فاطمہ کو گزرے چار دن ہو چکے تھے۔ علیزہ کی حالت اب قدرے بہتر تھی۔ ابا نے اسے کل سے یونی جانے کو کہا تھا۔آج وہ اپنی امی کا سامان دیکھ رہی تھیتو اسے ایک ڈائری ملیمگر وہ پوری خالی تھی۔ آخری صفحہ پر فقط ایک سطر درج تھی، "اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان کو ہدایت دے۔" علیزہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہاں کن لوگوں کی بات ہو رہی تھی۔۔۔ اس ڈائری کے ساتھ ایک لفافہ منسلک تھا، خوبصورت سا لفافہ۔ اس کے اندر سے ایک تہہ شدہ صفحہ نکلا۔ وہ غیر ارادی طور پر اسے پڑھنے لگی تو معلوم ہوا کہ وہ اس کے لئے ہی تھا، ایک خط۔۔۔! جس کی پہلی لائن تھی، "میری پیاری بیٹی علیزہ!" آنسو اس کی پلکوں پہ مچلنے لگے۔ وہ خط پڑھتی گئی۔۔۔
"میری پیاری بیٹی علیزہ!
جس وقت تمہیں یہ خط ملے تو شاید میں تمہارے پاس نہ ہوں۔ اس خط میں میں اپنی ایک ایسی خواہش لکھ رہی ہوں جو میں تم سے اپنی زندگی میں نہیں کہہ سکوں گی۔ میں خدا کی بے حد شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے تم جیسی نیک اور فرمانبردار اولاد دی، جو ایک اچھی بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک اچھی مسلمان بھی ہے۔
مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں تم برا نہ مان جاؤ۔ ہم نے کبھی تم پر کوئی زور زبردستی نہیں کی۔۔۔ اسلام ہمیں پردہ کا حکم دیتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ تم اپنے دوپٹے کو فقط سینے پر پھیلانے کے بجاۓ اپنے سر کو بھی ڈھکو اور خود کو مزید محفوظ کر لو۔ میں نہیں چاہتی کہ میری با حیا بیٹی پر کوئی شخص بری نظر ڈالے۔ میں جانتی ہوں کہ تم میری خواہش کا احترام کرو گی مگر تم یہ میرے لئیے نہیں بلکہ اپنے رب کی رضا کیلیئے کرنا، ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی کے قرب کے لئے۔ خدا تمہارا حامی و مددگار ہو۔ آمین!
تمہاری امی!"
"امی، آپ مجھ سےایک بار تو کہتیں، میں آپ کی زندگی ميں آپ کی خواہش پوری کر دیتی۔ آپ سے اجازت لینے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ سوچتی تھی کہ اگر آپ نے منع کر دیا تو کیا کروں گی میں۔۔۔ عورت کی عزت ہی اس کی سب سے قیمتی شے ہوتی ہے، آپ کو کیوں لگا کہ میں برا مان جاؤں گی؟ "
x----------x
اگلے دن وہ یونی کے لئے تیار ہوئی تو دوپٹے کو چہرے کے گرد لپیٹ لیا۔ بلیک کامدار کرتی پر سفید دوپٹہ میں اس کا خوبصورت چہرہ مزید دمکنے لگا۔ وہ اپنا بغور جائزہ لے کرآئنہ کے سامنے سے ہٹ گئی۔ آج وہ انجانی خوشی محسوس کر رہی تھی۔ کلاس میں وہ پورا وقت خاموش بیٹھی رہی۔ دوستی ہار جو گئی تھی، مگر وہ خوش تھی کہ اپنے ماموں کے سامنےکھڑی علیزہ شیح نے پیسہ کو جیتنے نہیں دیا تھا۔۔۔
کلاس سے نکلتے ہوۓ وہ دکھی تھی۔ اسے اپنی دوستیں یاد آ رہی تھيں، "علیزہ! علیزہ!"۔۔۔ شدت سے۔۔۔۔ "علیزہ شیخ!" کوئی زور سے اس کے قریب آ کر پکارا تو وہ چونکی، "ج۔۔ جی؟!" سامنے سارہ حسن کھڑی تھی۔
"اوہ سارہ، السلام علیکم!" "وعلیکم السلام! کن خوابوں میں گم ہیں آپ؟ کب سے آواز دے رہی ہوں۔" وہ خفگی سے بولی۔
"وہ۔۔۔ کچھ نہیں۔ تم بتاؤ، کیا ہوا؟" وہ نادم ہوئی اہر حیران بھی کہ آج کیسے یاد کیا۔۔۔ "اچھی لگ رہی ہو۔" وہ اس کے سراپے پہ نظر ڈال کے مسکرا کر بولی۔ (اوہ تو یہ بات تھی) وہ بھی جوابا مسکرا دی، "تھینکس!"
کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ علیزہ کو زبردستی کینٹین لے گئی۔ اس کا پورا بایو ڈیٹا لے لیا۔کہاں رہتی ہے، کتنے بھائی بہن ہیں، ابو کیا کرتے ہیں، ہابی کیا ہے، دلچسپی کس چیز میں ہے، کیا بننا چاہتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
کافی دن گزر گۓ اور دونوں میں دوستی ہو گئی۔ اتنے دن اس کے ساتھ گزارنے کے بعد علیزہ کو لگا کہ اس نے سارہ کے بارے میں جتنے اندازے لگاۓ تھے سب غلط تھے۔ وہ بہت باتونی اور شوخ طبیعت کی مالک تھی، حد سے زیادہ چلبلی تھی اور چہرے پہ ڈھیروں معصومیت تھی۔۔۔ خدا کچھ لیتا ہے تو بدلے میں اس سے بہتر عطا کرتا ہے اور علیزہ شیخکو خدا نے دے دی تھی، ایک مخلص اور محبت کرنے والی پیاری سی دوست!۔۔۔
"علیزہ کل بک فیئر لگ رہا ہے، چلیں گے ہم دونوں، ٹھیک ہے؟" سارہ کیفےٹیریا میں اس کے سامنے بیٹھی تھی تھی۔ اس سے پہلے کہ علیزہ منع کرنے کے لیئے لب کھولتی، وہ بولی۔
" کل دوپہر چار بجے یے۔ میں آؤں گی تمہیں لینےاور ہم دونوں جائیں گے۔ ویسے تمہارے ابو سے اجازت لےلی ہے میں نے۔" اس نے 'دونوں' پر زور دیا اور مزے سے سلش پینے لگی۔ علیزہ حیرت سے اس کو دیکھے گئی۔(ابو سے اجازت بھی لےلی؟ کیا چیز ہے یہ؟) پھر م۔ہ بنا کر کہا، "تم پوچھ رہی تھی یا بتا رہی تھی؟" اور وہ ہنس دی۔
x----------x
فہد کو آئے ہفتہ ہونے والا تھا۔
"یار میں تو سمجھا تھا بڑا مزہ آئے گا مگر یقین مانو تم لوگوں نے تو بور کر دیا ہے مجھے۔ ایک علی ہے جو روز کالج چلا جاتا ہے اور ایک احمد ہے جو یونی نہیں، کسی فیشن شو میں جاتا ہے شاید! اف اتنا تیار ہے و کر تو میں کسی شادی میں بھی نہیں جاتا۔" وہ سب ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے جب اس نے شکایتوں کا دفتر کھولا۔
"ایک وریشہ ہے جو اسکول چلی جاتی ہے اور ایک حرا ہے جو میری طرف دیکھتی بھی نہیں ہے۔" وریشہ نے لقمہ دیا۔ سب کھلکھلا کر ہنس دیے اور حرا نے مسکرا کر سر جھکا لیا۔
"وریشہ کی بچی! تم کیوں میرے پیچھے لگی رہتی ہو؟ کبھی تو بخش دیا کرو۔" فہد مصنوعی خفگی سے بولا۔
"ایسے کیسے بھئی؟ وہ مجھ سے سیکھ رہی ہے اور وریشہ پہلا رول کی ہے؟" علی نے وریشہ کی طرف دیکھا اور دونوں نے مل کر کہا، " کوئی موقع ہاتھ سے مت جانے دو۔۔۔" سب پھر ہنس دیے۔
"اوہو تو یہ تمہارے کارنامے ہیں چھوٹو!" فہد نے پیار سے اس کے سر پہ بہت ماری۔
"چھوٹو اب بڑا ہو گیا ہے فہد بھائی!" وہ اونچا ہو کر بولا تو فہد نے اس کے گال نوچے۔
"لیکن فہد بھائی کے لیئے وی چھوٹا ہی رہے گا۔"
"کل ایک بک فیئر ہے دوپہر میں۔ تم لوگوں کو جانا ہو تو چلے جانا۔پھر کھا پی کر آ جانا، تفریح بھی ہو جائے گی۔۔۔ اوکے؟"
"واہ تایا، کتنا اچھا آئیڈیا ہے۔ یہ لوگ تو مجھے گھر بٹھا کر بوڑھا ہی کرنا چاہتے ہیں۔" فہد چہک کر بولا۔ "تو پھر ڈن ہے۔سب تیار ہو جانا۔"
"خاص طور پر حرا آپی۔" وریشہ نے شرارت سے کہا۔
"اف!!" فہد نے سر پکڑ لیا۔
x----------x
ہارن کی آواز پر وہ جلدی سے پرس اٹھاتی باہر نکلی۔ سارہ کے ساتھ بُک فئیر جانا تھا۔ سارہ تو گاڑی ایسے بھگا رہی تھی جیسے ابھی اڑا لے جائے گی۔ آج اس نے سارہ کا گفٹ کیا ہوا عبایا پہنا تھا۔
رش تھا مگر بہت زیادہ نہیں۔ وہ دونوں ساتھ کھڑی کتابیں دیکھ رہی تھیں۔ علیزہ ایسی محو تھی کہ اسے پتہ ہی نہ چلا اور سارہ آگے نکل گئی۔ 'خیر ہے'. اس نے سوچا، 'کون سا میں گم ہو جاؤں گی'۔ کافی دیر گزر گئی۔ وہ ایک کتاب پکڑے اس کا ہلکا پھلکا مطالعہ کر رہی تھی۔۔۔
وہ حرا، وریشہ، علی اور فہد کے ساتھ بُک فئیر میں آیا تھا۔ سب الگ الگ نکل گئے۔ وہ بھی کتابوں پر سرسری سی نگاہ ڈالتا آگے بڑھ رہا تھا۔ سامنے والے اسٹال پہ ایک لڑکی کھڑی تھی۔ اس نے نظر اٹھا کے دیکھا اور وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ سیاہ عبایا میں ملبوس وہ لڑکی، میک اپ سے عادی چہرے کے گرد دوپٹہ باندھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی۔ عجب وقار تھا اس میں جو اس کی نظریں خود بخود جھک گئیں۔ مگر وہ بھی محمد احمد تھا، صدا کا فلرٹ۔ یا شاید اس خوبصورت پر نور چہرے کی کشش تھی کہ اس کی نظر بار بار اٹھتی، بار بار جھکتی۔۔۔
وہ محسوس کر رہی تھی کہ سامنے والے اسٹال پہ کھڑا شخص اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں لیا ہوا ہے۔ اسے بے چینی سی ہونے لگی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کیا کرے کہ اتنے میں وہ اس کے پاس آ گیا اور بولا،
"ایکسکیوز می!"
اس نے پہلی مرتبہ نظر اٹھا کے اسے دیکھا اور اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ یہ وہی تھا جسے یونی میں اس نے دیکھا تھا۔ امیر گھرانے کا بگڑا ہوا لڑکا! وہ مزید محتاط ہو گئی۔ "جی؟" اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
"محمد احمد! یو؟" وہ بے تکلفی سے بولا۔
"سوری، آئی ڈونٹ نو یو۔" اس نے روکھے انداز میں جواب دے کر دوبارہ کتاب پر نظریں جما لیں۔
"آپ مجھے نہیں جانتیں،اسی لئے تو میں نے اپنا تعارف کروایا ہے۔ اب آپ کی باری ہے۔" وہ مسکرا رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ سیاہ جینز کے اوپر سرخ ٹی شرٹ پہنے، وہ جانتا تھا کہ بہت ہینڈسم لگ رہا ہے مگر یہ لڑکی تو اسے کسی خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔
"میں اچھا نہیں لگ رہا کیا؟ یا یہ کتاب مجھ سے زیادہ پر کشش ہے؟" وہ بڑے غور سے اس کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔ علیزہ کے چہرے پہ واضح بے زاری تھی۔
"انسان کے جسم کا سب سے خوبصورت حصہ اس کا دل ہوتا ہے اور اگر یہ ہی صاف نہ ہو تو چمکتا چہرہ کسی کام کا نہیں ہوتا." وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
"یعنی آپ مان رہی ہیں کہ میں ایک خوبصورت چہرے کا مالک ہوں؟!" وہ کب باز آنے والا تھا۔
"آپ کو عزت راس نہیں آتی کیا؟آپ جیسے لوگ نہ کسی کی عزت کر سکتے ہیں نہ ان کی خود کوئی عزت ہوتی ہے۔" وہ تلخی سے بولی۔
"تو آپ سکھا دیں ناں عزت کرنا۔۔۔"
"جو اللہ سے سچی محبت کرنا سیکھ لیتا ہے ناں، وہ ہر انسان کو عزت دینا اور اس کی قدر کرنا بھی جان جاتا ہے۔" اس نے کتاب واپس رکھی اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی مگر اس کے الفاظ احمد کے کانوں میں گونجتے رہے۔