معروف ادیب، مبصر، جائزہ نگار۔ یگانہ نجمی (حیدر آباد )
محترم امین جالندھری صاحب کا تعلق حیدر آباد یعنی میرے شہر سے ہے۔ آپ کا شعبہ ملازمت بینک ہے۔ ایک بینک افسر کا ادب سے لگائو میرے لئے اس وجہ سے بھی تعجب خیز نہیں کیوں کہ میرے والد بھی ایک بینکر تھے اور ان کو بھی ادب و شاعری سے شغف تھا۔ ایک سے زائد زبانوں کے ماہر تھے اور علی گڑھ کالج میں اعزازی طور پر فارسی پڑھاتے تھے۔ اس لئے جو تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کا شوق تھا وہ ان سے ہی ورثے میںملا ہے۔ امین جالندھری صاحب نے بڑی مہربانی فرمائی کہ اپنی دو کتابیں حرف حرف کہانیاں اور حرف حرف روشنی عنایت فرمائیں۔ حرف حرف کہانیاں اپنے عنوان کی طرح حرف حرف روشنی نہیں۔ ہر افسانہ ایک مکمل تاثر لئے ہوئے ہے ۔ سادہ اسلوب کے ساتھ کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے ۔ افسانہ خمار ان کے اسی اسلوب کو ظاہر کرتا ہے ۔ تجسس سے بھری کہانی جو ابتدا سے اختتام تک پڑھنے والے کی دل چسپی قائم رکھتی ہے ۔ ان کے افسانوں کا کمال یہ بھی ہے کہ کہانیاں جدید دور کی تحریر کے عین مطابق ہیں۔ غیر ضروری تاویلات کے بغیر افسانے میںخواب سے حقیقت کے سفر کی جانب گامزن ہے۔ انکے افسانوں میں درگاہوں اور مزاروں کا حوالہ ملتاہے جو مصنف کی اولیاء کرام سے عقیدت کا اظہار ہے۔ اس عقیدت میں ذاتی تجربات بھی نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ان لوگوں اور ان کی شناخت اور مشاہدہ اتنا بھر پور ہے کہ افسانہ بلندی پرواز میں یہ مشاہدہ بڑا پر تاثر نظر آتا ہے۔ یوسف زئی پٹھان اور شیخ قریشی دو کردار مگر دو قومیں۔ جن کے دو مختلف رویے نظر آتے ہیں۔ شیخ قریشی نے یوسف زئی پٹھان کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا اور ان کے مکان پر قبضہ جما لیا۔ اس افسانے میں انھوں نے عدالتی نظام کی خرابیوں کی بھی نشان دہی کی ہے کہ جس وجہ سے طویل عرصہ مقدمات چلتے رہتے ہیں اور نتیجتاً یا حق دار انتظار کر کر کے تھک جاتا ہے یا مرجاتا ہے۔ موجودہ افسانہ نگاروں میں علامتی افسانہ ایک اہم صنف ہے جن میں انتظار حسین اور اسد محمد خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ وہیں امین جالندھری صاحب کے افسانے بول میری مچھلی پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا شمار بھی اس صف میں ہوتا ہے ۔جس میں عہدیداران اور ان کی بد عنوانی کی حقیقت اور ان کا تکبر اور اپنے ماتحتوں کے لئے ان کے دلوں میں حقارت آمیزی، جس سے وہ انہیں دیکھتے ہیں اور ان کو قلیل تنخواہ دے کر ان کی تحقیر کرتے ہوئے کہتے ہیں بول میری مچھلی کتنا پانی۔ علامت ہے دوسرے کی تحقیر کرنے کی۔ مصنف نے اسی مچھلی سے حکمرانوں کو آئینہ دکھا یا ہے۔ ان کے ظالمانہ کرتوت اور اس کے نتیجے میں رعایا کے خیالات، جس کا انہیں سامنا کر نا پڑتاہے۔ یہ اپنے عیش و عشرت کی خاطر عوام پر مہنگائی کا پہاڑ توڑ دیتے ہیں اور پھر ان سے پوچھتے ہیں کہ بول میری مچھلی کتنا پانی، مگر یہ ہی مچھلی انہیں انکے انجام سے بھی با خبر کرتی ہے کہ آخرکار ایک وقت ایسا بھی آئیگا کہ جب قبر کے اندر بے بسی ہوگی ۔ مزید امین جالندھری صاحب کے افسانوں میں سفر کا رنگ بھی نمایاں ہے جس میں سفر کے ذریعے خضرملتا ہے اور استعارہ ہے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ امین جالندھری صاحب بلا شبہ اس وقت کے افسانہ نگاروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭