معروف محقق، ناقد، مترجم، افسانہ نگار، ادیب، شاعر، کالم نگار۔ سہیل احمد صدیقی(کراچی)
اس حقیقت کے پیش نظر کہ افسانہ امکان حقیقت یا بنائے حقیقت کے بغیر افسانہ نہیں ، ہر افسانہ نگار اپنے گردوپیش کے حقائق کو ملفوف یا عریاں پیش کرتا ہے اور اُس کا اسلوب ہی اُسے دیگرسے جداکرتا ہے ، ورنہ کسی بھی شعبے یا معاملے میں حقائق عموماً یکساں ہواکرتے ہیں۔پیشکش میں اپنا سارا ہنر بخوبی استعمال کرنا بھی ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔اس تمہید کے بعد ، ہم نظر ڈالیں تو اَمین جالندھری یقینا اپنے مخصوص ادبی حلقے میں ایک مختلف ، توانا شجر محسوس ہوتا ہے۔امین جالندھری کا قلم کسی بھی دورمیں رکا نہیں، البتہ کتب کی اشاعت قدرے طویل وقفے سے ہوئی اور اس اثناء میں انھوں نے بینکاری سے وکالت کا رُخ کرلیا جو شاید اُن کے مزاج سے قدرے ہم آہنگ ہوتے ہوئے بھی اُن کے ہنر تلخ گوئی کا ہمہ وقت ساتھ دینے سے قاصر ہے۔
امین جالندھری کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ’’حرف حرف کہانی‘‘ کچھ عرصے قبل منصہ شہود پر آیا ۔کتاب کے گردپوش پر اور اندرون اتنے مشاہیر فن کی تقاریظ ہیں کہ مجھ ایسا ہیچ مدآں ، اُن کی فرمائش پر ششد ر رہ گیا کہ کچھ تو لکھ دو۔میری بساط بھر کوشش ہوتی ہے کہ جتنا پڑھا ، سمجھا ، اس بابت کچھ خامہ فرسائی کردوں، اب ہرچہ باداباد!
افسانہ ’آگ‘ امین ؔ کی زبان پر گرفت کی اچھی مثال ہے۔اس افسانے میں انھوں نے بہت عمدہ، حقیقی اور تمثیلی اندازِ بیاں سے قاری کو محو ہونے پر مجبور کردیا ہے، مگر ایک تنقیدنگار ہونے کے ناتے مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ بعض جگہ اُن کے مکالمے فطری وسادہ کی بجائے ادبیت سے مملُو ہیں جو کہیں کہیں غیر ضروری عنصر معلوم ہوتاہے۔ایک کردار پنڈت جی دوسرے کردار شیخ جی سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ’’ شیخ جی! اس پر سُومناتھ بھی فتح کرتے ہو ، پھر گیروے کپڑے بھی پہنتے ہو ، ماتھے پر قشقہ بھی کھینچتے ہو....ہماری ناریوں (عورتوں) کو داخلِ حرم بھی کرتے ہو‘‘۔یہ مختصر اقتباس تاریخی درد سموئے ہوئے ہے، طنز کی کاٹ گہری ہے اور فریق مخالف کی تنقیص نمایاں۔یعنی یہ کہ اصل واقعہ یوں نہیں جیسا ہم پڑھتے آئے ہیں)۔اسی افسانے کے ایک کردار شیخ جی کومصنف بعض جگہ سہواً میاں جی بھی لکھ گئے اور نظرِثانی کی مہلت نہ ملنے کے سبب، پوری کتاب میں بعض ایسی اغلاط راہ پاگئیں جو آیندہ کسی اشاعت میں دورہوسکتی ہیں۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ امین جالندھری کی نگارش میں اُن کی شخصیت کاکون سا پہلو جابجا بہت زیادہ نمایاں اور گہرا ہے تو میں بلاتأمل کہوں گا ، اُن کا بلا رُو رعایت طنز ، جس کی تاب بہت کم مخاطب لاسکتے ہیں ۔موصوف اگر شاعر ہوتے تو شاید طنز گو کی حیثیت سے کامیاب ہوتے۔زیر ِ نظر کتاب میں شامل افسانہ ’’محشر ِ خیال ‘‘ امین ؔ کی طنزنگاری کا بھرپور مرقع ہے ۔محض دو یا تین کرداروں کے مابین ہونے والے مکالموں سے پوری فضا تیار کرنا بھی انھی کا خاصّہ ہے۔اسی طرح اُن کا افسانہ ’’مستی‘‘ جیب کتروں کی زندگی کا حقیقی عکاس ہے اور اس کی زبان سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کا کبھی نہ کبھی اس جرائم پیشہ کردار سے حقیقی زندگی میں واسطہ پڑا ہوگا ۔
میں خلاف ِ عادت ، کتاب میں شامل ڈاکٹر معین الدین شاہین اجمیری (اجمیر شریف) کی رائے سے اقتباس نقل کرنے پر مجبور ہوں:
’’حقیقت نگاری کایہ فکر وعمل انھیں اسی لیے اپنے بعض معاصرین سے ممتاز کرتا ہے۔واضح ہو کہ امین جالندھری اس سماجی حقیقت نگاری کا ڈھنڈورا نہیں پِیٹتے جسے بوجوہ غلط فہمی، محض ترقی پسندوںکا ـCopyrightسمجھ لیا جاتا ہے‘‘۔
امین جالندھری کا افسانہ ’’چک گ ب 45‘‘ اُن کے تصوف سے تعلق اور راہ ِ سلوک کی عکاسی کے شوق کا ایک ادنیٰ مگر (میرے نزدیک) تشنہ عکس ہے۔وہ اس راہ پر بہت سوں سے بہتر لکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ عجلت سے کام نہ لیں۔افسانہ ’موڑ‘ کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا جس میں موصوف نے تمثیلی پیرایہ اختیار کرتے ہوئے عشق ِحقیقی کا جھانسہ دے کر ہَوَس کاری کی سعی نامشکور کرنے والے مخصوص کرداربے نقاب کیے ہیں۔
دِلّی کی مخصوص بولی ٹھولی میں لکھا گیا افسانہ ’بلند پروازی‘ کبوتربازوں کا عمدہ احوال بیان کرتا ہے اور مصنف نے اپنی زباں دانی کا بہت بھرپور مظاہر ہ کیا ہے۔اس افسانے کی بُنت کی بہت تعریف کی گئی اور شاید اپنے موضوع پر اِکلوتا افسانہ ہو۔میری رائے میں اسے پھیلایا جاسکتا تھا۔
’’حرف حرف کہانی‘‘ میں شامل افسانہ ’’درد کی زنجیر‘‘ بعض ناقدین کے نزدیک بہت خوب ہے ، مگر اس خاکسار کی نظرمیں محض ’غبارِ خاطر‘ اور تشنہ تحریر ہے۔’’رہائی‘‘ میں امینؔ نے روایتی دیہی ماحول میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کو ہدف ِ ملامت بنایا ہے۔’’ایک دن کی بات‘‘ بہت عمدہ اور واضح بیانیہ ہے۔’’کامیاب‘‘ میں بیان بہت کھُلا اور واضح ہے۔’’تجربہ‘‘ میں مصنف نے مُکافاتِ عمل کا موضوع خوب برتا ہے۔’’محاسبہ‘‘ کا انجام خفیف طنز پر ہوتا ہے ، جبکہ امین جالندھری طنز بہت گہرا کرتے اور لکھتے ہیں۔’’ ہنی مون‘‘ ایک روایتی موضوع پر روایتی سی تحریر ہے جس کا جذباتی انجام بھی قدرے روایتی ہے۔
امین جالندھری کے فن پر نقاد اپنی رائے سے نوازتے رہیں، خاکسار تو ایک ادنیٰ سا تنقید نگار ہے ، سو اَپنی رائے کا خلاصہ کرتا ہے۔اچھے ادیب کو چاہیے کہ اپنے ہر نثر پارے میں اپنی ہی مخصوص زبان کا جابجا استعمال نہ کرے ۔بعض جگہ کوئی کردار اپنی سماجی ، تعلیمی یا کسی خاص ماحول کی حیثیت سے قطع نظر، مصنف کی زبان میں گفتگو کررہا ہوتو یہ ہنر نہیں ، عیب شمار ہوگا۔اسی طرح آپ کو شعر نقل کرنا پسند ہے،مگر ہرطرح کا کردار، شعر نہیں پڑھتا۔فن کار کا حُسن اسی میں ہے کہ کردارمیں رنگ بھرے ، مگر
اُسے اپنے رنگ میں نہ ڈھلنے دے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاہیر ادب کے مکتوب کامجموعہ
بنام من (تین جلدیں)
مکتوب الیہ: سید معراج جامی
انتخاب و تدوین: اعجاز بابو خان
رابطہ: بزم تخلیق ادب پاکستان ، پوسٹ بکس نمبر17667، کراچی75300