علیزہ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ماں اور باپ، دونوں ہی کی توجہ کا مرکز تھی۔ ہر کام وہ اپنی کے مشورے سے کرتی۔ ابا دیر سے گھر آتے اور امی زیادہ تر آرام کر رہی ہوتیں۔ یونی کی ساری باتیں وہ گھر آ کے اپنی امی کے گوش گزار کرتی۔
"امی میں کیا کروں، وہ سمجھتی ہی نہیں ہیں میری کوئی بات۔ اب ہر وقت تو ان پر خرچہ نہیں کر سکتی ناں میں۔ پھر مجھے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے دوستی ہی نہ ختم کر ديں۔۔۔"
"کوئی بات نہیں علیزہ! ضروری تو نہیں کہ ہر کوئی ہماری بات سمجھ لے۔" وہ سمجھانے والے انداز میں بولیں۔
"مگر امی!" وہ روہانسی ہو گئی۔
"اگر مگر کچھ نہیں علیزہ! اگر تم چاہتی ہو کہ وہ تمہاری بات سمجھیں تو کسی اور طریقے سے کوشش کر لو۔۔۔ ورنہ خود سوچو کہ یہ کیسی دوستی ہے جو اتنی سی بات پر ٹوٹ جاۓ، پھر وہ تمہاری سچی دوستیں تو نہ ہوئیں ناں!"
اور پھر یوںہی ہوا۔ علیزہ نے ان کو منع کر دیا کہ وہ مزید فضول خرچی برداشت نہیں کر سکتی اور اس کے بعد سے عالیہ سمیت وہ سب اس سے کھنچی کھنچی رہنے لگیں۔ جس رشتے کی بنیاد خلوص کے بجاۓ مطلب پر ہو، وہ ناپائیدار ہی ہوتا ہے۔
وہ سارا دن کمرے میں گھسی رہی۔ بستر پہ لیٹے، تکیہ میں منہ گھنساۓ، بکھرے بال، سرخ پڑتی آنکھیں، سوجا چہرہ لئے وہ بار بار یہی الفاظ دوہرا رہی تھی۔۔۔
"علیزہ! دوستی ہار گئی آج، پیسہ جیت گیا۔"
وہ علیزہ شیخ، جس کے نزدیک پیسے کی کوئی اہمیت نہ تھی، آج اسے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ دنیا صرف پیسے والوں کی ہے۔ یہاں کوئی مخلص نہیں، سب مطلب پرست ہیں۔
"علیزہ یہ دوستی تھی تمہاری؟ بڑے دعوے کرتی تھیں ناں تم کہ میری دوستیں جن پر میں جان چھڑکتی ہوں، زندگی بھر ساتھ دیں گی میرا۔۔۔ آج کیا ہوا تمہارے ان دعووں کا؟ جن پر تم اپنے باپ کی خون پسینے کی کمائی خرچ کرتی تھی، آج تمہیں اس وجہ سے چھوڑ گئیں کہ تم اب ان کے کسی کام کی نہیں رہی؟ تف ہے تم پر علیزہ شیخ! آج تمہیں دولت کے ساتھ ترازو میں تولا گیا اور پیسے کا پلڑا بھاری رہا۔ تم ہار گئیں علیزہ شیخ! پیسہ تم پر بازی لے گیا۔۔۔"
x----------x
"علی! کہاں ہو یار؟" احمد پورے گھر میں علی کو ڈھونڈنے کے بعد جب چھت پر گیا تو وہ سر جھکاۓ وہیں بیٹھا تھا۔ بہت سی گالیاں ایک ساتھ اس کے ذہن ميں آئیں مگر وہ بولا تو صرف اتنا کہ، "بدتمیز! میں کب سے تمہیں آوازیں دے رہا ہوں۔ کچھ میرا بھی خیال کرو، اگر آواز خراب ہو گئی تو کل کونسرٹ۔۔" اس نے جلدی سے زبان دانتوں تلے دبائی۔ 'اف، بچ گیا، یہ مرواۓ گی کسی دن۔'
"ہاں تو تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ اور شکل دیکھو اپنی، لگ رہا ہے پتہ نہیں کون سے غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں تم پر۔"
"بھائی آپ مجھ سے بھی زیادہ بولتے ہیں، کبھی دوسروں کی بھی سن لیا کریں۔ آتے ہی شروع ہو گئے۔" وہ ایک ہی سانس میں سب کہہ گیا۔ احمد نے اپنے کانوں کو چھوا۔ "اچھا سوری یار! ڈانٹو تو مت، بڑے بھائی کو تھوڑی عزت دے دو۔"
"آپ کو پتہ ہے آج کیا ہوا؟ میری کتنی بےعزتی ہوئی ہے سب کے سامنے۔۔۔" وہ روہانسا ہو گیا۔
"علی حیدر! مجھے بتاؤ کیا ہوا؟ کیوں اتنے اداس ہو؟ میں خبر لوں گا اس کی جس نے تمہارے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔" وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پیار سے بولا تھا۔
"کیا کریں گے آپ احمد بھائی؟ جانتے ہیں میری بے عزتی کی وجہ کون تھا؟ آپ تھے بھائی، آپ!" یہ کہتے ہوۓ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے آنسو پونچھتے ہوۓ بولا، "آپ جو نیک کام کرتے رہتے ہیں ناں روز روز، ان کا حوالہ دے دے کر لوگ مجھے ذلیل کرتے ہیں۔ میں ایک لفنگے اور آوارہ شخص کا بھائی ہوں!۔۔۔ آپ کے الفاظ کتنے پیار بھرے ہوتے ہیں ناں، یوں لگتا ہے جیسے آپ مجھ سے اور ہم سب سے بہت محبت کرتے ہیں، مگر آپ نہیں کرتے بھائی! آپ کو ہم میں سے کسی سے بھی ذرا محبت نہیں ہے۔ اگر ہوتی ناں تو آپ یہ سب نہ کر رہے ہوتے، بلکہ ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمیں دکھ پہنچے۔ کتنا فخر تھا مجھے آپ پر، مگر اب شرم آتی ہے خود کو آپ کا بھائی کہتے ہوۓ۔۔۔" اس کی آواز دکھ اور کرب سے بوجھل تھی۔
بات ختم کرتے ہی وہ تیزی سے پلٹا، زینے کی سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے میں گھس گیا۔ وہ جو پتھر کا بت بنے یہ سب سن رہا تھا، اب سکتے کے عالم میں یوں بیٹھا تھا گویا بے جان جسم ہو۔ اس کی باتیں تھیں یا آگ میں لپٹے تیر جو اس کی روح تک چھلنی کر گۓ تھے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ جو کام وہ محض تفریح کے لئے کرتا تھا، ان کی اسے اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی کہ وہ اپنے گھر والوں کا مان کھو دے گا۔ وہ مغرور تھا، ضدی تھا،انا پرست تھا، فلرٹ تھا، عزت کرنا نہیں جانتا تھا ، کردار بھی داغدار تھا غرض ہر برائی ہی اس کے اندر موجود تھی مگر اس کے پاس دل تو تھا ناں اور آج اس کے بھائی نے اس کے دل کو مٹھی میں بھينچ لیا تھا۔۔۔ یہ پہلی چوٹ تھی جو کسی نے اس کے ضمیر پہ ماری تھی۔ اس کا ضمیر جو عرصے سے سویا ہوا تھا، اب آنکھیں مسل رہا تھا کہ اب شاید جاگنے کا وقت آنے والا تھا۔۔۔
x----------x
اس کی یہ حالت اس کی امی سے برداشت نہیں ہو پا رہی تھی۔ ان کا بس نہیں چک رہا تھا کہ وہ اس کی خوشی کے لئے ساری دنیا خرید لائیں، مگر وہ بے بس تھیں۔۔۔ جب سے وہ گھر آئی تھی، اپنے کمرے میں بند تھی۔
"علیزہ بیٹا! باہر آجاؤ، تمہاری امی پریشان ہو رہی ہیں۔" ابو نے آواز دی تو وہ کچھ دیر بعد کمرے سے نکل آئی۔ بال بکھرے ہوۓ تھے اور ناک لال ہو رہی تھی۔ اس کی حالت دیکھ کر بے اختیار ماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ابا نے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور اپنے ساتھ صوفے پہ بٹھاتے ہوۓ پوچھا، "کیا ہوا بیٹا؟ کیوں رو رو کر یہ حال بنا لیا ہے؟" اس نے سسکیوں کے درمیان ساری بات ان کے گوش گزار کر دی۔ ابا سر جھکاۓ کسی گہری سوچ ميں ڈوبے تھے، امی نے خاموشی کو توڑا۔
"علیزہ! دنیا ختم تو نہیں ہو گئی بیٹا۔ ان کی دوستی میں خلوص نہیں تھا، ان کو افسوس کرنا چاہئیے کہ اتنی اچھی دوست کو کھو دیا، میری بچی! تم کیوں اس بات کو دل پہ لے رہی ہو؟ تمہیں ان سے اچھی دوستیں مل جائیں گی۔"
"امی! کیا پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے؟ کیا پیسے کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے سامنے ایک جیتا جاگتا انسانی وجود بے وقعت ہو جاتا ہے؟" وہ دکھی تھی، بہت دکھی۔ اس کا اپنی ذات پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا تھا۔وہ خود اعتمادی جو اس کی شخصیت کا خاصا تھی، بری طرح مجروح ہوئی تھی۔ ایک نہ ختم ہونے والا کرب تھا جو اسے اندر ہی اندر مار رہا تھا۔ اس کے وجود کو کسی بے مول شے کی طرح رد کر دیا گیا تھا۔
"علیزہ، میری جان! زندگی میں اس سے بڑی مشکلات آئیں گی۔ اگر اس چھوٹی سی آزمائش پہ خود کو اتنا ہلکان کرو گی تو مجھے کیسے یقین آۓ گا کہ میری بیٹی اپنی زندگی میں آنے والی تمام دشواریوں کا سامنا ہمت و حوصلہ سے کر سکے گی؟" امی تڑپ کر بولیں۔ پروفیسر ہادی نے اپنا سر اٹھایا اور علیزہ کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر بولے۔
"جانتی ہو انسان کی قیمت کیا ہے؟ انسان اس دنیا کی ہر شے سے زیادہ قیمتی ہے علیزہ! دنیا کی کوئی بھی چیز انسان کے جذبات کی نعم البدل نہیں ہوتی۔ اور یہ پیسہ! اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، مگر ہم ناسمجھ لوگ ہیں۔ ہم انسانوں کو بھی مادی چیزوں کے ساتھ تولتے ہیں۔ نہ ہمیں دوسروں کے جذبات کی فکر ہوتی ہے، نہ احساسات کی۔ہمیں کچھ مطلب نہیں ہوتااس بات سے کہ دوسرا ہمارے عمل سے کتنا ہرٹ ہوگا، کتنی تکلیف ہو گی اسے۔ یہ پیسہ، اسٹیٹس، یہ سب صرف بہانہ ہیں علیزہ! جن رشتوں میں خلوص کی جگہ مطلب شامل ہو تو ان کو کسی نہ کسی روز ٹوٹ جانا ہوتا ہے۔ ان کو جوڑے رکھنے کی کوشش میں روح کو مزید گھائل کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو جانے دیا جاۓ۔ جس حقیقت کو ایک روز پورا ہونا ہی ہو تو ان کے پیچھے اپنے آپ کو زخمی کرنا فضول ہے۔ رہی بات بے وقعتی کی، تو ہم دوسروں کے سامنے اپنی اہمیت خود واضح کرتے ہیں، اپنی خود اعتمادی سے، اپنے کردار سے، اپنے اعمال سے۔ یہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے کہ ہم خود کو کسی دوسرے کے سامنے کس طرح پیش کریں۔ خود کو جتنا دوسروں کے سامنے گراؤ گی، خود کو اتنا ہی بے مول ثابت کرو گی اور یاد رکھنا! کوئی بھی کسی گری ہوئی بے کار چیز کو اٹھانا پسند نہیں کرتا۔"
اس کے آنسو تھم گئے۔ باپ کے الفاظ کی سچائی اسے متاثر کر گئی تھی۔ اس کا اعتماد رفتہ رفتہ بحال ہوتا گیا۔ کسی دوسرے کی سوچ اس کی ذات کی وضاحت نہیں کر سکتی تھی، یہ حق صرف اور صرف اس کے پاس تھا۔ اس کا عمل از خود اس کے کردار کی نمائندگی کرتا تھا۔۔۔۔
x----------x
اگلی صبح اس کی آنکھ ایمبولنس کی آواز سے کھلی۔ وہ عجلت میں کمرے سے نکلی تو جو منظر اس کے سامنے تھا، وہ اس کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ اس کی پیاری امی جان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور اب انہیں ایمبولنس میں لٹایا جا رہا تھا۔ اس کی زبان سے کوئی لفظ ادا نہ ہو سکا، وہ بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی امی کو دیکھ رہی تھی۔ پروفیسر ہادی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی اور جلدی سے اس کا دوپٹہ اس کے سر پہ رکھ کر اسے اپنے ساتھ ایمبولنس میں بٹھا لیا۔ دنیا اس کے گرد گھوم رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ ہسپتال کیسے پہنچی، یہ سب کیا ہوا۔ وہ بس خالی نگاہوں سے سب دیکھے گئی۔ پندرہ منٹ، بیس منٹ، آدھا گھنٹہ، اسے پتہ ہی نہ چلا۔ وہ بس دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرتی گئی۔
"یا اللہ! میں بہت گناہگار ہوں۔۔۔ نہ صوم و صلوۃ کی پابند ہوں اور نہ ہی قرآن کی باقاعدگی سے تلاوت کرتی ہوں، مگر اے رب العالمین! میری ماں کو مجھ سے مت چھینیئے گا۔ وہ سب سے۔۔۔۔ سب سے زیادہ عزیز ہیں مجھے۔ یا خدا! میری دوستیں چلی گئيں، کوئی بات نہیں۔۔۔ پلیز! پلیز میری امی نہیں، وہی تو میری سب سے سچی دوست ہیں۔۔۔ ميں آپ کا ہر حکم مانوں گی، کبھی نافرمانی نہیں کروں گی، کسی کا دل نہيں دکھاؤں گی، ابا کا بھی خیال رکھوں گی، پلیز میرے اوپر رحم کریں۔ میرا کیا ہو گا، یا اللہ؟ میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی۔۔۔ میری امی مجھے واپس کر دیجئیے۔"
وہ روۓ چلی جا رہی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور ڈاکٹر باہر آئے۔۔
۔۔۔