تمہاری یاد کے جگنو
وہ خاموشی سے اپنے کپڑے تہہ کر کے سوٹ کیس میں رکھ رہی تھی۔ چہرہ کسی بھی قسم کے تا ¿ثر سے قطعی عاری تھا۔ اشعر نے اس کا بھرپور جائزہ لیا تھا پھر مضطرب ہاتھوں کو مسل ڈالا۔
”تم اکیلی چلی جاﺅ گی ناں ریحا؟“ اس نے کوئی دسویں بار یہ بات کہی تھی۔ اس بار وہ بنا کچھ کہے سر جھٹک گئی۔
”میں کیا کروں یار! بائی گاڈ اگر جاب کا پرابلم نہ ہوتا تو میں کبھی تمہیں اکیلے نہ جانے دیتا۔ آئی نو تم میرا مسئلہ انڈراسٹینڈ کر رہی ہو، بٹ ماموں اور ارشد بھائی خفا ہوں گے۔“ وہ خود ہی فکرمند ہوتا ہوا وضاحتیں دینے لگتا۔
”او مائی گاڈ! بلیو می، میرا تمہیں اکیلے بھیجنے کو قطعی دل نہیں چاہ رہا۔“
”تمہیں کوئی مشکل تو نہیں ہو گی ناں؟“
”اشعر میں فرسٹ ٹائم اس شہر میں نہیں جا رہی ہوں۔“ آخرکار اسے بولنا پڑا۔
”پھر بھی ڈئیر، ٹینشن تو ہے ناں مجھے۔“ اشعر بولا۔ اس کا دل چاہا کہہ دے کہ اشعر رضا، اس شہر کی گلیاں مجھے آج بھی ازبر ہیں مگر کہہ نہ سکی۔ اشعر شاید اس کی سوچ پڑھ گیا تھا تب ہی قدرے مسکرا کے اسے دیکھا جو پیکنگ مکمل کر کے سوٹ کیس بند کر رہی تھی۔ پھر قریب آ کر اس کے کندھوں پر مضبوط ہاتھ دھر دیے۔ ریحاب نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
”آئی نو، وہ شہر تمہارے لیے نیا نہیں ہے مگر یہ بھی مت بھولو مائی لائف کہ تمہیں چار سال ہو گئے ہیں وہاں سے آئے ہوئے۔ ظاہر ہے کچھ چینجز تو لگیں گے نا۔“ وہ قدرے مسکرا کے بولا تھا۔ ریحاب نے بغور اس کا چہرہ دیکھا جو اس کے اپنے چہرے سے قریب تر تھا۔
”میں نے زندگی کے بائیس سال گزارے ہیں اس شہر میں اشعر، وہاں کا کونا کونا مجھے یاد ہے۔“
”بات تو ساری میر دل کی ہے ناں جانو، جو تمہیں اکیلا بھیجنے پر راضی نہیں ہے۔ خیر میں ارشد بھائی کو فون کر دوں گا ، وہ تمہیں اسٹیشن سے لے لیں گے۔“ اشعر نے ہولے سے اس کی ٹھوڑی چھوتے ہوئے کہا۔ پھر اسے چھوڑ کر خود بیڈ پر گر گیا۔ گویا ریلیکس محسوس کر رہا ہو۔ ریحا نے گہری سانس خارج کی اور پھر اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”اشعر تم فون مت کرنا۔ میں سب کو سرپرائز دینا چاہتی ہوں۔“ چار سال میں پہلی بار اس کے لہجے میں پُرجوش سے جذبے اُبھرے تھے مگر صرف پل بھر کو۔ اشعر ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔
”سوری میری جان! ایسا ممکن نہیں، ہاں اگر ہم دونوں ساتھ ہوتے تو میں بخوشی تمہاری بات مان لیتا۔“
”بلیو می اشعر، میںاکیلے گھر جا سکتی ہوں۔“ اس نے اشعر کے کشادہ سینے پر پیشانی دھرتے ہوئے بے بسی سے کہا۔ اس لمحے اشعر کو ٹوٹ کر اس پر پیار آیا تھا۔
”یار مسز،تم کیوں ارشد بھائی سے میری پٹائی کراﺅ گی پلیز۔“ اس نے لجاجت سے کہتے ہوئے اس کے وجود کو بانہوں میں بھرا تھا۔ ریحاب گہری سانس لے کر رہ گئی تھی۔
”اوکے ایز یُو وِش۔“
”تھینک یو ڈئیر۔ خفا تو نہیں ہو ناں۔“ تب اس نے فقط سر ہلایاتھا۔
اشعر بھی خاموش ہو گیا۔ کبھی یہ لڑکی کتنی ضدی ہوا کرتی تھی مگر اب….!
ض……..ض……..ض
وہ کینٹ اسٹیشن پر اُتری تو ارشد بھائی کو ڈھونڈنے میں اسے قطعی وقت نہیں لگا۔ نیچے اُترتے ہی وہ مل گئے اور ریحاب ان کی بانہوں میں سماگئی۔
”کیسی ہے ہماری گڑیا۔“ اس نے مسکرا کر جواب میں فقط سر ہلایا تھا۔ لفظوں سے ناتا تو اس نے مروتاً ہی رکھا ہوا تھا، اس کا بس چلتا تو وہ بھی نہ رکھتی مگر بہرحال جیناتو تھا، سو لفظوں سے رشتہ رکھنا، اس کی مجبوری ہی سہی۔ وہ اسی خاموشی کے ساتھ ارشد بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی حتیٰ کہ گھر کے کسی فرد تک کا نہ پوچھا تھا۔ بہت خاموشی سے سفر گزر رہا تھا لیکن صدر سے گزرتے ہوئے جانے اسے کیا یاد آیا کہ اس نے چونک کر ارشد بھائی کی طرف دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے اور یکدم مسکرا کر بولے تھے۔
”کھاﺅ گی آئس کریم۔“ اس نے نفی میں سر ہلا دیا اور ونڈو سے باہر دیکھنے لگی۔ آنکھوں میں پانی آ گیا تھا۔ ہر منظر دھندلا، دھندلا نظر آنے لگا۔
چار سال صرف اسی لیے اس نے یہاں کا رُخ نہیں کیا تھا کہ پرانی یادیں زخم بن کر پھر سے اُبھر آئیں گی اور وہی ہوا۔
اس شہرِ بے مثال میں داخل ہوتے ہی اس راستے سے گزرتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ ان راستوں کا سفر وہ دن میں ایک بار ضرور کرتی تھی۔ اس کی رگوں میں خون کی طرح یہ راستے، یہ گلیاں رچی بسی تھیں۔ اس شہر نے اسے سب کچھ دیا تھا اور پھر اسی شہر نے اس کا سب کچھ چھین بھی لیا تھا۔
اپنے علاقے میں قدم رکھتے ہی اس کے کانوں میں آوازوں کی بازگشت گونجنے لگی۔ کسی کے قہقہے، شوخیاں، روٹھنا، گانا، منانا، لڑنا، ہر ہر آواز اس کے قدم جکڑنے لگی تھی۔
ارشد بھائی جیسے اس کی کیفیت جانتے تھے، اسی لیے اس کا ہاتھ تھام کر تسلی دی۔
گھر میں جیسے سب ہی بے تاب تھے، اسے دیکھنے کو۔ امی، بابا، سحاب، سحرش، بھابی اور طلال سب نے جی بھر کے اسے پیار کیا لیکن اس کا وجود کسی پتھر کی مانند ساکت تھا۔
”سچ مجھے تو رات بھر نیند نہیں آئی جب سے اشعر نے فون کر کے بتایا کہ تم یہاں آ رہی ہو۔“ سحاب کی بے قراری پر اس نے مسکرا کے ساتھ دیا۔
بابا کتنی دیر تک اسے سینے سے لگائے رہے۔
”میں ابھی طیب اور کاشف کو بلا کر لاتا ہوں۔“ طلال نے فوراً ہی باہر کا رُخ کیا۔ ریحا کی آنکھیں دروازے میں گڑھ سی گئیں۔ ”طیب…. کاشف اور….“ اس کا سر یکدم بری طرح چکرایا۔
”اوہو اتنا لمبا سفر کیا ہے، بھئی اسے بیٹھنے تو دو۔“ اس کو تھامتے ہوئے امی بولیں۔ گھر کا ہر ہر فرد اس کی کیفیت جانتا تھا مگر کیا کرتے۔ ریحاب نے خود کو صوفے پر گرتے ہی ڈھیلا چھوڑ دیا۔
”اشعر تو ٹھیک ہے ناں بچے۔“
”جی امی، وہ معذرت کر رہے تھے کہ آ نہ سکے۔“ یہ پہلا جملہ تھا جو گھر آنے کے بعد اس نے ادا کیا تھا۔
”انس اور ثوبان آنے والے ہیں اسکول سے۔ تمہارا سناتو چھٹی کے موڈ میں تھے، زبردستی بھیجا تھا۔“ بھابی نے بتایا۔ بھتیجوں کا ذکر اس کے چہرے پر اطمینان بھر گیا تھا۔
”تم فریش ہو جاﺅ، میں ناشتہ لاتی ہوں۔“ بھابی کے کہنے پر وہ وہاں سے اٹھ گئی۔
ض……..ض……..ض
وہ لیٹی تو کچھ دیر کے لیے ہی تھی مگر جب آنکھ کھلی تو سورج الوداع کہہ رہا تھا۔ وہ ہاتھ منہ دھو کر باہر آ گئی۔ بھابی اور سحاب شاید کچن میں تھیں۔ طلال اور مہوش ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔ طلال ٹی وی کمرشلز پر ریمارکس دے رہا تھا اور مہوش اس سے ایگری نہیں تھی۔ وہ بھی وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔
”دیکھو ناں ریحا یہ طلال صرف ہر چیز میں خامیاں ڈھونڈتا ہے۔ اسے کبھی پاکستانی چینلز میں کوئی خوبی نہیں ملتی۔“
”تو غلط کہتا ہوں کیا؟ اچھا ریحا تم اس ایڈ میں مجھے بتاﺅ۔ کچھ بھی سمجھ آیا ہے، سراسر بکواس۔ پتا نہیں ہم لوگ کب اچھا کام کریں گے۔ یہ ملک کبھی آگے نہیں جا سکتا۔ نیور!“ یہ شاید طلال کی حتمی رائے تھی۔ کیونکہ وہ تو سدا سے ہی پاکستان کی ہر چیز پر تنقید کرتا تھا لیکن اس کے کانوں میں تو کسی اور کے الفاظ گونج رہے تھے۔
”یہ ملک ترقی پذیر ہی اس لیے ہے کہ یہاں کے لوگ اس کی ترقی میں حصہ لینے کے بجائے بیٹھ کر صرف تنقید کرنا جانتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کی نیت صاف ہو اور وہ اس کی تعمیر میں عملی حصہ لیں تو یہ ملک ترقی پذیر نہیں بلکہ ترقی یافتہ کہلائے گا۔“ کتنی پوزیٹو سوچ رکھتا تھا وہ اور طلال نے کتنے سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ وہ بحث کرنا چاہتی تھی مگر لفظوں نے تو اس سے لڑائی برسوں پہلے کر لی تھی، سو وہ صرف سوچ کر رہ گئی۔
سحاب نے سب کو چائے دی۔ وہ خاموشی سے چائے انجوائے کرنے لگی۔ تب ہی اشعر کی کال آ گئی۔
”کیسی ہو ڈئیر۔“
”فائن…. تم کیسے ہو؟“
”تم بہت یاد آ رہی ہو۔“ وہ قدرے اداس لہجے میں بولا لیکن اس کا چہرہ احساسات سے خالی رہا تھا، بنا کسی تاثرر کے۔ ”سفر ٹھیک سے گزرا؟“
”ہوں۔“ اس کے لب ہلے۔
”وہاںجا کر بھی اُداس ہو۔“ کتنا عجیب بے معنی سوال تھا۔
”میرے لیے یہاں بچا ہی کیاہے۔“ وہ شاید بھول گئی تھی کہ اس کے پاس سب کچھ ہے، ہر رشتہ ہے مگر اس نے تو صرف ایک شخص پر ہی دنیا ختم کر دی تھی ناں۔
”تمہارے لیے تو میں بھی بے معنی ہوں۔“ اشعر کی سنجیدہ آواز اُبھری۔ وہ کبھی اشعر کو جھوٹی تسلی تک نہ دے پائی تھی سو اب کیا کہتی۔ اشعر نے تمام حقیقت سمیت خود اپنی مرضی سے اسے اپنایا تھا۔ وہ تو صرف اسے اپنے فیصلے کی سزا دے رہی تھی شاید۔ چار سالوں میں پیار تو دور، وہ دل سے ایک مسکراہٹ تک اسے نہ دے سکی تھی۔
”تم آفس سے آ گئے۔“ اس سے اس سوال سے زیادہ کی امید رکھنا بے سود تھا۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔
”ہوں اوکے ڈئیر ٹیک کیئر، اللہ حافظ۔“ بسا اوقات اشعر بہت دلبرداشتہ ہو جاتا تھا جیسے اب۔“ اور اس نے مزید کچھ کہے بغیر لائن کاٹ دی اور وہ سیل ہاتھ میں تھامے گھورنے لگی۔
سحاب اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ ریحاب کو سمجھانا چاہتی تھی کہ ایسا کب تک چلے گا۔ اشعر کی خطا کیا تھی۔ اس نے تو تمہیں زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے یہ فیصلہ کیا تھا اور تم…. جس کو جانا تھا وہ چلا گیا، وہ اب نہیں ہے۔ وہ کبھی آ بھی نہیں سکتا۔ پھر کیوں یہ حقیقت قبول نہیں کر لیتیں، مگر اس نے فی الوقت ریحا سے کچھ بھی نہیں کہا۔
”ریحا! شام میں پھوپو کی طرف چلیں گے،بہت یاد کرتی ہیں تمہیں۔“ سحاب بولی تو وہ چونکی۔
”ہوں…. اوکے۔“ اتنا کہہ کر وہ وہاں سے اٹھی اور بھابی کے پاس کچن میں آ گئی۔
ض……..ض……..ض
رات کے کھانے پر واک کے لیے جانا اس گھر کی پرانی ریت تھی۔ اس وقت بھی سب تیار تھے۔وہ بھی ان کے ساتھ تھی۔
محلے کے پارک میں اس وقت اکثر لوگ ٹہلنے آتے تھے۔ یہ پل وہ لوگ ہمیشہ اچھی طرح انجوائے کرتے تھے۔ اس وقت بھی ان سب کے ساتھ چلتے ہوئے وہ پرانی ہی یادوں میںکھوئی ہوئی تھی۔ ایک ایک قدم اٹھاتے ہوئے اسے کسی کی آہٹ، ہزاروں شوخیاں، بے ساختہ ہنسی، ساری شرارتیں، مڑمڑ کے صدائیں دے رہی تھیں۔ وہ پلٹ کر دیکھتی تو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا اور پارک تک پہنچتے پہنچتے وہ بالکل ہی ہار گئی تھی۔ اس سے مزیدایک قدم بھی اٹھانا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ بری طرح ہانپنے لگی۔
طلال کے ہاتھ میں تھما اس کا ہاتھ سرد پڑنے لگا۔
”تم ٹھیک تو ہو ریحا آپی۔“ طلال چلتے چلتے رک گیا۔
”بس طلال میں تھک گئی۔“ اس کی نظروں کے عین سامنے وہی بینچ تھا، جس پر بیٹھ کر وہ دن بھر کی باتیں شیئر کرتے تھے۔
”اوکے ریلیکس، تم بیٹھ جاﺅ۔“ اس نے ریحاب کو بٹھایا تو آگے چلنے والے بھی رک گئے۔
”کیاہوا؟“
”ریحا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بس یہیں چہل قدمی کر لیتے ہیں، پھوپو کی طرف کل چلیں گے۔“ طلال کے کہنے پر سب خاموش ہو گئے اور چہل قدمی کرنے لگے۔
”طلال تم بھی واک کر لو میں یہیں بیٹھی ہوں۔“
”اوکے۔“ وہ اس کا ہاتھ تھپک کر اٹھ گیا۔
ریحا نے بے حد تھکن کے احسااس سے سر بینچ کی پشت پر دھر دیا اور آنکھیں موند لیں۔ کتنے ہی منظر اس کے سامنے رقص کرنے لگے تھے۔
”بہت ستاتی ہو تم، کہاں تھیں اتنے دن سے۔“ قریب سے کوئی سرگوشی اُبھری۔ اس نے تڑپ کر آنکھیں کھول دیں۔ لیکن سامنے کچھ بھی تو نہ تھا سوائے ہوا میں بکھری اِک مانوس سی خوشبو کے۔ تب اس سے برداشت نہ ہوا اور سیال مادہ آنکھوں سے بہنے لگا۔
ض……..ض……..ض
پھوپو سے مل کر وہ بالکل ہی بکھر گئی۔ انہیں دیکھ کر اندازہ ہوا تھا کہ ان کا نقصان کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ طیب اور کاشف کی محبتیں،اپنی جگہ مگر وہ شخص جو خلا چھوڑ گیا ہے، وہ کبھی نہیں بھر سکتا۔ پھوپو تو کبھی بھی اسے نہیں بھول سکتیں۔
”کیا حال بنا لیا ہے آپ نے پھوپو۔ خوش رہا کریں۔“
”میرے بچے میں کیا کروں۔ دل کو جیسے ایک روگ لگ گیا ہے۔ کسی خوشی میں اب خوشی نظر ہی نہیں آتی۔“ انہو ںنے آنکھوں کے گوشے صاف کرتے ہوئے کہا۔
”روگ تو لگ گیا ہے پھوپو مگر جینا بھی ہے۔“
”ریحا مجھے تو چھوڑو تم اپنی حالت دیکھو۔ بچے تمہارے آگے ساری زندگی پڑی ہے۔ وہ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ تم زندگی کو کیوں گنوا رہی ہو۔ ماضی بھول کر اپنا آنے والا کل سنوارو۔“
”پھوپو! وہ ماضی نہیں، میرا سب کچھ تھا۔ میرا حال، میرا مستقبل….“
”ہاں! اگر وہ ہوتا تو، مگر اب وہ نہیں ہے تو وہ تمہارا صرف ماضی ہے۔ تمہارا حال، تمہارا مستقبل اشعر ہے ریحا۔“ طیب نے زبان کھولی۔ حالانکہ اسے کچھ کہنے سے سب ڈرتے تھے کہ طالب کے بعد ایک سال اس نے زندگی اور موت کی کشمکش میں گزارا تھا۔ یوں جیسے وہ سانس لیتی تھی مگر ایک بُت کی مانند اور جب اس نے ہولے ہولے خود کو سنبھالا تو سب نے اس کے سامنے طالب کا نام تک لینا چھوڑ دیاتھا۔ وہ سب کو عزیز تھا۔ اس کے جانے کا دکھ ہر ایک فرد کو تھا مگر صرف اس لیے کہ وہ بمشکل دھیرے دھیرے جینے کی طرف لوٹ رہی ہے تو سب چاہتے تھے وہ پھر سے زندگی سے منہ نہ موڑے مگر وہ سننا، بولنا سب بھول گئی تھی۔
اشعر نے اس سے شادی کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک تو وہ اسے چاہتا تھا دوسرا اس لیے کہ شاید وہ سنبھل جائے مگر چار سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اب وہ لوٹی تو ویسی ہی تھی۔ ذرا بھی تو بدلاﺅ نہیں آیا تھا ا س میں۔
”میں نے سب سے کہا تھا کہ یہ فیصلہ مت کریں۔ وہ کبھی میری زندگی، میری روح سے علیحدہ نہیں ہو سکتا مگر نہ اشعر نے میری بات مانی اور نہ آپ سب نے۔ پھر اب مجھے مجبور مت کریں۔ میں نے اپنی ذات اس کے نام پر ختم کرنی ہے اور بس۔“
”ریحا تم….“
”طیب پلیز۔ مجھ سے مزید بحث مت کرو تم….“ وہ شاید آگے کچھ بھی بول نہیں پا رہی تھی تب ہی لب بھینچ گئی تھی۔
ض……..ض……..ض
پھوپو کے گھر سے آنے کے بعد تو وہ بالکل ہی بکھر گئی تھی۔ یوں لگا چار سال درمیان سے کہیں چلے گئے ہوں۔ آنکھیں بند کیں تو سامنے وہی مسکراتا، چمکتی آنکھوں سے سے اسے دیکھتا کھڑا تھا۔ تب وہ اپنے آپ کو نہ روک پائی۔ اور ماضی کے دریچے کھل بیٹھی۔
لاگی تم سے من کی لگن
لگن، لاگی تم سے من کی لگن….!!
گلی گلی گھومے
دل تجھے ڈھونڈے!!
طالب بے حدسُر میں راحت فتح علی خان کا سونگ گا رہا تھا، جب طیب نے آ کر اس کا سر ٹھونک دیا۔ کئی لمحے آنکھوں کے آگے اندھیرا رہا پھر کچھ حواس بحال ہوئے تو اس نے طیب کو گھورا۔
”میرا سُر تھا یہ جاہل آدمی، جسے تم نے کرکٹ بال سمجھ کر اُڑا دیا۔“ طالب کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔
”سوری ڈئیر برادر مگر آپ کی مستقبل قریب کی نصف بہتر کا یہی حکم تھا۔“ طیب ادب سے جھک کر کورنش بجا لایا تو طالب کا دل چاہا اسے بغیر بھونے ہی کھا جائے۔
”وہ نصف بہتر یا نصف بدتر اس سے تو میں ابھی جا کے پوچھ لیتا ہوں مگر تجھے شرم نہیں آئی، اپنے سے تین سال بڑے بھائی پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے۔ ڈوب کے نہیں مرے تم کسی مین ہول میں۔“ وہ بکتا جھکتا طیب کو حسب توقع نوازتا باہر نکلا تھا اور سارے راستے جھلاتا، وہ ماموں کی طرف پہنچا تو وہاں لاﺅنج میں بھی سوگوار ماحول منتظر ملا۔ آنسو بہاتی منہ بسورتی اس کی نصف بہتر یعنی محترمہ ریحاب ضیاءبیٹھی تھیں اور اس کی دونوں طرف مایوسی اور دکھ سے کچھ سوچتے، افسوس سے سر ہلاتے طلال اور بھابی بیٹھے تھے۔ سحاب اور مہوش قدرے لاپروائی سے اپنا ہوم ورک کر رہی تھیں۔
طالب بھی عین اس کے سامنے آ بیٹھا اور ہاتھ کے اشارے سے کچھ جاننے کی سعی کی تو وہ رُخ پھیر گئی۔
”اللہ رے یہ ناراضگی۔ وجہ تو معلوم ہو کچھ۔“ وہ جو سارے راستے جھلاتا آیا تھا، اس کی صورت دیکھ کر سب بھول گیا مگر ریحا نے اسے قطعی لفٹ نہیں کرائی۔ مجبوراً اسے اپنے سات سُروں کو یاد کرنا پڑا۔
”دل تو میرا ہے تیرا
جان میری ہے تیری
پھر کیوں ناراض ہے
پھر کیو ںناراض ہے؟
تبلے، گٹار، ڈرم سارے انسٹرومنٹس کی جگہ ٹیبل بجاتے ہوئے وہ اسٹارٹ لے چکا تھا۔ ریحا نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
”تم ناراض ہو
میرے کتنے پاس ہو
نازک نازک سی پیاری پیاری سی
میرے جینے کی آس ہو
وہ باقاعدہ کچن سے تھالی اٹھا لایا تھا۔ طلال تالیاں پیٹتے ہوئے اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ ریحاب نے سر تھام لیا۔
”اسٹاپ اِٹ! تم سے کس گدھے نے کہہ دیا کہ میں خفا ہوں۔“
”پھر یہ خوبصورت چہرہ اس قدر پھولا ہوا کیوں ہے؟“ اس نے ترنگ میں پوچھا تو جواباً اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
”سارا قصور تمہارا ہے۔ صرف تمہارا۔“ اس نے جرم بتائے بنا ہی اسے مجرم قرار دے دیا جس پر وہ تڑپ گیاتھا۔
”آخر کس چیز میں میرا قصور ہے منہ سے تو پھوٹو؟ یار طلال تم ہی بتا دو کیا مسئلہ ہے؟“ اس نے براہِ راست طلال کو مخاطب کیا جو کب سے منتظر تھا کہ ابوطالب اس سے پوچھے اور وہ اسٹارٹ لے۔
”میری بہن اور آپ کی کزن یعنی ریحاب ضیاءایک بار پھر اکنامکس کے پیپر میں اٹک گئی ہیں۔“ طلال بہت مزیدار انداز میں بتانا چاہا تھا مگر طالب کی کشادہ پیشانی پر کتنے ہی بل نمایاں ہو گئے۔
”واٹ؟ ستیاناس، تم میری ناک کٹوا کر ہی خوش ہوتی ہے۔ بھلا اتنے ایزی سبجیکٹ میں رہ جانے کی تُک بنتی ہے؟“
”ایزی…. طالب اتنا بکواس منحوس سبجیکٹ ہے جسے تم ایزی کہہ کر میری انسلٹ کر رہے ہو۔ میرا بس چلتا تو اس منحوس آدمی کو اپنے ہاتھوں مارتی جس نے یہ نحوست پھیلائی مگر اس نے صبر ہی نہیں کیا، پہلے ہی مر گیا۔“ ریحا نے دل کی بھڑاس نکالی۔
”شرم کرو۔ دنیا انہیں بابائے اکنامکس کہتی ہے۔ جانے کس گدھے نے تمہیں ایڈوائز کی تھی، اکنامکس رکھنے کی۔ کیا کہیں گے لوگ کہ اکنامکس کے پروفیسر کی زوجہ محترمہ اکنامکس میں دو بار سپلی دے چکی ہیں۔ کیا عزت رہ جائے گی میری۔“ طالب اچھا خاصا تپ گیا۔ اکنامکس اس کا فیورٹ سبجیکٹ تھا اور ریحا کو سدا سے ہی خدا واسطے کا بیر رہا تھا اس مضمون سے۔ اس کی تقریر پر ریحا کو غصہ آ گیا۔
”تم نے ہی زبردستی مجھے اکنامکس دلائی تھی، ورنہ میں تو دس دفعہ لعنت بھیج کر سائیکولوجی لے رہی تھی۔“ لمحہ بھر کو وہ گڑبڑایا تھا، اپنے آپ کو گدھا کہنے پر پھر قدرے ڈھٹائی سے اسے گھورا۔
”میں کراﺅں گا اس بار تمہاری تیاری، بس۔“
”ہرگز نہیں۔“ وہ بری طرح اچھل پڑی۔ ”تمہارا خیال ہے کہ میں ایک بار پھر اس ڈل اور بور مضمون کو پڑھوں۔ سوری ڈیئر ابوطالب! اب ایسا ممکن نہیں۔ بے شک میرا گریجویشن اِن کمپلیٹ رہ جائے۔“ اس نے صاف الفاظ میں منع کیا تھامگر وہ بھی ابوطالب تھا۔
”تمہارے تو ابا حضور بھی پڑھیں گے، تم کیا چیز ہو۔“
”بصد شوق اگر بابا نے دوبارہ پڑھنے کا ارادہ کیا تو……..“ ریحا نے دانتوں کی نمائش کی تو وہ بری طرح سلگ گیا۔
”تم جانتی ہو ناں ریحا تمہیں اکنامکس ہر حال میں کلیئر کرنی ہے۔ بی کوز تم نے ماسٹرز کرنا ہے اکنامکس ہیں۔“
”بھابی۔“ وہ بری طرح تڑپ کر بھابی سے لپٹ گئی۔ ”یہ ظلم ہے اور کچھ نہیں ابوطالب۔ تم مجھے جان سے مار دو مگر میں دوبارہ معاشیات کی کتاب دیکھوں گی بھی نہیں۔“
”جسٹ شٹ اَپ ریحا! احمق مت بنو۔“ وہ چیخا۔
”تم مجھے خاصا احمق پہلے ہی بنا چکے ہو، سو اتنا ہی بہت ہے، اب مزید نہیں۔“
”پھر کہتے ہیں ملک ترقی نہیں کرتا، ارے جس ملک میں تم جیسے نکمے اور تعلیم سے بھاگنے والے لوگ موجود ہوں گے، وہ خاک آگے بڑھے گا۔ کسی ملک کی ترقی میں اس ملک کی معاشیات اہم کردار ادا کرتی ہے اور….“
”اچھا بس۔“ ریحا نے ہاتھ جوڑے۔ ”ایڈم اسمتھ بننے کی کوشش مت کرو، میں بابا سے کہہ دوں گی کہ مجھے آگے نہیں پڑھنا اور اگر تمہیں اتنی ایجوکیشن کے ساتھ مجھ سے شادی پر اعتراض ہے تو کسی اکنامکس کی لیکچرار کے ساتھ بیاہ رچا لینا، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“
”آئی وِل کل یُو ریحا۔“ اتنا شدید دماغ اُبلا تھا کہ وہ ضرور ایک آدھا اسے لگا دیتا اگر وہ بھابی کی آغوش میں نہ دبکی ہوتی۔ یقینا اب ان کی لڑائی سنجیدہ ہو چکی تھی تب ہی طلال نے مداخلت ضرور سمجھی تاکہ طالب کا موڈمزیدنہ بگڑے۔
”چل دفع کر ناں یار، اچھا ہی ہے۔ زیادہ پڑھی لکھی بیوی بھی سر کھاتی ہے اور ریحا تو ویسے ہی ماشاءاللہ تمہیں بیچ کر کھاجائے گی۔ ایم اے کر لیا تو سب سے پہلے تمہاری معاشیات کا بیڑہ غرق کرے گی۔“
”عورت ے لیے تعلیم بہت ضروری ہوتی ہے طلال کیونکہ اس نے آنے والی نسل کی تربیت کرنی ہے اور ایک باشعور، پڑھی لکھی عورت ہی ہماری نسل کو بہتر پروان چڑھا سکتی ہے۔ اس ملک کو، ایسی نسل ہی چاہیے۔ دنیا میں آگے، بہت آگے جانے کے لیے۔“ اس نے نئی بحث کا آغاز کر دیا جس پر ریحاب دانت کچکچا کر رہ گئی۔
”طالب پلیز بس کر دو۔“
”شٹ اَپ ریحاب اور پلیز تم مجھ سے بات نہ کرو تو بہت اچھا ہے۔“ وہ یقینا بہت سنجیدہ تھا۔ ریحا جانتی تھی کہ اس کی تعلیم کے لیے وہ بہت کریزی تھا۔ بلکہ وہ تو ہر انسان کی تعلیم کے لیے یوں ہی پاگل تھا۔ یہاں تو پھر سوال اس کا تھا، جس سے اس کا مستقبل وابستہ تھا،اس کی آنے والی نسل کا مستقبل وابستہ تھا۔ اس کے لیے وہ کبھی کمپرومائز کر ہی نہیں سکتا تھا، کبھی نہیں۔
”کاش تم میرا پیپر دے سکتے۔“ وہ اس کی خفگی سہہ نہیں سکتی تھی اس لیے مریل اندازمیںبولی تو طالب بھی نرم پڑگیا۔
”پیپر نہیں دے سکتا لیکن تیاری تو کرا سکتا ہوں، تمہیں پڑھا تو سکتا ہوں۔ دیکھو ریحا، تم دل سے معاشیات پڑھو اور تمہارے اندر جو اس سبجیکٹ کو لے کر چڑ ہے اسے نکال دو۔ آئی بلیو، تم ضرور کلیئر کرو گی۔“ وہ غصہ بھول کر اسے سمجھانے لگا۔
بات تو ریحا کو ہر حال میں اس کی ماننی تھی کیونکہ ایجوکیشن کے معاملے میں بابا بھی اپنے بھانجے کی طرح سخت تھے سو مرتی کیا نہ کرتی، اسے ماننا تو بہرحال تھا۔
”اوکے مگر ایک شرط ہے تم مجھے ابھی آئس کریم کھلا کر لاﺅ گے۔“
”جان بھی مانگو گی تو مان لوں گا مگر….“
”ماسٹرز کرنا ہے۔“ ریحا نے اس کی بات مکمل کی۔
”ڈیٹس رائٹ اے گڈ گرل! چلو چلتے ہیں۔“
”امی سے پوچھ لو۔ پیپر رہ جانے پر Punish ملی ہے مجھے۔ باہر کہیں بھی جانا بند۔“ ریحا نے منہ بسورا تو وہ مامی کے پاس کچن میں چلا آیا اور ہاتھ پکڑ کر انہیں باہر لاﺅنج میں لے آیا۔
”مامی میرا وعدہ ہے آپ سے کہ اس بار یہ معاشیات میں کلیئر ہو گی۔ میں ذمہ داری لیتاہوں مگر آپ اتنی ظالم تو نہ بنیں۔ کیوں آپ نے اتنی نازک سی لڑکی کو باندھ کر رکھا ہے۔ جانے دیں ناں ہمیں۔“
”کہاں؟“
”آئس کریم کھانے۔“
”طالب تم نے ہی بگاڑا ہے اسے اتنی فیور لے کر۔“ وہ بگڑیں۔
”بھگتنا بھی تو مجھے ہی ہے ناں، ڈیئر مامی۔ یُو ڈونٹ وری۔ اس لڑکی کو اب میں سیدھا کروں گا۔ بس آج جانے دیں۔“
”اچھا مگر آدھے گھنٹے کے لیے۔“
”مامی خود انصاف کریں۔ آپ کی دختر آئس کریم بھی صدر کی پسند فرماتی ہیں اگر میں تیز بائیک بھی چلاﺅں تو بیس منٹ لگ جائیں گے اور….“
”بس بس تقریر نہیں، صرف ایک گھنٹہ، مزید ایک منٹ بھی نہیں۔“
وہ جانتی تھیں کہ اس نے پورا ٹائٹ ٹیبل گنوا دینا تھا سو فوراً ہی بول پڑیں۔
”یا،ہُو! مائی سویٹ مامی! آپ اتنی اچھی ہیں تب ہی تو ماموں اتنا چاہتے ہیں آپ کو۔ بلیو می، ایک گھنٹہ سے زیادہ نہیں۔“ اس نے انہیں گھورا تھا۔
”تمہیں ذرا شرم نہیں ہے طالب، ہٹو پرے۔“ وہ خود کو چھڑا کر چلی گئیں۔
”میر لیے لانا مت بھولنا۔“ طلال نے آرڈر دیا۔
”تیری بیگم کے باپ کا مال ہے ناں میری جیب میں، جو لٹاتا پھروں۔“ کورا جواب دے کر وہ باہر نکل گیا، طلال ناک منہ بنا کے رہ گیا۔
ض……..ض……..ض
اس نے کالج کے کھلے گیٹ کے باہر قدم رکھا ہی تھا جب پسینے سے شرابور بائیک سے ٹیک لگائے وہ کھڑا نظر آیا۔ شاید اس کی نظر بھی ریحا پر پڑ گئی تھی تب ہی وہ بائیک اسٹارٹ کرنے لگا۔
”حد ہو گئی پورے پچیس منٹ ہو گئے مجھے یہاں ذلیل ہوتے ہوئے اور محترمہ اب تشریف لا رہی ہیں۔ اندازہ ہے تمہیں مئی کا مہینہ چل رہا ہے۔ کس قدر گرمی ہوتی ہے اس وقت۔“ وہ تقریر شروع کر چکا تھا ریحاب نے اکتائے ہوئے انداز میںاسے دیکھا پھر چہرے پر آیا پسینہ صاف کرتی بائیک پر ٹک گئی۔
”تمہاری تقریر کا دورانیہ بھی چند منٹ پر محیط ہو چکا ہے۔ اب تمہیں گرمی نہیں لگ رہی۔“ اس کے اطمینان پر طالب نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور بائیک اسٹارٹ کر دی اور ان کے گھر کے عین سامنے لا کر ہی بریک ماری۔
”اترو، مرو اب۔“
”اور تم اتنی گرمی اور خراب حالت میں گھر جاﺅ گے۔ چلو اندر۔ کچھ دماغ ٹھنڈا کر لو پھر جانا۔“ ریحا ب ضیاءسے مزید بحث کرنے کے بجائے وہ اُتر کر اس کے ساتھ آ گیا۔
”اُف توبہ یار۔ اتنی گرمی۔“ اندر آتے ہی وہ طلال کی گود میں گر گیا جو خود بھی ابھی کالج سے لوٹا تھا۔ اس کی اپنی حالت بھی بدتر تھی۔
”تو میرے گلے کا ہار مت بن۔ مارے گا کیا مجھے۔“
”میں تمہارے لیے لیموں پانی لاتی ہوں، تم اپنی پسینہ خشک کرو۔“ بھابی نے اسے پسینے سے نہاتے دیکھ کر کہا۔
”یار تم اٹھ کر نہا لو۔“ طلال نے کہا۔
”نہا تو گیا ہوں پورے کا پورا۔“
”صاف پانی کا غسل لے لو، ورنہ ہم سب مر جائیں گے۔“ اس نے ناک پکڑی۔
”دماغ تو ٹھنڈا ہونے دو۔“ وہ پنکھے کے عین نیچے آ بیٹھا۔ سر درد سے ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔
”آئی ایم سوری طالب! میری وجہ سے تمہیں اتنی گرمی میں آنا پڑا۔“ وہ فریش ہو کر آئی تو طالب کو اپنا سر پکڑتے پا کر بولی۔
”اٹس او کے یار۔“ کتنی افسوس کی بات تھی کہ وہ اکثر اس کے ساتھ زیادتی کر جاتی تھی مگر مجال تھا جو وہ برا مانتا ہو ی اکبھی غصے میں آتا ہو۔
”کبھی کبھی میں بہت سیلفش ہوجاتی ہوں حالانکہ میں خود سے آ سکتی تھی مگر پھر بھی جان بوجھ کرتمہیں پریشان کیا۔“
’کم آن ریحا، کس طرح بی ہیو کر رہی ہو تم۔ اگر ہم ایک دوسرے کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے تو کیا فائدہ اس رشتے کا جو ہم میں ہے۔ تم میری کزن ہو، فرینڈ ہو یار، اتنا تو میں تمہارے لیے کر ہی سکتا ہوں ناں اور پھر انسانیت کے ناطے ایک دوسرے کے کام آنا ہمارا فرض ہے۔“
”اور اب جو تمہارے سر میں درد ہے وہ….“
”وہ تو گرمی سے ہے اور یُو نو گرمی کے موسم میں یہ درد تو مجھے رہتا ہی ہے۔ لیکن اس کی ذمہ دار تم تو نہیں ہو۔ میں گرمی برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ میری کمزوری ہے۔“
”ہاں لیکن میں جانتی تھی کہ گرمی سے تمہاری طبیعت اکثر خراب ہو جاتی ہے پھر بھی ضد کی۔“
”آج خیر ہے ناں، بڑی ہمدردی ہو رہی ہے تمہیں مجھ سے۔“ اب اس کے لبوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔
”کیوں صرف تمہیں ہی میرا خیال ہے۔ میں تمہارے لیے نہیں سوچ سکتی۔“
”آف کورس، صرف تم ہی میرے لیے سوچ سکتی ہو اور سوچو، کیونکہ میں گھر جا رہا ہوں۔“ یکدم ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”کھانا کھا کر چلے جانا۔“
”اوں ہوں، امی ویٹ کر رہی ہوں گی۔ اوکے گڈ بائے۔“
”بائے اینڈ تھینک یُو۔“ طالب نے مسکرا کے اسے دیکھا اور ہاتھ ہلاتا باہر نکل گیا۔
وہ اس کا پھوپی زاد تھا۔ یوں تو وہ خاندان کے ہر فرد کا ہی خیال رکھتا تھا کیونکہ اوپر والے نے اس کے اندر رحم، ہمدردی جیسے جذبات کوٹ وٹ کر بھرے تھے مگر ریحاب ضیاءکی ہر بات وہ حکم کی طرح مانتا تھا۔ یہ بات کسی سے قطعی چھپی ہوئی نہیں تھی۔ سب بخوبی جانتے تھے اور وہ چھپانے کا قائل تھا بھی نہیں، تب ہی تو جب اس نے محسوس کیا ریحاب ضیاءاس کے لیے کزن اور دوست دونوں سے بڑھ کر کچھ اور ہے تو اس نے دیر نہیں کی تھی امی سے کہنے میں اور ضیاءاحمد کا تو وہ چہیتا بھانجا تھا۔ وہ کیسے منع کرتے…. یوں سادگی سے ان کی منگنی کی رسم ادا کر دی گئی۔
ریحا کو وہ ہر لحاظ سے پسند تھا کیونکہ ابوطالب میں واقعی ایک اچھا انسان ہونے کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ ہاں بعض عادتیں ریحا کو اس کی خوبی سے زیادہ بیماری لگتی تھیں، جیسے ہر شخص کے لیے ضرورت سے زیادہ فکر کرنا اور اس کی ایمانداری، جس پر وہ ایک لفظ سننا برداشت نہیں کرتا تھا مگر ریحاب بھی عادت سے مجبور تھی۔ جب تک اسے ٹوک نہ لیتی اسے بھی سکون نہیں ملتا تھا۔ حالانکہ وہ جانتی تھی سب بے سود ہے۔ ابوطالب کو بدلنا ممکن نہیں۔
ض……..ض……..ض
”بھابی پلیز! آپ اس بددماغ لڑکی کو سمجھائیں کہ ہم یہاں اپنے ملک میں رہ کر بھی کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ پھر کیوں یہاں سے باہر جائیں محض پیسے کمانے کے لیے۔“
”مگر تمہیں تو چانس مل رہا ہے، میں زبردستی تو نہیں بھیج رہی ہوں تمہیں۔ آفر ہے تو ضرور جاﺅ۔ دو تین سال کی تو بات ہے…. یُو نو طالب، یہ تین سال تمہاری لائف بدل سکتے ہیں۔“
اس نے اپنی بات پر ڈٹے رتے ہوئے کہا مگر طالب اس سے قطعی ایگری نہیں تھا۔
”ریحاب! تین سال کم نہیں ہوتے۔ تین سال میں بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ اتنے عرصے میں یہاں انتھک محنت کروں تو….“
”تم اچھی طرح جانتے ہو ابو طالب کہ تم تین کیا تیس سال بھی یہاں اپنی جان لگا کر کام کرو تو تمہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا، سوائے ذہنی ٹینشن کے۔ اس ملک میں صرف بے ایمان اور کرپٹ لوگ ترقی کر سکتے ہیں، تم جیسے ایماندار اور سچے انسان کے لیے یہاں صرف مشکلات ہیں اور بس۔“ وہ غصے سے بولی۔ ابوطالب نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”تم اپنے ملک کے لیے اتنی چھوٹی سوچ رکھتی ہو۔ یہ محبت ہے تمہیں اس مٹی سے۔“
”محبت ہے مجھے اس ملک سے، اسی لیے تو دکھ ہوتا ہے اس کا یہ حال دیکھ کر۔ دل دکھتا ہے جب ہم جیسے لوگوں کو اس ملک میں…. طالب پلیز! تم آنکھیں بند کر کے جب تک چاہو جی سکتے ہو۔ اپنے ان خوابوں کو لے کر مگر ہم آنکھیں کھول کر جیتے ہیں۔ تب ہی تمہیں کہہ رہے ہیں۔ فار گاڈ سیک! اپنے سر سے یہ جنونی محبت کا بھوت اتار کر دیکھو۔ یہاں تمہارا کوئی فیوچر نہیں ہے۔ پلیز! اس آفر کو ہاتھ سے مت جانے دو۔“
”ریحا ٹھیک کہہ رہی ہے طالب۔ اتنی اچھی آفر کو یوں مت ٹھکراﺅ۔ ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔“
”طلال تم بھی….“ طالب نے صدمے کی حالت میں طلال کو دیکھا۔ ”یہ تو ناسمجھ ہے لیکن تم تو یار….“
”یہ محض کتابی باتیں ہیں طالب۔ زندگی ان کے سہارے نہیں گزاری جاتی ہے۔ ٹھیک ہے ہمیں بھی اس ملک سے محبت ہے۔ میں تمہاری سوچ کی قدر کرتا ہوں۔ تم ان تین سالوں میں جو کماﺅ گے اس کے بعد یہاں آ کر تم اپنے ملک میں اپنا وہ تجربہ لگاﺅ۔ ساری عمر یہیں رہنا ہے تمہیں۔“
”بہت افسوس ہو رہا ہے مجھے ضیاءماموں کے بچے یہ سوچ رکھتے ہیں۔“ اس نے افسردگی سے کہا۔
”ہاں تو بابا نے کیا پایا ہے اس حب الوطنی اور ایمانداری سے۔“ ریحاب نے جذباتی انداز میں کہا۔
”کیا؟ ریحا ماموں نے تم لوگوں کو کبھی کسی چیز کی کمی ہونے دی۔ ہر نعمت دی ہے انہوں نے، تم لوگوں کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ اسی ملک میں رہتے ہوئے، اپنی ایمانداری کے ساتھ۔ لاکھوں لوگوں سے اچھی زندگی گزار رہے ہو تم لوگ۔“
”مگر اتنا عرصہ اگر بابا کسی دوسری کنٹری میں محنت کرتے تو ہم شاندار گھر بنا سکتے تھے، گاڑیاں ہوتیں ہمارے پاس اور اب صرف یہ پانچ مرلے کا عام سا گھر، ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی، وہ بھی اب ارشد بھائی نے لے لی ہے۔ مجھ سے ایسی زندگی نہیں جی جاتی۔ یہاں بھی اور پھر شادی کے بعد بھی، گھٹ گھٹ کر، اپنی خواہشات مار کر جینا۔ بس تم باہر جاﺅ گے۔“
”میں کہیں نہیں جارہا اور اگر تمہیں لکژری لائف چاہیے تو تم جیسے چاہو زندگی گزار سکتی ہو۔ اپنی ایمانداری کو داﺅ پر لگا کر میں کبھی بھی تمہاری خواہشات پوری نہیں کر سکوں گا۔ یہ بات میں ابھی کلیئر کر دیتا ہوں۔ سو میرا یہ فیصلہ ہے کہ میں تم سے دستبردار ہوتا ہوں تاکہ تم ساری عمر گھٹ گھٹ کر زندگی نہ گزارو۔ آج کے بعد ہم صرف کزنز ہیں اینڈ enough۔“ وہ بہت سنجیدہ تھا۔ اس کے بھنچے لب، پیشانی کے بل اور چہرے کی سختی گواہ تھی کہ وہ جو کہہ رہا ہے، اسے کرنے کا پورا عزم بھی رکھتا ہے۔ ریحاب تو جذباتی تھی، بے سوچے سمجھے بولتی تھی مگر بھابی جانتی تھیں کہ طالب اس وقت بہت غصے میں آ گیا ہے۔
”طالب تم اس کی فضول سی بکواس پر کیوں اپنا بلڈپریشر ہائی کر رہے ہو۔ تم وہی کرو جو تم بہتر سمجھتے ہو، کیونکہ مستقبل تو تمہارا ہے ناں۔“ بھابی معاملہ سنبھال رہی تھیں مگر ریحا جانے کیا سوچے بیٹھی تھی۔
”بھابی صرف اس کا نہیں، مستقبل میرا بھی ہے۔ آپ اسے سمجھانے کے بجائے اس کی سائیڈ لے رہی ہیں۔“
”ریحا چپ کرو تم۔“ بھابی نے اسے ڈانٹا، تب ہی امی بھی وہاں کی صورتحال دیکھ کر آ گئیں اور طالب کا سرخ ہوتا چہرہ انہیں فکرمند کر گیا۔
”کیا ہوا، کیا مسئلہ ہے؟“
”مامی، آپ کی بیٹی کا مستقبل میرے ساتھ صرف خراب ہو سکتا ہے اس لیے آپ اس کے لیے کسی ایسے شخص کو تلاش کریں جو کروڑوں کے بنگلے اور چار پانچ گاڑیاں رکھتا ہو کیونکہ میں اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں کر سکتا۔“ وہ اپنی بات مکمل کرکے رکا نہیں تھا۔ طلال اس کے پیچھے بھی گیا مگر وہ غصے میں تھا۔ امی الگ ہراساں ہو گئی تھیں۔ مذاق تو وہ کرتا رہتا تھا۔ ریحا کی اور اس کی جھڑپ بھی ہوتی رہتی تھی مگر وہ کبھی اتنا غصہ نہیں کرتا تھا اور ان کے ساتھ اس طرح کی بات، وہ بھی اتنے سخت لہجے میں۔ انہں نے ریحا کو دیکھا، جو خود بھی غصے میں تھی اور پیر پٹختی اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔
طلال افسوس سے سر ہلانے لگا۔ ابوطالب اور اس کی سوچ بھی مختلف تھی اس لیے اکثر وہ بحث سے گریز کرتا تھا مگر ریحا نے آج جو بھی کہا، وہ سراسر غلط تھا اور طالب کا غصہ بالکل جائز تھا۔
ض……..ض……..ض