معروف دانش ور ، ہندی کے عالم، ناقد،مترجم ، ادیب۔ بشیر عنوان(میر پور خاص)
امین جالندھری سے میرا پہلا تعارف ایک بینکار کا تھا۔ حالانکہ ان کی کشیدہ قامتی، دبنگ آواز اور ان کے پیشے میں بظاہر کوئی مطابقت نظر نہیں آتی تھی۔ بعد میں انداز ہواکہ ان کی شخصیت سے متعلق میرا علم ادھورا تھا۔ مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب میں نے کچھ ادبی رسائل میں ان کی کہانیاں پڑھیں۔ ان کے موضوعات بھی معاشرے کے سنجیدہ مسائل پر محیط ہوتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ دو حرف بھی شائع ہو چکا ہے۔ جسے خاصا سراہا گیا۔ نیز ان کے ادبی کالم حیدر آباد کے مقامی اخبارات میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ایک ادبی تنظیم رابطہ بھی چلاتے رہے ہیں۔ جس کے زیر اہتمام انھوں نے حیدر آباد کی ادبی فضا کو گرمائے رکھا اور کئی یادگار پروگرام منعقد کیے۔ امین جالندھری کمال فولادی اعصاب کے مالک ہیں۔ بینک ملازمت کے طویل اوقات کار بھی انہیں نہ تھکا سکے اور ملازمت کی تکمیل کے بعد وہ وکالت کی پر پیچ و پر خاروادی میں جا نکلے۔ لیکن اس دوران وہ اپنے ادبی مشاغل سے کبھی غافل نہیں رہے۔ ان کا تخلیقی سفر مسلسل جاری ہے۔ گزشتہ سال ان کے مضامین کا مجموعہ حرف حرف روشنی طبع ہوا تھا۔ حرف حرف کہانی ایک ایسے صاحب بصیرت تخلیق کار کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو ہمارے ارد گرد رونما ہوتے واقعات کو محض سطح سے دیکھ کر سرسری نہیں گزرتا بلکہ ان کے باطن میں پوشیدہ جہانِ دیگر کو دیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے۔ متنوع موضوعات پر تحریر کئے گئے افسانے ان کے گہرے مشاہدے کے عکاس ہیں۔ ان کا افسانہ غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھتا ہے کہ قاری کو خود سے جدا نہیں ہونے دیتا۔ انھیں ادراک ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی دلفریبی آج کے قاری کو کتاب سے دور لے جا رہی ہے۔ لہٰذا انھوںنے اپنے تخلیقی ہنر کو اس مہارت سے آزمایا ہے کہ ان کے افسانوں کی طوالت، بیزاری کی حدود میں داخل نہ ہو اور غیر معمولی اختصار کی تشنگی کے احساس سے بھی محفوظ رہے۔ حرف حرف روشنی میں کل چھبیس افسانے شامل ہیں جن میں ہماری معاشرتی اور سیاسی زندگی کی تصویر کشی نہایت عمدگی سے کی گئی ہے۔ پہلا افسانہ محشر خیال بادشاہ اور ایک درویش کے درمیان مکالمے کی شکل میں سامنے آتا ہے جسے مخصوص درباری ڈکشن میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس سے اگلا افسانہ مستی دو جیب کتروں کی کہانی ہے جو لعل شہباز قلندر کے میلے میں اپنا فن آزمانے کا منصوبہ بناتے ہیں لیکن قلندر کی نگری کا احترام انھیں ایسا کرنے سے روکتا ہے ۔ اس کے با وجود خیر محمد فاقہ کشی سے تنگ آکر کسی زائر کی جیب کاٹتا ہے، تو علی محمد اسے قبیح فعل گردانتے ہوئے خیر محمد کی جیب کاٹ لیتا ہے اور رقم چندے کے بکس میں ڈال دیتا ہے۔ تیسرا افسانہ خمار بھی قلندرنگری کے پس منظر میں ہے۔ دبئی سے آئی ہوئی نو جوان زائر لڑکی ماروی، عمران نامی نوجوان کی کار میں لفٹ لیتی ہے لیکن دونوں کے کردار کی مضبوطی انھیں صراطِ مستقیم سے بھٹکنے نہیں دیتی۔ چوتھا افسانہ چک گ ب45 تصوف کے رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔ بزرگی کا منصب اور تصوف کے سلسلے کا تسلسل اس افسانے کا موضوع ہے۔ پانچواں افسانہ موڑ بھی تصوف کی دنیا کے اسرار پر مبنی ہے ۔ مراد اور سجاد کا اجنبی راستوں کا سفر، سجاد کے خوابوں کا سچا ہونا اور بالآخر اسے سجادہ نشینی کا منصب عطا ہو جانا۔ چھٹا افسانہ بلند پروازی دو انا پرور کبو تر باز دوستوں رفیق خاں اور ببن خاں کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ہمارے ہمارے عدالتی نظام کی سست روی کا پردہ بھی چاک کیا گیا ہے، جہاں ایک مقدمہ تیس سال میں فیصل ہوتا ہے، اس افسانے کا موضوع ایک ناولٹ کا متقاضی ہے۔ ساتواں افسانہ آگ شیخ اور پنڈت کے مکالمے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جس میں نہایت عمدگی سے امن کا درس دیا گیا ہے۔ آٹھواں افسانہ بول میری مچھلی تیسری دنیا کے اہم ترین مسئلے بد عنوان افسر کی کہانی ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کیلئے این جی او بنا کر ایک دوسرے رخ سے بد عنوانی کا ارتکاب کرتا ہے۔ نواں افسانہ مسافر دنیا کی بے ثباتی کی تصویر پیش کرتا ہے۔ امیر شخص فضل خان کی اولاددور دیس جا بسی ہے اور وہ بڑھاپے میں تنہائی کا کرب سہہ رہا ہے۔ بالآخر وہ ترک دنیا کے ذریعے سکون کی منزل پا لیتا ہے۔ دسواں افانہ شو ٹائم سیاسی شعور کا حامل علامتی انداز کا افسانہ ہے۔ جس میںغیر ملکی قوتوں کے مفاد کے لئے کام کرنے والے غداروں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ گیارھواں افسانہ درد کی زنجیر حرات اور حلال کے فلسفے پر مبنی ہے۔ پورا قبیلہ بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور وہ بالآخر قبیلے کے لوگ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حرام مال سے سکھ کی دولت نصیب نہیں ہوتی۔ بارھواں افسانہ رہائی ایک وڈیرے اور کمدار کی کہانی ہے جس میں مفاد پرستی کی عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے۔ نیز غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام کسی احساس ندامت کے بغیر ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ تیرھواں افسانہ ایک دن کی مہلت علامتی انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ شہر کے چوک میں کوئی نا معلوم شخص ایک مجسمہ نصب کر جاتا ہے ۔ اس عمل کے مذمتی اور حمایتی گروہوں کے درمیان فساد کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن آخر میں ایک کاک ٹیل پارٹی میں یہ بقراطی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے اور مذہبی رواداری قائم کی جائے۔ چودھواں افسانہ کامیاب ہمارے عہد کے منافقانہ سیاسی چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ جہاں عوام کو محض اقتدار کے زینے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جلسے کے لئے غریب بستی کا انتخاب کیا جاتاہے۔ لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ تنگ گلیوں سے بڑی موٹر نہیں گزر سکتی۔ لہٰذا صاحب بہادر کے لئے غریب بستی کا دورہ ممکن نہیں۔ پندرھواں افسانہ تجربہ مکافات عمل پر مبنی ہے۔ ایک سکھ موہن سنگھ تقسیم ہند کے وقت زیتون بی بی کی دو معصوم بیٹیوں کو قتل کرتا ہے۔ حالات بدلتے ہیں اور سینتیس سال بعد دہلی میں سکھوں پر برا وقت آتا ہے ۔ موہن سنگھ زیتون بی بی کے گھر پناہ لیتا ہے ۔ وہ اسے پہچان لیتی ہے اور معاف کردیتی ہے۔ لیکن قدرت موہن سنگھ کو معاف نہیںکرتی اور اس کے دو جوان بیٹے جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ سولہواں افسانہ التجا رستم و سہراب کے کرداروں کو جدید انداز میں پیش کرتا ہے۔ سہراب سامراج کا ایجنٹ ہے۔ جب مقابلے میں رستم جیت جاتا ہے تو سہراب اس سے زندگی کی بھیک مانگتا ہے ۔ مگر رستم اسے معاف نہیں کرتا۔ یہ ایک علامتی طرز کا افسانہ ہے۔ سترھواں افسانہ پاور صحافت اور جرم کی ملی بھگت کی تصویر پیش کرتا ہے۔ منشیات اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث شخص کی اولاد دنیا کے آٹھ ملکوں میں عیش کی زندگی گزار رہی ہے۔ صحافت اس جرائم پیشہ شخص کو ملک کے خیر خواہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اٹھارھواں افسانہ محاسبہ بھی علامتی طرز کا افسانہ ہے۔ آرٹس کونسل میں ملک کا جشن زریں میڈم آزوری کے رقص کے ذریعے منایا جا رہا ہے۔ اسی رقص کے آخر میں رقاصہ اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے عوام سے سوال کرتی ہے کہ آپ نے ملک کو کیا دیا؟ انیسواں افسانہ ہنی مون عشق اور زر پرستی کی جنگ میں زر پرستی کی جیت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی رسالے کا آرٹ ڈائریکٹر، حسین و جمیل میگزین انچارج لڑکی سے محبت کرتا ہے اور شادی کا خواہش مند ہے ۔ مگر وہ دیکھتا رہ جاتا ہے ، جب رسالے کا ادھیڑ عمر مالک خود ہی اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور رسالہ بند کر دیتا ہے۔ بیسواں افسانہ روایت دو حوصلہ مند بدو نوجوانوں کی کہانی ہے۔ جنہیں صحرا کا پر خطرسفر در پیش ہے ۔ چالیس سے زائد دن گزر چکے ہیں۔ منزل کے قریب پہنچ کر پانی اور ستو بھی ختم ہو نے لگتا ہے۔ مگر وہ ہمت نہیں ہارتے۔ بالآخر ایک کارواں ان تک پہنچتا ہے اور نوید سناتا ہے کہ ان کے پیچھے بھی دیگر کارواں آرہے ہیں۔ دونوں کا حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ مزید محنت کے ساتھ آگے بڑھنے لگتے ہیں۔ اکیسواں افسانہ آدھے راستے کا آدمی رزق حلال پر گزارا کرنے والے انسانوں کی مشکلات کو بیان کرتا ہے۔ گلو بہشتی حلال روزی پر قائم رہتا ہے تو اس کی بیوی اور بیٹے بھی اس کے خلاف ہو جاتے ہیں اور کچی شراب کا کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔ سیاہ فارم گلو بہشتی ، بلال حبشی کی پیروی میں مدینہ کا قصد کرتا ہے۔ جیب خالی ہے مگر عزم کی طاقت پر بھروسہ ہے۔ بائیسویں افسانہ بوڑھے آدمی کا نوحہ دادابرما کے محاذ پر لڑنے والا بوڑھا شخص ہے جس کا بیٹا مرچکا ہے اور پوتا غلط صحبت کی وجہ سے دہشت گرد بن چکا ہے۔ دادا سمجھاتا ہے مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تیئیسواں افسانہ زر خرید غلام بادشاہ کے وفادار محافظ کی کہانی ہے۔ وہ اپنے آقا کے قتل کی سازش کو ناکام بناتا ہے اور باغی کو موقعہ واردات پر قتل کر کے اس کا سر قلعے کی فصیل پر لٹکادیتا ہے۔ چوبیسواں سفید دھواں فینٹیسی کی طرز پر تحریر شدہ افسانہ ہے۔ محبت نامی ملک میں فرعون، چنگیز خان، رچرڈ سمیت تمام اہل مجبور ہیں اور کہکشائوں میں دھویںمعلق ہیں۔ اس ملک میں صرف اہل محبت ہی خوش ہیں۔ پچیسواں افسانہ روپ بہروپ انگریز اور دیسی نواب کے گھوڑوں کے درمیان گھڑ دوڑ کی کہانی ہے ۔ جس میں نواب صاحب کا مشکی گھوڑا جیت جاتا ہے۔ مقابلے کے بعد شراب و شباب کی محفل جمتی ہے ۔ یہ نیم علامتی طرز کا افسانہ ہے ۔ چھبیسواں اور آخری افسانہ گھوڑا ایک علامتی افسانہ ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی کام کرنے والوں کے لئے دنیامیں ہر جگہ سہولتیں دستیاب ہیں۔ وہ جہاں جانا چاہیں گویا اڑنے والے گھوڑے پر بیٹھ کر پہنچ سکتے ہیں۔ میڈم ستارہ اور گلاب خان منشیات کے اسمگلر ہیں ۔ یہ کہانی ہماری قومی زندگی کی مفاد پرستی، اور خود غرضی کی تصویر پیش کرتی ہے۔ امین جالندھری کے افسانوں میں ان کا عہد پوری طرح سانس لیتا محسوس ہوتا ہے ان کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی انکی مطالعیت(Readability)ہے یہ معجزہ صرف مصنف کی حد درجہ کفایت لفظی اور رواں دواں اسلوب ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
وقت سب سے بڑا نقاد ہے۔ کسی بھی فن پارے کی حقیقی قدر و قیمت کا تعین وقت ہی کرتا ہے ۔ جن فن پاروں میں زندگی کی حرارت ہوتی ہے، صرف وہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ باقی وقت کی گرد میں گم ہو جاتے ہیں۔ امین جالندھری کے فن میں زندگی کی حرارت کو واضح طور پر محسوس کیاجا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
یہ باتیں تیری یہ فسانے تیرے
بشریٰ رحمن کے انٹر ویوز کا نیا مجموعہ شائع ہو گیا ہے ۔
وہ زندگی کا گہرا شعور اور ادراک رکھتی ہیں۔ وہ زندگی اور ادب سے متعلق لگے بندھے اصولوں کو آنکھیں بند کر کے ماننے کی بجائے اپنی سوچ اور معیار کی کسوٹی پر رکھ کر قبول یارد کرتی ہیں۔ امید ہے بشریٰ رحمن کے انٹر ویوز کی یہ کتاب بھی غیر معمولی پذیرائی حاصل کریگی۔ میرے ادارے کے لیے اس کی اشاعت اور اہتمام کسی اعزاز سے کم نہیں۔ (حسن عباسی)
رابطہ: نستعلیق مطبوعات
F-3الفیر وز سینٹر غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور۔ 0300-4489310/0331-4489310