معروف ادیب، تبصرہ نگار، ناقد ۔ تحریر : ندیم عالم وہرہ (چینوٹ)
طبع زاد کہانی لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے خاص طرح کا تخلیقی مزاج ہونا ضروری ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر لکھنے والا کہانی بھی لکھ سکے۔ کہانی لکھنے کیلئے ایک خاص طرح کے زاویہ نگاہ کے ساتھ ساتھ ایک تخلیقی اندازِ تحریر بھی درکار ہیں۔ بظاہر تو ہمارے ہر طرف کہانیاں بکھری ہوئی ہیں، بلکہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ہر لمحہ نئی نئی کہانیاں تخلیق ہو رہی ہیں لیکن ان کو ضبط تحریر میں اس طرح لانا کہ وہ ایک مسلسل واقعہ اور با معنی پیغام کی شکل مین قاری تک پہنچ جائے، کوئی آسان کام نہیں ہے۔
حرف حرف کہانی کے مصنف امین جالندھری اس مشکل کام کو با آسانی کر گزرتے ہیں۔ اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کو اپنے قاری تک کہانی کی شکل میں پہنچانے کی اس کوشش میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔ مذکورہ کتاب کہانیوں کے ایک متنوع مجموعے پر مشتمل ہے۔ جس میں معاشرے میں موجود مختلف مسائل، واقعات اور حادثات کو کہانی یا افسانے کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کہانی کے کردار کے ساتھ اس طرح انصاف کرتے ہیں کہ دورانِ مطالعہ یہ کردار جیتی جاگتی شکل میں نظر آنے لگتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردار در اصل ہمارے آس پاس کی روز مردہ زندگی میں شامل ہیں۔ متعدد کہانیوں کا موضوع روحانیت اور صوفی ازم کے گرد گھومتا ہے جس سے مصنف کے مزاج اور طبعی رجحانات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ روایتی دیہاتی وڈیرہ شاہی کا بیان ہو یا متوسط شہری زندگی کی کہانی، مصنف کی باریک بینی اور گہرے مشاہدے کی داد دینی پڑتی ہے۔ مصنف منظر نگاری سے زیادہ کردار نگاری پر توجہ دیتے ہیں اور کرداروں کی زبان، لہجے کے علاوہ نفسیات پر بھی بھر پور گرفت رکھتے ہیں اور اس سلیقے سے بیان کرتے ہیںکہ کوئی کردار بھی مصنوعی یا نا مناسب نہیں لگتا۔ معاشرتی تقسیم جہاں زیادہ ہوتی ہے وہاں پسے ہوئے طبقے اپنی آسودگی اور تسکین کے لیے پیری اور روحانیت کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں۔ اس صورت حال کا فائدہ نو سر باز اور پسے ہوئے طبقے اپنی آسودگی اور تسکین کے لئے پیروی مرید اور روحانیت کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں، اس صورت حال کا فائدہ نو سر باز اور طالع آزما اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح دیہاتی معاشرہ میں چودھری کو زمینی خدا کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ مصنف ان کرداروں کی نفسیاتی گرہوں کو انتہائی سلیقے سے کھولتے اور بیان کرتے ہیں اور کہانی کو با مقصد بناتے ہیں۔ کہانیوں کے موضوعات انتہائی با مقصد اور سبق آموز ہیں۔ بالعموم استعاروں اور اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہوئے ، اصل کرداروں کا نام لئے بغیر اپنا مدعا اس سلیقے سے بیان کرتے ہیں کہ قاری داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مصنف درویشوں، آستانوں اور درباروں کا ذکر بھی اسی روانی سے کرتے ہیں جس روانی سے شہری زندگی کے کرداروں کو نبھاتے ہیں۔ کتاب میں موجود کہانیوں میں سے چند کے عنوانات درج ذیل ہیں۔
محشر خیال۔ زبان و بیاں اور ماحول کی منظر کشی قابل دید ہے۔ مستی۔ دو جیب کتروں کی باہمی گفتگو ہمارے معاشرے کے بہت سے تضادات کو اجا گر کرتی ہے۔ محشر خیال ، بول میری مچھلی، جیب کترے، خواب، سفر، مسافر، خمار، صوفی ازم، چک گ ب ۴۵، روحانیت، رہائی، دیہاتی کلچر ، وڈیرہ شاہی ، شوٹائم میں امریکن سنڈی جیسی اصطلاح کا بامعنی استعمال اور وطن پرستی کے جذبات قابل توجہ ہیں۔ ایک دن کی بات، سماجی رجحانات، فضول سوچیں، بے مقصد زندگی، گھوڑا، ملکی سیاسی اصطلاح پر بہترین زاویہ سے طنز کیا گیا ہے۔ مکالمہ کہانی کاری کا ایک خوبصورت جزو ہے۔ حرف حرف کہانی میں اس پہلو پر بہت عمدہ کام نظر آتا ہے۔ کرداروں کی باہمی گفتگو نہایت متاثر کن ہے۔ ایک مکالمہ جو راقم کو بہت پسند آیا وہ کامیاب کا اختتامیہ ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
ویسے ایک رازت کی بات بتادیں۔ آپ بھاٹی کب چھوڑیں گے۔ بس جی وزارت ہی بھاٹی چھڑواسکتی ہے۔ سنا ہے پجارو بھاٹی کی طرف کبھی کبھار ہی آتی اچھی لگتی ہے۔ دیکھئے مصنف نے کتنی آسانی سے ہمارے سیاسی سماج کی بد نماز حقیقت کو آشکار کر دیا ہے، کہ جن کو عوام اپنا نمائندہ سمجھ کر منتخب کرتے ہیں وہ بالآخر کہیں اور منتقل ہو جاتے ہیں۔ کتاب میں اس طرح کی متعدد مثالیں موجودہی۔ طوالت سے بچنے کیلئے ایک مثال پر اکتفا ء کیا گیا ہے ۔ کتا میں متعدد معتبر شخصیات کے مضامین تحریر ہیں۔ جن میں جناب جان کاشمیری، ڈاکٹر معین الدین، شاہین اجمیری، ڈاکٹر شاہد احمد جمالی (جے پور) اور عزیز تنویر کو ٹوی ثم اجمیر شامل ہیں۔ جن میں کہانیوں کے نفس مضمون پر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
کہانیوں کی یہ کتاب حرف حرف کہانی اس قابل ہے کہ سنجیدہ کتب بین طبقہ ضرور اس کا مطالعہ کرے ۔ خاص طور پر نئے لکھنے والے ادیبوں کو اس کتاب کا مطالعہ اس نکتہ نظر سے بھی کرنا چاہئے کہ وہ اپنی تحریروں کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر خالق تنویر کی ناقدانہ تخلیق
ظہور نظر فن اور شخصیت
چھپ کر منظر عام پر آگئی ہے ۔ آج ہی اپنا آرڈر بک کروائیے۔
صفحات ۴۷۲ قیمت: ۷۵۰ روپے
پیروز بخت قاضی کی خود نوشت
رودادِ حیات
میری کہانی میری زبانی چھپ کر آگئی ہے۔
ملنے کا پتہ: مصنف30Pڈی ایچ اے فیز ون، لاہور کینٹ۔ فون:042-35730105/0302-26672557
پبلشرز: دستاویز مطبوعات، بلاک نمبر7سیکنڈ فلور میاں چیمبر ۳ ٹیمپل روڈ، لاہور
فون:042-36280034 / 0333-4344716