(چند نادر سہرے)
سہرادراصل ایک فرما ئشی نظم ہے، جو کسی شادی کے موقع پر دولہا کے سہرے کی سجاوٹ کی تعریف میں لکھی جاتی ہے۔ ہندی ادب میں اسے بھال سنگھ کہتے ہیں(۱) ۔ بھال بہ معنی پیشانی اور سنگھ یعنی ساتھی ۔ شا عر ،نظم میں سہرے کی تعریف کے ساتھ ساتھ دولھا کو مبارک باد دیتا ہے،اس کی ازدواجی زندگی کی کامیابی اور کامرانی کے لیے دعا کرتا ہے،اس لحاظ سے اسے قصیدے کی صنفی توسیع قرار دیا جا سکتا ہے۔ لفظ ـ ـ سہرا کے مادے میں بھی اہل قلم نے عجیب عجیب شگوفے چھوڑے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ لفظ شوہرا تھا (خاوند کی نسبت سے) اس سے شہرا اور پھر سہرا ہوا۔بعض کے خیال میں یہ ہندی لفظ سر بہ معنی فرق اور ہار سے مرکب ہے یعنی سر کا ہار ۔سہرے کی اکثر تعریفیں مبہم اور ادھوری ہیں۔ابوالاعجاز حفیظ صدیقی نے امداد امام اثر کے حوالے سے لکھا ہے:
غرض سہرے کی یہ ہے کہ شادی بیاہ کے مجمع میں اسے ارباب رقص گائیں اور حاضرین محفل لطف اٹھائیں(۲)
ارباب نشاط کی شرط جزوی طور پر اس لیے بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ قطب شاہی عہد میں رسم تاج پوشی یا سال گرہ کی تقاریب میںبادشا ہ کے سر پر سہرا اور گلے میں ہا ر ڈالنا لازمی جزو تھا ۔اس موقع پر ارباب رقص کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔جب بادشاہ مرصع لباس زیب تن کر کے سر پر تاج شاہی رکھتا تو لوگ آئمہ و معصومین کا نام لے کر سہرا باندھتے اور علیؓ کا نام لے کرہار پہنائے جاتے اور مصری چبانے کے لیے پیش کی جاتی۔ایسی تقاریب شاہی دربار اور ارباب رقص کے درمیان مرکز اتصال ہوتی تھیں(۳)۔
آغا محمد باقر نے ــ بیان غالب میںمرزا ا سد اللہـ غالب کو سہرے کا موجد قراردیا ہے(۴) ۔یہ بات محل نظر ہے ،سہرے کوبہ طور صنف سب سے پہلے نوری دکنی نے اپنایا،فارسی زبان و ادب میں اسے بساک کہا جاتا ہے(۵)۔نوری دکنی کے فارسی سہرے کا ایک شعر بہ طور نمونہ درج ہے :
ماہ من از حیا بسکم رشک آب و تاب شد
سہرا چوبست عارضعش پنجہ آفتاب شد
دکن میں اس کا آغاز بیجا پور اور گول کنڈہ کے شاہی درباروں میں ہوا۔مرزا محمد رفیع سودا نے ازاں بعد سہرا کو مضمون میں یوں باندھاــ:
بن سر لیے آتے ہیں اسے چار کے کاندھے
سہرے کے تئیں سیروئی سے کھاٹ کے باندھے
ایک صنف کی حیثیت سے سہرے میں مختلف تجربات کیے گئے۔عمومی طور پر اس کے لیے غزل کی ہئیت ا ختیا ر کی گئی ۔نظام رام پور ی نے اسے مثلث کے طور پر لکھنے کا تجربہ کیا (۶)،بعض اہل سخن نے اس میں تاریخیں بھی نکالی ہیں(۷)۔ دہلی کی مغلیہ سلطنت کے دور زوال میں سہرا نگاری کا فن عروج پر دکھائی دیتا ہے،اسی زمانے میں شہزادہ خوش بخت کا سہرا لکھنے کے حوالے سے شیخ ابراہیم ذوق اور مرزا اسد اللہ غالب کے شعری مناقشے اور مجادلے سے متعلق معلومات بھی ملتی ہیں۔سہرا خوشی کے موقع پر پڑھی جانے والی شاعری ہے جو پاک و ہند کی تہذیب کی عکاس اور اس کی خطے کی لا محدود رواداری کی مظہرہے۔
مجید امجد (۱۹۷۴ء۔۱۹۱۴ء) کے بارے میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ ایک مردم بے زار آدمی تھے۔یہ نقطہء نظر کلی طور پر درست نہیں،مجید امجد ایک سنبھلے ہوے ،وضع دار شخص تھے ۔ وہ تنہائی پسندہونے کے باوجود دوستوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے،ہم عصروں کے ساتھ شوخیانہ انداز بھی اختیار کرتے تھے جو کبھی کبھی چشمک کی صورت ظہور پاتا تھا۔ساہی وال میں مشاعرے منعقد کرنے کے لیے چندہ اگاہنا،اسٹیڈیم ہوٹل کے پاس لان میں بیٹھ کر گاڑیوں کے گھومتے پہیوں کا مشاہدہ کرنا،احباب کے ساتھ مل کر فی البدیہ ہجویہ شعر کہنا بھی ان کے مشاغل میں شامل تھا،سید جعفرشیرازی کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ:
جس مجید امجد کو میں جانتا ہوں ،وہ ایک قنوطی یا مردم بے زار شخص نہ تھا۔میں نے دیکھا کہ زندگی کے ا کثر امور میں وہ خاصے سوشل آدمی تھے۔ شہر کے ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ نوکر شاہی کے بڑے بڑے نمایندوں سے بھی ان کے خوش گوار تعلقات تھے۔اکثر احباب کی شادی یا غمی کے موقع پر وہ سب سے پہلے موجود،اور ان کے ساتھ ان کے غم یا خوشی میں ان سے بھی بڑھ کر شریک ہوتے تھے۔(۸)
مجید امجد کی شخصیت کے ان پہلووں کا اندازہ ان کے مختلف احباب کی شادیوں پر لکھے گئے سہروں سے لگایا جا سکتا ہے،مجید امجد کے یہ سہرے ان کے مزاج کا درست تعین کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔مجید امجد کے کلام کے مرتبین ان کے حصول کے سلسلے میں سر گرم عمل رہے ہیں ،اس بات کا اندازہ تاج سعیدمرحوم کے ایک خط سے لگایا جا سکتا ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں:
مجید امجد نے کسی زمانے میں اپنے دوستوں کی شادیوں کے پر سہرے لکھے تھے یہ بات مجھے ناصر شہزاد نے بتائی تھی۔۔۔اب مجھے مجید امجد کے بارے میں ایک کتاب مرتب کرنی ہے اس لیے ، اگر یہ متاع بے بہا کسی طرح دست یاب ہو جائے تو اسے بھی نئے مجموعے میں شامل کر لوں۔(۹)
مذکورہ دستیاب سہروں میں سے چارسہرے غیر مطبوعہ ہیں،اورڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے مرتب کردہ کلیات مجید امجد کے تازہ ایڈیشن میں بھی شامل نہیں،جب کہ بقیہ دو سہرے حال ہی میں ڈاکٹر اسلم ضیا کی شایع ہونے والی کتاب ـ جہان مجید امجد میں شامل ہیں۔یہ سہرے مجید امجد کی زندگی کے آخری سالوں کی یادگار ہیں، اس لیے انھیں ان کے ابتدائی کلام کی طرح فراموش کرنا ممکن نہیں،ناصر شہزاد اپنی کتاب کون دیس گئیو میں اس حوالے سے رقم طراز ہیں:
مجید امجد چوں کہ ایک بڑے شاعر تھے ،اس لیے ان کی نظموں اور غزلوں کے ساتھ ان کے کہے ہوے سہرے بھی ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں،صادق علی جوگی کے بھتیجے سلیم جوگی ،سید مراتب اختر ، شعری صاحب کے بیٹے اور راقم الحروف کی شادی کا سہرا بھی مجید امجد نے لکھا تھا،وہ خود جا کر سہرا نہیں پڑھتے تھے ،بس لکھ کر دے دیتے تھے۔مگر دانیال ساجد کی شادی کی تقریب میں انھیں سہرا پڑھتے ہوئے میں نے خود دیکھا ۔(۱۰)
مجید امجد کے ان سہروں میں پانچ سہرے غیر ادبی جب کہ بقیہ تین ادبی شخصیات کے لیے لکھے گئے۔صادق علی جوگی(۱۱) کے بھتیجے سلیم جوگی،شعری صاحب کے فرزند(۱۲)، سیدفرخ سئیر(۱۳)،عبدالعزیز خان یوسفی (۱۴)،اور پرویز انجم صدیقی (۱۵)کا مجید امجد کے ساتھ بہ راہ راست ادبی تعلق نہیں تھا ،جب کہ مراتب اختر(۱۶)ناصر شہزاد (۱۷)،اور دانیال ساجد (۱۸)جدید اردو شعری روایت کا حصہ ہیں،اور ادبی حلقوں میں خوب متعارف ہیں۔ان کا مجیدامجد سے نیا ز مندانہ تعلق تھا،اور ان کے شاگردوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سلیم جوگی اور شیر محمد شعری کے فرزند کے لیے لکھے گئے سہرے ضایع ہو گئے ہیں، جب کہ مراتب اختر،ناصر شہزاد،دانیال ساجد اور فرخ سئیر کے سہرے میسر آئے ہیں۔اتفاق سے یہ چاروں اصحاب پنجاب کے معروف پیر خانوادوں سے متعلق ہیں۔اس کے علاوہ ڈاکٹراسلم ضیا کی معرفت سے دستیاب ہونے والے عبدالعزیز خان یوسفی اور پرویز انجم صدیقی کے سہرے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مجید امجدنے ساہیوال کے ساتھ ساتھ جھنگ کے خطہ نور و رنگ کے احباب سے بھی آخری وقت تک قلبی رشتہ قائم رکھا۔
سہرا دیگر شعری اصناف کی طرح زیادہ مقبول نہیں۔مجید امجد کے عہد تک آتے آتے سہرا لکھنے کی روایت خاصی کم زور پڑ گئی تھی،اور اس کی افادیت اور مقبولیت میں شدید کمی واقع ہوئی تھی،مجید امجد اردو شاعری کی کلاسیکی روایت سے خوب آگاہ تھے اس لیے یہ سہرے ان کے فنی کمالات کا مظہر ہیں،شادی کی یہ تقاریب ۲۷ نومبر۱۹۶۶ء(فرخ سئیر)،۶ فروری ۱۹۷۰ء(ناصر شہزاد)،۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء(مراتب اختر)،۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء(پرویز انجم صدیقی)۴ستمبر ۱۹۷۳ء(دانیال ساجد) میں منعقد ہوئیں۔بدقسمتی سے عبدالعزیز یوسفی کی شادی کی صحیح تاریخ کا معلوم نہیں ہو سکا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مجید امجد اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے اور نثری آہنگ کے قریب نظمیں لکھ رہے تھے۔اپنے اجتہادی نقطہء نظر سے ہٹ کر انھوں نے یہ سہرے روایتی ہئیت میں لکھے اور موضوعات میں جدت کے ساتھ ساتھ روایتی انداز اپنایا۔ان میں استعمال ہونے والی سلک زر، شرف نسبت مکان شریف، سحر گل اندوزی بیاں، زراہ صدق، شعاع زر، فروغ معنی، رمز کلام، زیب زندگی ،ساعت نوریں،در ثمیں،کنز طرب،سلک یاسمیں،برگ دل،بہ طرف طرہ دستار،سرود بربط راحت ،متاع دامن گلزار،ثمن زار محبت ،بہ صد سامان زیبائی ،موج کوثریں،ابد کے گل کدوں،گل کار،گل فام،نکہت بار،رخ نوشہ ،گل انبار،نسیم آرزو،گل عارض ،اور یمن اہل حقجیسی دو لفظی اور سہ لفظی تراکیب منفرد اوراچھوتی ہیں،اور مجید امجد کے جداگانہ شعری رنگ کی ترجمانی کرتی ہیں۔
(۱)
ارمغان امجد
بہ صہریت صا حب زادہ فرخ سئیر سلمہ اللہ تعالیٰ
زہے یہ دن، یہ سماں ،یہ گہر فشاں سہرا
یہ سلک زر،یہ گل تر ، یہ شادماں سہرا
زہے یہ ربط محبت ، خوشا یہ جذب وفا
ہے زیب چہرہ فرخ ،فرح بہ جاں سہرا
چمن چمن ، شرف نسبت مکان شریف
روش روش ،طرب حسن جاوداں سہرا
وہ اک نظر کہ ہے منظور قلب اہل نظر
اس اک نظر سے ہے نظارہ جناں سہرا
یہ آستاں جو ہے صاحب دلوں کی جنت شوق
ہے اس کے بام سے گل بار و گل فشاں سہرا
مسرتوں سے معطر،شگفتہ رو گجرے
سعادتوں سے مزین فروغ جاں سہرا
جبین طالع ، فرخ تجھے مبارک ہو
یہ زندگی کی بہاروں کا ارمغاں سہرا
قبول ہو تو زہے عزو شاں جو امجد نے
لکھا بہ سحر گل اندوزی بیاں سہرا
(۲)
بہ تقریب سعید شادی خانہ آبادی
سید ناصر شہزاد شیخو شریف
مبارک ہو، تجھے ناصر ، حسیں سہرا
حسیں سہرا اور اس پر دل نشیں سہرا
بہ فیض صاحب شیخو شریف اترا
ترے رخ پر بصد حسن یقیں سہرا
خوشا یہ بخت کی ضو تیرے چہرے پر
دمک اٹھا ہے جس سے گوہریں سہرا
فروغ عظمت گیلانیاں بن کر
ہے کس دھج سے ترے زیب جبیں سہرا
مبارک ہو کہ آج اس شان سے چمکا
تری دنیا میں جنت آفریں سہرا
یہ اک چہرے پہ اتنے روپ جلووں کے
کہیں گجرے، کہیں مکنا، کہیں سہرا
زہے قسمت یہ دن،جب تیرے مکھڑے پر
ترے دل کی مرادیں بن گئیں سہرا
دعا ہے تیرے دل کے باغ میںمہکے
سدا یہ تیری خوشیوں کا امیں سہرا
زراہ صدق نذر دوست ہے یہ نظم
ابد کے چوکھٹے میں جاگزیں سہرا
(۳)
بہ تقریب سعید شادی خانہ آبادی
سید مراتب اختر شیخو شریف
تجھے مبارک مرتب اختر، یہ مایہء احترام سہرا
دعائے اہل طریق سہرا، عطائے رب انام سہرا
یہ شوکت خانوادئہ حضرت محمد حسین کا جشن
جھمک رہا ہے ترے رخ ذی شرف پہ عالی مقام
ترے جبیں پر سنور کے اتنی طمانیت سے ہیں زیب افزا
حسیں رتوں کا طلسم لڑیاں ،حسیں دنوں کا نظام سہرا
جو تیرے جی میں جئیں انھی بخت ور مرادوں کا روپ گجرے
جو تیرے دل کے چمن میں مہکیں انھی گلوں کا پیام سہرا
شعاع زر میں گندھے شگوفے،بھری مرادیں ،سجل زمانے
تری تمنا کے آئینے میں جمال حسن دوام سہرا
ریاض شیخو شریف میں یہ دعائیں گاتی ہوائیں آئیں
مسرتوں کے ضیا کدوں میں رہے فروزاں مدام سہرا
یہ چند سطریں جو صدق رس ہیں ،مجید امجد کی پیش کش ہیں
فروغ معنی! قبول کر یہ بہ شکل رمز کلام سہرا
(۴)
بہ تقریب شادی خانہ آبادی
سید دانیال ساجد مکان شریفی
نور دیدئہ منظور دانیال ساجد کو
جاوداں مبارک یہ دولت یقیں سہرا
وقت کے نظاروں میں، سرمدی بہاروں میں
خوش جمال پھولوں کا حسن آفریں سہرا
دل میں اور زمانے میں ہر طرف گل و گوہر
زیب زندگی خوشیاں، زینت جبیں سہرا
رفتگاں کی یادوں میں، نور کے لبادوں میں
شادماں رتیں رخ پر سج کے بن گئیں سہرا
منزل سعادت ہے، سانس سانس ارادت ہے
یمن اہل حق لڑیاں، فیض اہل دیں سہرا
اوج پر مقدر ہے، رفعتوں کا منظر ہے
دل میں جاں فزا گلشن، رخ پہ گوہریں سہرا
تا ابد رہے تازہ، تا ابد رہے روشن
ذی شرف مکاں میں آج یہ شرف گزیں سہرا
(۵)
بہ تقریب شادی خانہ آبادی
جناب پرویز انجم صدیقی سلمہ
مبارک ہو تجھے پرویز انجم انجمیں سہرا
زہے یہ ساعت نوریں، زہے یہ گوہریں سہرا
بہار زندگی آئی، بہ صد سامان زیبائی
حسیں ماتھا، حسیں مکنا، حسیں سہرا
جو اس گھر تک ابد کے گل کدوں میں چل کے آئی ہے
انھی مہکی ہوئی خوشیوں کا موج کوثریں سہرا
تقیء خوش زماں کی عظمتوں کے سج گئے گجرے
نسیم شادماں کی آرزوئیں بن گئیں سہرا
در انجم، سہیل انجم، فروغ انجم، شعیب انجم
ہیں نازاں تیرے مکھ پر دیکھ کر ناز آفریں سہرا
عطیہ اور سیما بھی ہیں خوش، سارے بہن بھائی
پرو لائے تری خاطر بہ صد در ثمیں سہرا
ترے سہرے کی تابانی ہے فیض ان صدق کیشوں کا
کہ تھی بشروں پہ جن کے عزت دنیا و دیں سہرا
خلوص اہل بدایوں کا مروت جھنگ والوں کی
یہ قدر اک بے بہا زیور، یہ وصف یک دل نشیں سہرا
ترے گلشن میں ہیں کنز طرب، رمز وفا ،یہ پھول
یہ سہرا ہے ترے دل کی مرادوں کا امیں سہرا
مرا دل خوش ہے میں آج ایک انجم انجمن میں ہوں
مرے حرف دعا نغمے، ترے زیب جبیں سہرا
سدا چمکیں ترے رخ پر بہ تار زر مہ و پرویں
سدا مہکے ترے دل میں بہ سلک یاسمیں سہرا
مجید امجد نے، شعری نے زراہ تہنیت لکھا
بہ برگ دل، بہ سطر زر، بہ صد حرف مبیں سہرا
(۶)
بہ تقریب سعید شادی خانہ آبادی
عبدالعزیز خان یوسفی خلف الرشیدخان عبدالرشید خان
عزیز محترم! تجھ کو مبارک
یہ نکہت بار یہ گل بار سہرا
مبارک! آج تیرے منتظر ہیں
سواری ، مکنا ، مہندی ، ہار ، سہرا
پھبکتا ہے بہ شان دل ربائی
بہ طرف طرہ دستار سہرا
تعالیٰ اللہ ، یہ گل فام چہرا
جزاک اللہ یہ ، یہ گل کار سہرا
زہے قسمت یہ دور شادمانی
مبارک یہ طرب آثار سہرا
گل عارض پہ سرخی آرزو کی
ہے اس سرخی کا عزت دار سہرا
سمن زار محبت میں ہے رقصاں
سرور شوق سے سرشار سہرا
سرود بربط راحت کا آہنگ
رباب سرخوشی کا تار سہرا
تمنا کی حسیں تصویر ، کلیاں
جوانی داستاں! اظہار سہرا
بہار نو کی پھلجریاں شگوفے
متاع دامن گلزار سہرا
نسیم آرزو سے مست گجرے
وفا کی دولت بیدار ، سہرا
دعائے شوق کا ایجاب مہندی
لب زرین کا اقرار سہرا
ترے ہونٹوں کے نزدیک آکے ، جانے
پلٹ جاتا ہے کتنی بار سہرا
براتی شاد ، ساری دنیا شاداں
رخ نوشہ پہ پر انوار سہرا
کرے آلام سے تجھ کو سبک دوش
یہ تیرے سر پہ گل انبار سہرا
پروئے دو دلوں کو ازرہ لطف
یہ تار زرخوشی ، زرتار سہرا
ابد تک تیرا باغ زیست مہکے
رہے تازہ یہ تازہ کار سہرا
مرادوں کی حسیں جھولی میں ڈالے
تمنائوں کے برگ و بار ، سہرا
مبارک کلک امجد سے چکیدہ
حسیں نذرانۂ گل زار سہرا
اردو میں سہرا نگاری کی روایت خاصی پرانی ہے،اسے دیگر شعری اصناف کی طرح قبولیت عام تو حاصل نہ ہو سکی لیکن یہ معاشرتی تعلقات کے حوالے سے اس عہد کے لوگوں کے باہمی ربط و ضبط کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔مجید امجد تنہائی پسند ہونے کے باوجود سماجی رشتوں کے پاس دار تھے۔ سماج کے دیگر افراد کے ساتھ ان کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوارتھا۔وہ زندگی میں صرف غم کے نوحے لکھنے کے قائل ہی نہ تھے بل کہ کبھی کبھی شادی کے نغمے سننے پر بھی یقین رکھتے تھے۔
حوالہ جات
۱۔ فیض الحسن سیوہاروی، مرتب ،اردو ادب کی انسائیکلو پیڈیا،لاہور،فیروزسنز، ۱۹۸۷ء،ص۱۷۷
۲۔حفیظ صدیقی،ابو الاعجاز، کشاف تنقیدی اصطلاحات،اسلام ٓباد،مقتدرہ قومی زبان ، ۱۹۸۷ء،ص۱۰۵
۳۔ساجد امجد،ڈاکٹر، اردو شاعری پر ہندوستان کے تہذیبی اثرات،لاہور ،الوقار پبلی کیشنز،۲۰۰۴ء،ص ۲۱۳
۴۔فیض الحسن سیوہاروی، مرتب ،اردو ادب کی انسائیکلو پیڈیا،ص۲۱۵
۵۔فیض الحسن سیوہاروی ، مرتب،اردو ادب کی انسائیکلو پیڈیا،ص۱۲۵
۶۔ابتدائی دنوں میں میں سہرے کے لیے مثلث کی ہیئت نظام رام پوری نے اختیار کی۔نمونے کے طور پر ایک مثال پیش ہے:
گل فردوس سے حوروں نے تو گوندھا سہرا
کہو سیاں سے کہ تو موتیوں کا لا سہرا
آج نوشہ کے لیے چاہیے اچھا سہرا
۷۔ مختلف ادوار میں ایسے سہرے بھی لکھے گئے جن میں سے تاریخ نکلتی ہے۔یہاں کے سہرے سے ایک شعر بہ طور اقتباس پیش ہے جس سے ۱۳۵۰ کا سن ہجری بر آمد ہوتا ہے
کنز عشرت ہے ،گل لطف ہے ،مہد امید
گوہر راج و وفا ہے یہ سرا سر سہرا
۸۔جعفر شیرازی، سید، مجید امجد کی متوازن شخصیت ،مشمولہ سہ ماہی گہراب،ساہیوال،شمارہ ۴،دسمبر ۱۹۸۲ء،ص۸۴
۹۔تاج سعید،ایک غیر مطبوعہ خط،مشمولہ کتابی سلسلہ تدوین،ملتان،جلد اول،۲۰۰۳ء،ص۸
۱۰۔ناصرشہزاد، کون دیس گئیو، لاہور،الحمد پبلی کیشنز،۲۰۰۵ء،ص۱۶۰
۱۱۔سلیم جوگی کے چچا ،صادق جوگی مرحوم (م:۱۹۹۷ء)مجید امجد کے مداح اور قریبی دوست تھے۔ انھوں نے سٹیڈیم ہوٹل ساہیوال کا انتظام سنبھالا ہوا تھا،وہ تا دیر اس کے منتظم رہے۔ساہیوال کے شاعروں اور ادیبوں کی مجالس کے مراکز کیفے ڈی روز اورسٹیڈیم ہوٹل تھے۔ادبی و شعری مجالس بھی یہیں ہوتی تھیں۔ان مجالس کی رونق مجید امجد،بشیراحمدبشیر،جعفرشیرازی،مراتب اختر،ناصرشہزاداور دیگرشعرا کے دم سے تھی۔بیرون جات کے شاعرادیب بھی یہیں آتے ۔سلیم جوگی ان کے مرحوم بھائی کے بیٹے تھے ۔صادق جوگی اور سلیم جوگی ،دونوں کا انتقال ہوچکا ہے۔
۱۲۔ شیر محمد شعری(م :۱۹۹۴ء) کا تعلق مجید امجدکے آبائی شہر جھنگ سے تھا۔وہ مجید امجد کے پرانے اور با اعتماد دوست تھے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے مرتبہ’’ کلیات مجید امجد ‘‘میں شعری صاحب کے لیے بھی قطعہ کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے۔اس کے دو شعر دیکھیں:
سنا ہے میں نے کہ شعری تمہاری سمت سفر
بساط گل پہ بچھی برف کی سلوں میں ہے
تمہارا قافلہ شوق جاگزیں اب کے
کنار کوہ پہ ، نیلم کے ساحلوں میں ہے
تفصیل کے لیے دیکھیے : کلیات مجید امجد،مرتبہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا،لاہور:الحمد پبلی کیشنز،۲۰۰۳ء،ص۷۲۳
۱۳۔فرخ سئیر(م:۲۰۱۰ء )ساہیوال میں نقشبندی سلسلے کے معروف روحانی بزرگ سید منظور احمد مہجور (۱۹۶۹۔۱۹۰۳ء)کے صاحب زادے تھے۔اس خانوادے کا آبائی تعلق رتڑ چھتر مکان شریف سے تھا جو ہندستان کے ضلع گورداس پور کا ایک گاؤں ہے۔آپ مشہور ومعروف بزرگ حضرت امام علی شاہ ؒ کے خاندان سے تھے ۔سید منظور احمد مہجور کا گھرانا فیوض وبرکات کا منبع تھا ،پشت ہا پشت سے یہ گھر اہل طریقت اور صاحب کشف لوگوں کا مسکن تھا۔اسی مذہبی ماحول کی بہ دولت سید صاحب مرحوم کا رجحان فطری طور پر نعت شریف کی طرف ہوا۔ سید منظور احمد مہجور مجددی مکان شریفی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں استغراق رکھتے تھے۔جذب مستی کے عالم میں ان کے لب پر جو الفاظ آتے نعت یا شعر کی شکل میں ڈھل جاتے …ان کی شاعری پاکیزگی ،حسن بیان اورواردات قلب کا آئینہ ہے۔انہیں نے وہ انداز بیان اختیار کیا ہے جو نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایان شان ہے۔سید منظور احمد مہجور کی نعت شریف میں قرآن مجید کے نصوص کی علامات کا رفرما دکھائی دیتی ہیں۔اسلوب شاعری حدعجز اور حد نیاز کے اندر ہے،ان کی نعت کا ایک ایک مصرع صدق رس عقیدت کے جذبوں کی خوشبومیں رچا بسا دکھائی دیتا ہے۔سید منظوراحمد مہجورکا انتقال ۸ محرم الحرام بہ مطابق ۲۷مارچ۱۹۶۹ء بروز جمعرات ہوا۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں ان کے آبائی گھر واقع سول لائنز ساہیوال میں دفن کیا گیا۔سید صاحب اور ان کے خاندان سے مجید امجد کا قریبی تعلق تھا۔ان کے نعتیہ مجموعے بام عرش کا دیباچہ بھی مجید امجد کا تحریر کردہ ہے ۔مجید امجد نے اپنی ایک نظم ’’صاحب عرفاں‘‘میں سیدمنظوراحمد مہجور کو ا ن کی وفات کے بعد اس طرح خراج محبت پیش کیاہے:
میں نے دیکھا،
اس نے اپنی اس اک عمر میں جتنی زندگیاں پائی تھیں
آج اس کی میت کے ساتھ نہیں تھیں
وہ تو اب بھی سب کی سب اس دنیا میں ہیں
جو بھی چاہے ان کو چن لے اور آنکھوں سے لگالے
۱۴۔عبدالعزیز خان یوسفی کے بارے میں راقم کو زیادہ معلومات نہیں مل سکیں،ڈاکٹر اسلم ضیا نے اس سہرے کا محرک بلدیہ کے ملازم گلزار خان کو بتایا ہے،یہ سہرا گلزار خان کے چچا زاد ڈاکٹر ظفر خاں کے پاس سے دستیاب ہوا۔
۱۵۔پرویز انجم صدیقی (پ:۱۹۴۴ء) گورنمنٹ کالج جھنگ کے پروفیسر تقی الدین انجم مرحوم کے صاحب زادے ۔ جامعہ ہندسیہ لاہور(یو۔ای۔ٹی) سے۱۹۶۶ء میں بی ایس سی انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۶۶ئء سے ۱۹۷۱ئء تک پاکستان میں ملازمت کی۔۱۹۷۱ئء سے۱۹۹۰ء تک نائجیریا میں بہت اہم پروجیکٹس پر کام کیا۔ ازاں بعد نائجیریا سے امریکہ چلے گئے۔آج کل میتھ میکڈونلڈ آف پاکستان(یہ انجینئرنگ کی کنسلٹنٹ فرم ہے) میں ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر ہیں۔(معلومات از فروغ الدین انجم بہ ذریعہ جنیدامجد)
۱۶۔اردو کے معروف شاعر ناصر شہزاد(م۲۰۰۷) کا مجید ا مجدسے قریبی تعلق تھا۔انھوں نے نہ صرف شاعری میں انفرادیت پسندی کی وجہ سے شہرت پائی بل کہ مجید امجد کی حیات اور شعری کائنات پر ـــــ کون دیس گئیو کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی،جو مجید امجد شناسی میں اہم اضافہ ہے۔ان کے شعری مجموعے چاندنی کی پتیاںاور بن باسکے نام سے شایع ہوئے ۔ناصرشہزاد کے انتقال کے بعد پکارتی رہی بنسی کے عنوان سے ان کا بقیہ کلام منظر عام پر آیا ہے۔
۱۷۔مراتب اختر (م:۱۹۸۸ء)نے اپنی منفرد شاعری کی وجہ سے شہرت حاصل کی،اسی زمانے میں جنگل سے پرے سورج کے نام سے ان کا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔ بعد ازاں ادبی حلقوں سے علاحدگی اختیار کی،اور تصوف کی طرف راغب ہوئے۔ان کے انتقال کے بعد گنج گفتار، اور گزرا بن برسے بادل کے نام سے ان کے شعری مجموعے شایع ہوئے۔
۱۸۔دانیال ساجد(پ:۱۹۳۷ء) سید منظور احمد مہجور کے دوسرے صاحب زادے ہیں۔گورنمنٹ کالج ساہیوال میں زیر تعلیم رہے۔طالب علمی کے زمانے مجید امجد سے ملاقاتیں رہیں،ٹی کارپوریشن آف پاکستان میں ملازم رہے۔ آج کل لاہور میں مقیم ہیں ۔