دو دن تک طلحہ نے اسے آفس نہیں جانے دیا۔ خود بھی چھٹی کی تاکہ اس کا مکمل خیال رکھ سکے۔ کتنی حیرت کی بات تھی ناں کہ پچھلے دو دن سے وہ پڑوسیوں کے مہمان تھے اور تینوں وقت کا کھانا ان کے گھر سے آ جاتا تھا۔ حارش نے بہت منع کیا مگر وہ انکل نہیں مانے اور پھر ان کا بیٹا جو تقریباً ان کا ہی ہم عمر تھا، اچھے دوستوں کی طرح ان کا خیال رکھ رہا تھا۔
”حارش! کیا بات ہے یار؟ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ آج کل اتنی شرافت اور نیک نیتی کا زمانہ کہاں ہے۔“
’بک نہیں…. یہ لوگ بہت شریف ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ گھر کا باورچی بیمار ہے تو کوکنگ کون کرے گا۔ تجھ جیسے بے حس سے انہیں بھی امید نہیں کہ چائے ہی پلا دے گا مجھے۔“
”کیا، کیا یعنی….میں….“ وہ چیخا۔
”بس بائیکاٹ…. میں اب تجھ سے بات نہیں کروں گا،دو دن میں ہی بدل گیا۔“ اس نے منہ پھلایا تو حارش ہنس دیا۔
”ارے میرا بھائیٍ تو خفا ہو گیا، میں تو مذاق کر رہا تھا تجھ سے۔ تو نہ ہوتا تو بھلا آج میں یہاں ہوتا؟ جانے کہاں کہاں کے دھکے کھا رہا ہوتا۔“ وہ اب پھر سنجیدہ ہونے لگا تھا۔ طلحہ نے اسے گھورا۔
”اور اگر تو نہ ہوتا تو امی کے بعد میں بھی دھکے کھا رہا ہوتا۔ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں۔“
”ہاں طلحہ! یہ تو ہے یار۔ ایک دوسرے کے بغیر ہمارا ایک پل کا بھی گزارہ نہیں ہے۔“ وہ دونوں باتیں کر رہے تھے جب کاشف آیا۔
”ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے….؟“
”ارے نہیں یارٍ آﺅ ناں بیٹھو۔“
”تھینک یو۔“ وہ ان کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔
”دراصل مجھے ابو نے بھیجا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آج شام تم دونوں کھانا ہمارے ساتھ گھر کھاﺅ۔“
”کم آن کاشف! دو دن سے تم لوگوں کوہم زحمت دے رہے ہیں، یہ کافی نہیں ہے۔ پلیز یار…. اب مزید کیوں۔“
”زحمت کی کیا بات ہے یار! پڑوسیوں کے حقوق کتنے ہیں یہ تو تم بھی جانتے ہو، آئندہ ایسی باتیں مت کرنا۔ ہمیں علم ہے کہ تم خود اچھے خاصے سگھڑ ہو مگر ایک دو دن ریسٹ کرو۔ تمہارا بازو ٹھیک ہو جائے تو پھر بے شک سنبھال لینا اپنا کچن۔“ اس کی بات پر وہ ہنس دیا۔
”تھینک یو یار! تم لوگوں نے ہمارا اتنا خیال کیا وگرنہ ہم اس محلے میں بالکل نئے تھے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ ہمیں اچھے لوگ مل گئے ہیں۔“ وہ تہہ دل سے مشکور تھا ان کا۔ شام میں دل تو نہیں کر رہا تھا، پہلی بار ان کے گھر جاتے ہوئے جھجک رہے تھے، پر انکل خود دوبارہ بلانے آئے تو انہیں جانا پڑا۔ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ خوبصورتی سے سجا ڈرائنگ روم بہت اچھا پُرسکون سا لگا۔ حالانکہ گرمیوں کا موسم تھا، ان کے جاتے ہی انکل نے کھانا لگوا لیا۔ ان کے ساتھ کھانے کے دوران وہ ہلکی پھلی گفتگو کرتے رہے۔ طلحہ کے چٹکلے تو ظاہر ہے کم نہیں ہو سکتے تھے، کھانے کے بعد انہوں نے چائے بنوائی۔
”اور حارش! اب بازو کیسا ہے بیٹا….؟“
”بہت بہتر ہے انکل! تھینک یو ویری مچ! آپ لوگوں کی مہربانی سے….“
”یہ ہماری مہربانی نہیں ہے، ہمارا فرض تھا اور بس۔ اور ہاں، آئندہ بھی کسی بھی طرح کی ضرورت ہو تو فوراً بتا دینا، بالکل بھی اکیلا مت سمجھنا خود کو۔“
”جی بہت بہت شکریہ۔“
”اچھا چھوڑو یہ شکریہ…. یہ بتاﺅ تم لوگ کس علاقے کے رہنے والے ہو، یہیں اپنے شہر کے….؟“
”جی انکل! ہم ملتان سے ہی بی لونگ کرتے ہیں، بس پہلے یہاں دوسرے ایریا میں تھے
”اور تمہاری باقی فیملی….؟‘ کاشف کے سوال نے ان دونوں کے چہروں کی مسکراہٹ غائب کر دی تھی۔ یہ بات خود انہوں نے بھی محسوس کی۔
”ہم دونوں کا ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ ایک پھپھو یعنی طلحہ کی مما تھیں۔ سال بھر پہلے ان کی بھی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ اس لیے ہم پرانا گھر رینٹ پر چھوڑ کر یہاں شفٹ ہو گئے۔ پھپھو کے بعد اس گھر میں ہمارادل نہیں لگتا تھا۔“ حارش کی بات سن کر لمحے بھر کو وہ بھی چپ رہ گئے۔
”آئی ایم سوری بیٹا!“ انکل نے افسوس کا اظہار کیا۔
”لیکن بیٹا! خود کو کبھی اکیلا مت سمجھنا، کوئی بھی کام ہو دکھ تکلیف ہر چیز میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔“
”تھینک یو انکل۔“ اس بار طلحہ بولا تھا۔ کافی دیر وہ لوگ بیٹھے رہے، پھر اجازت لے کر آ گئے۔
ض……..ض……..ض
”بچے اس دنیا میں اکیلے ہیں۔ اللہ کی مصلحت، کتنے پیارے بچے ہیں دونوں۔ سمجھدار، ذمہ دار….“ دادی کو تو ان سے بہت ہی لگاﺅ ہو گیا تھا۔ جس دن سے یہ پتہ چا کہ وہ دونوں بالکل اکیلے ہیں، ان سے اور زیادہ ہمدردی ہو گئی تھی۔
”ذمہ دار….“ حرمین کو ہنسی آ گئی۔ چلو حارش کے بارے میں تو بندہ کہہ سکتا ہے مگر طلحہ اور ذمہ دار۔
”تو کیوں دانت نکال رہی ہے۔“ دادی نے فوراً ٹوکا۔
”بس یوں ہی دادی! یہ اخبار میں لطیفے پڑھ رہی ہوں۔“
”اچھا سن…. شام تو ہو چلی ہے، تو دو کپ چائے بنا کر بھیج دے ان بچوں کے لیے، تھکے ہارے آئے ہوں گے آتے ہی چولہے میں گھسیں گے گرمی میں۔“
”اُف دادی! آپ نے تو انہیں بہت ہی….“ و ہ جھنجھلا گئی مگر اندر آتے کاشف کو دیکھ کر بات مکمل نہیں کی اور چپ ہو گئی۔
”حرمین ڈیئر! چائے تو پلاﺅ زبردست سی۔“ کاشف نے وہیں دادی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”جی بھیا! ابھی لاتی ہوں۔“ وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں بھی یہ ہی کہہ رہی تھی اس سے کہ دو کپ چائے بنا کر دیوار پر رکھ دے حارش اور طلحہ کے لیے۔“
”دادی اماں! وہ ابھی گھر نہیں آئے۔ صبح طلحہ ملا تھا مجھے بتا رہا تھا کہ ان کے کسی رشتے دار کی ڈیتھ ہو گئی ہے انہیں وہاں جانا ہے۔ شاید وہیں چلے گئے ہوں گے۔“
”یقینا وہیں گئے ہوں گے۔“ تب ہی ابوبھی آ گئے اور دادی نے انہیں بھی بتایا۔
”پتہ نہیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ حارش اپنے رشتے داروں سے کٹا کٹا ہے، ذکر تک نہیں کرتا کبھی۔“ کاشف بولا، ابو بھی کچھ سوچ رہے تھے۔
”اماں! مجھے حارش کو دیکھ کر جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ میں نے پہلے بھی اسے دیکھا ہے۔ کچھ جانی پہچانی سی شکل اپنا پن سا محسوس ہوتا ہے اسے دیکھ کر۔ مگر اس سے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ معلوم کروں وہ کون ہے۔ اس کے والد اس کا خاندان….؟ ایک عجیب سا کھنچاﺅ ہے جو مجھے اس کی طرف کھینچتا ہے۔“ ان کے لہجے میں حارش کے لیے اپناپن صاف چھلک رہا تھا۔ حرمین تو دادی کو ہی کہہ رہی تھی، اب تو ابو بھی ان کے شیدائی نظر آ رہے تھے۔ وہ سب کو چائے دینے لگی۔
”ڈیتھ کس کی ہوئی ہے….؟“ ابو، کاشف سے مخاطب تھے۔
”معلوم نہیں…. حارش تو اس معاملے میں بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا، طلحہ نے مجھے بتایا ہے۔ آئی تھنک وہ حارش کو فورس کر رہا تھا جانے پر، کیونکہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔“ کاشف کی بات انہیں الجھا گئی۔ اس کے لہجے میں رشتے داروں کے لیے تلخی تو وہ محسوس کرتے تھے کیونکہ وہ صاف الفاظ میںکہتا تھا کہ اس کا دنیا میں کوئی رشتہ ہے ہی نہیں، جو کچھ بھی ہے صرف طلحہ ہے اور بس۔
ض……..ض……..ض
”حارش یار پلیز! اب تو غصہ تھوک دے۔ دیکھ اگر تو وہاں چلا گیا تھا تو کیا عذاب آ گیا؟“
”میں گیا نہیں تھا، تم زبردستی لے کر گئے تھے مجھے۔“ وہ بھڑک اٹھا۔ اس نے تو قسم کھائی تھی اب دوبارہ زندگی میں اعظم علی کے گھر نہیں جائے گا، مگر اعظم علی کی ڈیتھ کی خبر آئی تو طلحہ زبردستی اس لے گیا تھا۔
”مجھے پتہ ہے کہ میں تجھے لے گیا تھا، اگر کوئی غیربھی ہوتے تو تم ضرور جاتے، تو کیا فرق پڑا کہ تم چلے گئے۔“
”طلحہ! میرا ہر زخم تازہ ہو جاتا ہے وہاںجا کر۔“ اس کے لہجے میں درد تھا، طلحہ سمجھتا تھا۔
”آئی نو…. لیکن تجھے پتہ ہے حارش! آنٹی شگفتہ کی آنکھیں تجھے کس بے تابی سے ڈھونڈ رہی تھیں۔ کاش تو ایک بار اندر جاکر ان سے مل لیتا۔ انہوں نے مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھا تو میں کہہ بھی نہ سکا کہ تم آئے ہو۔“
”اچھا کیا، وہ میرے اندر کے دکھوں کی ذمہ دار ہیں۔ میں ان سے ملنا نہیں چاہتا۔“شاید اس کے بچپن کے حالات تھے ہی ایسے کہ وہ ماں سے بھی بدگمان تھا، کاش شگفتہ اپنی تمام تر مصروفیت میں سے اس کے لیے بھی کچھ توجہ پیار نکال پاتیں۔ ان کی بے توجہی نے آج ان کے بیٹے کو بہت دور کر دیا تھا ان سے۔
”تمہارے نانا اور ماموں بھی تمہیں دیکھ رہے تھے۔“
”طلحہ! کیا مسئلہ ہے تیرے ساتھ….؟ آج تو کیوں میرے زخم ہرے کر رہا ہے، جب ایک بار میں کہہ چکا ہوں کہ میرا کوئی ہے ہی نہیں تو کیوں ایک ایک رشتے میرے سامنے لے کر گن رہا ہے۔“ اس کی برداشت کی حد ختم ہو چکی تھی۔
”رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے حارش! صرف تمہارے کہنے سے کہ تمہارا کوئی نہیں ہے، سارے رشتے مر نہیں جائےں گے۔ تلخیاں زندگی کا حصہ ہیں بیٹا! مگر ان سے تاعمر منہ نہیں موڑ سکتے تم۔ ہاں کچھ قت ایسا آتا ہے کہ ہم سب سے کٹ جاتے ہیں، لیکن خون کے رشتے یوں نہیں ٹوٹتے۔“ انکل جانے کب آ گئے تھے۔ اس کے اندر کی تلخی محسوس کیے بنا نہیں رہ سکے۔
”انکل! اپنے نصیب میں خون کے رشتے تھے ہی کہاں۔ سارے رشتے ملے وہ بھی سوتیلے اور ظاہر ہے سوتیلے رشتوں کا زہر تو رگوں میں اترنا ہی تھا ناں، سو مجھے رشتوں ناتوں نے صرف زہر دیا ہے۔ بدگمانی اور نفرت سکھائی ہے۔ پھر آپ بتائیں میرے اندر سے اور کیا نکلے گا سوائے اس کے کہ میرا کوئی ہے ہی نہیں۔“ اس کا لہجہ بھیگ گیا۔
”سوتیلے رشتے۔“ وہ کچھ اچنبھے سے بولے۔
”انکل! حارش کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی اس کے پپا کی ڈیتھ ہو گئی تھی اور آنٹی کو ان کے سسرال نے منحوس اور بدنصیب جیسے طعنے دے کر گھر سے نکال دیا۔ آنٹی چھ ماہ کے بچے کو لیے اپنے ماں باپ کے گھر آ گئیں۔ دو سال گزر گئے۔ جیسے جیسے حارش نے ہوش سنبھالا، اسے ماموں ممانیوں کی آنکھوں میں صرف نفرت ملی، وہ چاہتے تھے کہ یہ بچہ مر جائے یا کہیں دفع ہو جائے۔ انہی حالات میں شگفتہ آنٹی کا ایک رشتہ آیا، اعظم علی کا، جن کی پہلی بیوی سے اولاد نہیں تھی، سو وہ دوسری شادی کے خواہشمند تھے۔ حارش کے نانا نانی نے رضامندی دے دی۔ اس طرح آنٹی حارش کو ساتھ لیے وہاں سے اعظم علی کے گھر آ گئیں۔ انہیں لگا شاید ان کے معصوم بیٹے کو یہاں قدر مل جائے۔ یہ گھرانہ بچوں کو ترسا ہوا تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ ان کے معصوم کی یہاں بھی تذلیل تھی۔ اعظم علی کی جب تک اپنی اولادنہ ہوئی تب تک وہ حارش کو پیار کرتے تھے مگر پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد حارش ان کے کیا اپنی ماں تک کے پیار کو ترس گیا اور جیسے جیسے وقت گزرتا رہا، حارش کے اندر رشتوں ناتوں سے نفرت پیدا ہوتی گئی، حتیٰ کہ آج یہ اپنی سگی ماں سے بھی بدظن ہے۔“ طلحہ کی زبانی ساری بات سن کر ان کا دل بھر سا آیا تھا۔ انہوں نے حارش کو کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا۔
”آئی ایم سوری بیٹا! شاید تم بھی اپنی جگہ سچ ہو مگر ایک بات بتاﺅ…. تم نے کبھی اپنی مما سے اپنے سگے رشتوں کے بارے میں جاننے کی سعی نہیں کی؟ تمہارے پپا کے بہن بھائی، ماںباپ….“
”کس لیے جانتا انکل….؟ چھ ماہ کے بچے کو انہوں نے گھر سے نکالا تب انہیں خیال تک نہ آیا کہ وہ ان کے مرحوم بیٹے کی نشانی ہے، تو میں کیوں اپنے آپ کو مزید اذیت دیتا۔ انہیں تلاش کر کے اگر میں ان کے پاس چلا بھی جاتا اور وہ بھی میرے ساتھ وہ ہی سلوک کرے جو میرے سوتیلے رشتوں نے کیا پھر کیا بھرم رہ جاتا میرا….؟ اب تو دل کو پھر بھی یہ آسرا ہے کہ رشتے سوتیلے تھے، کم از کم خود کو تسلی تو دیتا ہوں کہ سوتیلے رشتے اپنے نہیں بن سکتے۔ آپ بتائیں انکل! اگر ایسا ہوتا تو پھر میں خود سے کیا کہتا….؟ میرا تو ہر رشتے سے اعتبار بالکل ہی اٹھ جاتا….“ کتنا بڑا سچ تھا جو وہ کہہ رہا تھا اس کی بات کی گہرائی جان کر وہ چپ سے ہو گئے۔
”کیا نام تھا تمہارے پپا کا….؟“
”سلطان عالم….“ اس کی زبان سے نکلا نام ان کی سماعتوں پر بم کی طرح گرا تھا۔ وہ بے یقینی سے اس کی شکل دیکھ رہے تھے۔
”کیا نام بتایا تم نے….؟ شاید انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہو۔
”سلطان عالم۔“ حارش نے انکل کو غور سے دیکھا۔ ان کے چہرے کا اڑتا رنگ دیکھ کر ٹھٹھکا۔
”خیریت انکل….؟“
”تم سلطان کے بیٹے ہو….؟“ ان کو اب بھی بے یقینی سی تھی، حارش، سلطان کابیٹا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی کا بیٹا۔ ان کا اپنا خون تھا وہ…. تب ہی اس کو دیکھ کر ان کو اپنے پن کا احساس ہوتا تھا۔ ہاں اس کے چہرے میں سلطان کی شبیہہ جھلکتی تھی، وہ جو اس کی صورت میں ہمیشہ کسی کا چہرہ تلاشتے تھے آج خود ہی جواب پا گئے۔ ان کی حالت طلحہ اور حارش دونوں ہی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ چہرے پر پھیلی بے یقینی اور آنکھوں میں بھرا پانی، لہجہ بھیگا بھیگا تھا۔
”کیا بات ہے انکل….؟“ طلحہ نے ان سے پوچھا، مگر وہ کوئی بھی جواب دئیے بنا تیزی سے چلے گئے اور انہیں پریشان چھوڑ گئے۔
ض……..ض……..ض
یعنی سلطان نے سوتیلے پن کے جتنے دکھ جھیلے اس سے کہیں زیادہ اس کا بیٹا جھیل رہا ہے۔ کاش ان کے ابا دوسرا نکاح کرنے سے پہلے سوچ لیتے تو آج حارش کا یہ حال نہ ہوتا اور نہ ہی ان کا بھائی جوانی میں اللہ کو پیاراہوتا۔ وہ جب سے حارش کے پاس سے آئے تھے اپنے کمرے میں بند تھے اور اگلی صبح ہی باہر آئے تھے۔ ناشتے پر سب انکا اترا چہرہ، سوجھی آنکھیں دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے۔
بچے….؟ کل شام سے تو کمرے میں بند ہے اور اب آیا ہے۔ تیرا چہرہ اترا ہوا ہے تو رویا ہے کیا….؟“ اماں سے ان کی خاموشی برداشت نہیں ہوئی، باقی سب تو ہمت باندھ رہے تھے کچھ پوچھنے کی۔ انہوں نے کپ نیچے رکھا اور اماں کو دیکھنے لگے۔
”اماں! بعض اوقات ہمارے بڑوں کی، کی گئی چھوٹی سی غلطی ہماری نسل در نسل خمیازہ بھگتتی ہے۔“ ان کی بات کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
”کیا مسئلہ ہے….؟ آخر کیا وجہ ہے جس نے آپ کو اتنا اَپ سیٹ کر رکھا ہے۔“ شاید شریک حیات ہونے کے ناطے وہ ان کو اتنا دکھی دیکھ کر برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔
”عالیہ بیگم! ہمارے ابا نے جوکیا اس کی سزا ہم آج تک سہہ رہے ہیں، سلطان دنیا سے چلا گیا اور….“ ان کا لہجہ بھر آیا، ان کی بات پر سب ہی دکھی تو ہوئے تھے مگر آج اتنے سالوں بعد یہ قصہ؟ بابا کا یوں یکدم اَپ سیٹ ہونا…. ان کی آنکھیں گواہ تھیں ان کے رونے کی، لیکن کیوں؟ اب یہ باتیں یاد کر کے رونے کا کیا فائدہ تھا….؟
”باباجانی! ہم سمجھتے ہیں سب مگر اتنے سال بیت گئے اس بات کو، اب کیا حاصل یہ سب یاد کر کے خود کو ذہنی تکلیف دینے کا؟ چاچو کا دکھ دل میں ہے مگر آپ کیوں اب یہ باتیں ازسرنو سوچ سوچ کر خود کو دکھی کر رہے ہیں….؟“
”اس لیے بیٹا! جو دکھ سلطان نے جھیلے ہیں اب وہ دکھ اس کا بیٹا جھیل رہا ہے اور تمہیں پتہ ہے کہ اس بچے کا رشتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ وہ خود کو تنہا بتاتا ہے حالانکہ اس کے پاس تمام رشتے ہیں لیکن چند سوتیلے رشتوں نے اس کو اتنی اذیتیں دیں کہ اس کا کائنات کے ہر رشتے سے بھرم اٹھ گیا،اور جانتے ہو کہ وہ کون ہے جو سلطان کا بیٹا ہے….؟ جس کے بارے میں آپ کو بتا رہا ہوں…. وہ حارش ہے…. حارش عالم…. جو ہمارا اپنا خون تھا اور ہم بے خبر تھے، جو دکھوں کے سمندر میں اکیلا ہاتھ پیر مارتا رہا اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی۔ مجھے کل پتا چلا کہ کیوں اسے دیکھ کر میرا دل مچلتا ہے، ظاہر ہے وہ خون ہے ہمارا، میرے بھائی کی نشانی۔“ یہ سب بتاتے ہوئے جہاں ان کا لہجہ بھر آیاتھا آنکھوں سے آنسو بھی ٹپک پڑے، اور دادی یہ سب سن کر بری طرح رو دیں۔
”میرے سلطان کا بیٹا یہاں میرے پاس رہتا رہا اور میںبے خبر رہی۔“
”حارش، سلطان چاچو کا بیٹا ہے“ یہ بات ان کے لیے بھی حیرت انگیز تھی۔
”جی بیٹا….“ بابانے انہیں حارش کے بارے میں ایک ایک بات بتائی تو سب ہی اشک بار ہو گئے۔
”اس لیے اس کے اندر اتنی تلخی ہے۔“ کاشف بولا۔
”ہوں…. اگر طلحہ اور اس کی مدر حارش کو نہ سنبھالتے تو جانے آج حارش کہاں ہوتا۔“
”تو مجھے لے چل حارش کے پاس۔“ دادی آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں۔
”اماں! میں نے ابھی حارش سے کوئی بات کی ہی نہیں، سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے س کے اندر رشتے ناتوں کی طرف سے اتنی تلخی اور بدگمانی دیکھی تو میری ہمت ہی نہیں ہوئی کہ اس سے کوئی بات کہہ سکوں۔ وہ بھی تو اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے،اگر وہ میرے بتانے پر مجھ سے یہ سوال کر لیتا کہ آج تک ہم نے اس کی خبر کیوں نہیں لی تو ہم کیا جواب دیتے اسے؟“
”پر بابا! ہمیں تو علم نہیں تھا کہ سلطان چاچو کا بیٹا بھی تھااور اس میں ہمارا کیا قصور تھا۔“
”آپ صحیح کہہ رہے ہو بچے مگر جن حالات سے اس وقت حارش گزر رہا ہے وہ کبھی بھی ہمیں قبول نہیں کرے گا۔ اس وقت تو وہ اپنی سگی ماں سے بھی بدگمان ہے پھر بھلا….“
”بابا! آپ کو نہیں لگتا کہ اس سارے قصے میں واقعی چچی جان قصوروار ہیں، ان کی بے توجہی نے حارش کو بدگمان کیا، اگر وہ مضبوطی سے حارش کو تھامے رہتیں تو اس گھر میں اس کی اتنی تذلیل نہ ہوتی اور اگر وہ واقعی اس معاملے میں مجبور تھیں تو حارش کو اس کے اپنوں کے بارے میں سچائی بیان کرتیں تاکہ حارش کے دل میں ہمارے لیے کم از کم بدگمانی نہ ہوتی۔ آج اگر ہم اس کے پاس جاتے تو ہمیں یہ ڈر نہ ہوتا کہ وہ ہمیں اپنائے گا یا نہیں۔ حارش ٹھیک کہتا ہے سارا قصور شگفتہ چچی کا ہے۔“ حرمین کی فل فیور حارش کے ساتھ تھی۔
”بیٹا! ہو سکتا ہے حالات ایسے نہ ہوں کہ شگفتہ حارش کو سب بتا سکتی۔“
”بابا! ایسی صورت میں وہ آپ سے رابطہ کر سکتی تھیں۔ احسان چاچو سے رابطہ کر سکتی تھیں۔ وہ حارش کو اسی وقت ہمارے حوالے کردیتیں تو آج اس کا اعتبار نہ ٹوٹتا۔“ کاشف نے بھی حرمین کا ساتھ دیا۔
”بھلا ماں کب چاہے گی کہ اس کے کلیجے کا ٹکڑا اس کی نظروں سے دور رہے۔ شگفتہ کب اسے خود سے الگ کرنا چاہتی ہو گی۔“
”اور دادی! اب بھی تو وہ الگ ہی رہ رہی ہیں ناں! اب تو ان کا بیٹا ان کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ اگر وہ اس وقت کوئی اچھا فیصلہ کر لیتیں تو آج کم از کم حارش کے دل میں ان کے لیے یہ بدگمانی نہ ہوتی۔“ حرمین نے کہا تو وہ خاموش سی ہو گئیں۔ وہ بھی تو کتنے عرصے اپنے بچوں سے دور رہی ترستی رہیں اپنی اولاد کی شکل کو بھی مگر آج وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں ان کے لیے پیار ہی پیار ہے۔ شاید یہ اس صبر کا پھل ہے کہ وہ
اتنے سالوں ان کے لیے ترستی رہیں،روتی رہیں لیکن انہوں نے شوہر کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بس خاموشی سے وقت گزارتی رہیں۔ آخر اللہ نے ان کی سنی اور ان کے بچے ان کے پاس لوٹ آئے۔ سوائے سلطان کے۔ اس کے دنیا کے جانے کی خبر ان تک پہنچی تھی۔ ان کا سب سے لاڈلااور چھوٹا بیٹا جو صرف پانچ سال کا تھا جب اس کے ابا لے گئے تھے۔ اس دن کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا۔ اور دیکھا تو سفید کفن میں لپٹا چہرہ،اور اس کی بلکتی تڑپتی بیوہ…. یہ تو انہیں آج علم ہوا کہ سلطان کا بیٹا بھی تھا۔ سوئم سے اگلے دن جب فرمان اور احسان اپنے بھائی کی بیوہ کو لینے گئے تو پتا چلا کہ اس کے ماں باپ اسے اپنے گھر لے گئے ہیں اور اب انہیں حقیقت پتہ چلی تھی کہ اس ظالم عورت نے جس نے ان سے ان کے بچے چھین لیے تھے اس نے شگفتہ کو گھر سے نکال دیا تھا۔ اگر انہیں علم ہوتا کہ ان کا پوتا بھی ہے تو کہیں نہ کہیں سے اسے ضرور ڈھونڈ نکالتے۔ آج یہ انکشاف سن کر وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں کہ فوراً جا کر حارش کو گلے لگا لیتیں۔
”فرمان! میں خود حارش سے بات کر لوں گی، تو مجھے اس کے پاس لے چل۔“
”اماں پلیز! آپ حوصلہ رکھیں۔ کچھ وقت دیں مجھے، ان شاءاللہ کوئی نہ کوئی حل تو نکلے گا۔ میں آج احسان سے مل کر بات کرتا ہوں، کوئی تو راستہ ہو گا ناں آخر۔“
”جی بابا! چاچو احسان سے بات کرنا بھی ضروری ہے۔ آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ حارش کے لیے یہ سب کچھ قبول کرنا بہت مشکل ہو گا۔“ کاشف بولا تو وہ بھی سر ہلانے لگے۔
ض……..ض……..ض
بڑی حیرت کی بات تھی ناں کہ آج جب وہ گھر لوٹا تو شام کا کھانا کچن میں بالکل تیار تھا۔ طلحہ اتنا اچھا بھی ہو سکتا ہے، اسے یقین نہیں تھا۔ وہ بڑے موڈمیں نہا کے فریش ہو کر صحن میں رکھی چیئر پر بیٹھ گیا، شاید طلحہ کہیں باہر گیا تھا۔ وہ انتظار کر رہا تھا، جب ایک نسوانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔
”حارش بھائی!“ اس نے ادھر اُدھر دیکھا، پھر گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو دیوار پر موجود لڑکی نظر آئی، ساتھ ہی ٹرے جس میں یقینا چائے کا کپ تھا۔
”حارش بھائی! یہ چائے لے لیں۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے یہ قطعی پسند نہیں تھا لیکن وہ انکل اور کاشف کے خلوص کے آگے بے بس ہو جاتا تھا۔
”دیکھیںپلیز…. آپ پریشان مت ہوا کریں۔ میں خود بنا لیتا۔“
”کوئی بات نہیں حارش بھائی! چائے بنانے سے ہمیں کیا پریشانی ہو گی۔“ وہ مسکرا کر بولی۔
”اور ہاں! آج کھانا کھانے کے بعد بتائیے گا ضرور کہ کھانا کیسا بنا تھا؟“ اس کی بات پر اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ یعنی کھانا طلحہ نے نہیں بنایا تھا۔
”آپ نے کھانا بنایا….؟ وہ طلحہ….“
”وہ طلحہ بھیا کاشف بھائی کے ساتھ کسی کام سے گئے ہیں، کاشف بھائی نے مجھے کہا تھا کھانا بنانے کا،اس لیے میں نے بنا دیا۔ آپ کو بُرا لگا، تو سوری۔“ اگر پہلے کی طرح وہ صرف پڑوسی ہوتے تو عمربھر بھی وہ حارش سے اتنی بات نہیں کرتی لیکن اب وہ جانتی تھی کہ وہ غیر نہیں اس کا سگا چچازاد بھائی ہے، جانے کیوں اس کا من چاہا حارش کی ہیلپ کرنے کا، سو اس نے کھانا بنا دیا، اور آتے ہی چائے بنا لائی۔“
”بُرا تو نہیں لگا لیکن پلیز…. ہمارے لیے فکر مت کیا کریں۔“ اس نے چائے کا کپ تھامتے ہوئے صرف ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی تھی، پھر رُخ موڑ گیا۔
”اینی وے، تھینک یو ویری مچ…. چائے اور کھانا دونوں کے لیے۔“ بہت تکلف تھا اس کے لہجے میں، حرمین نے اسے دیکھا، بظاہر وہ اس کے سامنے تھا مگر رُخ اس نے دوسری طرف کیا ہوا تھا، شاید اس لیے کہ حرمین پر نظر نہ پڑے۔
”آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ فوراً کہہ دیا کریں۔“
”بڑی مہربانی۔“ وہ چاہتا تھا کہ اب حرمین چلی جائے۔ شاید وہ بھی یہ سمجھ گئی تھی تب ہی فوراً دیوار سے پیچھے ہو گئی اور حارش نے سکھ کا سانس لیا۔ اسے اعتراض حرمین پر نہیں تھا مگر وہ نہیں چاہتا تھا محلے پڑوس کے کسی دوسرے گھر سے کوئی بھی شکایت یا بات سننے کو ملے۔ حالانکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا، فرمان انکل کے گھر سے کوئی خاتون اس سے مخاطب ہوئی ہو، وہ بھی یہ لڑکی۔ کتنے ماہ بیت گئے تھے، اس نے آج پہلی بار اس دوشیزہ کو دیکھا تھا۔ ورنہ کوئی کام ہوتا کاشف یا فرمان انکل خود ہی آتے تھے۔
”دو دن سے انکل نظر نہیں آئے تھے، اس دن وہ پپا کا نام سن کر کچھ اَپ سیٹ سے بھی ہوئے تھے، آخر کیوں….؟“ اس کا ذہن پھر الجھنے لگا تو اس نے سر جھٹکا اور اپنی چائے انجوائے کرنے لگا جو بہت مزیدار تھی۔
”چائے اتنی زبردست ہے تو یقینا کھانا بھی ٹیسٹی ہو گا۔“ اس نے دل میں سوچا اور طلحہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا، تاکہ پتہ چلے وہ کہاں ہے۔
ض……..ض……..ض
کتنا عجیب سا ماحول تھا اس وقت اس کے گھر کا، اتنے سارے لوگ تھے مگر سناٹا تھا، عجیب سی خاموشی تھی، ہر نظر اس پر تھی، ہر نظر میں پیار تھا، اپنا پن تھا، مگر کوئی اس سے پوچھتا اس کی کیا حالت تھی اس کے اندر کتنی توڑپھوڑ
”ہم نے آپ کوایک ایک بات بتا دی ہے، آپ ذی شعور ہیں، سمجھدار ہیں، خود فیصلہ کریں کہ ہمارا کیا قصور ہے….؟ ہم قطعی لاعلم تھے اس بات سے کہ سلطان کی کوئی اولاد بھی ہے، ورنہ ہم نے جتنے دکھ جھیلے تھے بچے، ہم آپ کا بچپن کبھی ان دکھوں میں نہ گزرنے دیتے، اب ہمیں پتہ چلا ہے تو ہم آپ کو اپنانے کے لیے آئے ہیں، لینے آئے ہیں، آج سے آپ اکیلے نہیں ہیں، آپ کے پاس ہر رشتہ ہے، سچا اور خون کا، ان شاءاللہ آپ کو ہر رشتے سے پیار ہی ملے گا۔“
”لیکن اب کیا فائدہ…. اب مجھے ضرورت ہی نہیں رہی۔ میں نے تنہا جینا سیکھ لیا ہے۔ آپ خود بھی یہ بات جانتے ہوں گے کہ رشتے توجہ، محبت،احساس، ان سب کی بچپن میں زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جب میں نے وہ عمر گزار لی تو اب تو میں اپنا خیال خود رکھ سکتا ہوں، اب مجھے کسی کی ضرورت….“ وہ یقینا بہت تلخ ہو رہا تھا۔ طلحہ نے اس کے ہاتھ پر دباﺅ دیا تو وہ نہ چاہتے ہوئے سر جھکا گیا اور خاموش ہو گیا۔
”اب تو مجھے سزا دے گا، پانچ سال کا تھا میرا سلطان جب تیرے دادا نے میری گود سے اٹھا کر اسے سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا تھا اور میں عمر بھر ترستی رہی اپنے بچے کو دیکھنے کو، اور جب وہ سامنے آیا تو کیسے کفن میں لپٹا، خاموش…. میرا کلیجہ پھٹ گیا تھا اور اب جب مجھے تیری صورت میں اپنا سلطان مل گیا ہے تو اب تو میری سزا بڑھا دے۔ میں یوں ہی ترسی تڑپتی قبر میں چلی جاﺅں گی۔“ دادی بری طرح رو دیں۔ اس کے دل کو کچھ ہوا ضرور تھا، مگر جانے کیوں….؟ اس کے اندر عجیب سی سردمہری تھی، تمام حالات جاننے کے بعد بھی…. وہ جان گیا تھا کہ اس کے چچا، تایا سب بے قصور ہیں، مگر شاید حالات نے اس کا اعتبار کہیں کھو دیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی کسی رشتے پر اعتبار نہیں کر پا رہا تھا۔ بہت سمجھانا چاہتا تھا وہ خود کو، لیکن اس کے اندر کی توڑپھوڑ اس وقت بہت زیادہ تھی کہ اسے اپنے اندر کے شور کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن دادی کو اس طرح روتا دیکھ کر وہ کچھ نرم پڑ گیا۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا، مجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں نے جو کہا وہ سچ ہے مگر…. میں….“ جانے کیوں اس کی آواز اس کے اندر ہی کہیں گھٹ گئی، فرمان عالم نے اٹھ کر اسے خود سے بھینچ لیا۔
”کچھ مت بتاﺅ بیٹا! ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ تم پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی۔ بیٹا! ہماری بانہیں تمہارے لیے کھلی ہیں، تم جب چاہو آ کر سما جانا۔ پر بیٹا! تمہیں وقت چاہیے اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے، منانے کے لیے، وہ تمہارا حق ہے، تم جتنا ٹائم لینا چاہتے ہو لے لو، بس اپنی دادی کے لیے دل میں تھوڑی گنجائش بنا لو۔“ ان کی بات پر وہ سر جھکا گیا۔ شاید ان کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا، تب ہی اس نے سر ہلایا۔ پھر احسان عالم نے اسے سینے سے لگا کر بہت پیار کیا، حتیٰ کہ وہ رو پڑے۔
”ہمیں معاف کر دینا بیٹا! انجانے میں سہی ہم بھی تمہارے قصوروار ہیں۔ کاش ہمیں علم ہو جاتا تو شاید آج ہمارے بیچ یہ فاصلے نہ ہوتے۔“ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ بس خاموشی ہی خاموشی تھ۔ احسان عالم سے مل کر وہ دادی کے قدموں میں آ بیٹھا۔
”آئی ایم سوری دادی! میں آپ سے آپ کا بیٹا کبھی نہیں چھینوں گا۔“ اس نے کہا تو دادی نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر چوم لیا۔
”جیتا رہ میرا بچہ۔“ کتنا سکون سا ملا تھا ان کی گود میں، دل بھر آیا تھا مگر اس نے خود کو مضبوط کیا ہوا تھا۔ کتنا وقت وہ اس کے پاس بیٹھے اسے مناتے رہے۔
”حارش! تم بے شک ہمیں اپنا نہ سمجھو مگر تم ہماری اولاد ہو،اور بڑے ہونے کے ناتے ہم تمہیں کہہ رہے ہیں، ہمارے گھر کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں، تم ہمارے ساتھ رہو، ہمارے پاس۔“
”تھینک یو انکل مگر….“
”آج کے بعد مجھے بابا کہا کرو کاشف کی طرح۔“ انہوں نے درمیان میں ٹوک دا۔
”دراصل فاصلہ ہی کتنا ہے مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں ضرور آﺅں گا۔ آپ لوگ پلیزمجھے وہاں جانے پر مجبور مت کریں، دادی پلیز…. صرف ایک دیوار کا تو فاصلہ ہے، جب آپ بلائیں گی میں آ جاﺅں گا، لیکن….“ وہ جانتے تھے اتنی جلدی سب کچھ ٹھیک نہیں ہو گا تو انہوں نے بھی زبردستی نہیں کی۔
”جیسے تو خوش…. بس بیٹا! تیرے دل میں اگر ہمارے لیے کوئی گلہ شکوہ ہے تو بتا دے۔“
”نہیں دادی! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا، سب مطمئن تھے اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ حارش کے دل میں کوئی شکوہ نہیں رہا تب اٹھ کر گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد اس کے اندر پھر سناٹے اترنے لگے۔ طلحہ اس کی کیفیت اچھی طرح سمجھ رہاتھا۔
”حارش! تو خوش ہے ناں؟“ اس نے کریدا۔
”پتہ نہیں طلحہ….“ وہ بولا اور طلحہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کتنی دیر خاموشی رہی تھی دونوں کے درمیان۔ طلحہ کو محسوس ہوا کہ وہ رو رہا تھا۔
”حارش۔“ اس نے پکارا مگر جواب ندارد تھا۔ پھر دوبارہ اس نے بھی نہیں چھیڑا اور خاموشی سے اس کے گھنے بالوں میں انگلیا ںپھیرنے لگا۔ حارش بہت مضبوط اعصاب رکھتا تھا۔ یہ وہ جانتا تھا۔ بہت چھوٹاتھا تب سے اس نے دیکھا تھا حارش کو روتے ہوئے، اس کے بعد حالات کیسے بھی گزرے وہ کبھی کمزور نہیں پڑا تھا، لیکن آج….
ض……..ض……..ض
وہ صبح اٹھا تو ناشتہ تیار ملا تھا۔ اب تو وہ حرمین کو منع بھی نہیں کر سکتا تھا، مگر اسے اب بھی یہ اچھا نہیں لگتا تھا، کیونکہ شروع سے ہی اسے اپنے کام خود کرنے کی عادت تھی۔ آفس جانے سے پہلے دادی کا پیغام آ گیا کہ ان سے مل کر جایا کرو۔ اب صبح صبح کسی کے گھر جانا، لیکن وہ کسی کا نہیں اس کے سگے تایا کا گھر تھا۔ خیر وہ تیار ہو کر طلحہ کے پاس آیا، جو سستی کا مارا اب تک نہانے بھی نہیں گیا تھا۔
”طلحہ! میں ذرا ادھر جا رہا ہوں دادی نے بلوایا ہے۔“ حیرت کی بات تھی اس نے کسی سے گلے شکوے نہیں کیے تھے، مگر اتنے سارے رشتے ملنے پر بھی اس کے اندر کی خوشی مفقود تھی۔ ہاں وہ خاموش تھا اور ہر بات مان رہا تھا، شاید یہ خون کی ہی کشش تھی۔
”طلحہ! تو نے آفس نہیں جانا، اب فٹافٹ اٹھ کھڑا ہو ورنہ پھر آتے رہنا رکشے سے۔“ یہ دھمکی کافی تھی، کیونکہ طلحہ رکشے وغیرہ سے جانے سے بہت چڑتا تھا، اور اس کی موٹر سائیکل ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس زیرعلاج تھی۔ وہ فوراً اٹھ کر واش روم میں گھس گیا اور حارش مسکراتا ہوا باہر نکل گیا…. بیل بجا کے باہر کھڑا تھا، کاشف نے دروازہ کھولا تو سامنے اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔ شیک ہینڈ کیا۔
”تم دروازے پر کیوں کھڑے ہو، اندر آ جاتے۔“ بہت اپنائیت سے وہ بولا تو جواباً وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا اور اس کے ساتھ اندر آ گیا، جہاں سب ناشتہ کر رہے تھے۔
”السلام علیکم!“ اس نے قدرے زور سے سلام کیا۔ دادی اسے دیکھ کربہت خوش ہو گئی تھیں۔
”وعلیکم السلام! جیتے رہو، خوش رہو۔“ وہ ان کے قریب آ گیا۔
”ادھر میرے پاس آجا، نرمین! بھیا کے لیے ناشتہ لے آ بچے۔“
”دادی میں ناشتہ کر چکا ہوں۔“ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
”چائے لے لو۔“
”نہیں آنٹی…. پلیز…. میں ناشتہ کر چکا ہوں۔“ اس نے منع کر دیا۔ عالیہ سمجھ سکتی تھیں ابھی کچھ وقت لگے گا اس کو گھلنے ملنے میں، وہ مسکرا دیں۔
”جیسے تمہاری مرضی۔“ وہ کچھ دیر بیٹھا مگر بالکل خاموش۔ ان میں سے کوئی بات کرتا تو جواب دے دیتا ورنہ پھر خاموش۔
”دادی میں چلوں….؟ آفس جانا ہے۔“
”میرے ساتھ نکل جانا۔“ کاشف نے آفر کی۔
’نہیں یار! وہ طلحہ کو بھی ڈراپ کرنا ہے، اس کی بائیک خراب ہے۔“ اس نے سہولت سے منع کر دیا اور سب کو سلام کرتا واپس گھر آ گیا جہاں طلحہ مکمل تیار بیٹھا چائے پی رہا تھا۔
”چلیں….؟“
”ہاں! میں تیار ہوں۔“ حارش نے خاموشی سے بائیک نکالی، طلحہ دروازہ بند کرتا آ گیا۔
”چابی….؟“
”یار! تم لے آﺅ۔“ حارش بولا۔ وہ فقط اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا، ابھی دروازے تک پہنچا تھا تبھی تیزی سے حرمین باہر نکلی۔
”خیریت طلحہ بھیا۔“
”حرمین! یہ چابی اور ہاں شام میں زبردست سی بریانی ہوجائے تو…. مزہ آ جائے۔“
”ضرور بھیا۔“ وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ چابی اس نے اپنے ہینڈبیگ میں ڈال لی۔ حارش حیرت سے طلحہ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی فرسٹ کزن تھی لیکن حقیقت یہ تھی وہ اس کا نام تک نہیں جانتا تھا اور طلحہ اس کے ساتھ کتنی اپنائیت سے بات کر رہا تھا۔
”یہ کیا فرمائشی پروگرام چل رہا تھا….؟“
”یار! دادی اماں نے سختی سے منع کر دیا ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی بھی کوکنگ نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے تم ہرگز بھی روز ان کی طرف کھانا پسند نہیں کرو گے اس لیے اس مسئلے کا حل یہ حل نکلا کہ شام کا کھانا حرمین آ کے بنا دیا کرے گی، صبح میں ناشتہ وہ گھر سے بنا کر بھیج دے گی۔“
”لیکن طلحہ! میں اپنی ذات کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہیں دے سکتا۔ روز وہ بےچاری ہمارے باعث پریشان ہو، جب ایک کام ہم خود کر سکتے ہیں۔“
”یہ بات مجھے مت سمجھاﺅ، دادی سے کہنا۔ اب چل دیر ہو رہی ہے۔“ طلحہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں یہ کب سدھرے گا۔“
ض……..ض……..ض