فلاسفر، دانش ور ، ناقد، شاعر اور ادیب ۔ ڈاکٹر محمد امین (ملتان)
امین جالندھری کا نام سنا بھی، پڑھا بھی، مگر اب ان کے افسانوں کے مجموعے حرف حرف کہانی کے مطالعے سے ان سے ملاقات ہو گئی۔ امین جالندھری پیشے کے اعتبار سے ایک ایڈوکیٹ ہیں وکیل ہونے کے رشتے سے وہ ہر روز کئی کہانیاں سنتے ہیں۔ وہ ان کہانیوں میں حکمت و دانائی کی باتیں تلاش کرتے ہیں، اور کہانی کی شکل میں پیش کرتے ہیں ان کی کہانی بے مقصد نہیں۔ ہرکہانی کا ایک مقصد ہے جو قاری پر ہویدا ہوتا ہے۔ ان کا اسلوب بڑا سادہ ہے۔ اس کی علامتیں عام فہم ہیںباآسانی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ مثلا ً گھوڑے کی علامت قاری بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اس طرح باقی علامتیں ہیں۔وادی سندھ کا کلچر کہانیوں میں جھلکتا ہے چند کہانیاں تو اسی پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔
بلند پروازی سے آشکار ہوتا ہے کہ عدالت میں معاملات ہوتے ہوئے بہت دیر لگ جاتی ہے۔ ببن میاں کے کیس کا فیصلہ سینتیس سال کے بعد ہوا۔ ببن میاں کو عمل در آمد کے لئے اچھے میاں کی تلاش ہے۔پنواڑی کی دکان سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے میاں کئی دنوں سے نظر نہیں آئے۔ اور قرقی والا مکان اچھے میاں نے مسجد کی کمیٹی کو دے دیا ہے۔ روپ بہروپ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انگریز نے اپنا کلچر ہمارے یہاںرائج کیا۔ موٹر کار وہسکی اور عورت کے متبادل تصورات دیئے جس معاشرے میں وہسکی عورت اور موٹر کارہوگی وہاں ہمارا ہی اقتدار ہوگا۔ سو فیصد ۔ زر خرید غلام حرم سرا کی سازشوں کو ظاہر کرتا ہے۔ بول میری مچھلی ، بہرام خان کی کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کے گرد گھومتا ہے۔ موت تو اٹل ہے اس سے کسی کو مفر نہیں۔ اسی لمحے جب تم زمین میں سما رہے ہوگے تو اٹک اٹک کر یہ نہ کہنا بول میری مچھلی کتنا پانی۔ یہ بچوں کے کھیل کود کا ایک مصرعہ ہے جس سے افسانے کا خیال واضح ہوتا ہے۔ خمار میں ماروی عام سی لڑکی ہے۔ جوقلندر کی دیوانی ہے ۔ اس کے چند مکالمے پڑھئے اور سوچئے۔
باب تہذیب میں یہ درج ہے کہ غمزدہ ، عشوہ، دلیری ، حسن تکبر ہی لوگوں کو رُلاتا ہے۔ کوئی کسی کو نہیں ملاتا ۔ سب خود ہی روتے ہیں بتلائیے پہاڑوں سے چشمے کیوں ابلتے ہیں۔ سنا ہے سنگدل کی آنکھ سے آنسو نہیں بہتے۔ میں جنس کی ماری ہوئی ہوں نفس کی نہیں۔ یہاں جنس اور نفس کا فرق غور طلب ہے۔ امین جالندھری کی کہانیوں کا مواد معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس لئے ان کی کہانیوں کا معاشرے سے گہرا تعلق ہے۔ امین جالندھری کے موضوعات خیال افروز اور فکر انگیز ہیں فرد اور معاشرے کی سمت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلوب سادہ اور عام فہم ہے مجھے امید ہے کہ حرف حرف کہانی قارئین سے پذیرائی حاصل کریگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭