مجھے ڈاکٹرمحمدافتخارشفیع صاحب سے ایک تعلق خاطرمحسوس ہوتاہے کیوں کہ وہ آج میری مادر علمی گورنمنٹ کالج ساہیوال کے ان دروبام میں مصروف تدریس ہیں ،جہاں میںکبھی اپنے اساتذہ کے سامنے تحصیل علم کے لیے بیٹھا کرتا تھا۔ اور اب افتخار صاحب نے اس تعلق خاطرمیں ایک اور جہت کا اضافہ کردیاہے ۔وہ یوں کہ انھوں نے میرے پسندیدہ شاعر مجیدامجد کے حوالے سے ایک کتاب ترتیب دی ہے اور مجھے اس کے بارے میں یہ چند معروضات پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہورہاہے۔
ہم بی۔اے میں پڑھتے تھے کہ مجیدامجد کا اولین شعری مجموعہ شب رفتہ شائع ہوکرآیا،تب سے لے کراب تک اس انوکھی شاعری سے دلی لگائو میں کمی نہیں آئی۔ہم مجید امجد کو بائیسکل پر سوارشہر کی سڑکوں پر آہستہ آہستہ آتے جاتے دیکھاکرتے تھے۔ان کے کمال فن کاجادو ہم پرتواسی زمانے سے منکشف ہوگیاتھا مگر ساہیوال سے باہر کے ادبی حلقوں میں ابھی ان کاتعارف کم کم تھا۔ان کے فن پر کسی نے کچھ لکھنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی۔اس سلسلے کاپہلا قابل ذکر مضمون شاید ڈاکٹروزیر آغا کا تھا۔بعد میں بھی کافی مدت تک معدودے چندکے سوا ،معروف نقادوں کی توجہ اس منفرد شاعر کی طرف مبذول نہ ہوسکی۔الحمد للہ کہ اب کچھ عرصے سے مجیدامجد کا اعتراف عام ہوچکاہے اور برصغیر کے اکثر ممتاز ناقدین انھیں اقبال کے بعد آنے والے ممتاز ترین شعرا کی صف میں نمایاں مقام دیتے ہیں۔اس بڑھتے ہوئے اعتراف کے نتیجے میں ’فطری طور پر‘مجیدامجد کے فن اور شخصیت پر تصنیفات کا سلسلہ بھی روزافزوں ہے۔
برادرم افتخارشفیع صاحب کی تازہ تصنیف مجیدامجد:نئے تعینات اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس میں انھوں نے اس موضوع پر کچھ نئے زاویوں سے نظرڈالنے کی کوشش کی ہے۔پہلامضمون مجیدامجدکی ایک نایاب نعتنہ صرف اس فن پارے کے متن کو متعارف کرواتا ہے (جس کی بازیافت کاسہرا خودافتخارشفیع کے بہ قول ڈاکٹر اسلم ضیا صاحب کے سر ہے)بل کہ عمومی اعتبار سے مجیدامجدکے مذہبی رجحانات ،فن نعت کے بارے میں ان کے نقطہ نظر اوراس ماحول پربھی روشنی ڈالتا ہے جس میں مجیدامجد کے دینی میلانات کو فروغ ملا۔
دوسرا مضمون فسانہ آدم علم فلکیات پر مقالہ یا ترجمہ مجیدامجدکے ایک پسندیدہ موضوع مطالعہ یعنی علم فلکیات پران کے ایک نامکمل مسودے کاتجزیہ ہے ،افتخارشفیع صاحب کے مطابق کہ یہ کوئی طبع زاد مضمون یامقالہ نہیں بل کہ Martin Davidsonکی کتابAn easy outline of Arstronomyکاایک ادھوراترجمہ ہے۔انھوں نے اس سلسلے میں ڈیوڈسن کی کتاب اور اس مسودے کے بعض اقتباسات کاموازنہ بھی پیش کیاہے۔تاہم عنوان فسانہ آدم اس مفروضے کے بارے میں خلجان پیدا کرتاہے۔اگر مجیدامجد کے پیش نظر ڈیوڈسن کی کتاب کاترجمہ ہی تھا تو فسانہ آدم کاعنوان کچھ برمحل معلوم نہیں ہوتا۔ایسی صورت میں تو اسے رہنمائے فلکیات قسم کے عنوان سے معنون ہوناچاہیے تھا۔خود افتخارشفیع نے بھی مضمون کے آخرپر قطعیت سے دامن بچاتے ہوئے اس بحث کو کھلا چھوڑ دیاہے۔شایدمجیدامجد فلکیات کے جدید آفاق کے پس منظرمیں اجرام فلکی سے متعلق انسانی تصورات کے دوربہ دور ارتقا کا جائزہ بھی لینا چاہتے تھے اور انھوں نے اسی مناسبت سے فسانہ آدم کا عنوان منتخب کیا مگر یہ منصوبہ روبہ عمل نہ آسکا۔پاک وہند جنگی آویزش سے مربوط کچھ نظمیں جورسمی ترانہ گوئی سے بڑھ کر اس تجربے سے مجیدامجد کی گہری اثرپذیری ،وطن سے غیرمعمولی محبت نیز جنگ ،اس کی نفسیات اوراس کے ساتھ آنے والے مسائل کی نہایت باریک تہوں کی عکاس ہیں ایک اور مضمون میں زیربحث آئی ہیں۔
سہرے اور اسی قسم کی دیگر تہنیتی نظمیں ایک مخصوص اور محدود محفل کے لیے ہوتی ہیں لیکن اہم شعرا کے قلم سے نکلی ہوئی اس نوعیت منظومات بھی ایک خاص زاویے سے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں،مضمون مجیدامجد تقریب شادی میںان کے ایسے ہی اشعار سے متعلق ہے،جو بعض احباب کی خوشی میں شرکت کے لیے لکھے گئے۔مجیدامجد کی شناخت تو ان کی شاعری ہی ہے لیکن عروج سے وابستگی کے زمانے میں انھوں نے نثرنگاری کی بھی خاصی مشق بہم پہنچائی چناں چہ ان کے قلم سے دیباچوں،تقریظوں، یادوں،کالموں ،اداریوں،ترجموں اور بچوں کے ادب کی صورت میں بہت سے نثرپارے بھی یادگار ہیں۔افتخار صاحب کو اس سرمایہ نثری سے بھی خاصا شغف رہاہے، جس کاثمر ان کا مرتب کردہ کلیات نثرمجیدامجدہے۔
زیرنظرکتاب میں بھی ایک مضمون مجیدامجد کی نثر کے تعارف ،جائزے اور تجزیے پرمشتمل ہے جب کہ آخری مضمون مجید امجد کی ذاتی اور تخلیقی تنہائی پرگہری نظر ڈالتاہے۔ اس میں شک نہیں کہ مجموعی اعتبار سے افتخار شفیع صاحب کی یہ کاوش امجد شناسی کے ایوان میں تازہ مباحث کا دروازہ کھولنے میں کامیاب رہی ہے اور اپنے موضوع پر ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔میں مجیدامجد:نئے تعینات کا خیرمقدم کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں۔