بابا اور دادی کو حنا اور اس کی فیملی اچھی لگی تھی۔ شریف اور سلجھے ہوئے بچے بھی دونوں پڑھے لکھے، تہذیب یافتہ اور باادب تھے۔ انہیں طلحہ کی پسند پر بہت خوشی ہوئی تھی اور انہیں بات کرنا بھی مشکل نہ ہوا تھا۔ حنا کی ماں اور بھائی ہی اس کی کل کائنات تھے اور طلحہ کو وہ لوگ جانتے تھے کیونکہ طلحہ کئی بار ان سے ملنے آ چکا تھا۔ یوں جلد ہی طلحہ کی منگنی طے پا گئی تھی۔ اب بابا چاہتے تھے کہ طلحہ کی منگنی کے ساتھ ہی حرمین کا نکاح بھی ہو جاتا۔ رخصتی حرمین کے پیپرز کے بعدہوجاتی۔
”اماں! آپ احسان سے پوچھ لیتیں نا کہ پھر ہم تیاری کر لیتے۔“
”میں تو کہتی ہوں کچھ دیر ٹھہر جاتا۔ طلحہ کی اگلے ماہ تاریخ لیں گے تب ہی حرمین کا نکاح ہو جائے گا۔“ دو تین ماہ میں کیا ہو جائے گا۔“ کہہ تو اماں بھی ٹھیک ہی رہی تھیں، اس لیے وہ بھی چپ کر گئے۔
”ایک بات کہوں فرمان….“ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔
”جی اماں! حکم کریں۔“
”اللہ پاک نے تجھے فرماں بردار اولاد عطا کی ہے، جو تم فیصلہ کر دو، وہ چپ چاپ مان لیتے ہیں، میں احسان سے بات بھی کر لوں، لیکن کیا ایک بار بھی تجھے نہیں لگا کہ حرمین سے پوچھنا چاہیے….؟“ تین چار سال پہلے وہ نا سمجھ تھی۔ اتنا زیادہ شعور نہیں تھا لیکن فرمان! اب مجھے لگتا ہے کہ ایک بار ہمیں بچی سے پوچھنا چاہیے۔ جانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جس دن سے یہ ذکر ہو رہا ہے وہ بہت چپ چپ رہنے لگی ہے، مرجھا سی گئی ہے۔“
”اماں! ٹھیک کہہ رہی ہیں فرمان! شرم جھجک بے شک لڑکی میں ہوتی ہے مگر حرمین کے چہرے پر صرف مایوسی اور اداسی سی نظر آتی ہے۔ میں اس کی ماں ہوں، مجھے بھی کچھ محسوس ہوتا ہے آخر۔“ عالیہ بیگم نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”پر اماں! اب اگر خدانخواستہ حرمین خوش نہ ہوئی تو میں احسان کو انکار کیسے کروں گا، مجھے اپنے بچوں پر یقین ہے، ایسی بات نہیں ہو گی۔“
”لیکن پھر بھی اماں! آپ حرمین سے پوچھیے گا، کیونکہ مجھ سے یا فرمان سے زیادہ بچے آپ کے قریب ہیں، آپ سے ہر بات کر لیتے ہیں، دل کو تسلی ہو جائے گی۔“ عالیہ بیگم بولیں۔ فرمان عالم نے بھی اثبات میں سر ہلایاتھا۔
”اسی لیے تو کہہ رہی ہوں ابھی چپ ہو جاﺅ، میں دھیرے دھیرے ا س سے پوچھوں گی۔ طلحہ کی منگنی اسے خوشی سے انجوائے کرنے دو۔“
”جو آپ بہتر سمجھیں، لیکن پھر بھی صبح چلئے گا، آخر منگنی کے لیے تو ان سب کو بلانا ہے ناں۔“
”کیوں نہیں، اور ہاں! حارش کو بھی کہہ دینا، وہ تو جاتا ہی نہیں کہیں۔ بھلا وہ بھی تو اس کا اپنا گھر ہے۔ احسان اکثر مجھ سے گلہ کرتا ہے کہ حارش ان کی طرف نہیں آتا۔“
”جی اماں! ضرور کہہ دوں گا۔“ انہوں نے فرماں برداری سے جواب دیا۔
ض……..ض……..ض
دادی اور فرمان عالم کے ساتھ اسے دیکھ کر احسان چاچو بہت خوش ہو گئے تھے۔ کتنے عرصے بعد آیا تھا آج عمیر عثمان نے بھی گلہ کیا تھا۔
”تم لوگ بھی تو کتنے دن سے نہیں آئے، مجھ سے شکوہ کر رہے ہو۔“
”بٹ حارش ہم پھر بھی تم سے ملنے آ جاتے ہیں، تم تو بالکل بھی نہیں آتے۔ اپنا نہیں ناں سمجھتے ہمیں۔“ فریال کے گلے پر وہ ہنس دیا۔
”اچھا…. کان پکڑوں یا مرغا بن جاﺅں۔“ وہ شرارت سے بولا تو تینوں ہنس دئیے۔
”آج میرا بیٹا بڑا خوش ہے۔“ پیار تو بابا بھی بہت کرتے تھے اسے، مگر احسان چاچو جس طرح اسے چاہتے تھے، شاید وہ بابا سے بھی زیادہ اسے پیار کرتے تھے۔ جب تک وہ ان کی نظروں کے سامنے ہوتا تھا وہ صرف اسے ہی دیکھتے۔
”طلحہ کی خوشی ہے، چاچو بھلا میں خوش نہیں ہوں گا تو اور کون ہو گا۔“ طلحہ کی خوشی کے لیے اس نے اپنا دل کسی نہاں خانے میں ڈال کر قفل لگا لیا تھا تاکہ طلحہ کی خوشی مدھم نہ پڑے۔
”چاچو! آپ سب نے آنا ہے کل ہی۔“
”کل پھر مجھ سے تو ابھی معذرت لے لو یار۔“ عثمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میں پرسوں ہی آﺅں گا، سوری ان فیکٹ آج کل میں بہت مصروف ہوں۔“
”عثمان پولیس آفیسر کتنے مصروف ہوتے ہیں میں جانتا ہوں۔“
”اچھا یعنی تو اپنے بھائی…. کو ایسا پولیس آفیسر سمجھتا ہے۔“ اس نے مصنوعی خفگی سے کہا، وہ مسکرا دیا۔ اسے عثمان سے بالکل بھی جیلسی نہیں تھی، وہ تو صرف اپنے مقدر سے شکوہ کرتا تھا۔
”مذاق کر رہا تھا بھائی جان! سوری….“ اس نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔
”اچھا…. باقی سب تو آئیں گے ناں….؟“
”ڈونٹ وری، سب آئیں گے ان شاءاللہ۔“ عثمان نے اسے یقین دلایا، وہ مسکرا دیا۔ اگلے دن صبح ہی فریال اور عمیر پہنچ گئے تھے چچی جان کے ساتھ۔ ان کے آنے سے گھر کی رونق بہت بڑھ گئی تھی۔ کل کی تیاری کے ساتھ ساتھ مذاق ہنگامہ بھی ہو رہا تھا۔ طلحہ نے آج آفس سے چھٹی کی تھی مگر وہ گیا تھا۔ طلحہ جانتا تھا سارا دن گھر میں رہنا وہ بھی حرمین کے سامنے اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ شام میں البتہ وہ آیا تو سب کو ادھر جمع دیکھ کر دل شانت ہو گیا۔
”دیکھ لیا تم نے، ہم وعدہ کر کے نبھاتے ہیں، صبح ہی آ گئے تھے۔“ فریال کی آنکھوں کی چمک اسے دیکھ کر بڑھی تھی یا شاید حرمین کو محسوس ہوئی تھی۔
”تھینکس سسٹر….“ اس نے مسکرا کر کہا اور فریش ہونے چلا گیا۔
”حارش بالکل سلطان چاچو کی طرح ہے ناں نرمین ویری ہینڈسم اینڈ چارمنگ۔“ وہ مزاج کی ایسی تھی ہر چیز کی کھل کر تعریف کرنے والی۔
”سو تو ہے، ہمارے بھیا بہت پیارے ہیں۔ فریال! حارش بھیا تم سے بڑے ہیں ناں، تو تم انہیں بھائی کیوں نہیں کہتیں۔“ نرمین نے کہا تو وہ منہ کے زاوئیے بگاڑنے لگی۔
”ضروری ہے کیا….؟ تم دونوں ہو ناں بھائی کہنے کے لیے، میرا نہیں دل چاہتا میں نہیں کہتی۔“
”فریال….“
”بس بھئی نرمین! تم بحث کیوں کر رہی ہو فریال کو جو پسند ہے وہ کہہ دیتی ہے۔“ حرمین نے سہولت سے کہا تو نرمین بھی خاموش ہو گئی۔ دادی ان سے دور بیٹھی تھیں، مگر وہ ان کی آوازیں س رہی تھیں۔ ان کی خواہش بھی تھی کہ حارش کے لیے گھر میں سے ہی کوئی لڑکی مل جائے پھر فریال کی پسند بھی تھی شاید، لیکن سب سے اہم حارش کی خوشی تھی۔ حارش فریش ہو کر ان کے پاس آیا تھا اور ان کی گود میں لیٹ گیا۔
”آج تھک گیا ہوں دادی! سر بھی دکھ رہا ہے بہت۔“
”چائے بنواتی ہوں تیرے لیے، سردرد ٹھیک ہو جائے گا۔“ انہوں نے پیار سے اس کے سر میں ہاتھ پھیرا اور حرمین کو چائے کے لیے کہنے لگیں، وہ بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھیں جس سے بہت سکون مل رہا تھا۔
”حارش! تو کب کرے گا شادی….؟ میری بھی خواہش ہے کہ تجھے ہنستا بستا دیکھوں۔“
”دادی! ہنسنے کے لیے شادی ضروری ہے کیا….؟“ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے دادی کو دیکھا۔
”حارش! مذاق مت کر۔ دیکھ طلحہ کی شادی کی تاریخ جب لیں گے تب تک تیرے پاس ٹائم ہے بس، دونوں کی ساتھ ہی کر دیں گے۔“
”کیوں آپ کو میری سکھی زندگی پسند نہیں ہے دادی۔ دراصل ابھی میں اس جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتا اور ویسے بھی طلحہ نے تو لڑکی پسند کر رکھی تھی، میں….“
”حارش! ایک بات کہو….؟ مانے گا ناں….“
”کیا دادی….؟“
”اگر میں خاندان میں سے تیرے لیے کوئی دیکھ لوں، کیا تو میری پسند سے شادی کرے گا۔“
”خیریت ہے ناں….؟ آپ نے کوئی لڑکی پسند کر لی ہے کیا….؟“ وہ دادی کی باتوں کومحض مذاق سمجھ رہا تھا۔
”یہی سمجھ لے، فریال مجھے تیرے لیے بہت….“
”دادی….“ وہ اٹھ بیٹھا، وہ صرف مذاق سمجھ کر ایزی لے رہا تھا، لیکن دادی تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھی تھیں۔
”سوری دادی! وہ میری بہن ہے، پلیز دوبارہ ایسا مت کہیے گا۔“
”خاندان میں ….“
”خاندان صرف فریال پر ختم ہو جاتا ہے، جب میں خاندان سے پسند….“ یکدم ہی جیسے اسے بریک لگ گئی، وہ کیا کہنے جا رہا تھا۔
”او گاڈ….“ اس نے سر تھام لیا، تبھی حرمین اس کے لیے چائے لے آئی۔
”سوری دادی! لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔“ وہ چائے پئیے بغیر ہی باہر نکل گیا۔ دادی چپ ہو گئیں لیکن وہ کیا بات کہہ رہا تھا، جو ا س نے ادھوری چھوڑ ، وہ الجھ گئی تھیں۔ اندازہ تو حارش کو بھی تھا کہ اس نے غلط بات کہہ دی ہے اور رات کو وہ طلحہ سے یہی کہہ رہا تھا۔
”پھر دادی نے تفصیل نہیں پوچھی….؟“
”نہیں…. بٹ یار!مجھے کم از کم خود پر اتنا کنٹرول ہونا چاہیے تھا ناں…. طلحہ! میری زندگی کے وہ چند دن شاید میرے لیے عمر بھر کا روگ بن گئے ہیں لیکن یار! میں ساری زندگی میں شاید کبھی اتنا خوش نہ رہ سکوں جتنا ان چند دنوں میں، میں نے خوشی دیکھی طلحہ! کیا میری قسمت میں خوشی ہے ہی نہیں….؟“
”حارش! تو ا س طرح مت سوچا کر۔“ اس کے پاس حارش کو تسلی دینے کے لیے بھی لفظ نہیں تھے۔
”طلحہ! آئی رئیلی لَو ہر…. آئی ڈونٹ نو کہ اس کے دل میں بھی میر لیے اتنے ہی شدید جذبات ہیں یا نہیں….؟ مجھے شدید خواہش تھی کہ میں اپنی محبت کے اعتراف میں اس کے لبوں سے صرف ہاں سنو،مگر اب جبکہ یہ خواہش بھی میرے اختیار میں نہیں ہے لیکن وہ میرے سامنے آئی تھی طلحہ! تو مجھے خود پر اپنے جذبات پر کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ طلحہ! ہم اپنے پرانے گھر میں واپس چلیں، وہاں کم از کم یوں مجھے دن رات یہ اذیت تو نہیں سہنی پڑے گی۔ ہو سکتا ہے وہ سامنے نہ ہو تو اسے بھولنا آسان ہو جائے۔ طلحہ میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ وہ تمام لمحے میرے ذہن سے محو ہو جائیں مگر میں ناکام ہو گیا ہوں۔“ اس لمحے کوئی حارش عالم کو دیکھتا جو سب کے سامنے خود کو فولاد ظاہر کرتا ہے، کس قدر بکھرا ہوا تھا، کہ اس کے عزیز دوست کو بھی وہ لفظ نہیں مل رہے تھے کہ جن سے وہ اسے تسلی ہی دے دیتا۔
ض……..ض……..ض
طلحہ کی منگنی بہت دھوم سے ہوئی تھی اور سب نے انجوائے کیا تھا۔ حارش کو دیکھ کر طلحہ کو اپنی خوشی بھی اچھی نہیں لگتی تھی، مگر حارش ان دو دنوں میں بہت مصروف رہا اور بظاہر وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ آفٹرآل طلحہ کی خوشی اس کے لیے بہت اہم تھی۔ احسان چاچو اور عثمان بھی ان کے گھر دو دن رہے تھے۔ اسے یہ سب بہت اچھا لگا تھا۔
دو دن بہت مزے میں گزرے تھے لیکن اگلے دن سب چلے گئے اور گھر میں پھر وہی خاموشی چھا گئی۔ احسان چاچو دادی کو بھی لے گئے تھے۔ اب اسے دادی کی عادت سی ہو گئی تھی۔ شام میں گھر لوٹتا تو دادی بیٹھی ہوتی تھیں، آج نہیں تھیں۔ دل نہ لگا تو بابا کی طرف آ گیا۔ وہاں سب اکٹھے بیٹھے تھے۔ وہ بھی کاشف کے پاس بیٹھ گیا۔
”کیا ہوا….؟ بڑا اُداس لگ رہا ہے….؟“
”دادی! نہ ہوں تو گھر میں دل نہیں لگتا۔“
”اچھا ہوا تم آ گئے، ہم ڈسکس کر رہے تھے کہ طلحہ کی تاریخ کب تک لیں۔ظاہر ہے انہیں تو ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دو تین ماہ میں شادی کر دیں گے۔“
”یہ تو بابا آپ کا کام ہے، آپ کی جب مرضی ہو۔“
”بیٹا! میں نے سنا ہے کہ آپ دوبارہ اسی گھر میں شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہو۔“ ان کی بات پر وہ خاموشی سے سر جھکا گیا۔
”حارش! کوئی پریشانی ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے، تم ہم سے شیئر کرو بیٹا! حل نکالیں گے، یہ تو کوئی حل نہیں ہے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر اتنی دور جائیں، ہم سے کوئی غلطی ہو گئی کیا….؟“
”ارے نہیں بابا! وہ تو بس…. دراصل وہاں مجھے آفس قریب پڑتا ہے، آپ پلیز ایسی باتیں مت سوچیں۔“ ان کی بات پر وہ شرمندہ سا ہو گیا۔ طلحہ کو بھی اس نے خوب ڈانٹا تھا کہ اس نے بابا کے سامنے یہ ذکر بھی کیوں کیا۔ پچھلے دنوں وہ بہت جذباتی سا ہو گیا تھا مگر اب بابا پھر دادی کے بارے میں سوچا تو اسے یہ فیصلہ غلط لگا اور وہ خاموش ہو گیا۔
ض……..ض……..ض
دن کس طرح گزرے علم نہ ہوا کہ طلحہ کی شادی بالکل قریب آ گئی۔ اب جبکہ فرمان چاہتے تھے حرمین کا نکاح بھی ساتھ ہو جائے انہوں نے اپنی ماں سے بات کی تھی اور وہ خود احسان سے بات کرنے کی غرض سے ہی آئی تھیں۔ ان کی بات سن کر کئی لمحے کے لیے تو سب بالکل خاموش سے ہو گئے تھے پھر احسان عالم نے ہی ہمت کی۔
”اماں! مجھے یاد ہے فرمان بھائی سے جو میں نے کہا تھا، ہمیشہ سے میری خواہش رہی ہے کہ حرمین میرے گھر میں آئے اور میں اب بھی یہی کہتا ہوں مگر اماں! عثمان ابھی شادی کے لیے راضی نہیں ہے، کم از کم دو سال تک، بس اسی لیے ہم خاموش ہیں۔“
”نکاح تو ہو سکتا ہے ناں….؟“
”دادی! نکاح ہو سکتا ہے مگر، صرف سال دو سال کی بات ہے، مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے، آپ لوگ جانتے ہیں میری جاب ابھی نئی نئی ہے اور مجھے محنت کرنی ہے، صرف اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ میری توجہ میری جاب پر ہو۔“
”احسان! فرمان سے کیا کہوں پھر….؟“ دادی کو عثمان کا ریزن پسند نہیں آیا تھا۔ سچ یہ تھا کہ وہ دل میں برا مان گئی تھیں۔ ادھر فرمان عالم پوری تیاری سے بیٹھے تھے اور یہاں عثمان نے ایک طرح سے منع ہی کر دیاتھا۔
”اماں! میں فرمان بھائی سے بات کروں گا اور آپ بھی سمجھا دیجئے گا، اب بھلا آج کل کی اولاد کہاں سمجھتی ہے ہماری باتیں۔“
”احسان! فرمان کے بچے ہیں، جیسا ان کے والدین نے کہہ دیا بچے ذرا بھی نہیں بولتے۔“
”دادی! آپ خفا کیوں ہو رہی ہیں، میں نے منع تو نہیں کیا ناں۔“ عثمان نے منہ بسورا۔
”جیسے تم لوگوں کی مرضی، مجھے فرمان کی طرف چھوڑ آﺅ، حارش تو بولایا بولایا گھوم رہا ہو گا، وہ مجھے خود سے دور نہیں جانے دیتا۔“
”صبح چلی جائیے گا ناں اماں!“ احسان کو اپنی ماں کا علم تھا کہ وہ خفا ہو گئی ہیں۔ وہ کیا کرتے جب بیٹے نے منع کر دیا تھا۔
”بچے صبح بھی جانا اب بھی، پھر بھی چھوڑ آﺅ۔“ انہو ںنے سنجیدگی سے کہا۔
”عمیر! بچے ذرا مجھے گھر تو چھوڑ دے۔“ اندر آتے عمیر کو دیکھتے ہی وہ جیسے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”کیوں دادی….؟ آج ہمارے پاس رکیں ناں۔“
”اوہو…. میرا بچہ مجھے یاد کر رہا ہو گا تو مجھے لے چل بس۔“ عمیر نے حیرت سے پہلے دادی کو پھر پپا، مما، عثمان کو دیکھا جن کے چہروں پر چھائی خاموشی اسے عجیب سی لگی تھی۔ وہ دادی کے حکم پر موٹر سائیکل باہر نکالنے لگا۔
ض……..ض……..ض
طلحہ کی شادی بالکل سر پر تھی۔ گھر میں سب انجوائے کر رہے تھے بہت خوشی سے۔ کارڈ تقریباً ہر جگہ تقسیم ہو چکے تھے۔ کیونکہ یہ ذمہ داری کاشف کے سر تھی۔
”سوچ لو طلحہ! اگر اور کسی کو بلانا ہو تو….“ آج شام جب اکٹھے بیٹھے سب تو کاشف نے کہا۔
”ورنہ پھراپنے دوستوں کی طرف گیا تو کارڈز نہیں بچیں گے۔“
”حارش! تم نے کسی کو بلانا ہے….؟“ طلحہ نے اسے دیکھا جو بہت خاموشی سے بیٹھا تھا۔
”نہیں…. یو نو…. تمہارے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتا اور ویسے بھی بہت زیادہ دوست بنانا میری ہوبی نہیں ہے۔“
”سوچ لے…. ایک بار پھر۔“ گہری پُرسوچ نظریں جب طلحہ کی بات پر اٹھیں تو طلحہ نے اَبرو اچکا دیں۔ وہ سر جھٹک گیا۔
”بابا! میں کسی کو بلانا چاہتا ہوں، اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو۔“ طلحہ کی بات پر تقریباً سب ہی حیران ہوئے تھے۔
”بیٹا! ہمیں کیوں اعتراض ہو گا، آپ کے مہمان ہمارے مہمان، ہمیں تو خوشی ہو گی۔“
”حارش! تجھے تو اعتراض نہیں ہو گا….؟“
”آئی تھنک طلحہ! تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔“ اس کے چہرے کا زاویہ قدرے بگڑا تھا۔
”بابا! میں شگفتہ آنٹی کو بلانا چاہتا ہوں، بلکہ میں انہیں یہاں لانا چاہتا ہوں، اپنے گھر میں، تاکہ وہ ہما….“
”ہرگزنہیں….“ وہ یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ چہرے پر آنے والی سختی پر سب حیران تھے۔
”میں نے فیصلہ کر لیا ہے حارش!“ کتنے حیرت کی بات تھی کہ آج ان دونوں کے درمیان اختلاف تھا، صرف ایک بات کو لے کر جنہو ںنے آج تک ہمیشہ ایک دوسرے کی ہر خوشی کا خیال رکھا تھا۔
”پھر ٹھیک ہے…. میں ہی چلا جاتا ہوں، لیکن اس گھر میں ان کے ساتھ رہنا مجھے منظور نہیں ہے۔“ اللہ جانے اس کا دل کیوں اتنا سخت ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ماں کے سامنے تک آنے کو تیار نہ تھا۔
”صرف تیری بے کار کی ضد کی وجہ سے میں انہیں اب مزید وہاں نہیں چھوڑ سکتا۔“ طلحہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے مقابل آ گیا، اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
”تم جانتے ہو حارش عالم! تمہاری ماں کیسی زندگی گزار رہی ہے۔ اعظم انکل کے انتقال کے بعد ان کے بچوں اور بہوﺅں نے ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا، تنگ آ کر وہ اپنے بھائی کے گھر آ گئیں لیکن اپنے ماموں اور ممانیو ںکے خوش اخلاق روئیے تو تم بھی دیکھ چکے ہو، اپنے بیٹے کے ہوتے ہوئے وہ دوسروں کے در پر رہ رہی ہیں، وہ بھی اتنی بری حالت میں، کل میں نے انہیں دیکھا تو…. میں برداشت نہ کر سکا۔ کم از کم مجھ سے ان کی اس قدر بری حالت نہیں دیکھی جاتی۔ سو فیصلہ ہو چکا کہ اب وہ یہاں رہیں گی، میں کل انہیں لے آﺅں گا۔“ طلحہ اپنی بات ختم کر کے رکا نہیں تھا۔ وہ بھی خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
ض……..ض……..ض
حارش کی ضد اور غصے سے وہ واقف تھا۔ جانتا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، مگر وہ اس کی ماں تھیں، ان کی بھی مجبوریاں تھیں۔ بھائی بھابیاں ان کی شکل دیکھ کر خوش نہ تھیں۔ دوسرا نکاح اسی لیے کیا تھا، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ خدانخواستہ ان کا دوسری دفعہ پھر…. گھر اجڑے وہ اسی لیے اعظم علی اور ان کے گھر والوں کی ہر بات سہہ لیتی تھیں۔ حارش کے ساتھ بھی وہ اکثر زیادتی کر جاتی تھیں۔ مگر ان کا مقصد صرف گھر بسانا تھا۔ وہ چاہتی تھیں حارش کے لیے بھی گھر میں اور ان کے دلوں میںجگہ بنالی
مگر وہ ناکام رہیں اور اپنے ذرا سے سخت روئیے کی وجہ سے اپنا بیٹا کھو دیا۔ وہ ان سے بددل ہو گیا اور گھر تک چھوڑ گیا، لیکن اب جب ان کا شوہر ہی نہیں رہا تھا تو…. اور بیٹے اور بہوﺅں نے ان کا جینا دشوار کر دیا۔ ان بچوں کے لیے انہوں نے ہر تکلیف برداشت کی اور اب انہوں نے ہی گھر سے نکال دیا۔
طلحہ کو جب ساری صورتحال کا علم ہوا تھا اس نے فوراً فیصلہ کر لیا تھا۔ صرف ایک بار وہ حارش کو سمجھانا چاہتا تھا، اس کے دل میں جو بھی تھا وہ ختم کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے وہ غصہ ختم کر کے رات کو جب گھر آیا تھا تو اس کا پکا ارادہ تھا کہ وہ حارش کے ساتھ پیار سے بات کرے گا۔ اسے یقین تھا کہ حارش ضرور مان جائے گا۔ لیکن جیسے ہی وہ گھر آیا اور کامن روم میں داخل ہوا تو حیرت سے گنگ رہ گیا، شگفتہ آنٹی بیٹھی تھیں اور حارش عالم ان کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ خواب تھا یا فلم مگر…. جب آنٹی نے اسے پکارا تو وہ….
’:’طلحہ! آ جاﺅ بیٹا…. وہاں کیوں کھڑے ہو۔“ حارش نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا پھر اسی طرح لیٹ گیا۔ وہ ان کے قریب آ گیا۔
”آنٹی! آپ یہاں….“
”حارش لینے گیا تھا مجھے۔“ ایک اور حیرت کا جھٹکا تھا جو طلحہ کو لگا تھا۔
”حارش! تو….“
”ہاں…. اس لیے کہ تو نے مجھے کبھی بتایا ہی نہیں تھا کہ مما اتنی تنگ زندگی گزار رہی ہیں، میں لاتعلق تھا کہ مما اپنے گھرمیں خوش ہوں گی۔ مجھے نہیں علم تھا کہ اعظم علی کے بعد ان کے بچے، اتنے بدلحاظ ہو جائیں گے کہ اپنی ماں کا وجود بھی نہیں برداشت کریں گے۔ وہ ماں جنہوں نے ان بچوں کی خاطر اپنی ذات بھی بھلا دی تھی۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”حارش! میں جانتی ہوں بچے کہ میں نے تمہارا ساتھ نہیں دیا۔“
”نو مما پلیز…. اب پرانی کوئی بات نہیں ہو گی۔ آپ اب اپنے گھر میں ہیں، یہاں صرف آپ کا حکم چلے گا اور طلحہ کی شادی کی خوشیاں ہوں گی بس….“ وہ پرانی کسی یاد کا ذکر بھی نہیں سننا چاہتا تھا کیونکہ اس کے پرانے زخموں میں تکلیف شروع ہو جاتی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ خوشی کے اس موقع پر ایسا کچھ بھی ہو۔
ض……..ض……..ض
شگفتہ بیگم کے آنے سے ان کی خوشیاں دوگنی ہو گئی تھیں۔ حارش کے اس قدم پر سب بہت خوش تھے، خاص کر دادی، جنہوں نے بہت چوما تھا اسے۔
”بیٹا! تو نے جو کیا ہے اس سے بڑھ کر میرے نزدیک کوئی کام نہیں۔ ماں کا سایہ بچے کے لیے گھنی چھاﺅں ہے۔ آئندہ کبھی اپنی ماں کو خود سے دور نہ کرنا سمجھے۔“ جواباً اس نے صرف سر ہلایا تھا۔ طلحہ کو جو ایک کمی سی محسوس ہو رہی تھی، اپنی ماں کی، شگفتہ آنٹی نے وہ بہت حد تک کم کر دی تھی، لیکن پھر جب ابٹن مہندی کی رسم شروع ہوئی اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ ظاہر ہے اس وقت میں وہ اپنے ماں باپ دونوں کی کمی شدت سے محسوس کر رہا تھا، حارش اس کا اترا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”طلحہ! اس وقت سارے مہمانوں کی نظریں تجھ پر ہیں اور تو نے شکل پر بارہ بجائے ہوئے ہیں۔“
”حارش! میں نے خود کو بہت سنبھالا ہے یار، مگر ماںباپ تو، ماں باپ ہوتے ہیں۔ میں لاکھ دھیان بٹا لوں مگر آج ان دنوں جو میری زندگی کے اہم ترین دن ہیں،میں انہیں بہت مِس کر رہا ہوں۔“
”میں تیری فیلنگز سمجھتا ہوں طلحہ۔“ اس نے کاندھے پر بازو پھیلا کر اسے قریب کیا۔
”مگر ہم انسان بے بس ہیں، جو اس کی رضا، جو ہم سب کا مالک ہے۔ تو ہی تو کہتا ہے، وہ ہمارے لیے ہمیشہ ہم سے بہتر سوچتا ہے، پھر کیوں دکھی ہو رہا ہے۔ سچ پوچھو تو پھپھو تو مجھے بھی بہت یاد آ رہی ہیں۔ انہوں نے ہمیں پال کر اتنا بڑا کیا، کتنا ارمان تھا انہیں یہ دن دیکھنے کا اور آج جب وہ دن آیا تو پھپھو ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔“ حارش نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا۔
”پلیز…. آپ طلحہ بھیا کو مزید اداس کر رہے ہیں۔“ اس کی اچانک آواز پر وہ دونوں چوک گئے تھے کہ اس قدر ہنگامہ میںبھی ان پر کسی کی توجہ ہے اور ظاہر ہے وہ صرف حرمین عالم ہی ہو سکتی تھی کہ یہ ہمدردی کا جذبہ محترمہ میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ حارش نے ایک نظر اس پرڈالی پھر نگاہیں پلٹ گئیں۔
”بھیا پلیز…. آپ اداس بالکل بھی اچھے نہیں لگتے اور کیا آپ کو ہماری چاہتوں میں کبھی کوئی کمی محسوس ہوئی ہے جو آپ اداس ہو رہے ہیں، اس کا مطلب تو یہ ہوا ناں کہ آپ ہمیں اپنا نہیں سمجھتے۔“ وہ محض طلحہ کو اس احساس سے باہر لانا چاہتی تھی جس کے زیراثر وہ تھا۔
”حرمین!“ طلحہ نے اسے دیکھا جو مصنوعی خفگی چہرے پر سجائے کھڑی تھی۔
”ارے نہیں بہنا! ایسا کیوں سوچا تم نے، میں تو بہت خوش نصیب ہوں اس معاملہ میں کہ مجھے اتنے اچھے اور چاہنے والے رشتے ملے، تم جیسی بہن ملی جو دوسروں کی خوشی کا کتنا خیال رکھتی ہے۔“
”اور دوسروں کو دکھ بھی گہرے دیتی ہیں۔“ اس نے یکدم کہا تو وہ دونوں چپ ہو گئے۔ حارش وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔ حرمین کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی، لیکن صرف طلحہ کے خیال سے اس نے خود کو کمپوز کیا اور مسکرا دی۔
”میں تو آپ کو صرف تنگ کر رہی تھی بھیا! تاکہ آپ کا موڈ اچھا ہو جائے۔ اب پلیز آپ اداس مت ہونا۔“ اس نے بالکل نارمل لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا، طلحہ بھی مسکرا دیا تھا۔
ض……..ض……..ض