نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف اور کثیر المعنی ہونے کے باوجود اس کے مفاہیم و معانی کے درمیان ایک خاص ربط ہے۔ نعت آپ، جناب، سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامدومحاسن کاذکر ہرعہدکے صاحب طبع مستقیم کے لیے اعزاز کاباعث رہاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے گرامی (محمداوراحمد)کے تناظرمیںکوئی آپ سے بڑھ کراسم بامسمیٰ نہیں ہوا۔اسلام کے عرب سے باہر متعارف ہونے کے بعدنعت حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدود مزیدوسیع ہوئیں۔ ڈاکٹراسلم انصاری کے بہ قول :
اسلام جب اقصائے عالم میں پھیلا توحب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ بھی چار دانگ عالم میں روشن ہوئے۔عربی،فارسی،ترکی اور اردو جوزیادہ ترمسلمانوں کی علمی ،ادبی اورتہذیبی زبانیں رہی ہیں،نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خزینو ں سے مالامال ہیں۔فارسی میں اور اردومیں سنائی ،سعدی،نظامی اور جامی سے لے کر غالب اور اقبال تک ہرقابل ذکر شاعر نے نعت کو وجہ افتخار سمجھا(۱)
عربی زبان و ادب میں نعت کے لیے مداح النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا المدائح النبویہ وغیرہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ نعت کا لفظ سب سے پہلے فارسی میں مدحت آں جناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عام ہوا۔ اردو شعرا نے فارسی کے خوان ِ نعت سے جو لطف اٹھایا، اس میں آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کے لیے استعمال کیا جانے والا لفظ نعت بھی شامل ہے۔مسلمانوں میں امام الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر درودو سلام اور ان کی تعریف و توصیف محسوس ولامحسوس طریقے سے فرضیت کے درجے پر متمکن ہے۔ مسلم معاشرے کی عمارت اس وقت تک درست بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکتی جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل کی مودت اور محبت کا جزو نہ بن جائے۔ دنیاکے دیگر مذاہب اور عقائد زندگی کے ماننے والوں نے اپنے انبیا اور اوتاروں کے ساتھ دو طرح کے رویے اختیار کیے:
۱۔ کچھ قوموں نے نہ صرف اپنے انبیا کی تصاویر بنائیں بل کہ ان کے بت بنا کر پوجنا شروع کر دیا۔ یوں مرحلہ وار اللہ تعالیٰ کا تصور ان کی ذہنوں سے محو ہوتا چلا گیا۔
۲۔ کچھ معاشرے ایسے بھی تھے جو اپنے پیغمبروں کی تعلیمات تو کیا ان کا نام تک نہ محفوظ رکھ سکے۔ قیامت تک ان کو اہلِ عقل و دانش کی طرف سے اس ناقدری کے طعنے کا ’’صدقہ جاریہ‘‘ پہنچتا رہے گا۔ اسلام میں مدحت سرکارصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معیار خود ذات باری تعالیٰ نے متعین کیا۔نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک محبوبہ دل براں صنف ہے۔اس کی موضوعہ ہستی محبوب خلق ہی نہیں محبوب خدا بھی ہے، یوں محبوبیت کے اس سفر کی طوالت کا ادراک بھی ذات خداوندی ہی کو ہے ۔ابنِ الفارس جیسے صاحب حال کہتے ہیں:
’’اری کل مدح فی النبی مقصرا،وان بالغ المثنی علیہ و اکثر اذا للہ اثنی بالذی ھوا ھلہ، علیہ فما مقدارماتمدح الوری۔‘‘(۲)
یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جتنی بھی مدح کی جائے وہ تشنہ رہے گی۔ خواہ نعت گو جتناچاہے مبالغہ کرے۔ جب اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ مدح کی جس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل تھے تو دنیا کی مدحتوں کی کیا اوقات ہے؟
جدید اردو نظم کے گل سرسبد مجیدامجد (۱۹۱۴ء۔۱۹۷۴ء)کے مذہبی تصورات کو اب تک سرسری اور رسمی انداز سے دیکھا گیا ہے۔ان کے بارے میں ناقدین ادب کا رویہ عمومی طور پر صم بکم عمی فھم لا یرجعون کی تفسیر رہا ہے۔قابل احترام ادیبوں کا ایک طبقہ ابتدا ہی سے مجید امجدکومذہب سے نفور اور بے زار بتاتاہے۔یہ تصور محل نظرہے۔ اگر ہم ان کی نظم و نثر کا بہ غور جائزہ لیں تو مجید امجد کے ہاں ایک نپی تلی ،سلجھی ہوئی ،متوازن شخصیت کا سراغ ملتا ہے۔ان کے نانا حکیم مولوی نور محمد جھنگ شہر میں ایک خاص مذہبی مقام اورمرتبہ ر کھتے تھے۔وہ سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت تھے۔ان کا شمار اپنے عہد کی معروف روحانی شخصیات میں ہوتا تھا۔مجید امجد کے خانوادے سے متعلق جنید امجد نے ان کے سوانحی کوائف مرتب کرتے ہوئے۱۱ جون ۱۹۷۶ء کو فیصل آباد کے اخبار روزنامہ غریب میں شایع ہونے والے محمد ابراہیم قاسم کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے۔اس مضمون سے مجید امجد کے خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔وہ لکھتے ہیںــ" میاں نور محمد اپنے عہد کے متبحر حنفی العقیدہ عالم،مفسر قرآن،شارح حدیث رسول ،فارسی کے شاعر ،منجم اور مشہور حکیم تھے "(۳)۔مجید امجد کے دادا حافظ عبدالکریم قادریہ نقشبندیہ سلسلے کے مبلغ تھے(۴)۔ والدین کے باہمی اختلافات اور پھر علاحدگی کے سبب مجید امجدکی ابتدائی تعلیم ان کے ننھیال میں ہوئی۔ان کے نانا حکیم نور محمد مرحوم نے انھیں قرآن وحدیث کی تعلیم کے علاوہ اس دور کی رائج کردہ کتابیں بھی پڑھائیں۔ ان میں عربی اور فارسی شاعری کے مجموعے بھی شامل تھے،ریڈیو پاکستان کے نمائندے سے ہونے والے ایک مصاحبے میں ابتدائی تعلیم کے حوالے سے مجید امجد کہتے ہیں :
جب اتنے عرصے کے بعد گزرے ہوئے وقت کی طرف خیال کرتا ہوں۔مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو میری پرورش جس ماحول میں ہوئی اس میں مجھے زیادہ تر فارسی،عربی،طب،منطق اور اس قسم کے دوسرے علوم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔کالج کے ساتھ ساتھ میں ایک مسجد میں بھی زیر تعلیم رہا۔(۵)
ابتدائی سطح پر یہی تربیت تھی جس نے آگے چل کر مجیدامجد کی فکر ی پرداخت میں اہم کردار ادا کیا ۔مجید امجد کے ہاں مکتب کی اسی کرامت کی بہ دولت ابتدا ہی سے عشق رسو ل صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بے کناردریاموج زن دکھائی دیتاہے۔ حکیم محمد اٖفضل ہرل کے ایک اصلاحی کتابچے بھٹکا ہواراہی کے دیباچے میں وہ سرکارہردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کواس کائنات کا مقصود کل قرار دیتے ہیں:
ملت اسلامیہ آج ایک روندے ہوئے بے بس تنکے کی طرح شاہراہ حیات پر دم توڑ رہی ہے اور یہ سب کچھ دنیا کی تاریخ کے ایک پر آشوب دور کے اندر ہو رہا ہے۔ آج دنیا ایک خونی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، حیران و ششدر کھڑی ہے، آج مشرق و مغرب کے سیاسین ایک نئے دور کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہر ایک نئے نظام کی ادھیڑ بن میں ہے، اک نیا جہان بسانے کی فکر میں ہے لیکن اس نئے دور کی کنجی نہ ماسکو میں ہے اور نہ واشنگٹن میں نہ لندن میں اور نہ سان فرانسسکو میں۔ یہ نیا جہاں، مدینے میں سونے والے کملی پوش آقا صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاک پاک کے ایک ایک ذرے کے اندر آباد ہے ، یورپ و ایشیا کے مدبّروں کو کَہ دو کہ وہ نیا نظام ، تیرہ سو سال ہوئے مکے کا ایک یتیم لاچکا ہے اور وہ دنیا دستور قرآن حکیم کے اور پر صدیوں پہلے سے مفصل و مکمل موجود ہے۔ کاش مسلمان آج اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کے اندر دنیا کے فلاح و نجات کی وہ ابدی مشعل جو فاران کی چوٹی پر دنیا کے رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فروزاں کی تھی۔(۶)
مجید امجد کے شعری کلیات مرتبہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا میں مجیدامجدکی دومندرجہ ذیل نعتیںشامل ہیں:
۱۔نوبہارگلستان معرفت۔یعنی اے روح روان معرفت :محبوب خداسے( ۷)
۲۔شہرمکہ بتوں کی بستی ہے۔چار سوتیرگی برستی ہے :نعتیہ مثنوی(۸)
یہ دونوں نعتیںابتدائی دور کی ہیں اورمثنوی کی ہئیت میں ہیں۔ ،ان میں مدحت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیانیہ پیراے میںاظہارملتاہے۔پہلی نعت شریف ’’محبوب خدا سے‘‘ میں سرور عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف وتوصیف کا حق ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جب کہ نعتیہ مثنوی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے پہلے اور بعدکے حالات کو واقعاتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ نعتیہ مثنوی پر علامہ اقبال کی واقعاتی نظموں کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔دونوں نعتوں کا سال تخلیق بالترتیب ۱۹۳۴ء اور۱۹۴۳ء ہے۔ ساہیوال میں قیام کے دنوں میں مجید امجدتخلیقی وفور عروج پر تھا ۔ وہ ادبی حلقوں میں اچھی خاصی شہرت حاصل کرچکے تھے۔انھی دنوںان کی ملاقاتیںسید منظورحسین نقوی نقشبندی(مکان شریفی)اور ڈاکٹر الف۔د۔نسیم سے رہیں،دونوں صاحب حال بزرگ تھے ۔ ان مجالس نے مجیدامجدکی شخصیت میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ان کی آخری عمرکی نظموں میں جوصوفیانہ لہجہ محسوس ہوتا ہے اس کے پس منظرمیںیہی محفلیں اپنارنگ جماتی دکھائی دیتی ہیں۔ڈاکٹرسعادت سعید ان صدق رس مجالس کی گواہی کچھ یوں دیتے ہیں:
سید منظورحسین نقوی مکان شریفی کی کوٹھی کی بیٹھک میں ان کے دوستوںاوران سے اکتساب فیض کرنے والے ان کے مریدوں کی محفلیں آبادرہتی تھیں۔ میںاکثراپنی والدہ ماجدہ کے کہنے پراپنے والد(ڈاکٹرالف دنسیم)کسی گھریلو کام کی یاددہانی کروانے کے لیے ان محفلوں میں جابیٹھتا تھا۔یوں کچھ فقر،عاجزی،مسکینی کی باتیں میرے کانوں میں بھی پڑ جاتی تھیں۔سید منظورحسین نقوی باشرع صوفی تھے۔۔۔یوں تو مجیدامجدکی شاعری میں ابتدا ہی سے ان کی درویشی اور فقر کی جھلکیاں نظرآتی ہیںلیکن ان کا وہ میں کا استعمال جو ان کی کھلاڑی(آٹوگراف) جیسی نظموں میںہے،ان کا خاتمہ منظور حسین شاہ صاحب کی محفلوں میں بیٹھنے سے ہوا۔میرا خیال ہے کہ ان صحبتوں نے مجیدامجدکی انا شکنی میں خاصا اہم کردار ادا کیا ہے (۹)
ان محفلوں میں موضوع بننے والی عرفانی گفت گو میںعشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنیادی حیثیت رہی ہوگی۔علم ودانش کے کیا کیا نہ لعل وگہر بکھیر دئیے گئے ہوں گے۔سید صاحب مرحوم کے نعتیہ شعری مجموعے بام عرش کا پیش لفظ تحریر کرنے کی سعادت بھی مجیدامجد کے حصے میںآئی۔نعت کی صنف کے بارے میںمجیدامجدکا تنقیدی شعور ان کے اس موضوع کی حساسیت سے آشنا ہونے کی دلیل ہے۔الاستدراک کے عنوان سے تحریر کردہ اس دیباچے سے سرسری طورپرگزرناممکن نہیں۔اس مضمون کے مطالعے سے نعت کی صنف کے بارے میں مجیدامجد کے تصورات و نظریات سے آگاہی ہوتی ہے۔ان کے خیال میں نعت ایک انتہائی حساسیت کی حامل صنف ہے۔اس کی تخلیق کے عمل میں شاعر کا ہر لحظہ با محمد ہوشیار کے ارشاد عالیہ کی طرف متوجہ رہنا لازم ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں مبالغہ شرک اور کمی اہانت بیان کے زمرے میں آسکتی ہے ۔ لکھتے ہیں:
صنف نعت ایک نہایت ادق اور نہایت وقیع صنف ہے۔ شعر اور اس کے اوزان میں جکڑے ہوئے الفاظ کا سلسلہ اپنی تمام اثر اندازیوں کے باوجود ، توصیف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کے مقام پر آکر عاجز ہو جاتا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جب تک حقیقت رسالت کی عظمت کا ادراک کامل حاصل نہ ہو، لکھنے والے کا بھٹک جانا ایک یقینی امر ہے، اور سب سے بڑھ کر ضروری شرط یہ بھی ہے کہ نعت نویس عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبات صادق سے بہرہ مند ہو اور یہ جذبہ اس کے اعمال و تصورات پر حاوی ہو۔ یہ عشق رسول کاجذبہ روح نعت ہے اور مقام مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا ادراک جان نعت ہے۔ دونوں صفات ایک ہی جلوے کا پرتو ہیں اور یہ صفات جب آئینۂ شعر میں منعکس ہوں گی تو نعت اس رتبے کو پہنچ سکے گی، جو اس کا مقصود ہے۔ لیکن عام طورپر دیکھا یہ گیا ہے کہ مروجہ نعتیں اس معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ یہاں یہ بات مناسب معلوم نہیں ہوتی کہ بعض جلیل القدر شعرا کا نام لے کر ان کی ان نعتوں کا ذکر کیا جائے جن کے بیان کی معنویت اس نازک اور مشکل مقام پر آکر مطالب مقصود تک نہیں پہنچ سکی۔(۱۰)
اسی مضمون میں وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
فن شعر کے لحاظ سے اس کام کے لیے کمال سخن وری اور نفس مضمون کے لحاظ سے اس کے لیے کمال آگہی درکار ہے، اور پھر ان دونوں چیزوں کو جلا جس چیز سے ملتی ہے وہ عشق کا سرمدی، جذبہ جو لفظوں کو تجلیات سے بھر دیتا ہے اور معانی میں وسعتیں سمو دیتا ہے۔ یوں نعت ایک مقدس آزمائش ہے۔ بیان عقیدت کی رو سے جو ہر ایمان کی آزمائش اور غایت غایات کی جستجو کے ضمن میں قوت ادراک کا امتحان سچی نعت لکھنے والوں کا مرتبہ انسانی اکتسابات کی معراج ہے۔ اس کا ہر سانس دیدار حبیب کی منزل ہے۔ وہ فرشتوں کا ہم زبان ہے۔ وہ تمام ارواح مبارکہ کا ہم نوا ہے اس کی زبان پر اس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح ہے جس کی مدح خود ذات باری نے کی ہے۔ اس کی فکر لامحدود کی حدیں متعین بھی ہیں۔ وہ قدم قدم پر نص قرآنی کا پابند ہے۔ (۱۱)
یہ تحریر انھی ابدآثار محفلوں کاثمر ہے۔مجید امجدکی شاعری کے فراموش کردہ سرمائے میں ایک نادرونایاب نعت شریف کا حوالہ دینا بھی یہاں ضروری ہے۔ یہ نعت جھنگ سے شائع ہونے والے رسالے الفلاح کے نومبر۱۹۳۷ء کے شمارے میں شامل ہے،ان دنوں مجید امجد جھنگ میونسپلٹی کے رسالے عروج کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے(۱۲)۔اس رسالے کے سرپرست سیدمبارک شاہ بغدادی تھے اورادارت دوست محمدسلیانوی کے ذمے تھی ۔اس نعت کی بازیافت کا سہرا ڈاکٹرمحمداسلم ضیاء کے سر ہے۔اس نعت کو اختصار کے باوجوداردو شاعری میں معراج ناموں کی روایت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اردو میں معراج ناموں کی روایت خاصی پرانی ہے ۔اس کی ابتدا جنوبی ہند میں قطب شاہی اور عادل شاہی ریاستوں میں ہوئی۔علامہ اقبال کی شہرہ آفاق شعری تصنیف جاوید نامہ کی تخلیق کے پس منظر میں بھی ابتدائی طور پر معراج نامہ لکھنے کی خواہش کا سراغ ملتا ہے ۔یہ نعتیہ نظم طالب اورمطلوب کے درمیان عشق ومحبت کا عاشقانہ اور صادقانہ اظہارکی غمازی کرتی ہے۔آپ جناب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر آسمانوں کو سجایا جارہا ہے۔اور ایسا کیو ں نہ ہو کہ آج وہ ہستی عرش کی مہمان ہے جس کی خاطر اس جہان رنگ و بو کو تخلیق کیا گیا۔یہ ایک نبی محترم کا سفر معراج ہی نہیں بل کہ اس کھوئے ہوئے مقام کی واپس منتقلی ہے جو شجر ممنوعہ کا ذائقہ چکھنے کے نتیجے میں ہبوط آدم علیہ السلام پرمنتج ہوا تھا۔آسمانی مخلوق یعنی حورین وفرشتے عرش معلی کو سجانے اور سنوارنے میں لگے ہیں کیوں کہ آج عرشیوں کے لیے عید کا دن ہے۔نعت شریف ملاحظہ ہو:
ہے جبرئیل محو ثنائے رسول آج
ہے عاشق رسول ، خدائے رسول آج
ہے شاہد مدینہ ، فدائے خدائے پاک
اور ہے خدا فدائے لقائے رسول آج
پابندی زمان و مکاں مٹ کے رہ گئی
ہے آستان قدس پہ پائے رسول آج
حوروں نے آسمانوں کے ایواں سجا دیے
ہیں سب یہ اہتمام برائے رسول آج
اللہ رے یہ طنطنہ آمد رسول
ہے آفتاب ذرہ پائے رسول آج
عرش بریں کے تاروں میں سرگوشیاں ہیں آج
عرش بریں پہ دیکھو وہ آئے رسول آج
حسن ازل کے چہرے سے پردے سرک گئے
حسن ازل ہے مست ادائے رسول آج
ڈوبی ہوئی ہے نور میں کونین کی فضا
کونین پر ہے فیض عطائے رسول آج
ہیں گل نگار وادی اسریٰ کے راستے
جنت کی ہر کلی ہے فدائے رسول آج
ٹھکرا رہا ہے قیصر وکسریٰ کی سلطنت
یہ امجد حزیں یہ گدائے رسول آج
ندرت،بے ساختگی اور روانی کی شاعرانہ فضا میںعاشق رسول،آستان قدس،شاہدمدینہ،گل نگار،محوثنائے رسول،طنطنہ آمد رسول ،پابندی زمان ومکاں،حسن ازل اوروادی اسریٰ جیسی خوب صورت تراکیب نے نعت شریف کو خوش آہنگ بنا دیا ہے۔اس پر مستزاد رعایت لفظی (خدا ،رسول،جبرئیل۔حسن ،چہرہ،پردہ۔گل ،کلی۔وادی،راستے)،صنعت تضاد(آفتاب،ذرہ۔قیصر وگدا)کی وہ فنی مہارتیں جو اس نعت کے حسن کو دوبالا کردیتی ہیں۔
مجید امجد کے ہاں نعت رسول مقبول ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔اس کے لیے بے شک باقاعدہ وسیلہ اظہار نہ بھی ہو تو نعت کے استغاثے اور انسان دوستی کے موضوعات ان کی نظم میں صوفیانہ انداز میں آئے ہیں۔اگر موا د کم ہے تو یہ یاد رہے کہ مجید امجد اس کار دشوار کے فکری و فنی تقاضوں سے آشنا ہیں۔ اگر ہر وہ شعر نعت کا ہے جس کو پڑھ کر قاری کا خیال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلا جائے تو ایسے اشعاربھی مجید امجد کے شعری کلیات سے مل جائیں گے۔
حوالہ جات
۱۔اسلم انصاری،ڈاکٹر،اقبال کی نعت فکری واسلوبیاتی مطالعہ، کراچی :اکادمی بازیافت ،۲۰۱۸ء،ص۲۳۱
۲۔سیدصبیح رحمانی،سید،ذکررسول کا مقام ومرتبہ،مشمولہ،نعت رنگ،کراچی :شمارہ خاص،۲۰۱۲ء،ص۱۸
۳۔جنید امجد،صورت معنی معنی صورت،فیصل آباد:مثال پبلی کیشنز، ۲۰۱۴ء،ص۱۴
۴۔جنید امجد،صورت معنی معنی صورت،ص۱۵
۵۔یوسف کامران،مجیدامجد سے ایک نایاب مکالمہ ،مشمولہ، کلیات نثر مجید امجد،مرتبہ ،محمدافتخارشفیع ،لاہور:کتاب سرائے،۲۰۱۶ء،ص۱۹۷
۶۔مجید امجد،بھٹکا ہوا راہی کے لیے چند سطور،مشمولہ، کلیات نثر مجید امجد،ص۷۵
۷۔مجید امجد،کلیات مجیدامجد،مرتبہ،ڈاکٹرخواجہ محمدزکریا،لاہور:الحمدپبلی کیشنز،۲۰۰۶ء،ص۱۸۵
۸۔مجید امجد،کلیات مجیدامجد،ص۲۵۶
۹۔سعادت سعید،ڈاکٹر،صدرنگ کونین اور موقلم مانی،مضمون،مشمولہ،یہ دنیائے امروزمیری ہے،لاہور:پنجاب یونیورسٹی اوری اینٹل کالج،۲۰۱۵ء،ص۷۳
۱۰۔منظور حسین مہجور،سید،بام عرش،لاہور:ماورا پبلشرز،۱۹۹۲ء،ص۱۲
۱۱۔منظور حسین مہجور،سید،بام عرش،س۱۲
۱۲۔اسلم ضیا،ڈاکٹر،جہان مجید امجد،لاہور:الوقار پبلی کیشنز،۲۰۱۴ء،ص۱۹۴