……..ض
روز بے مزا ناشتہ کرنے سے بہتر تھا کہ وہ آفس بھوکے پیٹ ہی چلاجائے، وہیں کچھ کھا لے۔ یہ ہی سوچ کر وہ آیا تھا نیچے جہاں مما کے علاوہ سب ناشتے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔
”مانی پلیز جلدی کر لو۔ آج ویسے ہی میں لیٹ ہو گئی ہوں۔“ مدیحہ کی بات پر اس کا دماغ گھوم گیا اور وہ جو کچھ خوش فہمی کا شکار ہو کر ناشتا کرنے آیا تھا، شدید غصے میں آ گیا۔
”کیا سمجھتی ہو تم! یہ چھوٹی موٹی جاب کر کے تم ہمیںمتاثر کر سکتی ہو؟ ہر وقت تمہیں جلدی پڑی رہتی ہے۔ رات کو تمہاری پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں۔ ضرورت کیا ہے تمہیں یہ سب کرنے کی؟ تم گھر میں نہیں رہ سکتیں سکون سے؟“ مسلسل پندرہ دن کی روٹین نے اس کا دماغ گھما دیا۔ کشف اور ڈیڈ نے مسکراہٹ چھپانے کے لیے اخبار چہرے کے سامنے پھیلا لیے اور مدیحہ دل باغ باغ ہونے کے باوجود معصوم سی صورت بنائے بیٹھی تھی۔
”بھابی جی ناشتا!“ مانی کی آوازپر سب متوجہ ہو گئے۔
”بس مانی! مجھے بھوک نہیں ہے، میں چلتی ہوں۔“ اس نے بیگ کاندھے پر ڈالا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”اللہ حافظ بابا!“ وہ باہر نکل گئی۔ ایک طرف احزاز کو غصہ تھا کہ اس پر تقریر کا اثر نہ ہوا، دوسری طرف بنا ناشتے کے جانے پر ملال سا بھی تھا۔ وہ بھی کچھ کھائے بنا آفس چلا گیا۔
رات کو کھانے کی ٹیبل پر وہ نہیں تھی مگر کھانے کا ذائقہ بتا رہا تھا کہ کس نے بنایا ہے۔ کتنے دن بعد اس نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا تھا، پھر عشاءکی نماز کے بعد جب وہ کمرے میں گیا تو اسے لیٹا پا کر چونک گیا۔ اس کے خیال میں تو وہ کشف کے ساتھ ہو گی مگر وہ تو….! وہ خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا مگر بے چینی حد سے سوا تھی کہ کبھی بھی وہ ا سطرح نہیں لیٹتی۔
”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا!“ لاکھ خود کو روکا مگر زبان پھر بھی دغا کر گئی۔ مدیحہ اس کی آواز پر اٹھ گئی۔ اسکا اترا چہرہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔
”سر میں درد ہے!“ اس نے دھیرے سے کہا پھر بیڈ سے اٹھ گئی۔ ”آپ آ جائیں،میں صوفے پر سو جاﺅں گی۔“ احزاز نے ایک نظر اس پر ڈالی۔
”تم لیٹ جاﺅ، مجھے آفس کا کچھ کام کرنا ہے۔“ وہ کہہ کر اپنی فائلز پھیلا کے بیٹھ گیا۔
”دودھ لادوں آپ کو….؟“
”تم سو جاﺅ،میں لے لوں گا۔“ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔ مدھو کچھ لمحے کھڑی رہی پھر بیڈ کے کونے پر جا کر لیٹ گئی۔ احزاز دو گھنٹے مصروف رہا لیکن اب نیند سے بُرا حال تھا۔ وہ تکیہ اٹھانے بیڈ تک آیا تھا کہ یک دم اس کی نگاہیں مدیحہ کے معصوم چہرے پر ٹھہر گئیں۔ وہ پُرسکون نیند میں تھی۔ سوتے ہوئے اس کے چہرے کی پاکیزگی اسے نظریں ہٹانا بھلا گئی۔ صاف شفاف روشن چہرہ اور چہرے پر بکھری آوارہ بالوں کی لٹیں….! کیا کوئی سوتے میں بھی اتنا حسین لگتاہے…. اسے احساس نہ ہوا کہ وہ کب تک اسے دیکھتا رہا پھر اسی طرح بیڈ کراﺅن سے ٹیک لگائے وہ سوگیا۔
ض……..ض……..ض