معروف محقق، ناقد، صحافی، ادیب اور وقائع نگار عطا محمد تبسم(کراچی)
بہت مشکل ہے سچی بات کہنا کہ ایسا حوصلہ سب کا نہیں ہے
ہمارے شہر میں جالندھری جی! کوئی بھی آپ کے جیسا نہیں ہے
م ش عالم، اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔ وہ اس ایک شعر میں ہمارے امین جالندھری کو پوری طرح سمو گئے، حیدر آبادچھوڑے مدت ہو گئی، لیکن اب یہ شہر ہمارے دل میں آباد ہے۔ اور اس شہر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے باسی کبھی بھی کہیں بھی ایک دوسرے سے ملیں، تو عمر اور زمانوں کے فرق کے باوجود یک دل و یک جاں محسوس ہوتے ہیں۔ امین جالندھری سے ملاقات ہو نہ ہو، آپ لاکھ ستم گار روزگار کے مارے ہوں، لیکن ان کی یاد سے غافل نہیں رہا جا سکتا، ورنہ وہ آپ کو خوب یاد دلادیں گے ، میں نے اس سے روٹھے سجنا اور چھوٹے سجنا جیسا رویہ بھی اپنا کر دیکھ لیا۔ لیکن یہ وہ کمبل ہے جسے آپ چھوڑنا بھی چاہیں تو نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کی محبت کی خوشبو آپ کو اس طرح لپٹ جاتی ہے کہ زندگی بھر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ بلاشبہ امین جالندھری ایک انجمن کا نام ہے، ان جیسے مخلص ایماندار اور بہت بہادر اور سچی بات بتانے والے انسان کم ہی ہیں۔ وہ بہت اچھے مصنف اور بہت سی خوبصورت کتابوں اور افسانوں کے تخلیق کار بھی ہیں۔ گاہے بگاہے ادبی محفلیں بھی سجاتے ہیں۔ اور اپنے مؤقف کا ڈٹ کر دفاع ہی نہیں کرتے بلکہ مخالفین کا بینڈ بجا دیتے ہیں۔ حیدر آباد نے شعر و ادب کی دنیا میں غلام مصطفی خان، نبی بخش بلوچ، قابل اجمیری، حمایت علی شاعر، پروفیسر عنایت علی خان،محسن بھوپالی، اختر انصاری ، اکبر الہ آبادی ، الیاس عشقی، عتیق احمد جیلانی، قدیر غوثی، سید نایاب حسین، مدد علی سندھی، قاضی خادم ،امداد حسینی، عبد القادر جونیجو، غلام محمد گرامی، ابراہیم جویو، ممتاز مرزا، مرزا قلیچ بیگ جیسے نابعے پیدا کیے۔ شعرو ادب کی محفلیں اس شہر کی جان ہیں، یہ محفلیں گاہے بگاہے آج بھی منعقد ہوتی ہیں۔ رابطہ کے پلیٹ فارم سے ہمارے دوست امین جالندھری یہ تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ امین جالندھری ایک اچھے افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانوں میں تخیل کی ندرت شامل ہے۔ میں انہیں پیار و محبت میں "بابا" کہتا ہوں۔ بابا امین جالندھری ہمارے سٹی کالج کے بابا ہیں۔ ہم نے ان کی سیاست دیکھی ہے کتنے ہیرے تراشے عبد الرزاق دائودی ، حمید فاروقی، منور خان زئی، عبد الجبار صدیقی اور اجرک اوڑھے ہوئے بابا۔ بابا جادوگر ہے۔ اپنی چادر کے بکل سے نئے نئے شعبدے نکال لاتا ہے اور حیران کرجاتا ہے۔ گزشہ سال ایک سال سے بابا میرا پیچھا کررہا ہے۔ بابا امین جالندھری کی ایک ادبی انجمن ہے۔ رابطہ حیدر آباد میں اس کے پروگراموں کی دھوم ہے۔ شاعر ادیب کوئی بھی ہو رابطہ کے ربط میں رہتا ہے۔ ان کی دوکتا بیں حرف حرف روشنی مضامین کا مجموعہ اور حرف حرف کہانی حال ہی میں منظر عام پر آئی ہیں۔ حرف حرف روشنی میں انھوں نے اپنے دوستوں ساتھیوں کو جس طرح یاد کیا ہے وہ دل پر اثر کرتا ہے۔ صابر ذوقی ، مظفر ہاشمی کے قصے شہر کے ادبی معرکے ، اس کتاب میں رقم ہیں۔ ان کی ایک کتاب حرف حرف کہانی میں26افسانے ہیں، بہت ہی کمال کے افسانے جن کی شہرت اب بھارت تک پہنچ گئی ہے۔ میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو ایک کے بعد ایک کہانی حیرت کے باب کھولتی گئی۔ حرف حرف کہانی کی پہلی کہانی نے ہی دماغ کی بتی گھمادی۔ یہ بابا تو واقعی بابا ہے۔ کچھ انوکھی نگری کا مسافر اسے بابوں سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ اشفاق احمد ، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی کے بابے اسرارو رموز کے گورکھ دھندے ایک انجانی دنیاکے مسافر۔ امین جالندھری کے افسانے موڑ کا سجاد یا چک گ ب45کا نور الدین یا خمار کی ماروی یا مسافر کے فضل خان سب ہمارے معاشرے کے عام سے کردار ہیں۔ لیکن امین جالندھری نے اپنے قلم سے انھیں ایک ایسے قالب میں ڈھال دیا جو ہمیں ایک اور دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ اس کائنات کا نظام چلانے والے نے کس کس کو کہاں کہاں ڈیوٹی سونپی ہوئی ہے۔ یہ کس کس بھیس میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ جانے نظر آتے بھی ہیںیا نہیں۔ ان افسانوں کو پڑھنا شروع کریں، تو آپ ان افسانوں کے سحر میں ڈوب جائیں گے۔
امین جالندھری کے افسانوں کے کردار، ہمارے آس پاس پھیلے ہوئے ہیں انھوں نے ان کرداروں کی روح میں اتر کو انھیں کھو جا ہے۔ ان کی کہانیاں میں ندرت، وجدان، شعور، نئی سوچ اور تخلیقی آنچ محسوس ہوتی ہے۔ پھر انھوں نے اپنے تجربے اور مشاہدے کو بھی پوری قوت سے اس میں سمود یا ہے۔ یہ کہانی اور افسانے غیر معمولی ہیں، ان میں عقل سے ماوراء کائنات کے ایسے اسرار و رموز کی تہیں اور گہرائی پر غور و فکر کی دعوت دی ہے جو ہمارے باطن کی دنیا کو جلا بخشتے ہیں۔ کشف و کرامات کی دنیا، جو من کی دنیا ہے، اس کو تہہ و بالا کرتی ہے۔
امین جالندھری مکالمے کے چودھری ہیں ان کی چوپال میں کوئی آئے اور بغیر مکالمہ چلا جائے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان افسانوں میں یہ خوبی بھی موجود ہے۔ کہ ان کہانیوں کے کردار مکالمہ کرتے ہیں، کئی کہانیاں شروع ہی مکالمے سے ہوتی ہیں، پھر یہ مکالمے خیالی و آفاقی نہیں ہوتے بلکہ اسلوب بیان کی سادگی لئے ہوتے ہیں جو ان افسانوں کو تازگی بخشتی ہے۔ ان کی کہانیوں اور افسانوں کے موضوعات بھی متنوع نوعیت کے ہیں۔ یہ کہانیاں ہمارے معاشرے میں ہونے والے جبر، نا انصافی، منافقت ، ظلم ، جہل کا بھی اظہار ہیں۔مسافر، محشر خیال، مستی، خمار، چک گ ب45، رہائی ، ایک دن کی بات ایسے افسانے ہیں جوقاری کو اپنی گرفت میں لے کر اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ حرف حرف کہانی کے افسانے ان تمام لوگوں کو دعوت مطالعہ دے رہے ہیں جوادب میں جمود یا نئے خیال نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں۔ ان افسانوں کی ملک گیر پیمانے پر پذیرائی ہونی چاہئے۔ میں امین جالندھری کا شکر گزار ہوں کہ اس نے حیدر آباد کی ادبی روایات کو زندہ رکھا ہے وہ نئی نسل کے لیے ایک روشن شمع کی صورت علم اور آگہی کی روشنی پھیلا رہاہے۔
٭٭٭٭٭٭٭