معروف افسانہ نگار، ادیب، کالم نگار اور پبلشر صفدر علی حیدری (اوچ شریف)
کوئی دو ماہ قبل واٹس ایپ پر ایک میسج موصول ہوا اور پوسٹل ایڈریس مانگا گیا۔ پھر بصد خلوص دو کتابیں بھیج دی گئیں یہ محترم امین جالندھری صاحب سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔ "جو اب آں غزل"کے طور پر ہم نے بھی اپنی کتب پوسٹ کر دیں ۔ پھر یہ ہوا کہ ہم اپنی روایتی سستی کے سبب ان کی کتاب نہ پڑھ سکے۔ لیکن یہ حضرت بڑے تیز نکلے انھوںنے نہ صرف ناقابل اشاعت پڑھ لی بلکہ تین صفحات کا ایسا تبصرہ لکھ ڈالا کہ پرھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ اتنے بڑے ادیب نے ادب کے طفل مکتب کو جن الفاط میں یاد کیا اور اس کی افسانہ نگاری کو سراہا جانا یقینا سراہے جانے کے قابل ہے۔ کیا ہم اور کیا ہماری بساط۔ لیکن جناب نے کمال محبت ہماری میری پذیرائی کی اور یوں کی کہ ہمارے پاس شکریے کے الفاظ بھی کم پڑ گئے۔ دل میں خیال آیا کہ ہمیں بھی تو ان کی کتاب پر تبصرہ لکھنا چاہئے۔ سو کوشش کی کہ کتاب جلد سے جلد پڑھ کر اس پر اپنا تبصرہ لکھا جائے مگر پڑھانے کی مصروفیات نے پھر بھی مشکل میں ڈالے رکھا اور یہ کام تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ پھر خود سے وعدہ کیا کہ مارچ سے پہلے پہلے یہ کام کر لیا جائے۔ اور الحمد للہ مارچ سے پہلے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہتا ہے۔
آپ ایک انتہائی سینئر قلم کار ہیں۔ لفظوں کو برتنے کا ہنر خوب جانتے ہیں ۔ ڈاکٹر معین الدین کی اس رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ آپ اردو ادب میں ایک ایسے صاحب قلم کی حیثیت رکھتے ہیں جو نہ صرف وقت کی نبض ٹٹولنے میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ مداوا کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ جان کاشمیری نے انھیں روحِ تجسس کی مثال قرار دیا ہے ۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ آپ انسانوں کے کرداروں میںاپنی نہیں کرداروں کی زبان ڈالتے ہیں۔ افسانے پر وہ ساحرانہ گرفت رکھتے ہیں، اور یہ ہر کس و ناقص کا نصیب کہاں؟
جالندھری صاحب کے افسانوںمیں خوامخواہ کی پیچیدگی ہے نہ الجھائو۔ کردار بھی سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ مقامی رنگ بھی چھلکتا ہے۔ انھیں اپنا مافی الضمیر بہترین انداز میں بیان کر نے کو "ول" خوب آتا ہے۔ ان کی کہانیاں ہمیں اپنے آس پاس کہیں سانس لیتی معلوم پڑتی ہیں۔ افسانوں میں ادبی رنگ اور چاشنی موجود ہے۔ کہیں کہیں علامت نگاری بھی ملتی ہے۔ انھیں تجریدی افسانے شاید پسند نہیں۔ وہ کہانے کو افسانے کی روح حیات سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر افسانے کا خمیر کسی نہ کسی کہانی سے اٹھاہے۔ نصیر احمد ناصر کے بقول انھیں کہانی کو افانہ اور افسانے کو کہانی بنانے کا ہنر خوب آتا ہے۔ جان کاشمیری کے بقول تخلیقی لحاظ سے آپ اتنے چابک دست ہیں کہ قاری کی زبان، دل اور دماغ تینوں اش اش کر اٹھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ان کا فطری میلان مذہب کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ اور ایسا شعوری اور لا شعوری دونوں لحاظ سے ہے۔ ان کے بارے میں یہ کہتے ہوئے مجھے کوئی باک نہیں کہ ان کا پاکیزہ باطن ان کے افسانوں کی روح میں تیرتا صاف دکھائی دیتا ہے۔
مکالمہ نگاری ان کے افسانوں کا نمایاں وصف ہے جملے سادہ، برجستہ اور بر محل معلوم ہوتے ہی۔ کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے جملوں کا سہارا لینا انھیں بڑ امرغوب ہے۔ وہ منظر نگاری پر زیادہ دھیان نہیں دیتے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں منظر نگاری نسبتاً کم دکھائی دیتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ غلام عباس کا الٹ ہیں۔ وہ ایسی لفظی تصویریں بناتے ہیں کہ قاری مبہوت ہو جاتا ہے۔ جب کہ جالندھری صاحب مکالمے سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں اختصار کا پہلو ہمیں خاص طور پر پسند ہے کہ ہم بھی اختصار کے قائل ہیں۔ ہمیں ان کے افسانے محشر خیال نے بطور خاص متاثر کیا ہے انھوں نے بڑی مہارت سے قدیم عہد کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس میں انھوں نے زبان و بیان پر اپنی قدرت کا خوب صورت اظہار کیا ہے۔ ان کے افسانے مستی میں بھی کیا خوب مستی پائی جاتی ہے۔ جملے خوب تھے اور اختتام شاندار۔ بلند پروازی میں ان کا فن بلندی پر نظر آتا ہے۔ دلی اور آگرہ کی زبان بڑی خوبصورتی سے بیان ہوئی ہے۔ اس میں وہ ایک پختہ کار ادیب کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں۔خمار کی کہانی اپنے قاری کو خمار سے ہم کنار کردیتی ہے۔ کہانی لمحہ لمحہ رنگ بدلتی ہے اور قاری کچھ اور سوچ کے آگے بڑھتا ہے۔ کہانی مگر اسے کہیں اور لے جاتی ہے۔ ایک ایسی فضا میں جو روحانیت سے عبارت ہے۔ یہ کہانی ان کے قلبی مسلک اور مذات کی سچی ترجمی کہی جاتی سکتی ہے۔
سائیں عشق کا خمار ایسا ہوتا ہے ۔ ہاں میاں ماروی کو عمر ہی ملتا ہے۔
ان کی لکھت کی خاص بات ان کی کردار نگاری بھی ہے۔ ان کے کردار فطری لگتے ہیں۔ اور اپنے عہد اور ماحول کے سچے ترجمان کہے جاسکتے ہیں۔ یہ بات ان کے وسیع المطالعہ ہونے کی دلیل ہے، لکھاری کا مشاہدہ جتنا عمیق ہو وہ اتنا عمدہ تحریر تخلیق کرتا ہے۔ اس معاملے میں بھی وہ کسی سے پیچھے نظر نہیں آتے۔ ان کی افسانہ نگاری ان کے عمدہ مشاہدے کی ترجمان ہے۔ ان کا یہ افسانوی مجموعہ فن افسانہ نگاری کسی خوبصورت اضافے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آخر میں انکا ایک جملہ جو بڑا پسند آیا ۔
"میں ایک غریب مچھلی پانی پر کھڑی بھی ہو جائوں تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی "
کتاب میں ایسے درجنوں جملے ہیں جو قاری کے ادبی ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ بجا طور پر حرف حرف کہانی کے ہر حرف میں کہانیاں ملتی ہیں۔
میری یہ رائے بھی اس غریب مچھلی جیسی ہی ہے۔ یہ اس بڑے لکھاری کے ادبی قد کاٹھ کو کب ماپ سکتی ہے۔ اسے ایک ادنیٰ لکھاری کا ادنیٰ سا اعتراف سمجھا جائے اور بس۔
٭٭٭٭٭٭٭٭