اقوام عالم نے اپنے زبان وادب میں عسکری عروج و زوال کی داستانیں رقم کی ہیں۔قدیم ہندستان میں برہمن شاعر رشی والمیک نے رامائن لکھی۔جو عسکری مہمات کے بیان پر مشتمل ہے۔مہا بھارت بھی قدیم زمانے میں کورووں اور پانڈوں کے باہمی مجادلوں کو موضوع بناتی ہے۔یونانی ادب میں ہومر سے منسو ب اوڈیسی دستیاب ہے جو ٹرائے کی جنگ سے واپسی کے بعد تخلیق کی گئی۔انگریزی ادب میں اسپنسر نے دی فیری کوئینکی شان دار رزمیہ نظم لکھی۔جان ملٹن کی پیراڈائز لاسٹ ایک عظیم جنگ کی کتھا ہے۔ اسی کا نقشِ ثانی پیراڈائز ری گین کی شکل میں ابھرا۔ ایامِ جاہلیت کی عربی شاعری میں اس عہد میں ہونے والے معرکوں کا ضمنی تذکرہ ملتا ہے ۔عربی ادب میں مسلمانوں کے خلیفہ چہارم حضرت علی ابنِ ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور باغی خارجیوں کے مابین ہونے والی جنگوں میں فریقین کی تخلیق کردہ شاعری اہم دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔اردو شاعری میں بھی جنگ اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی ہولناکیوں کو موضوع بنایا گیا۔پنجابی زبان کی واریں اس خطے کے جنگجویانہ مزاج کی عکاس ہیں۔ جنوبی ہند میں بہمنی سلطنت کی زوال پذیری کے بعد جب عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتیں خودمختار ہوئیں تو مغلوں کے ساتھ ان کی جنگوں نے شان دار رزمیہ ادب تخلیق کیا۔ اس عہد میں شوقی، رستمی، نصرتی اور مرزا مقیم جیسے شعرا نے نام کمایا۔
برِصغیر میں قومی تشخص کی بے داری میں حالات کا شمول اپنی جگہ لیکن علی گڑھ تحریک نے ’’انگریزی لالٹینوں‘‘ کی روشنی میں سمت نمائی کی۔ اسی صلح جوئی کے تصور کے بعد میں علی گڑھ سے باہر پنجاب میں قاضی حمید الدین کی انجمن حمایت اسلام، سندھ میں حسن علی آفندی کا سندھ مدرسۃ الاسلام اور حیدر آباد دکن میں سر اکبر حیدری کی کاوشوں سے جامعہ عثمانیہ کے قیام نے ایک مسلم قومیت کی بنیاد رکھی۔ اسی عہد میں جمال الدین افغانی ؒ کے ’’ملتِ واحدہ‘‘ کے تصور نے فضا میں ارتعاش پیدا کیا۔ انھی تصورات کی صدائے بازگشت محمد علی جوہرؒ، ظفر علی خاںؒ، اور علامہ اقبالؒ کے ہاں سنائی دی۔ اس سے پہلے شبلی نعمانی کی ملی انتشار کی نوحہ گری اور مولانا حالی کی مدوجزرِ اسلام میں پیش کیا گیا زوالِ امت کا تصور برصغیر کے مسلمانوں کی آواز بن چکا تھا۔
پاکستان نے جغرافیائی حدبندیوں سے زیادہ مسلم تاریخیت کے تناظر میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ عظیم الشان تحفہ ایک روحانی وارداتِ قلبی کی صورت میں پاکستانی قوم کو ورثے میں ملا۔ 1947ء میں ہونے والے فسادات کے بعد جہاں آہ و زاری اور نالہ و شیون ہوا، وہاں ایک مشترکہ قوم کا تصور بھی پروان چڑھا۔ ترقی پسندوں کے خیال میں سماج میں موجود برائیاں بدستور موجود تھیں۔ اس لیے یہ ’’یہ مارشل پلان کے تحت ہندوستانیوں کو چند ٹکوں کے عوض فروخت کرنے کی سازش تھی۔‘‘ (۱)
قیامِ پاکستان کے بعد یہی دو تصورات تھے جو پاکستانی عوام کو ورثے میں ملے۔ فکر کی یہ دونوں لہریں متوازی انداز میں ساتھ ساتھ چلیں۔1958ء کے مارشل لا نے تصورات کے شفاف آئینوں کو زنگار ی کر دیا۔ ملی یک جہتی کا تصور پارہ پارہ ہو رہا تھا۔ممکن تھا کہ دو قومی نظریہ بھی ایک مقدس مگر ’’بے جان بت‘‘ کی شکل اختیار کر لیتا کہ اچانک ارضی ثقافتی تحریک نے اسے مقامیت کا رنگ عطا کر کے کسی ممکنہ نقصان سے بچا لیا۔ اس کثیر الجہت تحریک نے ارض پاکستان کو وادی سندھ کی تہذیب کے تناظر میں دیکھا۔ اس تصور سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اس تحریک کو یہ کامیابی ملی کہ مذکورہ بالا دونوں تصورات اس کے پلیٹ فارم پر یک جا ہوگئے۔ اس آمیزش کا سب سے بڑا سبب 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگیں تھیں۔ ڈاکٹر انور سدید کے مطابق:
’’ان جنگوں کے بعد حب الوطنی اور ارضِ پاکستان سے روحانی وابستگی کا جذبہ شدت سے بے دار ہوا۔ اس کی ایک صورت تو ’’سوہنی دھرتی‘‘ کے تصور میں ابھری اور دوسری صورت یہ ہوئی کہ شہروں اور قصبوں سے جذباتی وابستگی کا شدید ترین جذبہ پیدا ہوا۔ تیسرے شعرا نے نظریاتی تعصب سے بلند ہو کر ارضِ وطن کی خوشبو کو جبلی سطح پر محسوس کیا۔ اور گرد و پیش کو شعری اظہار کے ساتھ منسلک کر دیا۔‘‘(۲)
پاکستان کی قومی اور ملی تاریخ میں 6ستمبر1965ء کا سورج ایک نیا امتحان بن کر طلوع ہوا اور ہماری ادبی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوا۔ اس سترہ روزہ جنگ میں پاکستانی قوم نے اپنی گم شدہ قوت کی ازسرِ نو بازیافت کر لی۔ ہمارے نظریاتی طور پر منقسم ادیب کا ذہنی تعطل ختم ہو گیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، رئیس امروہوی، احسان دانش، شورش کاشمیری، صوفی تبسم، محشر بدایونی، حمید نسیم، رضی ترمذی، یوسف ظفر، انیس ناگی، حمایت علی شاعر، حزیں لدھیانوی، کیف بنارسی، قتیل شفائی، حفیظ ہوشیارپوری، وقار انبالوی، ضمیر جعفری، ایم ڈی تاثیر، فضل احمد کریم فضلی، مجید لاہوری اور صہبا اختر جیسے شعرا کی تخلیقات سامنے آئیں۔
مجید امجد نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کو خالص مذہبی اندازِ فکر کی بجائے بین الاقوامی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھا۔اس موضوع پر ان کی مندرجہ ذیل نظمیں موجود ہیں: ۱۔خطۂ پاک 13ستمبر1965
۲۔سپاہی 27ستمبر1965ء
۳۔ چہرۂ مسعود اکتوبر 1965ء
۴۔ غزل (جنگ بھی، تیرا دھیان۔۔۔) 12دسمبر1971ء
۵۔ اے قوم 18 دسمبر 1971ء
۶۔ نظم بہ عنوان 21دسمبر1971ء 21دسمبر 1971ء
۷۔ جنگی قیدی کے نام 1972ء
۸۔ ریڈیو پر اک قیدی ۔۔۔ 25 دسمبر 1971ء
یہ نظمیں براہِ راست اس موضوع کا احاطہ کرتی ہیں۔بعض نظموں میں ضمنی طور پر اس عہد کی صورت گری ملتی ہے۔ مجیدامجد کا دور سیاسی انتشار اور فکری طور پردوقطبی نظام کاپروردہ تھا ۔اس صورت میں ان جیسے حساس انسان کا اس منظرنامے سے متاثرہونا ان کی فطرت کاتقاضا تھا۔ان کے نجی حالات کی دکھ بھری کیفیات نے بھی اس غم کی شدت کواور بڑھادیا۔بہ قول ڈاکٹرشبیراحمدقادری:
’’۱۹۶۵ء اور۱۹۷۱ء کی جنگوں کے حوالے سے مجیدامجد نے معرکہ آرانظمیں لکھی ہیں۔سقوط ڈھاکہ نے شاعروں ،ادیبوں اور دانش وروں کوجس شدید صدمے سے دوچار کیا اس کااظہار اس عہدکے شعروادب میں بالضرور ملتاہے۔۱۹۷۱ء کے بعدتوگویا مجیدامجدبھی احساس شکست کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔وہ ان لوگوں کی ذہنیت کا مرثیہ لکھتے ہیں جن کی وجہ سے دنیا کی یہ سب سے بڑی اسلامی مملکت دولخت ہوگئی‘‘(۳)
ہمارے پیش نظر اول الذکر نظمیں ہیں۔نظم ’’خطۂ پاک‘‘میں شہروں کی فصیلوں پر ہونے والی آتش و آہن کی بارش کی منظر کشی کچھ یوں ہوتی ہے:
دیکھتے دیکھتے بارود کی دیوار گری
ہٹ گئے دشمن کے قدم
خندقیں اٹ گئیں شعلوں سے ۔۔۔۔ مگر ہائے وہ دل،
زندہ، ناقابلِ تسخیر، عظیم
ہائے دلوں کی وہ فصیل
جاوداں اور جلیل
جس کے زینوں پہ ظفر مند ارادوں کی سپاہ
جس کے برجوں میں ملائک کے جیوش
جس کا پیکر ہے کہ اک سطرِ جلی
لوحِ ابد پر تاباں
آیۂ عمر شہیداں کی طرح
مجید امجد کے خیال میں طبقۂ اشرافیہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کی تکمیل کو اولیت دی۔ وطن کی خاطر بہنے والا سپاہی کا لہو اس کے لیے غیر اہم رہا۔ نظم ’’سپاہی‘‘ ایسے بے شمار گم نام سپاہیوں کی نمائندگی کرتی ہے جن کا ارضِ وطن کے لیے بہنے والا لہو اجنبی ٹھہرا۔ اس نظم میں سپاہی کی طرف سے اظہارِ بیان کیا گیا ہے۔لیکن اس کے پس منظر میں دراصل مجید امجد اپنا زاویہ نظر بیان کر رہے ہیں:
تم خود اس وقت کہاںتھے
تمھاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں کا بھنور تھی
جب اڑتی ہلاکت کے شہپر تمھارے سروں پر سے گزرے
تمھاری نگاہوں میں دنیا دھویں کا بھنور تھی
اگر اس مقدس زمیں پر مرا خوں نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمھارے گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمھارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
نظم ’’سپاہی‘‘ کے بارے میں قاسم یعقوب کہتے ہیں:
’’ اس نظم (سپاہی) میں سپاہی زرداروں سے مخاطب ہے۔ یہ امرا جو جنگ کی فتح یابی کے لیے دعا گو ہیں، ان کے خوابوں کی تکمیل کس نے کی؟ وہ محاذوں پر لڑنے والے سپاہی تھے۔ جو ہزاروں کی تعداد میں گم نام موت مارے گئے۔ جنگوں میں سپاہی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں مگر ان کی بہادری اور حب الوطنی کو کوئی اپنا حوالہ بنا کر سرخ رو ہو جاتا ہے ۔‘‘(۴)
1965ء کی جنگ کے حوالے سے ایک اور نظم ’’چہرۂ مسعود‘‘ کیپٹن مسعود اختر کیانی کی شہادت کا نوحہ ہے جو پاکستان کے دفاع کی خاطر لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ مسعود اختر کیانی ساہی وال کے ڈپٹی کمشنر حسن اختر کیانی کے صاحب زادے تھے۔ مسعود کے والد مجید امجد کے مداح تھے۔ ناصر شہزاد کے مطابق :
’’راجہ حسن اختر مجید امجد کا بہت احترام کرتے تھے، گاڑی بھجوا کر اکثر انھیں گھر سے اپنی کوٹھی بلوا لیتے تھے اور فن شعر و سخن پر بحث تمحیص کرتے رہتے۔تب مسعود اختر کیانی اوائل عمری سے گزر رہے تھے۔چوں کہ مجید امجد سے گھل مل چکے تھے، کبھی مجید امجد سے سکول کے لیے کوئی تقریر لکھواتے، اور کبھی شعر کے معنی پوچھتے۔ مسعود کی شہادت کی خبر جب ریڈیو پر نشر ہوئی تو مجید امجد کئی دنوں تک رنجیدہ رہے۔‘‘ (۵)
’’چہرۂ مسعود‘‘ میں مجید امجد کا شعری آہنگ فعلن فعلن کی تکرار کے باوجود ایک رزمیہ انداز اختیار کر لیتا ہے:
مالک تیری اس دنیا میں آج ہماری زندگیوں کو کیسے کیسے
دکھوں کا مان ملا ہے
ایسے دکھ جو ٹیس بھی ہیں اور دھیر بھی ہیں اور ڈھارس بھی ہیں
مالک آج اس دیس میں کوئی اگر دیکھے تو ہر سو
بھری بہاروں، کھلیانوں پر پھیلی دھوپ کی تہ کے تلے اک
خون کے چھینٹوں والی، چھینٹ کی میلی اور مٹیالی چادر بچھی ہوئی ہے
ستمبر کی جنگ میں قوم ایک ہی فکری محاذ پر مورچہ بند تھی۔ بدقسمتی سے 1971ء میں ایسا نہ ہو سکا، ہمارا دشمن ہماری رگوں میں وائرس بن کر چھپا تھا، مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا، آج کی تسلیم شدہ حقیقت ہے، لیکن اس سماجی اور سیاسی انتشار کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے ہم آج بھی مختلف دھاروں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ 1971ء کی جنگ میں ہمارے شعرا کے ہاں ایک حزنیہ آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ مایوسی اور اداسی کی ایک گداز لہر پیدا ہوتی ہے۔ مجید امجد کی اس موضوع پر لکھی گئی نظموں میں موجود فکری اور جذباتی موڑ واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ جنگ کے آغاز میں گورنمنٹ کالج ساہی وال کے گراؤنڈز میں جنرل ٹکا خاں نے افواجِ پاکستان کے ہم راہ کیمپ لگایا تو مجید امجد کے شعری اسلوب میں وطن کی افواج کے ساتھ یک جہتی کا نظر آنا فطری امر تھا:
جنگ بھی، تیرا دھیان بھی ہم بھی
سائرن بھی، اذان بھی ہم بھی
اک عجب اعتماد سینوں میں
فتح کا یہ نشان بھی ہم بھی
تو بھی اور تیری نصرتوں کے ساتھ
شہر میں ٹکا خان بھی ہم بھی
اسی نوع کی ایک نظم ’’ اے قوم‘‘ میں فتح کے حصول تک جہدِ مسلسل جاری رکھنے کی تلقین کرتے ہیں:
پھولوں میں سانس لے کہ برستے بموں میں جی
اب اپنی زندگی کے مقدس غموں میں جی
جب تک نہ تیری فتح کی فجریں طلوع ہوں
بارود سے اٹی ہوئی ان شبنموں میں جی
بندوق کو بیانِ غمِ دل کا اذن دے
اک آگ بن کے پوربوں اور پچھموں میں جی
انھی دنوں مجید امجد نے اپنے گھر (207 /ایف، فرید ٹاؤن ساہی وال ) کے صحن میں موجود آم کے دو درختوں کے نیچے’’وی‘‘ شکل کا مورچہ کھدوایا، وہ ایک طویل جنگ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔اخبارات کی شہ سرخیاں اچھی خبریں دے رہی تھیں، لیکن جب اچانک 16دسمبر1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کی دستاویزات پر دستخط ہوئے تو مجید امجد اندر سے شکست و ریخت کا شکار ہو گئے۔ مشرقی پاکستان کا سقوط کوئی عام واقعہ نہ تھا۔ وقت نے برسوں اس کی پرورش کی تھی۔پھر چشمِ انساں نے وہ منظر اپنی آنکھ سے دیکھا،جس میں صدیوں کا اضطراب درآیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق:
’’جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کا ہیلی کاپٹر 9بجے ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر اترا۔ جہاں جنرل نیازی نے ان کا استقبال کیا۔ اور پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق رمنا ریس گراؤنڈ کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔۔ رمنا ریس گراؤنڈ میں ہندوستانی فوج کا پہرہ تھا۔ جب کہ چاروں طرف بپھرے ہوئے لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں، برچھے، کلہاڑیاں، بندوقیں اور رائفلیں لیے منڈلا رہے تھے۔ جب دونوں جنرل وہاں پہنچے تو شور اٹھا۔ انھوں نے پاکستان اور پاکستانی افواج کے خلاف نعرے لگائے۔ جنرل نیازی نے شکست کے کاغذات پر دستخط کیے اور اپنا ریوالور اور پیٹی جنرل اروڑا کو پیش کی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ ڈائس سے اتر کر اپنی کار کی طرف بڑھے تو بپھرے ہوئے ہجوم میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر ناک سے اینٹھ نکالا اور ان کی طرف اچھال دیا۔ ایک اور شخص نے آگے بڑھ کر جنرل نیازی کی طرف اپنا جوتا پھینک دیا۔‘‘ (۶)
یہ اور اس نوع کے دیگر واقعات نے مجید امجد کی شاعری میں موجود رثائی عناصر میں اضافہ کیا۔ مجید امجد کے ہاں یہ سانحہ ایک اندوہ ناک صدمے کی صورت میں وقوع پذیر ہوا۔ چند نمونے دیکھیں:
آج جب ہم اپنے جیالے بیٹوں کو روتے ہیں تو
آنسو ہم پر ہنستے ہیں
اس مٹی کے وہ بیٹے ہم نے قیمت ہی نہ جانی جن کے چہروں کی
اور ہم اپنے بھرے بھرے
پھیپھڑوں کے
ٹھنڈے ٹھنڈے دخانوں کے پیچھے
یہی سمجھتے رہے کہ ہمارا لہو تو گاڑھا ہے
(ہم تو سدا۔۔۔)
رات آئی ہے، اب تو تمھارے چمکتے چہروں سے بھی ڈر لگتا ہے
اے میرے آنگن میں کھلنے والے سفید گلاب کے پھولو!
شام سے تم بھی میرے کمرے کے گل دان میں آ جاؤ ۔۔۔۔ ورنہ راتوں کو
آسمانوں پر اڑنے والے بارودی عفریت، اس چاندنی میں جب
چمک تمھارے چہروں کی دیکھیں گے
تو میرے ہونے پر جل جل جائیں گے اور جھپٹ جھپٹ کر
موت کے تپتے، دھمکتے گڑھوں سے بھر بھر دیں گے اس آنگن کو
(21دسمبر1971ء)
کیسی ہے یہ بھوری اور بھسمنت اور بھربھری ریت
جس کے ذرا ذرا سے ہر ذرے میں پہاڑوں کا دل ہے
ابھی ابھی ان ذروں میں ایک دھڑکن تڑپی تھی
ابھی ابھی اک سلطنت ڈوبی ہے
ابھی ابھی ریتوں کی سلوٹوں کا اک کنگرہ ٹوٹا ہے
سب کچھ ریت، سرکتی ریت
(سب کچھ ریت۔۔۔۔)
مجید امجد ان معدودے چند شعرا میں شامل ہیں جن کے ہاں ایک مفتوح قوم کا دکھ نمایاں نظر آتا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت نے ان کو اداس کر دیا تھا، یہ نظم اس سانحے کے بعد کا منظر نامہ ترتیب دیتی ہے:
ان سالوں میں/ قتالوں میں/ چلی ہیں جتنی تلواریں بنگالوں میں
ان کے زخم اتنے گہرے ہیں روحوں کے پاتالوں میں
صدیوں تک روئیں گی قسمتیں جکڑی ہوئی جنجالوں میں
ظالم آنکھوں والے خداؤں کی ان چالوں میں
مجید امجد قوم کے ان سنہری پروں والے موروں سے بے زار تھے جو قومی آبرو کے جنازے میں شریک ہوئے۔جنھوں نے محاذ پر لڑتے ہوئے سپاہی کو چوبی ہتھیار فراہم کیے۔ مجید امجد ناچار ماؤں کے انھی اسیر سپوتوں کے لیے اداس ہو جاتے تھے۔جنگی قیدی کی نفسیات اپنی جگہ لیکن اس کے چاہنے والے عزیز واقارب بھی ایک خاص قسم کے کرب سے دوچارہوتے ہیں۔غیر یقینی صورت حال ماحول کو مزید ٖغم زدہ کردیتی ہے ۔اس حوالے سے دونوں نظمیںبہ ظاہر مخصوص قیدیوں کے لیے ہیں لیکن ان کا مخاطب وطن کا ہر وہ سپاہی ہے جو اسیری کے دکھ جھیل رہا تھا۔کلیات مجیدامجدمیں شامل ان دونوں نظموں میں موضوعہ شخصیات کا نام تونہیں دیا گیا لیکن بیان کردہ روایت کے مطابق کے ایک مختصر نظم ’’جنگی قیدی کے نام‘‘ساہیوال میں مجیدامجدکے نیازمندصفدرناظر(صفدر علی خاں بلوچ) کے لیے لکھی گئی ۔صفدر ناظران دنوںپولیس افسرتھے ،مشرقی پاکستان کی مقامی پولیس کے منتشر ہوجانے کے باعث انھیں دیناج پور میں تعینات کیا گیا،جہاںوہ جنگی قیدی بن گئے۔صفدر ناظرآج کل ملتان میں مقیم ہیںاور وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔اس نظم میں مجیدامجد کہتے ہیں:
وہاں جہاں مشکلوں سے آزاد گلشنوں کی ہوائیں پہنچیں
وہیں دور ادھر تمھاری دکھوں بھری کال کوٹھڑی تک
ہمارے ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدائیں پہنچیں
دعائیں پہنچیں
وفائیں پہنچیں
نظم ’’ریڈیو پر ایک قیدی‘‘ کی تخلیق کا باعث فیاض محمود یافیاض فیضی بنے جو ’’مجید امجد کے سنگتی تھے اور مدتوں کیفے ڈی روز اور اسٹیڈیم ہوٹل میں ان کے پاس آ کر بیٹھتے تھے‘‘۔(۷) اس جنگ میں وہ بھی جنگی قیدی بن گئے، ریڈیو پر ایک دن جب فیاض محمود نے اپنے زندہ ہونے کی خبر سنائی تو مجید امجد کے شعری لہجے میں ایک تلخی کا عود کر آنا فطری عمل تھا۔ یہ نظم قوم کے وقار کا سودا کرنے والوں پر گہرا طنز ہے:
ریڈیو پر ایک قیدی مجھ سے کہتا ہے، میں سلامت ہوں
سنتے ہو، میں زندہ ہوں/ بھائی تو یہ کس سے مخاطب ہے، ہم کب زندہ ہیں
ہم اپنی اس چمکیلی زندگی کے لیے، تیری مقدس زندگی کا یوں سودا کر کے
کب کے مر بھی چکے ہم/ ہم اس قبرستان میں ہیں
ہم اپنی ان قبروں سے باہر بھی نہیں جھانکتے
ہم کیا جانیں کس طرح ان پر باہر تیری دکھی پکاروں
کے یہ ماتمی دیے روشن ہیں
جن کے اجالوں میں اب دنیا ان لوحوں پر ہمارے ناموں کو
پہچان رہی ہے
مجیدامجد کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا نفسیاتی جائزہ لیںتومعلوم ہوتا ہے کہ محرومیوں نے ان کے ہاں ایک خاص قسم کی یاسیت پیدا کردی تھی۔قوموں کی زندگیوں میںمیں شکست وفتح ایک حقیقت ہے ،یہاں سقوط ڈھاکہ کے سانحے کے پس منظرمیں مجید امجد کا حزنیہ اسلوب فطری اور برمحل ہے۔ایک مفتوح قوم کی بیٹی شالاط نے ان کی زندگی میں مرکزی مقام حاصل کیا تھا لیکن اب وہ خود اپنوں اور بے گانوں کی سازشوں سے ایک مفتوح لیکن بہادر قوم کے فرد تھے۔ مجید امجد کی پاک بھارت محاربوں کے حوالے سے تخلیق کردہ شاعری میں موجود علامتیں، تمثالیں اور پیکریت دراصل اک ایسے منظرنامے کو تشکیل دیتی ہے جہاں المیاتی فضا جنم لیتی ہے۔ مجموعی طور پر ان نظموں میں غم و اندوہ کی فضا غالب ہے۔ یہ شاعری قبائلی جذباتیت یا وقتی نعرہ بازی نہیں بل کہ زندگی کے تمام تر موضوعات پر اثر انداز ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ ظہیر کاشمیری، (دیباچہ) آدم آدم، لاہور: نیا ادارہ، ۱۹۴۹ء، ص ۱۲
۲۔ انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی: انجمنِ ترقی اردو، ۲۰۰۴ء، ص ۶۱۸
۳۔شبیراحمدقادری،مجیدامجد کی شاعری کے رثائی پہلو،مشمولہ،سہ ماہی اوراق،لاہور:جلد۲۸،شمارہ ۱۲۔۱۱،نومبردسمبر۱۹۹۳ء،ص۴۵
۴۔ قاسم یعقوب، اردو شاعری پر جنگوں کے اثرات، فیصل آباد: مثال پبلی کیشنز
۵۔ ناصر شہزاد، کون دیس گئیو، لاہور: الحمد پبلی کیشنز، ۲۰۰۶ء، ص ۱۱۸
۶۔ آغا اشرف، جہادِ پاکستان، لاہور: مکتبہ القریش، ۱۹۸۶ء، ص ۳۸۷
۷۔ ناصر شہزاد، کون دیس گئیو، ص ۲۷۲