معروف دانشو ر، محقق ، ناقد ، ناول و افسانہ نگار۔ قاضی خادم حیدر آباد
سندھ کے اردو افسانہ نگاروں میں ایک الگ تھلگ مقام رکھنے والے، میرے پیارے دوست امین جالندھری کے افسانوں کا نیا مجموعہ"حرف حرف کہانی" پڑھنے کا موقع ملا۔ حالانکہ وہ جو مسودے کی شکل میں مجھے ملا تھا وہ کسی وجہ سے پڑھ نہ سکا۔ جبکہ مرزا سلیم بیگ نے خاص طور پر اسے پڑھنے کا کہا تھا۔ اور یہ نہیں کہا تھا کہ اس پر کچھ لکھنا بھی ہے۔ اب جبکہ امین جالندھری کا محبت کے ساتھ یہ مجموعہ ملا تو میں اسے پڑھے بغیر نہ رہ سکا۔ کیونکہ یہ افسانے اتنے دلچسپ اور ایک لحاظ سے حقیقت پر مبنی فنکارانہ طریقے سے لکھے گئے ہیں جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی ۔ افسانہ ادب کی نثری اصناف میںاپنی ایک الگ اور منفرد جگہ رکھتا ہے اس کے بارے میں گزشتہ صدی سے اب تک بے شمار حقیقتیں بیان کی گئی ہیں اور بہت بڑے افسانہ نگار بھی ایسے گزرے ہیں کہ ان کی تصنیفات میں وہ سب ایک معنی کے حامل ہیں۔ افسانہ مختصر کہانی کو کہا جاتا ہے۔ جس کو پڑھنے سے قاری ایک تاثر قائم کرے ۔ یہ ایک طرح سے نثر میں مختصر نویسی کی ایک مثال بھی بن کر ابھرے ہیں۔ امین جالندھری کے افسانے میں مختصر نویسی بھی ہے ، فنکارانہ مہارت بھی ہے وہ نہ صرف واقعات کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں جیسے کہ انھوں نے دیکھا یا محسوس کیا ہے۔ بلکہ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیا ہونا چاہیے ظاہر ہے ادب میں Thing as it isسے زیادہ ہوتا ہے بتاناThing as it ought to be ۔ کوئی واقعہ جیسا کہ وہ ہے ویسے ہی بتانا کافی نہیں بلکہ اسے کیسا ہونا چاہیے ۔یہ بتانا بھی فنکاری ہے۔ دوسری بات جو ادب میں اہم ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ادیب جانتا ہو کہ کیا لکھنا چاہئے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ادیب یہ بھی جانتا ہو کہ اسے کیا نہیں لکھنا چاہئے ۔ امین جالندھری اس بات سے بخوبی واقف نظر آتا ہے۔ خاص طور پر ان کی کہانی "شو ٹائم" اس کی بہترین مثال ہے اور اسے جدید ادب میں یقینا جگہ ملے گی اس کہانی کی مثال انگریزوں کی بر صغیر میں چائے اور سگریٹ کی عادت ڈالنے والی حرکت سے ملتی ہے۔ جبکہ آج خود سگریٹ کو مضر جاں قرار دیتے ہیں ان کا یہ سوال ہمیشہ جواب طلب رہے گا کہ کپاس کی فصل صدیوں سے اس علاقے میں رائج ہے پہلے تو امریکن سنڈی کا ذکر تو نہیں سنا تھا۔ اب یہ سنڈی کہاں سے نکل آئی ہے۔ جس کو مارنے کیلئے امریکی دوائوں اور اسپرے کی ضرورت پڑتی ہے۔ امریکی سنڈی کو علامت کے طور پر برائیوں کے معنی دے کر کس طرح اس کے خاتمے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے دولت پر بیٹھے ہوئے سانپوں کی مثال سے کہانی میں جان ڈال دی ہے جب ان سنڈیوں کو ختم کرنے والی اسپرے چلائی گئی تو ان سماجی ٹھیکیداروں کی طرف مڑ گئی اور اس کہانی کو مثالی افسانہ بنا دیا یہ جالندھری صاحب کا کمال ہے ۔ میں اپنی مختصر تحریر میں اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ جب کبھی حیدر آباد میں اردو اور سندھی ادیبوں کا ایک مرکز ہوا کرتا تھا جس کی یاد کی چنگاریاں ابھی تک ان بجھتے ہوئے آتش دانوں میں سلگ رہی ہے جس کی مثال حرف حرف کہانی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭