ادیب، افسانہ نگار، کالم نگار، مبصر مجید احمد جائی (ملتان )
افسانہ ،ایک فسانہ ہے اور ہر زندگی کے ساتھ ا فسانے جڑے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات سجائی تو حضرت انسان کو یہاں بھیج کر اس کے ساتھ افسانوں کا لامتناہی سلسلہ جوڑ دیا ۔اب انسان ہے ،کہانی ہے ،افسانہ ہے ۔انسان کے اٹھتے قدم کے ساتھ ایک افسانہ جڑا ہے ۔یہ کیا کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات سے افضل بنادیا اور خداداد صلاحیتوں سے مالا مال کرکے روئے زمین پر تسخیر کائنات کے لیے بھیج دیا ۔
اُردو ادب میں افسانے نے کم وقت میں ترقی پالی ہے ۔دانشوروں اور نقادوں کا یہ لیبل ہم نہیں ہٹا سکے کہ افسانہ انگریزی ادب سے آیا ہے ۔حالا ں کہ اُردو ادب میں داستان موجود تھی ۔جب داستان کی روایت اس دھرتی میں موجود تھی تو افسانہ باہر سے کیسے آسکتا ہے ۔طویل بحث سے گریز کرتے ہوئے اتنا کہنا چاہوں گا کہ یہ دھرتی بڑی رزخیر ہے ۔اس دھرتی میں دریائے سندھ کی وادی بھی شامل ہے جس کا باسی ’’امین جالندھری‘‘ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہیں ۔اُردو افسانہ میں جدید صدی کا بڑا نام جن کے افسانے نہ صرف پڑھے جاتے ہیں بل کہ سنے اور پڑھائے بھی جاتے ہیں ۔
امین جالندھری قانون دان ہیں اور رب تعالیٰ نے انھیں قلم اور عمل سے جوڑ کر الگ شناخت اورپہچان دی ہے ۔ہنس مکھ یہ انسان جس کی روح روحانیت کے منصب پر فائز ہے ،اس کا قلم بھی روحانیت کی نگرنی میں محوِگردش رہتا ہے ۔میری خوش بختی ہے امین جالندھری نے اپنا افسانوی مجموعہ’’حرف حرف کہانی ‘‘ارسال کیا ۔میں اس مجموعہ کے افسانوں سے پورا پورا لطف کشیدکرنا چاہتا تھا سو جب جب لمحات میسرآتے تو ایک افسانہ پڑھ کر ،اس کے لطف و سرور میں گم ہو جاتا۔
کچھ افسانے ،گوجرانوالہ کی سرزمین پر بوقت سحری لب سڑک بیٹھ کر پڑھے ہیں ۔میری عادت ہے دوران سفر کتاب ساتھ رکھتا ہوں ،یوں انتظار کے کرب سے بچ جاتا ہوں ۔اب یہ عادت اچھی ہے یا بُری ۔نہیں جانتا۔گوجرانوالہ آل پاکستان کتب مقابلہ کی تقریب میں اپنا گولڈ میڈل وصول کرنے کے لیے جانا ہوا ۔رات کا سفر کیا تو سحری کے وقت وہاںپہنچا ۔جہاں تقریب تھی وہاں قفل لگے تھے سو مارکیٹ میں روشن میں بلب کے نیچے لب سڑک ’’حرف حرف کہانی ‘‘کتاب کھولی اور افسانوں کی دُنیا میں محو سیاحت ہوا۔اس کی رواداد پھر سہی ۔
’’ حرف حرف کہانی ‘‘کی بات کرتے ہیں ۔اس مجموعہ میں کل 26افسانے ہیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں :’’درد کی زنجیر ‘‘،’’ہنی مون‘‘،’’آدھے راستے کا آدمی ‘‘،’’بوڑھے آدمی کا نوحہ ‘‘،’’روپ بہروپ‘‘،’’گھوڑا‘‘،’’پاور‘‘،’’محاسبہ ‘‘وغیرہ۔’’حرف حرف کہانی ‘‘کا انتساب امین جالندھری اپنی بیگم شہناز بانو کی پچاس سالہ رفاقت کے نام کرتے ہیں ۔امین جالندھری روح ِتجسس کی مثال کے عنوان سے جان کاشمیری لکھتے ہیں :’’امین جالندھری ‘‘قانونی گرہ کشائیوں کے بین بین ادبی گرہ کشائیوں میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔آپ افسانے کی روح تجسس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرتے ۔مزید یہ کہ اس موقع پر تخلیق لحاظ سے اتنی چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ زبان ،دل اور روح تینوں اش اش کر اٹھتے ہیں ۔
’’امین جالندھری کی حرف حرف کہانی ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر معین الدین شاہین اجمیری (ہندوستان)سے لکھتے ہیں :’’عہد حاضر میں برصغیر میں جو انشاپرداز اپنی فکرِرسا کے گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہیں ان میں امین جالندھری بھی پابہ رکاب نظر آتے ہیں۔‘‘عزیز تنویر لکھتے ہیں :’’وہ (امین جالندھری)اپنے افسانوں کے توسل سے ایک ایسی تخلیقی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے ،جس میں دلکشی کے ساتھ انتشاربھی ہے ۔آشکارا طورپر ان کے افسانوں میں مرصع سازی اور تصویر سازی کے فن کے ساتھ ساتھ ایسا نرالا پن موجود ہے جو دل آویز بھی ہے اور مسحورکن بھی ۔فن افسانہ نگاری میں یہ شخص لامحدود صلاحیتوں کا مالک ہے ۔میدان ادب کے کارزار میں ان کی قوت بازو،قوت قلم کی صورت میں نمودار ہورہی ہے ،جس کی جھلک ’’حرف حرف کہانی ‘‘کے افسانوں میں ملتی ہے ۔
’’حرف حرف کہانی ‘‘کے افسانوں کو سمجھنے کے لیے امین جالندھری کا ’’سر نامہ ‘‘پڑھنا ضروری ہے ۔لکھتے ہیں ’’دنیا عب تماشا گاہ ہے جو آج روا ہوگا کل نارواہو گا۔معاشرتی بے کسی بے بسی اور ستم ظریفی نے زندگی میں بے اطمینانی کی کثر ت کر دی ہے ۔اس وطن عزیز میں چند سال پہلے بہت ہی سکون اور محبت کا دور دورہ تھا ۔پھر نہ جانے کیسے فلک کے نیچے انسانوں نے انسانوں سے کھیلنا شروع کر دیا ۔ہر چیز میں بناوٹ اور جعل سازی آگئی رشتوں میں بھی وہ محبت اور مودت نہ ہی ،کرپشن سے لت پت معاشرے میں زندہ رہنا مشکل ہو گیا ۔ہمارا سارافکری نظام دوسروں کی دین پر تکیہ کرتا آیا ہے ‘‘
’’حرف حرف کہانی ‘‘۱۶۰صفحات پر مشتمل مجموعہ ہے ۔اس کا ہر افسانہ اپنے اندر ایک جہاں آباد کیے ہوئے ہے۔یہ افسانے عام قاری کے اوپر سے گزر جاتے ہیں ۔ان افسانوں کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ تخیل اوروسعت مطالعہ ہونا ضرور ہے ۔افسانے مختصر ہیں اور عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف سفر کی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں ۔محاورات کمال کے ہیں جن کو پڑھتے ہوئے بندہ غوروفکر کی وادی میں محو سفر ہو جاتا ہے ۔چند جملے دیکھیے :
ارے بھائی !بھوکے پیٹ تو خواب بھی نظر نہیں آتے ۔
میرے بیٹے:جنھیں بچپن میں رزق حلال میسر آجائے ان کے لیے روٹی کبھی مسئلہ نہیں بنتی ۔
سمور کی کھال میں سانپ نہیں چھپ سکتا اور برف میں آم کا پیڑ نہیں اگتا ہے سمجھے
جناب اس ملک میں ’’ترقی ‘‘کا رازیہی ہے کہ جو کہو اس پر عمل نہ کرو۔
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ۔بالآخر بے چاری کو دل کا ڈاکٹر ہی راس آیا ہے ۔
آئی روزی کو لات مارتے ہو ۔تب ہی تو سارا دن سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہو۔
’’حرف حرف کہانی ‘‘افسانوی مجموعہ اپنے نام کا مکمل عکاس ہے ۔اس مجموعہ میں مصنف نے کمال مہارت سے اپنے اردگرد کے مسائل کو اجاگر کیا ہے ۔ایک طرف وادی سندھ کی کہانی ہے تو دوسری طرف وڈیرہ شاہی کی داستان ۔’’رہائی ‘‘افسانے کو اگر بار بار پڑھاجائے تو وادی سندھ کی کہانی چیخ چیخ کر سنا رہا ہے ۔جاگیر دار کس طرح کمداروں کی عزتیں برباد کرتے ہیں ۔اس افسانے میں عرض محمد اپنا بیٹے کو پولیس میں بھرتی کروانے کے لیے سائیں کی سفارش کروانا چاہتا ہے اور سائیں کے خیالات اس اقتباس سے باخوبی عیاں ہوتے ہیں :
عرض محمد !تم نے پنجرے میں پالتو طوطے کو دیکھا ہے ۔مالک کا دل کیسے خوش کرتا ہے جو پڑھائووہی پڑھتا ہے ۔اندر سے آزادی کی خواہش کو ختم نہیں کرتا ۔تمہارا بیٹا بزدل ہے ۔پولیس مقابلہ کر لے گا ۔
’’سائیں آپ کے حکم پر جان بھی قربان کر دے گا ۔سائیں آپ کا خادم جو ٹھہرا۔
عرض محمد !ہمارے خاندان میں آج تک کسی نے ،کسی کوپولیس میں بھرتی نہیں کرایا۔مگر تم ہمارے پرانے کمدار ہو ۔تمہارے لیے لاکھوں روپے خرچ کریں گے اور ہاں تمھاری حسن زادی کا کیا حال ہے ۔
سائیں آپ کی باندی ہے ۔
تو پھر عرض محمد !کل تم یہ کرنا کہ حسن زادی کو حویلی بجھوادینا ۔۔۔۔
سائیں ۔۔۔سائیں۔۔۔سائیں۔۔۔
’’حرف حرف کہانی ‘‘کے ہر افسانے میں امین جالندھری خوب خوب نشتر زنی کرتے ہیں ۔عام سے عام مسائل سے لے کر اقتدار اتک تمام مسائل اور حالات پر عمیق نظر رکھتے ہیں اور اپنے افسانوں میں پروتے ہیں ۔امین جالندھری کے افسانے غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں ۔اس لیے ہم بھی جان کاشمیر ی کی طرح کہ اٹھتے ہیں کہ امین جالندھری افسانوں کے کرداروں کے منہ میں اپنی نہیں ،کرداروں کی زبان ڈالتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں تخلیقی رم جھم کی پھوار پورے ماحول کو اپنی ساحرانہ گرفت میں لے لیتی ہے جو امین جالندھری کی وسعت مطالعہ ،بے کراں مشاہدے اور علم و ادب سے بے انت محبت کا ثبوت ہے ۔میری دعا ہے امین جالندھری کا قلم اسی طرح افسانے بُنتا رہے اور حق سچ کی آواز بنا رہے آمین !۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ظفر سپل کے ۲۰ سالوں کی کمائی
فلسفہ مغرب
ورثہ دانش یونان، مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقا کے بعد تاریخ فلسفہ کا آخر حصہ۔ اردو زبان میں فلسفے کی پہلی مکمل اور طبع زاد تاریخ، جس کے حوالے سے قاضی جاوید کا کہنا ہے۔
ظفر سپل صاحب کے بارے میں اب یہ کہنے میں کوئی مبالغہ ہے بھی تو بہت کم کہ وہ اردو کے فکری ادب میں دلچسپی لینے والے قارئین کے سب سے زیادہ جانے پہچانے مصنف ہیں۔
ناشر: بک ہوم ، لاہور