نثر بیانیہ اظہارکا سب سے سہل اورسادہ پیرایہ ہے۔کسی نقطہ نظر کی ترسیل کے لیے نثر سے بہترذریعہ شاید ہی کوئی اور ہوگا۔الہامی کتابوں میں شاعرانہ انداز ملتا ہے لیکن ان کا اسلوب نثر میں ہے۔ابتدائی زمانے میں انسان نے اظہار و ترجمانی کے لیے نثرکو ہی وسیلہ بنایا تھا۔اس ایک اہم سبب نثر کاواضح،سادہ اوررواں ہونا ہے۔اگر کوئی زبان سماجی ضرورت کے تحت وجود میں آتی ہے تو اس میں ابہام،صناعی اور پے چیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اردو کے دیگر اہم شعرا کی طرح مجید امجد (۱۹۱۴ء۔۱۹۷۴ء)نے بھی نثر کو بھی توجہ کے لائق سمجھا۔ان کی نثری موضوعات پر کوئی مستقل کتاب تو نہیں ہے۔اردو نثر کی متنوع اصناف کے حوالے سے ان کا کوئی مجموعہ منظرعام پر نہیں آیا۔ البتہ چند رسائل میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو نثر کی تواریخ میں مجید امجد کے نثری سرمائے کا ان کے شایان شان ذکر نہیں ملتا۔اس کا ایک بڑا سبب ان مضامین کا نایاب یا کم یاب ہونا بھی ہو سکتا ہے۔
مجید امجد کی نثر ان کے افکارو احساسات کا مجموعہ ہے۔اس کے مندرجات کے مطالعے سے ان کے ادبی نظریے،سیاسی ،مذہبی اور سماجی عقاید اور تصورات کا ادراک ہوتا ہے۔مجید امجد نے اپنی شاعری میں ایک جدید ترین طرز احساس کی بنیاد رکھی ،اس لحاظ سے ان کی تخلیقی اور تنقیدی نثر کا جائزہ لیناان کے ذہن کی تجرباتی سطحوں اور جدید تنقیدی زاویوں کی تفہیم میں معاونت کرتا ہے۔ کوئی بھی بڑا تخلیق کا ر اپنے عہد کے مروجہ افکاراور زیر بحث علمی و ادبی موضوعات سے اثر قبول کرتا ہے۔تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتوں سے انکار ممکن نہیں،ایک سچا تخلیق کا راپنی تحریروں کا اصل معنوں میں نقاد ہوتا ہے۔مجید امجد کی نثر کے مطالعے سے یہ سوال اور بھی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ ان کی شاعری میں جدید موضوعات نے جہاں معاصر شاعری کو متاثر کیا وہاں اس میں نئے علمی اور ادبی نظریات کی صدائے بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔مجید امجد کی نثر تنقید،یادنگاری،کالم نویسی ، تراجم اوربچوں کے ادب پر مشتمل ہے۔ تمام نثری اصناف میںان کے ہاں ایک مخصوص تحقیقی تجسس دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے متنوع اور رنگا رنگ موضوعات کو چنا ہے ۔معاصرین کے شعری مجموعوں کے دیباچوں میں مجید امجد نے شعری اسالیب کی روشنی میں ان کی سماجی اور فکری کائنات کا سراغ لگانے کی جستجو کی ہے۔ ایک متحرک تخلیقی کردار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک زرخیز تجزیاتی دماغ کے بھی حامل تھے۔شاعری کی طرح مجید امجد کی نثر بھی زندگی کے حقیقی تجربات سے معمور ہے۔ یہاں بن جانسن(Bin johnson)کی بات یاد آجاتی ہے ،جس نے کہا تھا کہ "شاعروں کی تخلیقات کی صحیح پہچان تو شاعروں کو ہی ہو سکتی ہے کیوں کہ تخلیق اور تنقید کا نہایت گہرا رشتہ ہے "۔(۱)
نثر چوں کہ تکلیمی انداز بیان کی ایک ایسی صورت ہے جس میں کسی قسم کا داخلی آہنگ یا غنائیت کی پابندی نہیں۔اس کی عمر تو شاعری کے مقابلے میں کم ہے لیکن اس نوعمری میں بھی اس کی ثروت دیکھنے کے لائق ہے۔اس کا وجودانسانی زندگی میں اتنا ارزاں ہے کہ بعض اوقات اس کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوتا۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یونا ن کے کسی قدیم ڈرامے میں ایک کردار گفت گو کے دوران میں بڑی حیرت سے کہتا ہے کہ "اوہ!میں اتنے عرصے سے نثر میں بات کر رہا ہوں اور مجھے خبر تک نہ تھی"۔یہ جملہ ہماری زندگی میں جہاں نثر کی ارزانی کی دلیل ہے، وہاں اس کی اہمیت کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ نثر کی کوئی جامع اور مانع تعریف نہیں ملتی۔اکثر ناقدین نے اس کا شاعری کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے نتائج ا خذ کرنے کی کوشش کی ہے ۔مثال کے طور پر نثر کی تعریف کرتے ہوئے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں:
محتاط نقادوں نے نثر کی تعریف کے بجائے نظم اور نثر کے فاصلوں سے بحث کی ہے تاکہ نثر کی حدود واضح ہو سکیں۔۔۔نظم کی دنیا میں جذبہ صاحب خانہ ہے جب کہ جذبہ نثر میں ایک عارضی مہمان کے طور پر آتاہے۔نظم بنیادی طور پر دل کی گہرائیوں اور نثر ذہن کی وسعتوںسے تعلق رکھتی ہے۔نظم میںزندگی تخیل کے عمل سے گزر کر آب و رنگ پاتی ہے جب کہ نثرقطعیت کے تقاضوں کے باعث منطق کی اسیر ہے۔نثر ہماری معلومات میں اضافہ کرتی ہے اور نظم ہماری آگہی میںاضافے کا باعث ہوتی ہے۔نظم حسی پیکروں کا سہارا لیتی ہے اور نثرموجود حقائق سے اعتنا کرتی ہے۔نظم میں مواد کی تخلیق ہوتی ہے اور نثر میںمواد کی تعمیر،نظم کا مقصد ہے غرض مسرت اور نثر کا مقصدکسی غرض کی تکمیل ہے۔(۲)
مجید امجد نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی۔اے کرنے کے بعدملازمت کا آغاز کیا۔ان کی عملی زندگی کی ابتدا جھنگ میونسپلٹی کے رسالے عروج کی ادارت سے ہوئی۔ ان دنوں میں انھیں بعض اوقات ،مجبوری کے عالم میں مناسب تحریروں کی عدم دستیابی کے سبب خود ہی رسالے کا اکثر حصہ ترتیب دینا پڑتا تھا۔ان دنوں مجید امجدنے نثر کے کئی ان دیکھے جزیروں کی دریافت کی۔رسالے کی ادارت کے دنوں میں مجید امجد کو کالم نویسی ،ترجمہ نگاری اور فکاہات کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں ، بچوں کی بنیادی معلومات میں اضافہ کرنے والے مضامین بھی شائع کیے ۔عالمی ادب سے اردومیں تراجم کا شوق بھی عروج کی ادارت کے دنوں کا ثمر ہے۔ابتدائی دنوں میں بہ طور شا عر وہ اگرمولانا ظفر علی خان سے متاثر تھے ، تو نثر میں چراغ حسن حسرت ،عبدالمجید سالک ،غلام رسول مہرکی تحریروں کا مطالعہ کیا۔مولانا ابولکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ نے ان کی نثر کے شوق کو ابھارا۔ پروفیسرڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کودیے گئے ایک انٹرویو میں وہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
اخبار عروج جھنگ میں میں دس سال رہا۔ اس میں تقریباً سوائے محکمانہ صفحات کے سارا پرچہ میرا لکھا ہوتا تھا۔ مجھے وہاں نثر لکھنے کی بہت ساری مشق ہوئی۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں انقلاب اور زمیندار میں مہر، سالک، حسرت کے کالم پڑھتا تھا۔ میں حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگ روزکس طرح لکھ لیتے ہیں۔ متواتر کچھ عرصہ میں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ میرے پاس ایک رجسٹر تھا۔ اس پر میں نے لکھا تھا ازکارواں باشی، یہ ترکیب الہلال میں آزاد کی تھی۔ افکار و حوادث کی ترکیب بھی مولانا آزاد کی تھی۔ میں اسی طرح روزانہ بہت سارا عرصہ اس پر مشق کرتا رہا۔ پھر میں نے victor hugoکے ناول Lemiserableسے ترجمہ کیا جو کہیں چھپا نہیں۔ اس کے ترجمے پر میں نے بے حد محنت کی تھی۔ اس سے مجھے نثر کی مشق ہوئی، افسوس وہ مسودہ گم ہو گیا۔(۳)
مجید امجد نے اپنی نثرمیں مختلف اصناف کو موضوع بنایا۔ان میں نقد و نظر(جس میں زیادہ تر دوستوں کی کتابوں کے دیباچے شامل ہیں)،کچھ احباب کی یادداشتیں،ادبی اور فکاہی کالم،تراجم ،مضامین اوربچوں کے حوالے سے لکھی گئی تحریریں شامل ہیں۔انھوں نے نثر میں بھی اپنی امتیازی حیثیت کو ثابت کیا ہے۔مختلف مجید امجدشناسوں نے اپنے یادداشتی مضامین میں ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نثر کا ذکر بھی کیا ہے۔مثال کے طور پرڈاکٹر محمد امین رقم طراز ہیں:
مجید امجد نے دوستوںکے شعری مجموعوںپر دیباچے بھی تحریر کیے جو ان (دوستوں)کی کتابوں میں مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ان کو بھی اکٹھے کرکے شائع کیا جا سکتا ہے۔جس سے مجید امجد کا اسلوب نثر اور تصور فن سامنے آئے گا۔۔۔یہ بھی ممکن ہے کہ مجید امجدنے کسی کی فرمائش پر یا تحریک پر کچھ مضامین لکھے ہوں اور وہ چھپے بھی ہوں۔مجید امجد نے یہ مضمون جمع نہیں رکھے ۔ویسے بھی اس دور میںاپنی تحریر کی نقل رکھناممکن نہیںتھا۔(۴)
جھنگ میونسپلٹی کے رسالے عروج میںمجیدامجد کے دس سالہ ادارتی دور میںانھیں بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔اس عہد میںجھنگ ایک پس ماندہ شہر تھا۔اس رسالے میں جس کی اشاعت کا بنیادی مقصدمحض دیہی علاقوں کی حالت زار کو بہتر بنانا تھا۔مواد کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مختلف موضوعات پر فرضی ناموں سے بھی تحریریں شامل کرنا پڑتی ہوں گی۔ایک احتیاط پسند شخص ہونے کے باوجود انھوں نے مزاحیہ تحریریں بھی لکھیں۔فکاہی کالموں میں دوستوں پر پھبتیاںبھی کسیں۔ حکمت ادیب اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے لکھتے ہیں :
وہ(مجیدامجد) بہ حیثیت نثر نگار بھی بلند مقام رکھتا ہے۔اس نے اعلیٰ درجے کے افسانے اور ڈرامے لکھے اور انگریزی ادب کے شہ پاروں کا سلیس ترجمہ بھی کیا۔بہت سے یادگار دیباچے اور تبصرے تحریر کیے۔اس کے تنقیدی مضامین بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔اس نے اپنی راے کا اظہار روایتی تنقید نگاری سے ہٹ کر کیا ہے۔اس کی وجہ اس کی روایت شکنی ہے۔اس نے جہاں شاعری میں ہئیتی تجربے کیے ہیں وہاںنثر میں بھی مختلف انداز اپنایا ہے۔(۵)
مجید امجد کا تنقیدی شعور غوروفکر کے در وا کرتا ہے۔ان کے ہاں ایک خاص قسم کا تدریجی ارتقا دکھائی دیتا ہے۔مثال کے طور پر شاعری اور اس کے بنیادی ضابطوں اور ضرورتوں کے بارے میں ایک مخصوص قسم کا تجسس ان کی تنقیدی کائنات کو ترتیب دیتا ہے۔ادب ،ادیب اور معاشرے کا باہمی تعلق کن بنیادوں پر استوار ہے؟۔اچھا فن کار بننے کے کیا معیارات ہیں ؟۔شعر، دراصل کس شے کا نام ہے؟۔عالمی ادب میں دو اہم ادیبوں کے فن کا موازنہ کن اصولوں کے تابع ہو کر کیا جانا چاہیے؟۔جدید شعری اصناف میں غزل اور آزاد نظم میں کیے گئے تجربات کس نوعیت کے ہیں اور ایک اچھا تخلیق کا ر ان کو کس پیمانے سے جانچتا اور پرکھتا ہے؟۔مجید امجد کی تنقید میں جدید ترین افکار کی صدائے بازگشت تو سنائی نہیں دیتی ،البتہ ایک سائنسی انداز فکر سے اشیا اور ان کی ماہیت کو سمجھنے کا شعور دیکھا جا سکتا ہے۔بعض اوقات ان کا انداز ایک تحقیق کار اور تاریخ نویس کا ہو جاتا ہے، لیکن اسلوب میں موجود تخلیقی رنگ بہ ہر رنگ برقرار رہتا ہے۔ ڈاکٹر اسلم ضیا کے مطابق:
مجید امجد کے ہاں تاثراتی تنقید کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔اور سائنتیفک تنقید بھی پائی جاتی ہے۔آپ کے ہاں تجزیاتی انداز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔آپ کا بیان کہیں کہیں آزاد کی طرح رنگین ہو جاتا ہے (۶)
مجید امجد کے تنقیدی نظریات ان کے مزاج کی باریک بینی کا غماز ہیں۔وہ شعر اور اس کے تقاضوں سے بہ خوبی آشنا ہیں۔کسی شعری صنف کے تقاضوں کے بارے میں ان کے علمی تصورات توجہ کے لائق ہیں۔ ساہیوال کی معروف روحانی شخصیت سید منظور حسین نقوی(مکان شریفی)کی نعتیہ شاعری پرمجید امجد نے الاستدراک کے عنوان سے مضمون تحریر کیا ۔یہ بعد میں ان کے نعتیہ مجموعے بام عرش میں کلیدی مقالے کے طور پر شائع ہوا۔اس میں نعت جیسی حساس شعری صنف میںمجید امجد ایک خاص قسم کے توازن کو ضروری قرار دیتے ہیں۔نعت ایک انتہائی حساس صنف ہے۔تمام تر شعری خوبیوں اور فنی چابک دستیوں کے باوجود سرکار ہر دوعالم صلٰی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی تعریف و توصیف کے دوران شاعر__ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست__ کی عملی تفسیر بن جاتا ہے ۔اس تخلیقی سفر میں رہ وار قلم کے راستے میں بہت سے مشکل مقام آتے ہیں۔ مجید امجد اس سفر کی نزاکتوں اور ضرورتوں سے خوب آگاہ ہیں۔ الاستدراک میں وہ اپنا نقطہ نظرکچھ یوں پیش کرتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں ذرا سی لغزش ، نعت کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا غلو ضلالت کے زمرے میں آسکتا ہے۔ ذرا سا عجزبیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔ فن شعر کے لحاظ سے اس کام کے لیے کمال سخن وری اور نفس مضمون کے لحاظ سے اس کے لیے کمال آگہی درکار ہے، اور پھر ان دونوں چیزوں کو جلا جس چیز سے ملتی ہے وہ عشق کا سرمدی، جذبہ جو لفظوں کو تجلیات سے بھر دیتا ہے اور معانی میں وسعتیں سمو دیتا ہے۔ یوں نعت ایک مقدس آزمائش ہے۔(۷)
نثر میں احباب کی کتابوں کے دیباچے یا ان کی شاعری پر تعارفی مضامین امجد مرحوم کے بالیدہ تنقیدی شعور کی غمازی کرتے ہیں۔ان کی موضوعہ شخصیات زیادہ تر وہی ہیں جن کے ساتھ ان کے نہایت قریبی مراسم رہے۔ان میںسیدجعفرشیرازی، شیرافضل جعفری، ڈاکٹر وزیر آغا، رفعت سلطان، کبیرانورجعفری، بشیراحمدبشیر، اشرف قدسی، سید منظورحسین نقوی مکان شریفی، اشرف قدسی،منیر نیازی،ناصر شہزاد،مراتب اختراور مصطفی زیدی شامل ہیں۔جدید نظموں کے تجزیے کرنے کی روایت کو (میرا جی کے انتقال اور ادبی دنیا کی بندش کے بعد) سہ ماہی اوراق نے آگے بڑھایا۔ مجید امجد نے بلراج کومل،شہزاد احمداور حمایت علی شاعرکی نظموں کے تجزیے بھی کیے۔مجید امجد اپنے مضامین میں شاعرکے کلام کی فنی باریکیوں کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ، گزرے دنوں کی خوب صورت یادیںبھی افسانوی اندازبیان کرتے جاتے ہیں،اس دوران کہیںبھی اس شخصیت کے ساتھ ذاتی تعلق کا عمل دخل نہیںہوتا۔ یوں ان کی نغمہ سرائی بھی برقرار رہتی ہے اور قلم کی حرمت بھی ملوث نہیں ہونے پاتی۔ اللہ یار ثاقب کے مطابق:
مجید امجد نے جب کسی کتاب کا پیش نامہ یا دیباچہ لکھا تو سچائی،ایمان داری، خوش اسلوبی اور سچے دل سے لکھا۔مجید امجد نے جن حضرات کی کتابوں کے دیباچے لکھے ان کا تعلق کسی نہ کسی طورگہرا اور قریبی رہا ہے۔ان دیباچوں میں انھوں نے ایسے سوالات بھی اٹھائے جو ادب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ان کے لکھے گئے دیباچوں میں کسی ناول یا افسانے کا منظر نظر آتا ہے۔اس منظر نگاری کے دوران وہ جزئیات کے بہترین نمونے پیش کرتے ہیں۔ایک خاص قسم کی شائستگی،نرمی،حلاوت اور روانی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔(۸)
جعفر شیرازی کے خیال میں ،ان کے اولین شعری مجموعے ہوا کے رنگ کا دیباچہ ، مجیدامجد کی کسی کتاب پر لکھی گئی پہلی تحریر ہے ۔ انھوں نے اس کے بعد ناصر شہزاد ،بشیر احمد بشیراور رائو نواب علی کی کتابوں کے دیباچے لکھے۔(۹)یہ محل نظر ہے ،مجید امجد کا تحریر کردہ پہلا دیباچہ جھنگ کے شاعرغلام محمد رنگین کے شعری مجموعے غنچہ رنگین کا ہے ،ڈاکٹراسلم ضیا نے اس کی اشاعت اگست ۱۹۳۷ء درج کی ہے ۔(۱۰) مجیدامجد ملازمتی امور کے سلسلے میں فیصل آباد(لائل پور)میں بھی مقیم رہے ۔انھی دنوں جعفر شیرازی زراعت کالج (اب زرعی یونی ورسٹی)میں زیرتعلیم تھے۔ ان دنوں کی چند رنگین یادیں افسانوی اندازمیں ہوا کے رنگ کے دیباچے میں آگئیں ہیں، دیکھیں:
اس دوران میں کیا کیا لو گ تھے، جو اِن کے ہم سفر رہے ہیں۔ شاید میں ان سب کو جانتا ہوں، اُن میں وہ لوگ بھی تھے جو ان کے شانہ بہ شانہ چلے تھے، لیکن جن کے نقوش بھی اب مٹ چکے ہیں، وہ ہستیاں بھی تھیں جو قرمزی قمقموں والی سڑک۶کے کنارے لائل پور کی ایک بے نام گلی میں رات کو آنکھوں میں گلابیاں انڈیلے ہوے ان کے مکان کے دروازے پر دستک دینے آیا کرتی تھیں، جن کے خم خانوں کے جام، اب طاقِ خیال پر بھی نظر نہیں آتے،وہ روحیں تھیں جن کی رفاقت کی سنہری گرد خود انھوں نے اپنے دامن سے جھٹک دی،لیکن جن کے خدوخال آج بھی ان کی غزلوںکے کنایوں سے جھلک اٹھتے ہیں۔ وہ زندگیاں بھی تھیں، جو انھیں رستے میں آملیں، جن سے قدم بڑھا کر وہ آگے تو نہ نکل سکے، لیکن جن کے مقدس سایوں کو بھی انھوں نے اپنے خیابانوں سے گزرنے نہ دیا۔(۱۱)
اشرف قدسی کی کتاب آہنگ وطن کے دیباچے میں،کسی مشاعرے کے بعد ان کے ساتھ ہڑپا کے بس اسٹینڈ پر گزرے چند یادگارلمحوں کی روداد کچھ ان الفاظ میںبیان کرتے ہیں:
چند سال ہوئے ضلع منٹگمری (ساہیوال) کے ایک دور افتادہ بربادشدہ شہر میں ایک عرق آلود شعری نشست کے بعد رات گئے شاعروں کو ایک ایسے خرابے میں سونے کے لیے چارپائیاں ملیں جہاں غالباً اس سے پہلے کسی انسان کو بسرام کا موقع نہیں ملا تھا۔ ابھی صبح نہیں ہوئی، ابھی سب یاران طریقت محو خواب تھے کہ اشرف قدسی نے بڑی جھنجھلاہٹ کے ساتھ رخت سفر باندھا اور سیدھا لاریوں کے اڈے پہنچا ،منٹگمری کی طرف جانے والی لاری کے ٹکٹ ابھی نہیں کھلے تھے، وہیں اڈے پر میں اور وہ چند لمحوں کے لیے رکے، باتیں ہوئیں ہم نے یہی فیصلہ کیا جتنا جلدی ہو سکے یہاں سے راہ فرار اختیار کی جائے۔ پیش تر اس کے اس خرابے کے اصل باشندے۔ غزالان بے شافع۔۔۔ اپنے ان مسکنوں تک پہنچیں جہاں رات بھر شاعروں کا بسیرا رہا تھا، ہم وہاں سے لاری میں روانہ ہو چکے تھے۔ اس سفر کے دوران میں میں نے پہلی بار اس کے خیال و فکر کے اصل پہلووں کو قریب سے دیکھا ۔وہ مجھے ایک جیالا نوجوان نظر آیا۔ ایک غیور روح جس نے اپنی کم عمری ہی میں شعور اور احساس کی منزلیں طے کر لی تھیں(۱۲)
مجید امجد کا ایک شاعر ہونے کی حیثیت سے لغات کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک تخلیق کار سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔ان کے خیال میں علوم و فنون کی ناقدری کا ایک سبب فن کار کے ہاں سچی لگن کا فقدان ہے۔ زندہ زبان ایک خود ساختہ عمل کے تحت اپنے الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ کرتی ہے۔شاعروں ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ تحیروں میں بغیر کسی تردد کے نئے نئے الفاظ استعمال کریں ۔ متروک لفظوں کو یکسر رد کر نے کی بجائے انھیں مفہوم و معانی کا نیا چغہ پہنائیں۔اس سلسلے میں اردو شعرا کی بے مایگی کا تذکرہ ایک واقعہ کے ذریعے سامنے آتا ہے:
مجھے یاد ہے بہت عرصہ ہوا، ایک ادبی پرچے نے دور حاضرہ کے ایک زبان دان شاعر کی تعریف میں ایک خاص نمبر شایع کیا۔ اس کے فاضل ایڈیٹر نے اس شاعر کا دیوان مجھے بھیجا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ میں بھی اس پر ایک مضمون لکھوں۔ اتفاقاً ان دنوں میں گلے کی تکلیف سے بے حس ہو کر چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس پر اذیت فرصت کے لمحوں میں دیوان پڑھنا شروع کیا اور جو لفظ اشعار میں استعمال ہوئے تھے ان کے متعلق نشان ایک ڈکشنری پر لگاتا گیا۔ جس لفظ پر ایک نشان لگ جاتا دوسری دفعہ لگانے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ غرض یہ کہ بڑی محنت کی، آخیر پر لغات پر نشان لگے الفاظ کو گنا تو مبلغ پانچ سو الفاظ میری جھولی میں پڑے۔(۱۳)
مجید امجد غزل اور نظم کے فنی دروبست سے خوب آگاہ ہیں۔جدیداردو غزل کے شاعر سید مراتب اخترنے ساٹھ کی دہائی میں غیر مردف غزلیں کہیںاور ان کے موضوعاتی وجود کو نئی نظم سے مربوط کرنے کاتجربہ کیا۔اس شعوری یا غیر شعوری کوشش کا ادراک مجید امجد کے خیالات کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔انداز ملاحظہ ہو:
یہ غزلیں ہیں، لیکن ان میں روایتی تغزل نہیں ہے۔ انھیں ’’نظمینے‘‘ کہہ لیجیے، کیوں کہ ان کے رگ و پے میں ایک نرم لہجے کا ٹھٹھکتا ہوا بہاو اور ایک نکتہ جُو طبیعت کی کیفیات سمٹ آئی ہیں۔ لیکن نہیں، یہ سب غزلیں ہیں، کیوں کہ ردیف اور قافیے کی تخصیص نے ہر شعر کو ایک جداگانہ تاثر عطا کر دیا ہے۔ یوں ہر شعر ایک جدا گانہ ہستی رکھتا ہے۔غزل کے اندر یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم تجربہ ہے۔ لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی ، یہ غزلیں بالکل نئی ردیفوںاور قافیوں سے مزّین ہیں اور ان ردیفوں اور قافیوں کا ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بعض جگہ مختلف مضامین والے اشعار کے اندر ردیف کے تسلسل نے ایک خیال کا تسلسل بھی پیدا کر دیا ہے۔ یوں غزلیں ہوتے ہوے بھی ان کے اندر نظم کی کیفیت ہے۔ اور نظم کی کیفیت کے باوجود ان کا ہر شعر غزل کا شعر ہے۔(۱۴)
سید ناصر شہزاد نے اردو غزل کو ہندی ڈکشن سے آمیز کر کے گیت کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کا تجربہ کیا۔ان کے شعری مجموعوں چاندنی کی پتیاں،بن باس اور پکارتی رہی بنسی میں برصغیر کی اساطیراورراوی کے کنارے آباد پرانی معاشرت کے نقوش دکھائی دیتے ہیں۔مجید امجد بن باس کے دیباچے میں ناصر شہزاد کی غزل کے اس اسلوب کا تجزیہ کچھ یوں کرتے ہیں:
جدید غزل اپنی وسعت و معنویت کے لحاظ سے ایک نئی معنوی تحریک ہے۔ جدید غزل کے اندر یہ تبدیلی کہاں تک جدید نظم کی وسعت اور پھیلائو سے متاثر ہے۔ یہ علاحدہ مسئلہ ہے، لیکن جدید غزل کا وہ نقش جو ناصر شہزاد کے شعروں سے ابھرتا ہے اکثر غزل نگاروں کے فن سے مختلف ہے یوں لگتا ہے جیسے مختلف رنگوں کے دھارے کے اندر ایک نازک سی لہر ابھرتی بہتی، ڈوبتی، جھلکتی چلی گئی ہے۔ یا جیسے مختلف آوازوں کے بہاو کے ساتھ ایک مختلف لہرابج رہا ہو۔ اس کا بھر پور رنگ ایک بانسری کی لے ہے جو ایک آہن پوش صبح کے ہنگامہ رست و خیز کے اندر دور کے افق سے آتی سنائی دے رہی ہو۔(۱۵)
ماضی پرست وہی شخص ہوتا ہے جو شان دار ماضی کا حامل ہو،محکمہ خوراک سے وابستگی کے دنوں میں امجدکا گوجرہ میں بھی قیام رہا۔یہاںکے ایک نواحی گائوںمیں سردارتخت سنگھ بھی مقیم تھے ،مجید امجد کی ان سے گہری دوستی ہوگئی۔مجید امجد گوجرہ سے ان کے گائوں۵۰گ۔ب (تحصیل سمندری )میں ان سے ملنے جاتے تھے۔برصغیر کی تقسیم کے بعد تخت سنگھ نقل مکانی کر کے ہندستان چلے گئے۔کچھ عرصہ باہمی رابطہ منقطع رہا،پھر اچانک ان کا ایک خط آیااور تعلق کی صورت بنی۔ مجید امجد کے ہاں یاد نگاری کی خواہش ابھرتی ہے۔ ۔ اپنے مضمون کچھ تخت سنگھ کے بارے میں ایک ناستلجیائی کیفیت میں وہ ان دنوں کی حسین یادوں کا ذکر کرتے ہیں:
میں نہیں جانتا ان ایام کی کتنی نظمیں اس خون کی ندی میں بہ گئیں جو بعد میں اس سرزمین کو اپنی لپیٹ میں بہا کر لے گئی! مدت تک تخت سنگھ کی مجھے کوئی خبر نہ مل سکی۔ مٹتے مٹتے ان کا نام بھی میرے دل سے مٹ گیا۔ مجھے یاد بھی نہ رہا کہ کبھی کوئی میرے دل کے اتنا قریب تھا۔ پندرہ سال گزر گئے۔ عمریں ڈھل گئیں، مسافتیں کٹ گئیں، زمین کی تہوں میں ہڈیاں راکھ ہو کر دب گئیں۔ لاشوں کے پگھلتے زائچے چمنستانوں کے خاکے بن گئے۔ جینے والے نہ صرف جینے والوں کو فراموش کر گئے بل کہ مرنے والوں کو بھی بھول گئے! پھر اچانک دو سال ہوئے ہم نے ایک دوسرے کو یاد کیا۔ یہ میں نہیں کَہ سکتا کہ ہم میں سے کس نے پہلے دوسرے کو آواز دی، اب میرے نام ان کے خط آرہے تھے۔ ان کے نام میری چٹھیاں جار ہی تھیں۔ لمبے بامعنی خط، مختصر بے معنی خط ان پر لگی ٹکٹیںعجب عجب لیکن ان میں لکھی ہوئی باتیں بڑی مانوس مانوس۔(۱۶)
تخت سنگھ کی کتاب خلش احساس پرمجید امجد کے مضمون کے بارے میں ناصرشہزاد کہتے ہیں کہاایک دفعہ مجھے (ناصرشہزاد)کو ان (تخت سنگھ)کا خط آیا ،انھوں نے لکھا تھا کہ مجھے اس کتاب پر مشرقی پنجاب کی حکومت نے جو ایوارڈ اور دس ہزار روپے انعام دیا ہے وہ صرف مجید امجد کے تحریر کردہ مضمون کی بدولت ہے۔(۱۷) ادب اور قاری کے درمیان موضوعات کی ترسیل کے حوالے سے ایک خلا ہوتا ہے جو عام طور پر ناقدین پوری کرتے ہیں۔اسی طرح دونوں کے درمیان ابلاغ کے فقدان کا خاتمہ ادبی کالم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ایک کالم نگارمیں بہ یک وقت شاعر،افسانہ نگار،نقاد،سفرنامہ نویس اور دانش جو کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔اشارت کے عنوان سے مجید امجد کے فکاہی کالم لطائف علمیہ کی روایت سے جڑے ہیں۔ان کا اسلوب نگارش ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے طرز تخاطب میں ایک خاص قسم کا طنز ومزاح شامل ہے۔بہ قول حکمت ادیب " مجید امجد نے اپنے فکاہی کالموں میں جو تیر و نشتر چلائے ہیںاس سے کسی کی تضحیک یا تذلیل مراد نہیںبل کہ یہ تو اس کی محبت ہی کا ایک اظہار ہے "(۱۸)۔ میونسپل کمیٹی کے خاکروبوں کو سرخ وردیاں دی گئیں،اس زمانے میں خدائی خدمت گارتحریک اور مجلس احرار فعال سیاسی جماعتیں تھیں۔ان کی پہچان بھی سرخ پوش ہونا تھا۔مجید امجد اشارت میں اس حوالے سے لکھتے ہیں:
ظاہر ہے کہ ایک لحاظ سے ’’احراریوں‘‘ اور ’’خدائی خدمت گاروں‘‘ کی ہتک ہو گئی ہے۔ اور دوسرا خطرہ اس بات کا ہے، ممکن ہے کل کوئی احراری یا سرخ پوش مجاہد دھواں دھار تقریر کرتا ہو۔ اور عوام الناس اس خیال سے نزدیک نہ جائیں کہ ارے بھائی، نہ ہمارا وہاں کیا مطلب ہے، بھنگی کوئی دھما چوکڑی مچا رہے ہوں گے۔(۱۹)
شرح خواندگی بڑھانے کے لیے تعلیم بالغاں کے لیے تعلیمی دورانیے میں تمباکو نوشی کی اجازت دینا حکومتی مجبوری ہوگا۔اس عمل کو مجید امجد نے کس طرح دیکھا:
ذرا تصور کیجیے، کتنا دل کش منظر ہوگا۔ گائوں کے بوڑھے جمع ہیں۔ باری باری حقے کا کش لگا کر الف آم ب بلی کا دھواں دھار سبق یاد کر رہے ہیں۔ حقہ کے ذریعے اس مشکل عقدہ کو حل کر کے وزیر تعلیم نے اپنے ’’محقق‘‘ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور دیہاتی سوسائٹی میں حقے کے حقوق کو تسلیم کر کے ایسی ’’محققانہ‘‘ تجویز کی ہے جو قابل داد ہے۔پنجاب کے اندر اگر یہ سکیم چلا دی جائے تو زیادہ کامیاب رہے گی(۲۰)
اشارات کے عنوان سے لکھی گئی یہ تحریریں کافی تعداد میں ہوں گی ،بدقسمتی سے ان کا سراغ نہیں مل سکا۔ ،مجید امجد کی ترجمہ کردہ تحریروں پر طبع زاد ہونے کا گمان ہوتاہے۔ چنوں میاں نے مرغیاں ڈربے سے نکالیں،دیہاتی مولوی جی، جھوٹ موٹ موت اور نہر سویز کی تاریخ ایسی تحریریں ہیں جو بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔ ایک دیہاتی مولوی صاحب کی مدرسہ روانگی کا منظر دیکھیں:
ادھر یونہی مشرق سے سورج نے آنکھ سے اشارہ کیا۔ اور تمام ’’کائنات ‘‘ تمام لوگ۔ ہر ایک فردِ بشر، ہر ایک چیز اپنے اپنے کاموں میں لگ گئی، لیکن ہمارے مولوی جی کو بھلا کیوں ہوش آئے، وہ بھی سکول جائیں گے تو پورے گیارہ بجے ، لیکن ہر ایک لڑکے سے آنکھیں نکال نکال کر اور دکھا کر خوب وجد میں آتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں نہ آنا، کل سویرے۔ تو پھر تم جانتے ہوگے اور یہ مولا بخش۔(۲۱)
شاعر کا انجام،لالہ زار فارینہ، دربار خداوندی میں، سولہ لاکھ لاشوں کا ڈھیر اور کامیابی کاصلہ تراجم ہیں۔مجید امجد نے ان تراجم میں مقامیت کا ایسا رنگ پیدا کیا ہے کہ کہیں پر بھی ان کے اجنبی یا بدیسی ہونے کا گمان تک نہیں ہوتا۔جن تحریروں سے یہ تراجم ہوئے ہیں،بدقسمتی سے ان تک مکمل رسائی تو نہیں ہوسکی۔البتہ محسوس ہوتا ہے کہ مجید امجد نے لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے کی بجائے آزاد ترجمے کو ترجیح دی ہے۔ایک مثال دیکھیے:
ستارے! ہاں ہاں ستارے مضراب تھے، اس ساز کے جس کی اونچی نیچی اٹھتی بیٹھتی سروں نے آدھی رات رات کی نیندوں کو حسین و جمیل موسیقیوں سے معمور کر دیا ہے۔ چاروں طرف بارش نغمہ ہو رہی تھی۔ سر سبز میدان، تاریک اور مہیب غاریں، آسمان کی نیل گونی، سبزہ زاروں کی نکہت و تازگی، کائنات خلقت کی ہر چیز میٹھے سروں کے تند سیلاب میں بہی جا رہی تھی۔(۲۲)
فنی لحاظ سے بھی مجید امجد کی نثر ان کی بہ طور نثرنگار پختگی اور مشاقی کی دلیل ہے۔چند نمونے دیکھیں:
۱۔اب بندھی ہوئی بندریا کی مانند ہیں۔(تشبیہ)
۲۔پھول پھول کر الٹے گھڑے کی طرح ہوگئے تھے۔(تشبیہ)
۳۔بھلا یہ پتھر کس کس رستم نے اٹھانا تھا کہ یہاں رکھ دیا۔(تلمیح)
۴۔اب مولوی صاحب کی صورت فوٹو کھینچنے کے قابل تھی۔ غصہ سے کانپ رہے ہیں، آنکھیں ہیں کہ انگارے ہیں۔(تشبیہ)
۵۔میٹھی میٹھی باتوں، سریلے سریلے قہقہوں ہلکی ہلکی مسکراہٹوں ، لطیف لطیف ادائیوں کا لطف اُٹھا رہا تھا۔(تکرارلفظی)
۶۔چور مرغی کہاں لیے جاتا ہے ،کوئی بچہ سقہ کا نہیں ہے راج یہاں۔(تلمیح)
۷۔شیکھر جی ایک شاعر تھا جو پاک حقیقتوں کے گیت گاتا اور کرشنا اور رادھا کی ابدی مسرت اور دنیوی غم اس کی نظموں کے موضوعات ہوتے۔(تلمیح)
۸۔ہیں چور!۔۔۔ لگائو جوتے جاتا ہے، چور چور۔۔۔ ہائے چور یہ چور، یہی ہے چور! چور! چورچور!(تکرار لفظی)
۹۔ہائے او میاں ڈاڑھی والے آنا، آنا، ہائے مرا ہاتھ! ذرا پتھر اٹھا نا۔۔۔ ہاں ہاں یہی‘‘(مقفٰی نثر)
مختلف صنعتوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں محاورات اور ضرب الامثال کا خوب صورت استعمال ملتاہے۔ مختلف جگہوں پر محاورات کے برملا آجانے کی مثالیں جیسے کہ پاوئں کے تلے سے زمین نکل جانا، دھما چوکڑی مچانا، ماتھے پر پسینہ آنا۔،ہمہ تن گوش ہونابے نقط سنانا،جوتوںکی بارش، تانیں اڑانا،دل بلیوں اچھلنا،آنکھیں دکھانا،آنکھیں چرانا،سر پر اٹھانا،رفو چکر ہونا،بلائیں لینا،،سانس پھولنا،مکھیاں مارنا،مسیں بھیگنا،خراٹے بھرنا،ہوش گم ہونا،بگلا بھگت ہونا،پھبتیاں اڑانا،بے نقط سنانا،کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ،آنتیں قل ھواللہ پڑھنا،تائو دیناوغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں۔
مجیدامجد کی زندگی میں ان کی شاعری کو پزیرائی نہ مل سکی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ شب رفتہشائع ہوا تو ڈاکٹر سید عبداللہ اور مظفر علی سید جیسے اہم لوگوںنے مضامین لکھے، مجموعی طور پر سرد مہری طاری رہی۔نوے کی دہائی میں اس طرف توجہ ہوئی ۔اس وقت مجیدامجد شناسی کی ایک شان دار روایت قائم ہو چکی ہے۔لیکن مجید امجد کی نثر کی طرف کسی کا توجہ منعطف نہیں ہوئی ۔ یہ تسلیم کہ وہ باقاعدہ نقاد یا محقق نہیں لیکن ان کی نثر کا مطالعہ ان کے علمی اور فکری شعور کی گواہی دیتا ہے۔یہ ایک ایسے عظیم تخلیق کارکی نثر ہے جس کی شاعری کے جدید اردو نظم پر گہرے اثرات ہیں۔اس لحاظ سے اس کی نثر اس کے عہداوراس کے معاصرین کے ادبی رجحانات کی عکاس ہے،اس سے خود اس کی مطالعاتی سمتوں کا ادراک بھی ہو تاہے۔
حوالہ جات
۱۔ سعادت سعید،ڈاکٹر،پیش لفظ ،راشدبقلم خود،مرتبین ،ڈاکٹرسعادت سعید،نسرین انجم بھٹی ،لاہور:شعبہ اردوگورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور،۲۰۱۰ء،ص۶
۲۔ حفیظ صدیقی،ابوالاعجاز،کشاف تنقیدی اصطلاحات،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان پاکستان،۱۹۸۵ء،ص۸۰
۳۔خواجہ محمدزکریا،ڈاکٹر،مجید امجدسے ایک انٹرویو،مشمولہ،مجیدامجدایک مطالعہ،مرتب،حکمت ادیب،جھنگ:جھنگ ادبی اکیڈمی،۱۹۹۴ء،ص۷۰۴
۴۔محمدامین،ڈاکٹر،تفہیم مجیدامجد،ملتان:بیکن بکس،۲۰۱۴ء،ص۸۴
۵۔ حکمت ادیب،مجیدامجد کی شگفتہ تحریریں،مشمولہ ،مجیدامجدایک مطالعہ،ص۵۸۰
۶۔اسلم ضیا،ڈاکٹر،جہان مجیدامجد،لاہور:الوقارپبلی کیشنز،۲۰۱۴ء،ص۹۱
۷۔مجیدامجد،دیباچہ،بام عرش،سیدمنظورحسین مہجور،لاہور:ماوراپبلشرز،۱۹۹۲ء،ص۱۱
۸۔ثاقب ، اللہ یار،ساہیوال میں اردو نثر کی روایت،ساہیوال،انورسنزپبلشرز،۲۰۱۵ء،ص۱۶۲
۹۔جعفرشیرازی،مجیدامجداورمیں،مشمولہ ،مجیدامجدایک مطالعہ،ص۳۴۱
۱۰۔اسلم ضیا،ڈاکٹر،جہان مجیدامجد،ص۹۲
۱۱۔ مجیدامجد،دیباچہ،ہواکے رنگ،مشمولہ،یہ حساب ہیں مہ و سال کے،جعفرشیرازی،خانیوال:مطلع پبلی کیشنزپاکستان،۱۹۹۱ء،ص۲۲۲
۱۲۔مجید امجد،مضمون،مشمولہ،شب گل،اشرف قدسی،لاہور: جہانگیر بک ڈپو، ۱۹۹۳ء،ص۱۴۴
۱۳۔مجیدامجد،پاکستان میںمصوری،موسیقی اور شاعری کامستقبل،اصل مسودہ،مملوکہ،اشرف قدسی،حال مقیم لاہور
۱۴۔مجید امجد،مضمون،مشمولہ،گنج گفتار،مراتب اختر،اوکاڑا :ادارہ صوت ہادی،۲۰۰۶ء،ص۹
۱۵۔مجیدامجد،دیباچہ،بن باس،ناصرشہزاد،لاہور:الحمد پبلی کیشنز ،۲۰۰۴ء،ص۱۸
۱۶۔مجیدامجد،کچھ تخت سنگھ کے بارے میں،مشمولہ،مجیدامجدایک مطالعہ،ص۶۳۵
۱۷۔ناصرشہزاد،کون دیس گئیو،لاہور :الحمد پبلی کیشنز ، ۲۰۰۶ء،ص۱۶۲
۱۸۔ حکمت ادیب،مجیدامجد کی شگفتہ تحریریں،مشمولہ،مجیدامجدایک مطالعہ،ص۵۸۲
۱۹۔مجید امجد،اشارات۱،مشمولہ،مجیدامجدایک مطالعہ،ص۶۶۱
۲۰۔ مجید امجد،اشارت۲،مشمولہ،مجیدامجدایک مطالعہ،ص۶۶۴
۲۱۔اسلم ضیا،ڈاکٹر ،جہان مجیدامجد،ڈاکٹرمحمداسلم ضیا،ص۴۶
۲۲۔مجیدامجد،شاعر کا انجام،مشمولہ،مجیدامجدایک مطالعہ،ص۶۵۵