معروف شاعر، ادیب، مبصر اور تذکرہ نگار: پروفیسر ثاقب قریشی (حیدر آباد )
میرے پیارے دوست محترم سید صادق حسین صادق برادرم امین جالندھری کے افسانوں کا مجموعہ حرف حرف کہانی لیے سید کاظم علی حسنی کے ساتھ میرے غریب خانے پر قدم رنجا ہوئے اور اس حکم کے ساتھ کہ اس پر تبصرہ مطلوب ہے۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں اپنے پیارے شہر حیدر آباد کے نامی گرامی بینکر اور افسانہ نگاری میں جانی مانی شخصیت بھائی امین جالندھری کی کتاب پر خامہ فرسائی کر سکوں۔ میرے لیے دونوں حضرات قابل احترام اور قابل قدر ہیں ، چناںچہ آنم کہ من داغ کے مصداق اپنا اظہارِ خیال کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
بھائی ! امین جالندھری حیدر آباد کے ادیبوں اور افسانہ نگاروں میں جانی مانی شخصیت کے طور پر مشہور ہیں ۔ حرف حرف کہانی ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں کل ستائیس (۲۶) افسانے موجود ہیں۔ امین جالندھری عرصہ دراز سے اپنے فن افسانہ نگاری کے ذریعے افسانہ نویسی میں اپنا عَلم گاڑ ے ہوئے ہیں۔
کتاب میں موجود افسانے ان کی ان تھک محنت شاقہ اور فن افسانہ نویسی پر دلالت کرتے ہیں۔ ان کے افسانے در حقیقت عوام فہم اور آسان طرزِ اظہار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔وہ درا صل ہمارے معارے کے حقیقی نباض اور حکیم حاذق ہیں۔ ہمارا معاشرہ موجودہ دور میں جس ذہنی اور قلبی پژمردگی اور کرب مسلسل کا شکار ہے اس کی تمثیلی صورت امین جالندھری کے افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ امین جالندھری ایک سچے پکے راسخ العقیدہ با عمل مسلمان اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار پاکستانی ہیں۔ انکے دونوں کرداران کے افسانوں میں بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ منفرد اسلوب اور طرزِ ادا پر جمالیاتی افسانے لکھنے پر قادر ہیں۔ کتاب میں موجود ان کے سارے ہی افسانے قابل تعریف ہیںکتاب میں امین بھائی کا تحریر کردہ سر نامہ بھی نہایت قابل توجہ ہے۔ معاشرے میں موجود جو ژولیدگی اور گندگی کے اثرات ہیں ان کا انھوں نے گہری نظر سے مشاہدہ کیا ہے اور انھیں قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کیا ہے جس سے ان کے مزاج کی عکاسی قاری محسوس کرتا ہے۔ سرنامے کے مطالعے سے کتاب کو چار چانگ لگ گئے ہیں۔ کتاب میں افسانوں کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے ۔ محشرِ خیال ، مستی، خمار، چک گ ۔ب، موڑ، بلند پروازی، آگ، بول میری مچھلی، مسافر، شو ٹائم، درد کی زنجیر، رہائی، ایک دن کی بات، کامیاب، تجربہ، التجا، پاور، محاسبہ، ہنی مون، روایت، آدھے راستے کا آدمی، بوڑھے آدمی کا نوحہ، زر خرید غلام، سفید دھواں، روپ بہروپ اور گھوڑا۔
جی تو چاہتا ہے کہ ہر افسانے پر اظہارِ خیال کروں مگر قرطاس پر جگہ کی تنگی ہے چناں چہ اسی پر اکتفاکرتے ہوئے اپنے اظہار کو اختتام پذیر کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ امین بھائی کو ایک خوب صورت افسانوی کتاب پیش کرنے پر ڈھیروں مبارک باد۔
٭٭٭٭٭٭