افسانہ نگار، ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، اداکار ۔مبصر عشرت علی خان حیدر آباد
امین جالندھری کی دوسری کتاب مضامین پر مشتمل ہے اس میں انھوں نے اپنے دوستوں اور ان کے دوستوں نے خود ان کے بارے میں حاشیہ آرائی اور قافیہ پیمائی کی ہے اس میں ایک مضمون معروف شاعر اور قاری صابر بن ذوقی کے بارے میں بہ عنوان "جو بن پہ آئی بزم تو گل ہو گیا چراغ" کے عنوان سے امین جالندھری نے بہت خوب لکھا ہے اس کے بعد "ابو الفراح ھمایوں" کی مزاحیہ تصنیف "یادوں کی برسات"پر ایک ایک دلچسپ مضمون ہے ۔ بلو چستان کے ادب خاص طور پر اردو ادب پر افسانہ نگار ، آغا گل کی شاہکار تصنیف بلوچستان میں اردو فکشن کا تاریخی مناظر پر امین جالندھری کا تعریفی مضمون نہایت اچھا ہے ایک حقیقی لکھاری کو ایک حقیقی لکھاری کی جانب سے خراجِ تحسین لائق تحسین ہے۔ کمال دست ہنر امین جالندھری کا مضمون صاحب کمال شاہد احمد دہلوی کے بارے میں لکھے گئے راشد اشرف کے مضمون گلدستہ کے جواب میں ہے اور قابل ستائش ہے۔ اس کے بعد امین جالندھری نے جو مضمون اس کتاب میں شامل کیا ہے اس کا عنوان انھوں نے کارِ جہاں دراز ہے رکھا ہے۔ یہ مضمون انھوں نے اقبال اے رحمن کے کتاب اس دشت میں ایک شہر تھا کے بارے میں لکھا ہے اس میں انھوں نے کتاب کے محاسن پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے اسے ایک نادر اور پڑھنے والی کتاب بتایا ہے جوکراچی کے بارے میں ہے۔ اس میں امین جالندھری نے کتاب کے چیدہ مگر پڑھنے اور داد دینے کے قابل جملوں کو واضح کیا ہے۔ ان کے مضمون سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب کراچی کے سماجی، ثقافتی اور معاشرتی حالات پر مبنی کامیاب کوشش ہے اپنے مضامین سے مزین اس کتاب میں گوری میم اور کالا انگریز کے عنوان سے معراج جامی کے سفر نامہ لندن پر ایک مضمون لکھا ہے جس میں لندن کی ادبی سرگرمیوں بلکہ منفی ادبی سرگرمیوں پر معراج جامی کی رائے پر صاد کیا ہے۔ "حیرتی ہے آئینہ" کے عنوان سے ایک مضمون،مزاح نگار، سید انور علی علوی کی تحریر جعلی خطوط پر لکھا ہے۔ اس مجموعہ مضامین کا تیسرا آخری مضمون سندھ یو نیورسٹی کے ڈاکٹر محمد جاوید اقبال کی ادارت میں چھپنے والے رسالے تحقیق پر ہے۔ اس معتبر رسالے کے بارے میں امین جالندھری نے کمال مہارت سے مضمون بہ عنوان نوادرات تحقیق لکھ کر ادب ذوقی کا حق ادا کیا ہے۔ امین کا دوسرا آخری مضمون بہ عنوان پرانی نمائش میں درویش نظروں کے سامنے ہے۔ یہ مضمون معروف ادب نواز سید صادق حسین صادق کی شبانہ روز ادبی کاوشوں کو دلیرانہ خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔ بلاشبہ سید صاحب اغراض کے اس دور میں بے غرضی کی اعلیٰ مثال ہیں اور یہ ایک سچے ادیب کا ہی کام ہے کہ وہ ادب کے دل دادہ کو محبتوں سے نوازے اور یہ حق امین نے امانت سمجھ کر ادا کیا ہے۔ امین جالندھری کی اس کتاب کا آخری مضمون چراغ رُخِ زیبا کے عنوان سے ہے اسے انھوں نے ملک بشیر مراد کے سفری مزاح سے متاثر ہو کرلکھا ہے۔ جسے ملک صاحب نے صفری مزاح قرار دیا ہے۔ امین نے اس مزاحیہ سفر نامے سے بہت سے ادب پاروں کا چنائو کیا ہے اور بہت خوب کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ حرف حرف روشنی ایک ادیب کی جانب سے دوسرے ادباء کے ادب پاروں اور ادب نوازیوں کو سامنے لانے کی یادگار کوشش ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭