آج درید جلدی آ گیا تھا۔ تھکا تھکا سا، اس کے پاس صوفے پر آ کے گرا تھا جو نیوز پیپر دیکھ رہا تھا۔
”حریم کہاں ہے؟“ اس نے ادھر اُدھر نگاہیں گھمائیں۔
”کچن میں چائے بنا رہی ہے۔ تھوبڑا دھو لے اپنا وہ چائے لے آئے گی۔“
”آج تھکن سی ہو رہی ہے یار….“
”خیریت….“ اس بار اسفند نے اخبار رکھ کر درید کو دیکھا تھا۔ وہ واقعی بہت نڈھال سا لگ رہا تھا۔
’جب حریم نے فیصل آباد میں ہی رہنا ہے تو یہاں جو اس کا گھر ہے، اس کا کیا کرنا ہے…. تم نے اس سے اس ٹاپک پر بات کی۔“ درید نے پوچھا۔
”یارمیں کیوں کروں، وہ اس کے پیرنٹس کی نشانی ہے۔“
”مگر….“
”شی….“ درید کچھ کہہ رہا تھا کہ اس نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا۔ حریم چائے بنا لائی تھی اور ان دونوں کو سرو کر کے واپس کچن میں چلی گئی۔
”آج پھر اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ بمشکل خاموش کرایا تھا۔ صبح میں بھول گیا کہ وہ تنہا نہیں رہتی۔ مجھے ایسے ہی یاد آیا۔ میں گھر آ گیا اور یہاں آ کر دیکھا تو حریم کی بہت بری حالت تھی۔“
”او گاڈ….“
”اب تو آ گیا ہے،میں اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس چلتا ہوں۔“
”ہاں تو اسے لے جا۔“ درید نے فکرمندی سے کہا۔ اسفندنے حریم کا چیک اَپ کرایا تو ڈاکٹر نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
”کوئی ایسی ناخوشگوار بات ہوئی ہے ان کی لائف میں جو ان کے ذہن میں چپک کر رہ گئی ہے اور جب تک کہ یہ خود اسے بھولنے کی کوشش نہیں کریں گی، نارمل نہیں ہو سکتیں۔ پھر بھی انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کا خوش رہنا ہی ان کی صحت کی ضمانت ہے۔“
”اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ وہ سب میں بھول جاﺅں تو آپ وہ گھر بیچ دیں کیونکہ جب تک اس گھر سے لنک رہے گا مجھے وہ رات نہیں بھول سکتی۔“ واپسی پر حریم نے اسفند سے کہا۔
”اسفند نے تعجب سے اسے دیکھا۔ مگر وہ تو تمہارے والدین کی نشانی ہے، پھر کیوں؟“
”میں مانتی ہوں میرے مما پپا کی نشانی ہے وہ…. میرا بچپن وہاں گزرا،میری ہر یاد اس گھر سے جڑی ہے۔ لیکن میری تمام خوش گواریادوں پر وہ ایک رات محیط ہو گئی ہے، جو اسی گھر سے وابستہ ہے۔ وہاں قدم رکھتی ہوں تو میری روح لرز جاتی ہے، بین کرنے لگتی ہے۔“ اس کے چہرے پر پھر وہی اذیت جھلکنے لگی۔
”اوکے، جیسے تم چاہو گی وہی ہو گا۔ لیکن ریلیکس ہو جاﺅ….“
”مجھے واپس گھر بھیج دیں۔ میرا یہاں دل نہیں لگتا۔“ کتنی ہی دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولی تو اسفند سر ہلانے لگا۔ شاید ابھی یہاں رہنا اس کا مناسب نہیں تھا۔ آج دوپہر کی حالت کے بعد خود اسفند کو بھی یہ ہی لگا تھا تب ہی وہ اگلے ہی دن اسے خود چھوڑ آیا تھا۔
واپس آیا تو طلال بھی آ چکا تھا۔ بلال اور نہال ابھی وہیں تھے۔ طلال بھی اپنے فائنل ایگزام کی وجہ سے آیا تھا۔ مگر اس میں بہت تبدیلی آ گئی تھی۔ بہت سنجیدہ سا رہتا تھا۔
”نماز پڑھ کر اپنے اباجی کے لیے دعا کیا کرو طلال…. ان شاءاللہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔“ اس نے طلال کا سر تھپک کر کہا تھا اور اس نے مان بھی لی تھی اس کی بات۔ فجرمیں وہ اسفند سے پہلے اٹھ کر مسجد گیا تھا۔
”تھینک یو بگ بی…. بلیومی کی، جس دن سے نماز باقاعدگی سے شروع کی ہے، دل کو بہت سکون ہے۔“ آج شام طلال نے اسے کہا تھا اور کتنی حیرت کی بات تھی کہ اس کے دل کا سکون جانے کہاں کھو گیا تھا۔
امی نے اسے فون کیا تھا۔ درید بتا رہا تھا۔ ”اچھا“ وہ جیسے خیالوں میں بولا۔
”اسفند تم نے کیا صرف دنیا دکھاوے کے لیے اس کو اپنا نام دیا ہے۔ اسے صرف نام کی نہیں تمہاری توجہ اور محبت کی ضرورت ہے۔“
تم مسیحا بن کر اس کا ہر درد بانٹتے رہے۔ پھر اب کیوں یہ گریز جب تمہارا ایمان ہے کہ ہر فیصلہ اللہ کی رضا سے ممکن ہے تو کیوں حریم کو دل سے اپنی بیوی تسلیم نہیں کر رہے ہو۔ درید بہت الجھا الجھا پوچھ رہا تھا۔
”یار تو کیوں نہیں مانتا میں نے پورے ہوش و حواس میں اس سے نکاح کیا ہے۔ اللہ کی ذات کو حاضر ناظر مان کر وہ میری بیوی ہے۔ میں پورے دل و دماغ سے یہ تسلیم کرتا ہوں۔“ اسفندنے یہ کہتے ہوئے اپنا سر صوفے کی پشت پر ٹکا دیا۔
”پھر وہ کیا چیز ہے جو اس کے اور تیرے درمیان حائل ہے۔“ آج توجیسے درید سب کچھ جان لینا چاہتا تھا۔ یہاں وہ لاجواب ہو جاتا تھا۔
”یہ ہی سوال تو وہ خود سے کر رہا تھا کہ اگر میں حریم کو اپنی تمام حقیقت بتا دوں تو کیا وہ قبول کر پائے گی اس سچ کو…. کہ جس دل میں صرف اسے ہونا چاہیے وہاں کوئی اور تھا۔“
”وہ تمہارا ماضی تھا اور حریم تمہارا حال،تمہارا مستقبل ہے۔ اگر واقعی تیرے دل میں اب کچھ نہیں ہے تو….“ درید نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
”درید! انسان شاید پہلی محبت عمر بھر نہیں بھول سکتا۔“
”کیا کیجیے ان کا اسفند ضیاءجو خود بھولنا نہ چاہتے ہوں۔ کب تک فرار پا سکو گے اس حقیقت سے ایک معصوم لڑکی کی ذمہ داری قبول کی ہے تم نے۔ وہ شرعی بیوی ہے تمہاری…. اس کے کچھ حقوق ہیں جو تم پر واجب ہیں۔ میرے نزدیک اگر اب بھی تم اپنے دل میں عینی کنول کی یادیں لیے بیٹھو گے تو تم خیانت کے مرتکب ہو گے۔ وہ تلخ ہونا نہیں چاہتا تھا مگر حریم اسے سگی بہنوں کی طرح عزیز تھی۔ اس کی وجہ سے اب اکثر وہ اسفند سے بحث کرتا تھا۔
اور پھر وہ اسفند سے خفا ہو گیا اور بہت سارے دن اسی ناراضگی میں گزر گئے۔
آج وہ بہت دنوں کے بعد پھر قاری صاحب کے سامنے دوزانو بیٹھا تھا۔
”ایک بار پھر میری زندگی کٹھن موڑ پر ہے قاری صاحب، اور میری حالت ایسی ہے کہ میں خود کو کسی بھی فیصلے پر آمادہ نہیں کر پا رہا۔“ اور پھر وہ سب بتاتا چلا گیا۔
”کیا تمہیں اس پاک ذات پر یقین نہیں رہا، جو بک کل ہو، بے قرار ہو۔ اور اس کے کیے گئے فیصلے کو ماننے سے انکاری ہو۔“
”نہیں قاری صاحب اس پر ایمان تو پختہ ہے۔ دل اس پربھی راضی ہے کہ یہ فیصلہ صرف اس کا ہے۔“
”پھر…. شکر ادا کرو اس رب کا جس نے تمہیں چُنا ہے ایک بے سہارا لڑکی کو سہارا دینے کے لیے۔ وہ رحیم ہے کریم ہے۔ بے شک وہ بہتر جانتا ہے تبھی تو اس نے تمہارا انتخاب کیا ہے۔“
”شکرگزار ہوں میں اس رب کا جس نے مجھے اتنی توفیق دی۔ مگر قاری صاحب یہ بے کلی یہ بے سکونی کیا ہے۔“
”تم بھول گئے بچے کہ میں نے تمہیں کیا سمجھایا تھا۔ صبر کرو۔ اس پر جو تمہیں نہ ملا اور ہو سکتا ہے اس صبر سے اللہ پاک تمہارے لیے خیرکثیر پیدا فرما دے۔ یہ اس کی رضا تھی کہ تم اس شہر سے اس شہر جا بسے۔ یہ راستہ اس نے تمہارے لیے منتخب کیا کیونکہ وہ جانتا تھا جو تمہارے لیے اچھا ہے۔ تم نہیں سمجھ سکتے، نہیں جان سکتے اس کی حکمت، اس کی مصلحت۔“
ان کی باتیں اس کے دل کو یوں قرار دے رہی تھیں، جیسے پیاسی دھرتی کو بارش کی بوندیں قرار دیتی ہیں۔
”ایک نیک وفاشعار پرہیزگار بیوی عطا کی ہے اللہ پاک نے تمہیں۔ وہ رب تم سے خوش ہے تبھی اس نے تم پر یہ کرم کیا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ جس کے لیے تم تڑپتے رہے وہ تمہارے قابل نہ تھی۔ اور اس نے تمہیں وہ عطا کیا جس کے تم قابل ہو، جو تمہارے لیے نیک ہے۔ وہم میں نہ پڑو، شکر بجا لاﺅ اس ذات کا۔ آغاز کرو اپنی نئی اور خوشگوار زندگی کا….“
”میرے لیے دعا کیجیے گا قاری صاحب کہ میں حریم کو اس کے تمام حقوق دے سکوں اور خوش رکھ سکوں۔“
”ان شاءاللہ تمہارا آنے والا وقت بہت اچھا ہے۔ اور میری نیک دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ہمیشہ….“
آج اس کے ذہن پر دھرا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا اور دل خودبخودہی حریم کی طرف مڑ گیا۔ اس سے پہلی ملاقات سے آخری ملاقات کا سفر اس کے ذہن میں تواتر سے آ رہا تھا۔
سچ کہتے ہیں قاری صاحب۔ یہ رستہ اللہ نے چنا تھا اس کے لیے تبھی اس نے عینی کے دل میں میری محبت نہ ڈالی کیونکہ عینی کو نہیں اس نے میرے لیے حریم کو منتخب کیا تھا۔ وہ میرا نصیب تھی پھربھلا میں کیسے عینی کنول کو پا سکتا تھا۔ ہاں عینی نے انجانے میں سہی مجھے جو راہ دکھائی،میرے اللہ کی وہ ہی میری نجات ہے۔
”بے شک وہ خوش قسمت تھا کہ اللہ پاک نے اسے اپنی پسند اپنی رضا عطا کی۔ بے شک وہ انسان غلط تھا۔ وہ اپنے لیے وہ مانگ رہا تھا جو اس کے لیے بہتر نہیں تھا۔“
جانے حریم میرے بارے میں کن وسوسوں کا شکار ہو گی۔ وہ رات بھر سوچتا رہا۔ کہیں حریم غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے کہ میں اس سے دور ہوں تو اس اذیت ناک واقعہ کے باعث، نہیں میرا اللہ گواہ ہے میرے ذہن و دل میں ایسا کچھ نہیں ہے۔میں حریم کے پاس جاﺅ ںگا پورے دل کی خوشی اور آمادگی کے ساتھ اسے اپنی زندگی کا ہر سچ بتاﺅں گا۔
کیونکہ آنے والی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے اسے تمام حقیقت بتانا ضروری ہے۔
وہ تو جانے کا مصمم ارادہ کیے بیٹھا تھا کہ اس ویک اینڈ پر امی اور حریم خود ہی آ گئیں۔ ان کے یہاں آنے کے بعد اسے علم ہوا کہ درید نے انہیں بلایا ہے۔ چونکہ وہ اسفند سے خفا تھا، اس لیے اس کے سامنے ذکر نہیں کیا۔
”ڈیٹس گڈ…. چند دن اچھے گزرجائےں گے۔“ وہ خوش تھا اور اس کے چہرے پر پُرسکون مسکراہٹ نے درید کو دنگ کیا تھا۔ حریم کو دیکھ کر اس پر کوفت نہیں چھائی تھی۔
بلکہ آج وہ عام دنوں سے زیادہ فریش تھا۔ اب جانے یہ ڈرامہ وہ امی کو دکھانے کے لیے کر رہا تھا یا….“
”وہ تینوں بچے کہاں گئے۔“
”امی ان کے ابو کی طبیعت خراب ہے، گاﺅں چلے گئے ہیں۔“
”ہمیشہ کے لیے۔“
”ہاں شاید…. بلال تو جاب چھوڑ کر جا چکا ہے۔ طلال کا باہر جانے کا ارادہ ہے۔ رہا نہال…. تو مے بی وہ آ جائے۔“ درید نے تفصیل بتائی جو رات ہی بلال نے اسے فون پر بتائی تھی۔
’جہاں بھی رہیں خوش رہیں۔“
”آمین…. مگر یہ تو طے ہے کہ ہمیشہ اچھی یادوں میں رہیں گے۔“ اسفند نے کہا تھا۔
”اور میرب اسٹڈیز کا سناﺅ۔“
”کیا سناﺅں! آپ کی وائف تو یہاں سے جانے کے بعد انکار پر اڑ گئی کہ اس نے نہیں پڑھنا…. پھر میںبھی چپ کر گئی۔“
میرب نے بتایا تو وہ حیران نظروں سے حریم کو دیکھنے لگا جو سر جھکا گئی تھی۔
”وائے حریم؟“ اب وہ براہِ راست اس سے مخاطب تھا جس سے لفظ ادا کرنا مشکل ہو رہے تھے۔
”ہاں تو پڑھ لے گی آگے کچھ دن ٹھہر کے لے لے گی داخلہ….“
امی اس کی فیور میں بولی تھیں۔ اور موقع ملتے ہی امی اس سے سوال جواب کر رہی تھیں۔
”کیا مسئلہ ہے تمہارا…. نکاح کر کے عمربھر یوں ہی رہنا ہے۔
کس بات کی سزا دے رہے ہو اسے۔“
”نہیں امی ایسا کچھ نہیں ہے یقین کریں اس ویک اینڈ پر میرا گھر جانے کا ارادہ پکا تھا۔“
”بس تمہارا ہر ہفتے یہ ہی بیان ہوتا ہے۔ دیکھو اسفند اس معصوم کے ساتھ جتنا کچھ بیت چکا ہے وہ ہی کم ہے کیا جو اسے مزید دکھ دے رہا ہے۔“
”امی میں نے کیا کہہ دیا….“
”تمہاری لاپرواہی، بے توجہی سے کیا اندازہ لگائے گی وہ…. کہ تم نے احسان کر دیا اس پر…. اگر واقعی تو چاہتا ہے کہ حریم خوش رہے تو اسے اپنی توجہ دو، محبت دو، تمہارے رویے سے جانے اس کے ذہن میں کیا کیا وہم آتے ہوں گے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ خاموش رہنے لگی ہے۔ نکاح سے پہلے تو وہ ہنس بول بھی لیتی تھی۔“
”اوکے آئی ایم سوری! مگر یقین کریں اب آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔“ اس نے امی کو یقین دلایا تھا۔
اب اسے حریم کو یقین دلانا تھا۔ اس کے وہموں کو دور کرنا تھا۔ اور یہ موقع اسے رات میں مل گیا۔
”کیوں پڑھنا نہیں چاہتی ہو تم آگے….“
”میرا دل نہیں چاہتا۔“ اس نے دھیرے سے سر جھکا کر کہا تھا۔
”مگر کیوں؟“
”میں نہیں چاہتی آگے پڑھنا۔“
”اور اگر میں کہوں کہ یہ میری خواہش ہے۔“ اس نے حریم کے چہرے پر نگاہیں فوکس کی تھیں۔
”آپ کا حکم تو مان سکتی ہوں۔“
”حریم میں نے حکم نہیںخواہش ظاہر کی ہے۔“
”میرے لیے آپ کی ہر بات حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ میرے نزدیک آپ عام انسان نہیں ہیں۔“
”خدا کے لیے مجھے عام انسان رہنے دو، اگر تمہارا یہ ہی رویہ رہا تو….! ہمارے بیچ کے فاصلے ختم نہیں ہو سکتے۔“
”مگر میرے دل میں آپ کا جو مقام، جو احترام ہے وہ مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں آپ کو عام انسان مانوں۔“
”میں اپنے اور تمہارے بیچ کے فاصلے مٹانا چاہتا ہوں حریم ضیائ۔ نئی زندگی کا آغازکرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اکیلے رہ کر میںبھی تھک چکا ہوں اور تم بھی….“
وہ خاموش تھی، بالکل چپ، صرف اسفند بول رہا تھا۔
”مجھے اپنا نام دے کر جو احسان آپ نے کیا ہے وہ میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔“
”فار گاڈ سیک حریم، تم میری بیوی ہو اور کوئی احسان نہیں کیا تم پر….“
”میں بالکل عام انسان ہوں تمہاری طرح سب کی طرح….“ اس کی جھنجلاہٹ پرحریم نے تعجب سے دیکھا تھا۔
”میں تو بہت گنہگار انسان ہوں حریم…. ایک عمر لاعلمی میں گزاری۔ اب اگر اس پاک ذات نے ہدایت دی، اپنی محبت اس دل میں ڈالی ہے تو اپنے تمام پچھلے گناہوں کی ان کوتاہیوں کی جو جانے انجانے میں ہوئیں ان کی معافی طلب کرتا ہوں۔ تم پلیزمجھے میری ہی نظروں میں شرمندہ مت کرو۔“ وہ آزردہ سا ہو گیا۔
”جتنا میں آپ کو جان سکتی ہوں آپ بہت اچھے نیک انسان ہیں۔“
”تم مجھے جانتی ہی کتنا ہو حریم، کچھ بھی تونہیں جانتیں تم میرے بارے میں مگر میں آج تم سے اپنی ہر حقیقت شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ تمہیں آنے والی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔“ اس نے پوری سچائی سے کہا تھا اور حریم کو اپنے بارے میں ہر ہر بات بتا دی۔اس کی تمام عمر جس طرح گزری، جس ماحول میں گزری اور وہ شدت بھی جس انتہاﺅں پر جا کر اس نے عینی کنول سے محبت کی تھی۔ اور وہ مجھے زندگی کا سب سے بڑا دکھ دے کر بھی مجھ پر احسان کر گئی۔ میرے رب کے قریب کر گئی۔ جس ذات سے جس ذات کی سچائیوں سے میں لاعلم تھا۔ پھر انسان کی محبت میں ڈوب کر جب میں اس رب کے آگے جھکا،دل کا سکون مانگا تو مجھے علم ہوا کہ یہ محبت تو دھوکہ ہے، محبت تو وہ ہے جو اس کی ذات سے کی جائے۔ بس وہ ہی حقیقت ہے باقی سب فانی ہے، فریب ہے۔“ اس کی نگاہوں کی نمی میں سچائیاں جھلک رہی تھیں۔
”بہت غلیظ زندگی گزار رہا تھا میں، غم کو دور کرنے کے لیے حرام چیز کا سہارا لیتا تھا۔ مجھے لگتا تھا شراب میں سکون ہے۔ مگر میں غلط تھا حریم، سکون صرف اس کے سامنے جھکنے میں، اسے واحد ماننے میں ہے۔“
”جب مجھے اس سچ کا ادراک ہوا تو میں نے اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اس کے سپرد کر دیا اور مطمئن ہو گیا۔ اور تم…. اسی کی رضا ہو، اسی کی مرضی سے میری زندگی میں شامل ہو۔“
وہ دھنک نظروں سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ جس کے تاثرات الفاظ کے ساتھ بدل رہے تھے۔ مگر ماضی میں جا کر اس کے چہرے پر جو کرب نمایاں تھا وہ حریم کو بھی دکھی کر گیا۔
”تمہیں یہ سب بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تم اپنی زندگی کا فیصلہ آسانی سے کر سکوج میرا ماضی جاننے کے بعد تمہارے ذہن میں کئی سوال اُبھرے ہو ںگے۔ مگر میرے پاس تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں۔ میری ذات میرا سچ سب تم پر عیاں ہے۔ اب فیصلہ تم نے کرنا ہے۔“
”حد ہو گئی یار میں پریشان ہو گیا کہ آخر تم دونوں کہاں چلے گئے۔“ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آتے ہی درید نے کہا تھا اور حریم کے دل کی باتیں…. من میں ہی رہ گئی تھیں۔
ض……..ض……..ض
تمہارا گھر سیل ہو گیا ہے بس کچھ کاغذات پر تمہارے سائن چاہئیں۔“ اگلے دن وہ سب کے ساتھ بیٹھا اسے بتا رہا تھا۔
”کیوں، گھر کیوں بیچا، اب تمہارے رشتہ دار پھر سے پیچھے لگ جائیں گے۔“ امی بولیں تو اس نے پلٹ کر اسفند ضیاءکا چہرہ دیکھا کہ اب کیا کہیں۔
”امی! اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے تو گھر بیچ رہے ہیں۔ ان کو ان کے حصے کی رقم دے دیں گے اور اس طرح حریم بھی پُرسکون اور بااعتماد زندگی گزارے گی۔“
”یوں بھی حریم نے رہنا تو فیصل آباد میں ہے۔“
درید بولا تو لمحہ بھر کو اس کے چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں لہرائی تھیں۔
”امی! میں چاہتا ہوں کہ حریم یہیں رہے میرے ساتھ۔ ایک تو ہمیں گھر سنبھالنے کے لیے گھر میں خاتون کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بلال تو جا چکا اور میں یا درید…. ہم گھر نہیں سنبھال سکتے۔ دوسرا میں حریم کو یہیں یونیورسٹی میں ایڈمیشن دلوانا چاہتا ہوں۔“ اس کے فیصلے پر درید اور امی بہت خوش تھے۔ کیونکہ ان کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ دونوں ساتھ رہیں۔
”میرب اگر تم بھی ایم ایڈ کرنا چاہتی ہو تو یہیں ایڈمیشن لے لو۔“ وہ اب میرب سے مخاطب تھا۔ جو یکدم سر جھکا گئی۔ وہ اسفند کو کیا بتاتی اس نے کیوں ترک کر دیا ہے یہ ارادہ۔“
”بس اسفند بھائی پڑھ لیا…. جتنا پڑھنا تھا۔“ اس کے انداز میں جھجک تھی اور اس کا راز تب کھلا جب درید نے تنہائی میں اسے بتایا تھا کہ وہ پاپا بننے جا رہا ہے۔
”ارے یار تجھے بہت مبارک ہو۔“ وہ خوشی سے چیخا۔ درید بھی مسکرا دیا۔
”مجھے بھی موقع دے یار اس طرح خوش ہونے کا۔“ درید بولا تو وہ سمجھ نہ سکا تھا۔ مگر جب درید کے چہرے پر کمینی سی ہنسی دیکھی تو اسے اس کی بات کا مطلب بھی سمجھ آ گیا اور اس نے زور دار مکہ اس کے پیٹ میں مارا۔
”بے شرم، بے حیا انسان۔“
”ایویں….میرا حق نہیں کوئی مجھے چاچو کہے۔“
”یاسر ہے ناں، یہ فرمائشی پروگرام وہاں چلا دے۔“ وہ اسے بری طرح لتاڑ کر آگے بڑھ گیا تھا۔
”حریم اگر یہاں رہنا چاہتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اسفند مگر میں ابھی یہاں اسے چھوڑ کر نہیں جاﺅں گی۔ میں نے اسے بیٹی کہا ہے اور اپنی بیٹی کی رخصتی میں اپنے گھر سے کروں گی۔“
”اور میں آپ کا بیٹا نہیں۔“ اسفند نے دکھی ہونے کی ایکٹنگ کی۔
”ہے ناں! اسی لیے تو خواہش ہے کہ تیرا ولیمہ دھوم دھام سے کروں۔“ انہوں نے اس کا مان بھی نہیں توڑاتھا۔
سو فیصلہ ہو گیا۔ وہ سب فیصل آباد جا رہے تھے تاکہ حریم کی رخصتی کر سکیں۔ مگر وہ حریم کے منہ سے ایک بار اس سوال کا جواب چاہتا تھا، جو اس نے اس پر چھوڑ رکھا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔
فیصل آباد آ کر محض دو دن بعد کی تقریب رکھی تھی امی نے۔ اسفند کی خواہش پر سادہ سی تھی تقریب مگر پھر بھی سب نے اچھے سے مزہ کیا تھا۔ اور امی نے حریم کو دلہن کے روپ میں سجا کر اس کے کمرے میں منتقل کر دیا تھا۔
”تو خوش ہے ناں اسفند، کوئی ملال کوئی گزرے وقت کی یاد….“ درید نے پوچھا۔
”میری آنکھیں پڑھنے کا ہنر آتا ہے ناں تجھے….پڑھ لے۔“ اسفند اسے لاجواب کر گیا کیونکہ سنہرے چمکتے کانچ میں صرف خوشی اور اطمینان جھلک رہا تھا۔ درید عباس نے گلے لگا کر اسے وش کیا تھا۔
کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ کنفیوژ تھے۔ مگر پھر بھی اسفند مضبوطی سے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا تھا۔ اور بہت دلچسپی اور غور سے اس نے حریم کا سجا سنورا سراپا دیکھا تھا۔
”مجھے تم سے اپنے سوال کا جواب اب بھی درکار ہے۔“ اس کے سوال پر حریم ساری جھجک فراموش کر کے اسے دیکھنے لگی۔
”مجھے آپ کے ماضی سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ وہ گزر چکا ہے۔ میرا مستقبل آپ سے وابستہ ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ میرا مستقبل بہت مضبوط ہے۔“
”اتنے دن سولی پر ٹانگ رکھا یہ ہی بات پہلے نہیں کہہ سکتی تھیں۔“ اس نے ہلکے پھلکے لہجے میں شکوہ کیا۔
”آئی ایم سوری!“
”آج بھی….؟“
”تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں؟“ اس بار وہ سنجیدہ ہو گیا تھا اور بھرپور خفگی سے اسے دیکھا جو گردن جھکا گئی۔
”مجھے مجبور مت کریں میں آپ کا نام نہیں لے سکتی۔“ اس کے لفظوں میں جو احترام تھا، اسفند کو دنگ کرگیا۔
”گویا تم اپنے اور میرے درمیان کے تعلق کو یوں ہی رکھنا چاہتی ہو۔ فاصلے قائم رکھنا چاہتی ہو۔“
”میں آپ جیسے اعلیٰ صفات رکھنے والے انسان کے قابل ہی کب ہوں۔ مجھ میں جو عیب ہے جو داغ ہے وہ لاکھ دنیا سے چھپا لوں مگر آپ کے سامنے تو اپنی ذات بہت چھوٹی اور بدنما محسوس ہوتی ہے۔“ جھلمل کرتی آنکھیں اسفند پر سکتہ طاری کر گئیں۔ وہ کیا کیا سوچتی تھی، کن وسوسوں میں گھری تھی۔
”تم ایسا سوچتی ہو حریم۔“
”غلط کیا ہے، میں نہیں ہوں آپ کے قابل….“
”تم کس قابل ہو، یہ میرے دل میں جھانک کر دیکھو حریم ضیائ….“ وہ جب اس کے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑتا تھا حریم کو اپنا نام بہت پُروقار لگتا تھا۔
”یہ احسان کم ہے کہنانام دیا ہے اپنا مجھے آپ نے،میں عمر گزار سکتی ہوں آپ کے نام کے ساتھ مگر یہ سچ ہے کہ میں خود کو آپ کی محبت آپ کی قربت کے لائق نہیں سمجھتی۔“
اس کی باتیں اسفند ضیاءکی کشادہ پیشانا پر کئی شکنیں نمودار کر گئیں۔ اس کے چہرے پر جو تاثرات آئے تھے لمحہ بھر میں ڈر سی گئی تھی۔
”قابل تو میں بھی نہیں تمہارے، کیونکہ جو تمہارے ساتھ ہوا وہ تمہارا ماضی ہے اور میرا ماضی بھی کوئی اچھا نہیں رہا حریم فاطمہ…. اور سب سے بڑی بات…. جو تم پر بیتی اس میں تم پر صرف ظلم ہوا جبر کیا تمہاری مرضی تمہاری رضا نہیں تھی۔
مگر میرے ماضی میں میں نے جو بھی کیا اپنی مرضی سے کیا۔
میں نے عینی کنول کے ساتھ محبت میں ڈوب کر بہت قربت کے لمحے گزارے ہیں۔ وہ بھی میرے لیے غیرمحرم تھی۔ مجھے اس وقت یہ احساس نہیں تھا۔ اس کا تلخ لہجہ حریم کو رُلا گیا۔
”مجھے میرے رب کے سامنے سرخرو ہونا ہے حریم، تمہیں میں نے بے شک اس کی رضا سے پایا ہے مگر اس میں میری مرضی بھی شامل ہے۔“
اس نے روتی ہوئی حریم کا چہرہ مضبوط ہاتھوں میں تھام کر کہا تھا۔
”اپنے دل سے یہ وہم نکال دو حریم پلیز…. تمہیں کیسے یقین دلاﺅں کہ میرے دل میں تمہارا مقام بہت اونچا ہے۔ میری نظر میں تم دنیا کی ہر عورت سے زیادہ پاکیزہ اور معصوم ہو۔ بخدا میرے لیے تم انمول موتی ہو جو قدرت نے مجھے میری کسی نیکی کی صورت عطا کیا ہے۔“
”پھر آپ کا خشک رویہ“ اس کے لب تھرتھرائے اور اسفند ضیاءسخت شرمندہ ہوا تا۔ بس یہ ہی خوف تھااسے۔
”میرے دل کی بے چینی کو اتنا غلط نام نہ دو حریم۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ تمہیں سب بتاﺅں یا نہیں…. مگر میرااللہ گواہ ہے کہ تمہارے لیے میرے دل میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
”بلکہ میں تو شکرگزار ہوں اس رب کا جس نے مجھے تم جیسی معصوم اور نیک شریک حیات عطا کی۔“
”آپ سچ کہہ رہے ہیںناں…. کیا واقعی آپ کے نزدیک میں پاکیزہ ہوں۔“ ڈبڈباتی آنکھیں جب سنہرے کانچ سے ٹکرائیں تو لمحہ بھر کو جیسے کائنات تھم سی گئی تھی۔
”کیسے ثابت کروں کہ تمہیں یقین آ جائے۔“ بوجھل سا لہجہ تھا۔ حریم کی دھڑکنیں ساکت ہو گئیں۔
”میری آنکھیں ہمیشہ میرے دل کی سچائیاں بیان کرتی ہیں۔کیا تمہیں میری آنکھوں میں سچ نظر نہیں آتاحریم۔“
اسفند ضیاءنے اب بھی اس کا چہرہ تھام رکھا تھا اور وہ پوری توجہ سے حریم کی پانیوں سے بھری آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
بھلا وہ کہہ سکتی تھی کہ اس میں اتنی ہمت کہاں کہ ان کی آنکھوں میں دیکھ سکے۔ وہ کبھی بھی اس کی نگاہوں میں لمحہ بھر بھی نہیں دیکھ پاتی تھی۔ کیونکہ ان آنکھوں میں وہ کشش تھی جو اس جہاں کی تمام خوبصورتی میں بھی نہیں تھی۔
اللہ پاک کی قدرت کا سب سے انمول گفٹ تھیں وہ آنکھیں جن میں بس اک پل کو وہ دیکھ سکتی تھی مگر سنہرے کانچ میں شفاف چمکتا اپنا ہی چہرہ نظرآیا تھا۔
”آئی ایم سوری! میں نے آپ کو غلط سمجھا۔“
”آپ میرے استاد ہی ہیں جنہوں نے زندگی کی تمام تکلیفوں کو سہہ کر مجھے جینے کا ہنر سکھایا، ورنہ میں تو مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب چکی تھی۔
”یہ اعتماد صرف آپ نے دیا ہے۔ میرے دل میں تمام دنیا کے لیے خوف اور نفرت تھی مگر مجھے محبت کرنا آپ نے سکھائی ہے۔“
”محبت کرتی ہو ناں مجھ سے!“ اسفند نے سرشار سے لہجے میںپوچھا اور حریم کی جان پر بن آئی۔ کیسے اقرار کرے کیسے بیان کرے کہ روز اول سے اس کی محبت دل کے نقش پر روشن ہے مگر شاید وہ لاعلم تھی۔
لیکن نکاح کے بعد اس پر آگہی ہوئی تھی کہ یہ شخص محض مسیحا نہیں ہے، یہ تو اس کی رگ و جان میں بساہواہے۔
اس کی سانسیں بھی صرف اس کا نام پکارتی تھیں۔
”بس کر دو جان چکا ہوں کتنی محبت ہے تمہیں مجھ سے۔“
”تمہاری آنکھوں میں تمہارے دل کی داستان رقم ہے حریم ضیائ، جو باآسانی پڑھ لی ہے میں نے۔“
اور وہ فوراً ہی نگاہیں جھکا گئی۔ لرزتی پلکیں چہرے پر کھلتا حجاب اور یاقوتی لبوں کی تھرتھراہٹ اسفند ضیاءکو مدہوش سا کر گئیں اور اس نے حریم کو اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔
”اپنی محبت کا یقین دلانے کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا۔“ اس کے لہجے میں شوخی تھی۔ حریم جیسے خود میں سمٹنے لگی۔
”بولو ناں حریم ضیائ، کیسے اعتبار کرو گی!“
”خود سے زیادہ اعتبار ہے مجھے آپ پر…. اور….!“
”اور….!“ اسفند نے ادھورہ جملہ دہرایا۔
”آپ کی محبت پر….“ اس کے لہجے میں حیا تھی مگر اس نے لمحہ نہیں لگایا تھا بات مکمل کرنے میں۔“
”بس یہ ہی یقین درکار تھا مجھے، زندگی کے اس نئے سفر کو شروع کرنے سے پہلے، جو تم نے مجھے دیا ہے۔“ اس نے حریم کا نازک وجود دونوں بانہوں میں سمیٹ کر اس کے بالوں پر لب رکھ دیے تھے۔
شکرگزار تھا وہ اس خالق کائنات کا جس نے اسے یہ انمول موتی عطا کیا ورنہ شاید وہ کبھی اپنے لیے ایسا جیون ساتھی تلاش نہ کر پاتا۔ جس کی نگاہوں میں پاکیزگی اور حیا تھی۔
وہ اسی حیا کی تلاش میں بھٹک رہاتھا اور جانے کب تک بھٹکتا کہ اس کے رب کو اس پر رحم آ گیا۔
”بے شک انسان بے صبرا ہے۔ وہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس کا رب اس کے لیے کیا سوچتا ہے۔ وہ ہمیں وہ عطا کرتا ہے جو اس کی چاہت ہو۔ اس کی پسند ہو اورکیا…. اس سے بڑھ کر کچھ ہے کہ وہ پاک ذات ہم سے خوش ہے۔
اس رب کو راضی کرنا ہی انسان کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ بے شک وہ اب ہم سے راضی ہو گیا تو ہم نے دونوں جہاں پا لیے
زندگی کی راہ میں اسے سوچتے ہیں ہم
محبتوں کی چاہ میں اسے چاہتے ہیں ہم
وہ نگاہ جس کا التفات کبھی بھولتے نہیں
اسی اک نگاہ سے ہر شام پگھلتے ہیں ہم
اس حویلی نما گھر کی طرز تعمیر پرانی سہی، مگر اس کے بڑوں کی سوچ اتنی پرانی ہرگز نہیں تھی جتنا کہ اس کی مما نے بنا رکھی تھی۔ رسم و رواج کے پابند، پردہ و پرہیز، ایک دوسرے سے محبت اور لحاظ، دوسروں کے لیے ہمدردی اور خلوص اور بزرگوں کے حکم کی پاسداری۔ ہاں شاید انہی چیزوں کو مما پرانی سوچ اور گھٹیا ذہنیت کا نام دیتی تھیں۔ کیونکہ ان کے گھر کے ماحول میں تو یہ سب تھا ہی نہیں۔ ڈیڈ اور بھیا کو اپنے بزنس سے فرصت نہ تھی، مما کے اپنے ہی مشاغل تھے۔ رات کو سونا، دوپہر کو اٹھنا، پھر یوگا، ناشتہ اور پھر پارلر، انہیں رات میں روز ہی کسی پارٹی میں جانا ہوتا تھا۔ مما کی اتنی ساری فرینڈز تھیں، روزانہ ہی کسی کے گھر میں پارٹی ہوتی تھی۔ کبھی ڈیڈ کی بزنس پارٹیاں، جن میں وہ بڑے شوق سے شرکت کرتی تھیں۔ اس کی مما ایک الٹرا ماڈرن خاتون تھیں۔ بچوں کے لیے ان کے پاس کبھی وقت نہیں رہا اور ڈیڈ! مما کے مقابلے میں کچھ خیال رکھنے والے بچوں کو توجہ دیتے تھے اپنی مصروف زندگی میں سے…. ہاں یہ ضرور تھا کہ ڈیڈ چھٹی والے دن کہیں نہیں جاتے تھے۔ سارا ٹائم گھر پر رہتے، شاید اسی لیے ان دونوں بہن بھائیوں کے دل میں ماں باپ کی طرف سے بدگمانی نہیں تھی، جو اکثر بچوں میں ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈیڈ بنیادی طور پر اس چھوٹے سے گاﺅں سے تعلق رکھتے تھے، شہر کی دنیا میں جا کے بُری طرح خود کو مگن کر کے مما جیسی ماڈرن بیوی کے ہوتے بھی ان کے اندر وہ تمام تر تہذیب و تربیت موجود رہی جو اس گاﺅں کی خاصیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی مما سے کہیں زیادہ وہ ڈیڈ کے قریب تھی، البتہ اس کا بھائی بالکل مما پر گیا تھا لیکن احزاز شاہ کے مزاج میں ڈیڈ کی تربیت ضرور موجود تھی۔ اپنے بھائی کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کے لب مسکرا دئیے۔
”خیریت مِس کشف نواز! خودبخود مسکرایا کیوں جا رہا ہے؟“ مدیحہ کی آواز پر یکدم وہ چونکی، پھر ہنس دی۔
”یونہی فارغ بیٹھی تھی سوچا اچھی اچھی باتیں یاد کر لوں۔“
”اوکے! لو چائے….“ یہاں شام کی چائے بہت کم لوگ پیتے تھے۔ خاص طور پر بزرگ سوائے دادی جی کے مگر اس کا شام کی چائے کے بنا گزارا نہیں تھا۔ مدیحہ، حماد احسن وہ اور دادا جی، صرف چار بندے تھے ایسے جو اس وقت چائے پیتے تھے۔ دادی ماں خلاف تھیں اس جان جلانے والی بیماری کے….
”آج حماد نہیں آیا اب تک….؟“
”وہ تو آج شہر گیا ہے، صبح ہی آئے گا۔ میرے پیپرز شروع ہونے والے ہیں ناں، ڈیٹ شیٹ لینے گیا ہے۔“
”مدھو! تم کالج میں ایڈمیشن لے لو نا!“
”توبہ کرو یار! تمہیں نہیں پتا اماں کو میرا میٹر ک کے بعد پڑھنا بہت بُرا لگا ہے۔ حماد بھائی نے صرف اپنی ضد پر مجھے بی اے کرایا ہے۔“
”کیا….؟ دادی اماں تعلیم کے خلاف ہیں؟“
”نہیں! اعلیٰ تعلیم کے خلاف ہیں۔ یہاں گاﺅں میں کئی سال پہلے دو لڑکیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی مگر بعد میں ان کے غلط قدم اٹھانے پر اب لوگ لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے سے ڈرتے ہیں، صرف میٹرک تک اسکول ہے یہاں اور اتنی ہی ہمیں اجازت ہے۔“
”یار مدھو! یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ چند لڑکیوں کے غلط فیصلوں کی سزا ہم معاشرے کی تمام لڑکیوں کو دیتے ہیں۔“
”سو تو ہے کشف! مگر غلط بھی تو ہم جیسی لڑکیاں کرتی ہیں۔ پھر چاہے عمربھر اپنے فیصلے پر پچھتاتی رہیں۔“
”مدھو! تم لو میرج کے خلاف ہو؟“ کشف نے سوال کیا۔
”پتا نہیں کشف! مگرمیرے خیال سے محبت صرف شادی کے بعد بہتر ہے۔ اس سے پہلے صرف جذباتیت ہوتی ہے اور بس….!“
”یعنی ہمارے ماں باپ اگر کسی ایسے بندے سے ہمارا رشتہ جوڑ دیں جس کے بارے میں ہم جانتے تک نہ ہوں اور اس کا مزاج، خاندانی پس منظر یہ سب تمہارے نزدیک بہتر ہے؟“
”نہیں کشف! میں اس چیز کے خلاف نہیں ہوں۔ ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے، اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے۔ ہمارے ماں باپ ہمارے لیے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو یقینا ہر طرح سے جانچ کر ہمارے اچھے بُرے کا سوچ کر کرتے ہیں۔ کیونکہ ہر ماںباپ کو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ لڑکیاں جب پیدا ہوتی ہیں تب سے ہی ماں باپ کوان کی فکر ستانا شروع ہوجاتی ہے۔“
”مدھو! تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ بالفرض میں تمہاری ہر بات مان بھی لوں مگر تمہارے اندر بالکل بھی یہ خواہش نہیں ہے کہ اگر تمہارے والدین تمہارے لیے جو لڑکا منتخب کرتے ہیں، تم اسے دیکھو، اس سے بات کرو تاکہ اس کا مزاج، سوچ اور طبیعت کا تمہیںاندازہ ہوجائے، ا س کی پسند ناپسند معلوم ہو جائے، اس طرح آنے والی زندگی سہل ہو جاتی ہے۔“
”کشف! میرے نزدیک زندگی کی خوبصورتی اسی چیز میں ہے، بالفرض میرے والدین میری شادی ایسے انسان سے کرتے ہیں جسے میں شروع سے جانتی ہوں، اس کی سوچ، پسند ناپسند ہر چیزکا مجھے علم ہو تو پھر شادی کے بعد کی اور شادی کے پہلے کی زندگی میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ایک ایسے انسان سے رشتہ جڑنا، جس کی ہر بات ہر سوچ میرے لیے نئی ہو، دھیرے دھیرے اس کے مزاج کے ہر موسم سے مجھے آشنائی ہو، ہر گزرتے دن میں اس کی پسند مجھے پتا چلے تو زندگی کتنی اچھی لگے گی کہ اس شخص کے ساتھ بھلے عمر گزارنی ہے، پرت در پرت دھیرے دھیرے ہم ایک دوسرے کو سمجھیں اور جانیں اور جب مزاج آشنائی ہو گی تو زندگی خود سہل ہو جائے گی۔“
”اور اگر پسند ناپسند پر روز تکرار ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر روز ہی بحث یا جھگڑا ہو تو پھر….؟“
”یہ تو زندگی کا حصہ ہے کشف! لڑائی جھگڑے تو ان لوگوں میں بھی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو جان کر سمجھ کر شادی کرتے ہیں۔“
”اُف خدایا! مدیجہ تم بہت حیرت انگیز بات کر رہی ہو۔“ کشف سر تھام کر بولی۔
”دراصل کشف! تمہارے اور میر ماحول اور سوچ میں جو فرق ہے اس وجہ سے شاید ہم ایک دوسرے کو اپنی بات نہیں سمجھا سکتے۔“
”توکیا ہوا مدھو! تب بھی میری بس یہ ہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر خواہش پوری کرے اور تمہیںایساہی انسان ملے جس کے ساتھ تم خوش رہو۔“ ان اختلافات کے باوجود مدیحہ اسے بہت پسند تھی، تب ہی تو صرف ایک ہفتہ میں دونوں میں اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ یہاں آ کر ا س نے اپنا جیون ساتھی چن لیا ہے۔ حماد احسن کی صورت میں اس نے اپنے خوابوں کی تعبیر پا لی ہے، اب صرف گھر جا کے ڈیڈ اور مما سے بات کرنا باقی تھی۔
”بہت یاد کروں گی میں تمہیں کشف! تہارے آنے سے میری بوریت دور ہو گئی تھی۔ اچھی دوست مل گئی تھی اب جانے کب ملاقات ہو؟“
”ان شاءاللہ بہت جلد ملیں گے مدھو! اور کبھی نہ بچھڑنے کے لیے….“ اس کی آنکھوں کی چمک اور لبوں کی کھلتی مسکراہٹ پر مدیحہ بھی مسکرا دی۔
”مگر کیا انکل آنٹی مان جائیں گے؟“
”ڈیڈ تو بخوشی مان جائیں گے مگر مما اور بھائی تو تھوڑا ٹائم لگے گا لیکن ہونا تو وہی ہے نا جو میری خواہش ہے۔“
”اللہ کرے!“ مدیحہ نے دل سے دعا کی۔ اگر کشف نواز کے روپ میں اسے اچھی بھابی مل جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔
”چلو کشف! ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔“ حماد اسے چھوڑنے جا رہا تھا۔ وہ سب سے مل کر اس کے ہمراہ چل پڑی۔ اس کے آنے سے سب جتنے خوش تھے، اس کے جانے پر دکھی بھی تھے۔ اسٹیشن تک وہ خاموش رہے تھے مگر ٹرین میں بیٹھتے ہی وہ حماد احسن کی اتری صورت دیکھ کر ہنس دی۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟“
”کشف! مجھے نہیں لگتا ہم دونوں نے مل کر زندگی گزارنے کے جو خواب دیکھے ہیں وہ کبھی حقیقت ہوں گے؟ تمہارے اور ہمارے درمیان ماحول کی یہ دوری….“
”حماد احسن پلیز! میں نے خواب نہیں دیکھے، سوچ سمجھ کر کھلی آنکھوں سے تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ڈیڈ میرا ساتھ دیں گے۔ باقی مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ میں اپنی زندگی مما کے سر پھرے بے ہودہ لڑکوں کے ساتھ نہیں گزار سکتی۔ ساری عمر اس ماحول میں رہنے کے باوجود حماد مجھے وہ ماحول نہیں بھاتا۔ میں وہاں سے دور جانا چاہتی ہوں، پُرسکون اور صاف ستھرے ماحول میں….بناوٹ اور جھوٹ کے اس ماحول میں جہاں صرف ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے لوگ ہر اچھے بُرے کام کر گزرتے ہیں۔“ وہ جذباتی ہو گئی۔
حماد نے اس کے نرم نازک ہاتھ پر مضبوط ہاتھ دھرتے ہوئے کہا۔ ”میرا مقصد یہ نہیں تھا۔“
”مجھے پتا ہے تمہارے دل میں خوف ہے لیکن حماد! کم از کم میرے ارادوں کو یوں کمزور مت کرو۔ مجھے پتا ہے شہر کے اور یہاں کے ماحول میں فرق ہے لیکن تم تو یہاں کے عام لوگوں کی طرح نہیں ہو نا! تم ایک ڈاکٹر ہو، سمجھ بوجھ رکھتے ہو۔ میرے ڈیڈ کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ان کی تو خود یہ خواہش تھی میرا ہاﺅس جاب مکمل ہو جائے تو وہ میری شادی کسی اچھے ڈاکٹر سے کر دیں۔ اس چیز سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم کسی شہر کے بڑے اسپتال کے بجائے یہاں گاﺅں کے لوگوں کی خدمت کر رہے ہو۔“ کشف نہیں چاہتی تھی کہ حماد احسن اور اس کے درمیان کوئی بھی چیز وجہ اختلاف بنے۔ وہ ایک حقیقت پسند لڑکی تھی اور تمام تر حقیقتوں کو سمجھ کر اس نے یہ فیصلہ کیا تھا۔
ض……..ض……..ض