یونیورسٹی سنسان پڑی تھی۔ ایگزامز شروع ہونے والے تھے۔ اکثر طلبہ گھر بیٹھے تھے اور کچھ لائبریری میں تجلی فرما تھے۔ سب کا ایک ہی مسئلہ تھا، ایگزامز!
وہ اور سارہ بھی لائبریری میں بیٹھے تھے۔ ایک سارہ تھی، صدا کی پڑھاکو اور ایک وہ تھی جو بس دکھاوے کی پڑھائی کرتی تھی ۔ آج بھی سارہ ہی اسے زبردستی کھینچ لائی تھی اور وہ کتاب کے اندر ناول رکھے بڑی دلچسپی سے"پڑھ" رہی تھی۔ اسے بوریت ہونے لگی تو اس نے ناول بھی بند کر کے رکھ دیا۔ اسے بار بار وہ شخص یاد آ رہا تھا۔ اسے کبھی ان لڑکوں میں دلچسپی نہیں رہی تھی اور نہ اب تھی مگر وہ پاگل آدمی اس کی نیندیں حرام کر گیا تھا۔ ایسا بالکل نہیں تھا کہ وہ اس سے متاثر ہوئی ہو۔ ظاہر ہے ،اسے وہ چھچھورا انسان کیسے پسند آ سکتا تھا؟ اسے افسوس تھا کہ اتنا اسمارٹ بندہ کیوں ان چکروں میں پڑ گیا۔ بے اختیار اس کا دل چاہا تھا کہ کوئی معجزہ ہو اور وہ بچ جائے ان گناہوں سے۔ اس شخص کی دنیا اس کی دنیا سے بہت مختلف تھی۔ وہ ہر مشکل سے آزاد، کسی امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جبکہ وہ ایک متوسط گھرانے سے۔ اس کی دنیا اس کے بابا تھے، اس کی کل کائنات،اس کی دعاؤں کے محور، لیکن اب اس کی دعاؤں میں ایک اور شخص شامل ہو گیا تھا۔ ایک ایسا شخص جسے وہ نہیں جانتی تھی مگر ہر دعا میں اس کے لئے ہدایت مانگتی۔ گلٹ کا احساس تھا جو اسے سکون نہیں لینے دیتا تھا۔ خواہ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، وہ جانتی تھی کہ اسے کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ اس کی ذات، اس کے کردار پر تنقید کرے۔ وی نہیں جانتی تھی کہ اس شخص کی شخصیت ایسی کیوں تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ زندگی میں کن حالات کا سامنا کرتے ہوئے اس نہج پر پہنچا تھا مگر اس نے انجانے میں ایک غلط کام کر ڈالا تھا۔ اگر اسے کبھی موقع ملتا تو ضرور اس سے معافی مانگتی۔۔۔۔
x----------x
عمر اور شجاع تو تھے نہیں کہ وہ ان کے ساتھ ٹائم پاس کرتا۔ اس لئے وہ فارغ ٹائم میں لائبریری چلا جاتا۔ ویسے بھی ایگزامز ہونے والے تھے، اسے محنت کرنی تھی تاکہ فہد کو پروو کر سکے کہ وہ بدل رہا ہے۔ لائبریری کے پرسکون ماحول میں خاموشی سے مطالعہ کرنا اس کےلئے نہایت صبر آزما تھا، مگر وہ مجبور تھا۔ گھر میں فہد اور علی کی موجودگی میں پڑھائی کرنا ناممکن تھا سو لائبریری ہی ان دنوں اس کی قیام گاہ تھی۔ اس دن وہ لائبریری میں بے مقصد گھوم رہا تھا۔ بلیو جینز پر گرے ٹی شرٹ پہنے، وہ ہمیشہ کی طرح بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔ ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے، دوسرے ہاتھ کو تھوری تلے رکھے وہ بکس پر نظر ڈالتا گزر رہا تھا۔۔۔۔
علیزہ نے جب دیکھا کہ سارہ کا ابھی اٹھنے کا کوئی موڈ نہیں تو وہ اکیلی ہی کھڑی ہو گئی اور ناول واپس رکھنے چل دی۔ بک شیلف پہ اس ناول کی جگہ کافی اوپر تھی۔ وہ پنجوں کے بل کھڑی ہو کر اسے رکھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ گھس ہی نہیں رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور نرمی سے ناول اس کے ہاتھوں سے لے کر کتابوں کے درمیان رکھ دیا۔ علیزہ نے سکون کا سانس لیا اور اس کی طرف مڑی، "تھینک۔۔۔" جملہ اس کے منہ میں ہی رہ گیا، وہ ساکت کھڑی رہ گئی۔ محمد احمد نامی وہ اجنبی شخص اس کی آنکھوں کے سامنے موجود تھا۔
احمد بےحس و حرکت کھڑا تھا۔ یہ وہی لڑکی تھی جس سے بک فیئر میں اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کی تلخ باتیں یاد آئیں تو احمد کے چہرے کا زاویہ بگڑا۔ وہ مڑ کے جانے ہی والا تھا کہ،
"آئی ایم سوری!" وہ لڑکی سر جھکائے کھڑی کہہ رہی تھی۔ اس کے لہجے سے ندامت ظاہر تھی۔ "آئم رئیلی سوری! مجھے اس دن آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیۓ تھی۔ ۔یں جانتی ہوں کہ کسی کے ظاہر سے اس کے باطن کے بارے میں اندازے نہیں لگانے چاہیئے مگر میرے ذہن میں آپ کا کافی برا امیج بنا ہوا تھا تو میں فضول میں آپ سے مس بیہیو کر گئی اور مجھے اس بات کا افسوس ہے۔میرے پاس آپ کو جج کرنے کا کوئی رائٹ نہیں تھا۔ یہ اللہ کے اختیار میں ہوتا ہے کہ کس کو کب ہدایت دے۔ مجھے اس بات کا خیال نہیں رہا کہ میرا کوئی برا فعل کسی کو ہدایت سی دور بھی کر سکتا ہے۔۔۔" وہ روانی میں بولتی جا رہی تھی اور احمد کے ذہن سے ساری بد گمانیاں دور ہوتی گئیں۔ وہ حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ آج اس نے اسے ایک نئے روپ میں دیکھا تھا۔ اسے لگا کہ یہ وہ اکھڑ مزاج لڑکی نہیں تھی جس سے وہ اس دن ملا تھا۔ اس کے زہر خند الفاظ آج شہد کی مٹھاس لئے ہوئے تھے، لیکن لہجہ ویسا ہی تھا، بے لچک اور دو ٹوک۔
وہ لمحے بھر کو رکی اور پھر دھیمے لہجے میں بولی، " لیکن بات دراصل یہ ہے کہ ہدایت یونہی نہیں مل جاتی۔ اللہ بندے کو سب کچھ بن مانگے عطا کر دیتا ہے مگر ہدایت ایک ایسی نعمت ہے جو صرف مانگنے سے ملتی ہے۔" وہ لڑکی چلی گئی اور احمد وہیں جامد کھڑا رہا۔۔۔
علیزہ تیز تیز قدم اٹھاتی واپس سارہ کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ وہ مطمئن تھی۔ اس نے اپنے رویے کی معافی مانگ لی تھی۔ اب وہ پر سکون تھی اور اس کے دل میں کوئی خلش باقی نہ تھی۔ بندہ اگر حقوق اللہ میں کوتاہی کرے تو بے شک اللہ بہت معاف کرنے والا ہے لیکن حقوق العباد میں کوتاہی کی صورت میں اس بندے کا معاف کرنا لازمی ہوتا ہے جس کی حق تلفی کی جائے اور آج قدرت نے اسے موقع عطا کر دیا تھا، وہ اس موقعے کو ضائع کرنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی سو اس نے وہی کیا جو اسے ٹھیک لگا۔ وہ شخص اسے کافی حیران لگ رہا تھا۔ شاید اسے اتنے بدلے ہوئے رویے کی امید نہیں تھی اس سے، اسی لئے شاک میں تھا۔ اسے لگا وہ اس شخص کو کبھی نہیں بھلا پائے گی۔ وہ نہیں جانتی تھی اس کی وجہ مگر کچھ معاملوں میں ہم بے بس ہوتے ہیں۔ کچھ جذبے بے اختیار ہوتے ہیں، ان میں ہماری مرضی نہیں چلتی، وہ خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں۔
"علیزہ یار! چلتے ہیں بس، بہت پڑھ لیا۔" سارہ کی آواز نے اسے سوچوں کے سمندر سے نکالا اور وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔
x----------x
کچھ دن بعد عمر خان اور مہوش بھی آگئے۔ سب کو بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ اب وہ مستقل یہیں رہیں گے۔
"تم نہیں جانتے کہ میں نے یہ بات کتنی مشکل سے اپنے پیٹ میں رکھی تھی۔ میرا بس چلتا تو ہر جگہ اعلان کرتا پھرتا۔ مگر ابا نے یہاں بھیجنے سے پہلے مجھ سے سو مرتبہ وعدہ لیا تھا اس لئے مجھے زبان بند رکھنی پڑی۔ ان سے لڑو جا کر، مجھے کیوں کوسے جا رہے ہو؟" فہد زچ ہو کر بولا۔ جب سے احمد کو یہ خبر سنائی تھی، اس دن سے وہ اسے برا بھلا کہے چلا جا رہا تھا کہ آتے ہی کیوں نہ بتا دیا۔
"کتنے ناشکرے ہو تم! یہ نہیں کہ اس پہ خوش ہو جاؤ کہ ہم دوبارہ آگئے ہیں،ایک ہی بات کا رونا روئے جا رہے ہو۔"
مسئلہ یہ نہیں تھا۔دراصل اس سے اپنی خوشی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اظہار کیسے کرے۔
"کل تک تو میں صرف بد تمیز، فلرٹ اور اناپرست تھا، لو آج ناشکرا بھی ہو گیا۔ اور کچھ رہ گیا ہے مولانا صاحب؟ کچھ دن بعد میں کافر تو نہیں بن جاؤں گا؟" وہ خفگی سے بولا تو فہد ہنس دیا۔ اتنے میں علی منہ پھلائے اندر آیا۔
"ارے یہ چھوٹو کو کیا ہوا ہے؟" فہد نے پوچھا۔
"میں آپ دونوں سے سخت ناراض ہوں۔ خود تو مزے سے خوش گپیوں میں لگے رہتے ہیں،مجھے تو بھول ہی گئے ہیں، ہونہہ!" اس نے کسی ضدی بچے کے سے انداز میں کہا۔
"یار علی! کالج میں آ گئے یو۔ ابھی تک فیڈر پینے والے بچے کی طرح بات کرتے ہو۔" احمد کو ہنسی آگئی۔
"چھوڑو چھوٹو اس کو، یہ ہے ہی ایسا۔۔۔" فہد نے کہا تو احمد دوبارہ ہنس دیا۔ (مجھے یقین ہے کل کو مجھے کافر کہتا پھرے گا)
"آپ کو بہت ہنسی آ رہی ہے ناں! ابھی اگر میں کالج بوائے جیسی باتیں کرنے لگ گیا تو ساری ہنسی ختم ہو جائے گی احمد بھائی! سوچ لیں آپ، لیول بڑھ جائے گا میرا۔" وہ جتا کر بولا۔
"اوہو! دیکھ رہے ہو فہد! تمہارے چھوٹو کے کیسے پر نکل آئے ہیں." احمد نے اسے پیار سے گھورا۔
"ارے مجھے یاد آیا، احمد بھائی کے تو ایگزامز ہونے والے ہیں۔ یعنی اب یہ پڑھیں گے اور ہم دونوں تفریح کریں گے۔ میں نے بابا سے کہہ دیا تھا کہ اب سے بھائی کو پڑھائی کے لئے پرسکون ماحول فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔ سو آج سے ان کا سوشل بائیکاٹ!" علی مزے سے کہہ رہا تھا اور احمد اسے حیرت سے تک رہا تھا۔
"کیا بریلیئنٹ آئیڈیا ہے۔" فہد نے احمد کو دیکھتے ہوئے کہا اور علی کو کمرے سے لے کر یہ جا وہ جا اور احمد سوچتا رہ گیا کہ یہ کیا ہوا۔، پھر وہ بھاگتا ہوا کمرے سے باہر نکلا مگر وہ دونوں اسے منہ چرا کے بائیک پہ روانہ ہو گئے۔
x----------x
ایگزامز آئے اور چلے گئے۔ پروفیسر ہادی کی لائق بیٹی نے ہمیشہ کی طرح اچھے نمبر لئے۔ سارہ نے بھی اچھا اسکور کیا۔ علیزہ نے ابا سے جاں کی اجازت چاہی مگر وہ کسی صورت راضی نہ ہوئے، فارغ وہ رہ نہیں سکتی تھی۔ اس نے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ کافی سارے کورسز تھے اس کی نظر میں کہ کبھی زیادہ بوریت ہو تو ان سے کام چلائے۔
x----------x
محمد احمد کے بھی اچھے نمبر آئے، کم از کم پچھلی دفعہ سے زیادہ ہی تھے۔ نالائق سے لائق تک کا سفر اتنی جلدی تو نہیں طے یا جاتا۔ بچپن سے وہ ایک بزنس مین بننا چاہتا تھا اور اب فہد بھی اس کے ساتھ تھا۔ یونی ختم ہوئی تو ان دونوں نے بزنس اسٹارٹ کر لیا۔۔۔ دونوں بھائی بہت خوش تھے کہ ان کے بیٹے ان کی امیدوں پر پورے اترے۔۔۔۔
تین سال کی جان توڑ محنت کے بعد وہ سوسائیٹی میں ایک کامیاب بزنس مین جانا جانے لگا۔ ان تین سالوں میں احمد نے بہت محنت کی۔ خود کو پورے کا پورا بدل ڈالا۔ بہت سی چیزیں وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ نیکی کی راہ آسان نہیں ہوتی، جنت یونہی نہیں مل جاتی۔ اس کے لئے جی مارنا پڑتا ہے، کانٹوں بھری راہگزر پہ چلنا پڑتا ہے کہ پھولوں کی سیج مفت میں نہیں حاصل ہوتی۔
وہ مغرور، بد دماغ شخص اب بدل گیا تھا۔ اسے عادت تھی لوگوں کو خود سے خوفزدہ دیکھنے کی۔ اسے مزہ آتا تھا دوسروں پر رعب ڈالنے میں۔ اسے طاقت کا زعم تھا، دولت پہ غرور تھا، مگر اس نے چھوڑ دیا۔ اپنے رب کی رضا کے لئے اپنے یار تک چھوڑ آیا۔ ماضی کا یہ باب اس نے بند کر دیا اللہ کے لئے اس نے وہ تمام چیزیں چھوڑ دیں جن سے اسے محبت تھی۔ وہ گناہ جو وہ کر چکا تھا، توبہ کر لی ان سے، اور سچی توبہ! کبھی دوبارہ نہ کرنے کا عہد تھا جو اس نے اپنے مالک سے کر لیا تھا۔ ایسا عہد جو اسے اب زندگی بھر نبھانا تھا۔۔۔ اسے یاد تھے اس لڑکی کے الفاظ، "ہدایت ایک ایسی نعمت ہے جو صرف مانگنے سے ملتی ہے۔" ہدایت! ہدایت مانگی اس نے گڑگڑا جر، اپنے مہربان رب سے۔ ہر نماز کے بعد وہ رورو کر دعا کرتا،
"الہی! معاف کرنا تیرے اختیار میں ہے۔تیرا نافرمان، گناہگار بندہ تیرے در پہ ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ گناہوں سے توبہ کرتا ہوں مالک! ہمیشہ کے لئے وفادار بننے کا عہد کرتا ہوں۔ جو ہو چکا ہے، جو کر چکا ہوں، اس کو بدل نہیں سکتا، مگر ماضی نہیں تو مستقبل تو بدل سکتا ہوں. مولا! ایک اور موقع دےدے ، گناہوں کی دلدل سے نکلنا چاہتا ہوں۔ تو سب سے زیادہ غفور و رحیم ہے۔ دوبارہ رجوع کرتا ہوں آقا! رحم و کرم کے خزانے سے مجھے بھی فیضیاب کر دے۔ آپ کے غضب سے ڈرتا ہوں، پلیز گناہ معاف کر دیں۔ جہنم کی آگ سے بچا لیں، یا اللہ! تیری پکڑ بڑی سخت ہے، کوتاہیوں سے درگزر فرما اور سیدھی راہ پر چلا دے۔ تجھ سے ہدایت مانگتا ہوں الہی! بن مانگے سب کچھ عطا کر دیا ہے، جو مانگ رہا ہوں وہ بھی عطا کر دے۔۔۔"
اللہ کے خوف سے گرنے والا آنسو بے شک چھوٹا ہی کیوں نہ ہو لیکن اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ سمندر کے برابر گناہ مٹا دیتا ہے۔