وہ گاڑی سے دو قدم دور تھا۔۔۔ اسے لگ رہا تھا اس کی روح پر وجود بوجھ میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔۔ مرے ہوئے ہاتھوں سے اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔یکایک وہ مڑا اور پوری رفتار سے مسجد کی طرف بھاگ اٹھا۔۔ وہ مزید اذیت نہیں سہہ سکتا تھا۔۔
hey listen.
وہ اندر داخل ہوتے ساتھ بولا۔۔ نوجوان نے اسکی طرف چونک کر دیکھا۔۔
مم۔۔۔۔۔ممجھے۔۔۔۔۔
وہ ہانپ رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا الفاظ بولے۔۔
مجھے تم جیساہونا ہے۔۔
وہ اسکی طرف اشارہ کر کے بولا۔۔نوجواب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
آؤ یہاں بیٹھو۔۔
اس نے نرمی سے اسے اپنے پاس بلایا۔۔ ڈیوڈ میکانکی انداز میں چلتا ہوا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔
اب بتاؤ۔۔
مجھے تم جیسا بننا ہے۔۔ بلکل تمہارے جیسا۔۔
وہ کیوں؟
بس بننا ہے۔۔
وہ ضدی بچوں کی طرح بولا۔۔
تم جانتے ہو میرے جیسا بننے کے لیئے تمہیں اپنی پچھلی زندگی بھولنی پڑےگی۔۔ سب کچھ چھوڑنا پڑےگا۔۔اسلام کے اصولوں کو ماننا پڑےگا۔۔
نوجوان نے متانت سے کہا۔۔
ہاں جانتا ہوں میں فیصلہ کر کے آیا۔۔۔
کیا تم اپنے ہوش و حواس میں ہو؟؟
ہاں بلکل ۔۔ اب ہی ہوش آیا ہے۔۔۔
وہ قطعیت سے بولا۔۔
ٹھیک ہے پھر وضو کر لو۔۔
وہ جوان اٹھتےہوئے بولا۔۔ڈیوڈ اسکے پیچھے چل پڑا ۔۔ وہ اسکی تقلید میں وضو کرنے لگا۔۔ اسے آج سمجھ آگیا تھا کہ کیسپئن پر اس نقاب پوش لڑکی نے منہ اور ہاتھ کیسے دھوئے تھے۔۔۔۔وضو کر کے وہ دونوں واپس وہیں آ بیٹھے۔۔
لا الہ الا اللہ۔۔
وہ آنکھیں بند کر کے پڑھنے لگا۔۔
محمدالر رسول اللہ۔۔
اسکا روم روم جھوم اٹھا۔۔ اسے لگا الفاظ سکون بن کر اسکی رگوں میں اتر رہے ہیں۔ ڈیپرشن جس کو وہ پچھلے کئ ہینوں سے جھیل رہا تھا ختم ہوگئی تھی۔۔جس آگ میں وہ جل رہا تھا وہ سرد پڑ رہی تھی۔۔ اسکا دل چاہا وقت رک جائے اور وہ یوںہی بیٹھا رہے۔۔۔ آنسو اسکے گالوں پر لڑھکنے لگے تھے۔۔ وہ بے آواز آنسوؤں سے روتا رہا۔۔۔ اس نوجوان نے اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔۔ وہ الفاظ حرف حرف کر کے اسکے وجود میں اتر رہے تھے۔۔۔وہ اسے اتارتا رہا۔۔ روتا رہا۔اسے اس وقت دنیا کی کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔اسے وہ مل گیا تھا جو اشک کے پاس تھا۔کتنی ہی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔۔مسجد کے لوگ اسکے گرد جمع ہوگئے۔۔ ان سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔۔ وہ سب اسے مبارکباد دے رہے تھے۔۔
میرا نام حنان ہے۔۔تم اپنا اسلا می نام کیا رکھوگے؟؟
نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
داؤد۔۔
لمحے کے ساٹھویں حصے میں جواب آیا تھا۔۔
کیا تم داؤد لفظ کا پس منظر جانتے ہو؟؟
نہیں لیکن میں یہاں داؤد بننے ہی آیا ہوں۔۔
اس نے عزم سے کہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ استنبول پہنچی تو فجر کا وقت تھا۔۔ اس نے سارا سفر جیسے کانٹوں پر کیا تھا۔۔ گھر پہنچ کر ذیشان صاحب سوگئے تو وہ فجر کی نماز پڑھنے لگ گئی۔۔ اسکا جسم تھکا ہوا تھا۔۔ نماز پڑھ کر وہ وہیں جائے نماز پر بیٹھ گئی۔۔
کیا ہوگیا ہے مجھے؟ اور کیوں؟؟
وہ ایک غیر مسلم ہے ۔۔ میں ایک غیر مسلم اور نا محرم کی وجہ سے کیسے بے چین ہو سکتی ہوں۔۔میں ایک مسلمان لڑکی ہوں۔۔ میں ایسا کچھ نہین کرونگی جو مجھے زیب نہیں دیتا۔۔
وہ خود کو یاد کروا رہی تھی۔۔۔
یا رب العالمین۔۔ تو جانتا ہے نا۔۔ میرے دل کے حال کو تو جانتا ہے نا۔۔یہ میرے بس میں نہیں رہا۔۔ میں ایسا نہیں چاہتی تھی۔۔۔میں سچ میں ایسا نہین چاہتی تھی۔۔
وہ رو پڑی۔۔
میرے دل سے اسکا خیال نکال دے۔ میرے دل میں اسکے لیئے نفرت پیدا کر دے۔میرے دل کو اپنی محبت سے بھر دے۔
وہ اب ہچکیاں لینے لگ گئی تھی۔۔
میرے دل میں اسکی نفرت پیدا کر دے ۔۔ میرے دل میں اسکی نفرت پیدا کردے۔۔
وہ مسلسل یہی الفاظ دہرا رہی تھی۔۔اسکے الفاظ اور آنسوؤں میں مطابقت تھی۔۔ دونوں ایک تواتر سے نکل رہے تھے۔۔وہ وہیں روتی روتی لرھک کر سوگئی۔۔
اشک میری بات سنو۔۔اشک پلیز۔۔ میں مر جاؤں گا۔۔
وہ اسکے پیچھے آرہا تھا۔۔ اس نے گھبرا کر بھاگنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ جدھر جاتی اسے اسی آواز کا سامنا کرنا پڑتا۔۔۔ یکایک اسکے قدموں کو بریک لگی۔۔ سامنے ذیشان صاحب کھڑے تھے۔۔ ان کی آنکھوں میں بے اعتباری، بے یقینی نفرت سارے جزبے موجود تھے۔۔
بب۔۔۔ بابا۔۔۔۔
اس نے کہنا چاہا۔۔
بابا میری بات سنیں۔۔۔۔
وہ چلا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔اس نے اپنے ارد گرد دیکھا۔۔ وہ اپنے کمرے مین تھی۔۔ اسکا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔۔
اگر یہ سچ ہوجائے تو؟؟؎
خوف سے اس پر کپکپی طاری ہوگئی۔۔ اس نے باقی رات اسی کیفیت میں گزار دی۔۔
اگلے دن ناشتے پر اسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ بابا سے نظریں ملا سکےاسے لگ رہا تھا وہ اسکا ذہن پڑھ لیں گے ۔۔اسکے اندر چلتی ہوئی جنگ کی وجہ جان لیں گے۔۔وہ آفس گئے تو اسکی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی۔۔ کام نپٹا کر وہ بھی حلیمہ باجی کی طرف چلی آئی۔۔ اسکے وجود پر عجیب سی یاسیت چھا گئی تھی۔۔کلاس میں بھی وہ کسی چیز میں دھیان نہیں دے پا رہی تھی۔۔
بیٹا آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ کیا آپ اپنی دادی کی وجہ سے افسردہ ہیں ؟؟
حلیمہ باجی نے سبق کے بعد اسے مخاطب کیا
جج۔۔۔ جی آنٹی۔۔
وہ بوکھلا گئی۔۔
کیا سوچ رہی ہیں آپ؟؟
انہں نے پیار سے پوچھا۔۔
آنٹی کسی کے خیال سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔۔۔ جبکہ آپ ایسا چاہتے ہوں۔۔؟
یہ آپ کی اپنی مرضی پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔۔ کسی کا خیال دل میں آجانا آپ کے بس کی بات نہیں۔۔ لیکن اسے قائم رکھنا یا رد کرنا آپ کے بس میں ہوتا ہے۔۔
لیکن آنٹی اگر آپ چاھتے ہوں کہ نہ آئے اور رد بھی کر رہے ہوں پھر بھی۔۔۔۔
وہ بے چین ہوئی۔۔
محبت دینے والا بھی اللہ ہے اور لینے والا بھی۔۔ بعض دفعہ وہ خود آپ کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے تاکہ آپ دنیاوی محبتوں سے آشنا ہوکر اسکی طرف آؤ۔۔۔ ایسی محبت انعام بن جاتی ہے۔۔ اور بعض دفعہ آپ کے گناہوں کی وجہ سے آپکے دل میں محبت دال دی جاتی ہے تاکہ آپ اپنا آپ ختم کر کے دوسرے سے محبت کی بھیک مانگو،، ایسی محبت سزا بن جاتی ہے۔۔اب سزا یا جزا کا فیصلہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔۔
انہوں نے اطمینان سے اسکو جواب دیا۔۔
ہم محبت کو انعام کیسے بنائیں؟؟
وہ شش و پنج میں تھی۔۔
اپنے دل سے غیر اللہ کی محبت کو کھرچ کر نکال دو۔۔ استغفار کی کثرت کرو۔۔۔ بہت جلد آپکے دل سے یہ زنگ اتر جائے گا اور اللہ آپکو اس سے بے نیاز کر دےگا۔۔
انہوں نے پیار سے کہا۔۔۔ وہ تھوڑی پر سکون ہوگئی ۔۔ اسے غیر اللہ کی محبت سے نجات پانے کا راستہ ڈھونڈنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باقاعدگی سے حنان کے پاس جا رہا تھا۔۔ اس نے تین دن میں مکمل نماز یاد کرلی تھی۔۔ وہ سارا وقت اسکے پاس گزارنا چاہتا تھا لیکن حنان نے یہ کہ کر منع کر دیا تاھ کہ اسلام رہبا نیت نہیں سیکھاتا۔۔۔
وہ ظہر کی نماز پڑھ کر اسکے پاس بیٹھا ہوا تھا۔۔ حنان نوافل ادا کر رہا تھا۔۔اسکی قربت میں بھی ویسا ہی سکون تھا جیسا اشک کے پاس تھا۔۔ اسکے ذہن میں سارے مناظر گھوم گئے۔۔ سارا اور محمد والے بھی۔۔
کہاں کھوئےہو؟؟
حنان نے دعا مانگ کر پوچھا۔۔
کچھ نہیں سوچ رہا تھا مسلمان کتنے خوش قسمت ہیں کہ انکو اتنا پر سکون دین ملا ہے پھر وہ قدر کیوں نہیں کرتے۔۔ شرمندہ کیوں ہوتے ہیں مسلمان ہونے پر۔۔
اس کی سوچ زبان پر آگئی۔۔
۔۔ صرف لا الہ الا اللہ کہہ دینے سے اسلام نہیں آتا۔۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنکے اندر اسلا نہیں اترتا۔۔
اللہ تعلا کا ارشاد ہے کہ قران کچھ لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اترتا اور کچھ لوگوں کے دل میں راسخ ہوجاتا ہے۔۔۔
حنان نے اپنی ہنسلی کی ہڈی پر ہاتھ رکھ کر بتایا۔۔
میرا شمار کن میں ہوتا ہے؟
داؤد نے سوال کیا۔۔
یہ تو تمہیں خود پتہ کرنا ہے۔۔ ہوسکتا ہے تمہارا نماز میں دل نہ لگے اور ہوسکتا ہے تمہں اسکے بغیر سکون نہ ملے۔۔
حنان نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔وہ خاموش ہوگیا۔۔ وہ اپنا موازنہ نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔
تم یہاں رہتے ہو؟ تمہارا گھر کہاں ہے؟
اس نے بات بدلی۔۔
میں یہاں جماعت کے ساتھ آیا ہوا ہوں۔۔ میرا گھر اس ملک میں نہیں ہے۔۔
حنان دیوار سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا۔۔ وہ دونوں مسجد کےصحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
تو جماعت میں کیوں آئے ہو؟؟؟
دین پھیلانے کے لیئے۔۔
کتنے عرصے سے آئے ہوئے ہو؟
پورے سال کے لئے آیا تھا۔۔یہ گیارہواں مہینہ ہے۔۔
تم پورے سال سے گھر نہیں گئے۔۔۔
داؤد نے حیرانی سے پوچھا۔۔ حنان نے مسکرا کر نفی میں سر ہلادیا۔۔
گھر جب جاؤگے؟؟
بس دو ماہ بعد۔۔ یہ ماہ برلن کا ہے اگلی تشکیل پتہ نہیں کہا ں ہوگی۔
داؤد رشک سے اسے دیکھتا رہا۔۔ وہ رحمان کے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا جو اسکے دین کے لیئے اسکے خلیفہ بن کر نکلے تھے۔۔
ایک منٹ۔۔ ایک منٹ۔۔۔۔۔۔ تم۔۔ تمہارا مطلب ہے کہ اگلے ماہ تم چلے جاؤگے؟
داؤد اچھل پڑا۔۔۔
ہاں کیوں کیا ہوا؟؟
میرا کیا ہوگا ۔۔۔ میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں دین۔۔۔۔
وہ سخت پریشان ہوگیا۔۔۔
کوئی بات نہیں ۔۔میں کسی کی دیوٹی لگا جاؤں گا تمہارے لیے۔۔۔
حنان نے اسے تسلی دی۔۔
لیکن مجھے تم سے سیکھنا ہے۔۔
وہ بضد تھا۔۔
اچھا ابھی تو میں یہیں ہوں۔۔ تم اللہ پر بھروسہ رکھو۔۔
داؤد کا نوڈ اچھا خاصا خراب ہوگیا تھا۔۔ حنان کی تسلیوں کے بوجود وہ ریلیکس نہ ہو سکا ۔۔۔۔
وہ لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی۔۔اس نے آج بہت دنوں بعد اپنی آئی ڈی کھولی۔۔وہ یونہی وقت ضائع کر رہی تھی۔۔اس نے سرچ پر ڈیوڈ لکھ دیا۔۔اسے اسکا پورا نام تک نہیں پتہ تھا۔۔
اسکا دماغ اسے منع کر رہا تھا ۔۔ لیکن وہ جیسے حواس میں ہی نہیں تھی۔۔ وہاں ہزاروں ڈیوڈ کی آئ ڈیز آگئیں۔۔ وہ بس ٹچ پیڈ پر انگلیاں چلا رہی تھی۔۔ اس نے بیڈ کی کراؤن کے ساتھ ٹیک لگا کر لیپ تاپ گود میں رکھ لیا۔۔ذیشان صاحب کمنی کے کام سے انقرہ گئے ہوئے تھے ۔۔وہ گھر میں بلکل اکیلی تھی۔۔ یکد م اسکی انگلیاں رک گئیں۔۔
پیج کے لاسٹ میں ڈیوڈ پروہب کارلس کی آئی ڈی موجود تھی۔۔ ایک لمحے میں اسے پہچان گئی تھی۔۔ وہ پانچ منٹ تک اسکے نام کو گھورتی رہی۔۔۔
نہیں مجھے اسے نہیں کھولنا۔۔ اور میں کیوں دیکھوں اسکی آئی ڈی۔۔۔مجھے کیا ضرورت ہے۔۔
اسکا دماغ اسے سرزنش کر رہا تھا۔۔۔ اسنے بیک کے ارادے انگلیاں چلائیں ہر ڈیوڈ کی آئی ڈی پر کلک کر دیا۔۔ اسکا دل اسکے دماغ پر حاوی آچکا تھا۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی بات مان رہی تھی۔۔
وہ بلیک پینٹ کوٹ میں کھڑا تھا۔۔ اسی کی ساتھ کی گاگلز لگائے۔۔ دھوپ میں اسکا رنگ سرخ پڑ رہا تھا۔۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔ میڈن ٹاور جاتے ہوئے بھی اس نے ایسی ہی ڈریسنگ کی تھی۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے ایک ایک بات گھوم گئی۔۔لیپ ٹاپ کی سکرین دھندلا گئی تھی۔
تم وہاں کیسے بیٹھو گی۔۔ تمہارا یہ گندا ہوجائےگا۔۔۔
بھوک لگی ہے تو مجھے بتاؤ نا۔۔ میں کھلاتا ہوں کچھ۔۔
میں یہ وقت کبھی نہیں بھولوں گا۔۔
رکو اپنے ارد گرد دیکھا لو یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا۔۔
ٹک ٹک کی آواز سے اسکے آنسو کی بوڑد پر گرے ۔۔ خاموشی ہونے کی وجہ سے وہ آواز پیدا کر رہے تھے۔۔
اسنے جھنجلا کر اپنے آنسو صاف کیے۔۔ وہ اب اسکی ٹائم لائن دیکھ رہی تھی۔۔
اسکی بہت سی تصویریں تھیں۔۔۔کھیلتے ہوئے ۔۔۔ شاٹ لگاتے ہوئے ،، بارز میں۔۔۔
اس نے مزید نیچے کیا۔۔ کارلا کے ساتھ اسکی کئی تصویریں تھیں۔۔وہ اسکی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔
ایک جگہ اس نے اسے کندھوں پر اٹھا یا ہوا تھا۔۔ان دونوں کے ہاتھ میں وائن گلاس تھے۔۔ اشک انکے برائے نام لباس دیکھ کر ہی لرز گئی۔۔ اسنے ایک جھٹکے سے لیپ ٹاپ بند کردیا۔۔ اسے وحشت ہو رہی تھی۔۔ اسکے آنسوؤں میں روانی آگئی۔۔
میں پاگل ہوگئی ہوں ۔۔ میں کیوں رہ رہی ہوں۔۔۔؟
وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہی تھی۔۔لیکن اسے خود پر قابو نہیں رہا تھا۔۔ آنسو رہکنے کی کوشش میں اسے درد ہو رہا تھا۔۔ اس نے لیپ ٹاپ بیڈ پر پھینک دیا۔۔ اسکا دم گھٹنے لگا تھا وہ اٹھ کر ٹیرس پر آگئی۔۔ اس نے اپنا دھیان بٹانے کی کوشش کی لیکن ساری دنیا جیسے ڈیوڈ کارلس پر رک گئی تھی۔۔۔
اشک میں مرجاؤنگا۔۔
اشک یہ میں ہوں تمہارا داؤد۔۔
ہر طرف اسکا وجود تھا ہر طرف اسکی آواز۔۔۔تنگ آکر اسنے کوشش چھوڑ دی۔۔ ٹیرس کے جنگلے سے سر ٹکا کر وہ رو پڑی۔۔ اسے اپنے آنسوؤں سے الجھن ہو رہی تھی۔۔اسکو اپنے رونے پر پچھتاوا ہورہا تھا۔۔ کہ وہ ایک غیر مسلم اور نامحرم کے لیئے آنسو بہا رہی ہے۔۔۔
در حقیقت وہ داؤد کے لئے رو رہی تھی۔۔ اپنے داؤد کے لئے۔۔۔ وہ یقینی طور پر جیلس ہو رہی تھی۔۔۔ کارلا کے ساتھ تصاویر اسکی نظروں میں بس گئیں تھیں۔۔۔ اپنے آپ پر قابو پانے کی ہر کوشش بے کار ہوگئی تھی۔۔ اس نے وہیں زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نماز پڑھ رہا تھا جب بیل کی آواز آئی۔۔ اس نے سلام پھیر کر دروازہ کھولا تو جین اور کارلس کھڑے تھے۔۔جین نے اسے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔۔۔ وہ کافی فریش لگ رہا تھا اور کپڑے بھی اچھے پہنے ہوئے تھے۔۔
آجائیں۔۔
داؤد نے انہیں راستہ دیا۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی دیکھتے ہوئے اندر آگئے۔۔ اگلے ہی لمحے انہیں ٹھٹکنا پڑا۔۔اسکی ساری تصویریں دیواروں سے غائب تھیں۔۔ اور بار بھی بلکل خالی تھی۔۔۔
یہ۔۔ یہ سب چیزٰیں کہاں گئیں؟ اور تمہاری تصویریں؟
جین نے حیرت سے کہا۔۔۔
بس میں کچھ چینج چاہ رہا تھا۔۔
داؤد نے اندر آتے ہوئے کہا۔۔ کارلس نے جین کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔
بیٹھیں آپ۔۔
داود نے کاؤچ کی طرف اشارہ کیا۔۔ وہ دونوں اسکا انداز دیکھ کر ھیران ہو رہے تھے۔۔داؤد دونوں کے لئے جوس لے آیا ۔۔
وائن نہیں ہے تمہارے پاس؟
کارلس نے جوس کو دیکھ کر کہا۔۔
نہیں ۔۔
مختصر جواب ملا
ہم تمہاری خیریت پتہ کرنے آئے ہیں ۔۔ لاسٹ ٹائم تم کافی ڈسٹرب تھے۔۔
جین نے کہا۔۔
میں ٹھیک ہوں مام۔۔
وہ زبردستی مسکرایا۔۔ اسے اپنی ماں کو سکرٹ سوٹ میں دیکھنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔
تو کیا تمہیں وہ لڑکی مل گئی۔۔۔
کارلسنے سوال کیا۔۔ داؤد کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔۔
نہیں وہ نہیں ملی۔۔
داود نے لمبا سانس لیا۔۔
جین نے کارلس کو گھورا اس نے داؤد کا اچھا بھلا موڈ خراب کر دیا تھا۔۔
تو پھر یہ چینج کیسے آیا ۔۔۔ تم بہت ڈسٹرب تھے۔۔
کارلس نے جین کو نظر انداز کیا۔۔
وہ نہیں ملی ۔۔ لیکن سکون مل گیا ہے۔۔
داؤد نے سر جھکایا۔۔
اور کارلا کے بارے میں کیا خیال ہے اب تمہارا۔۔ اس سال کے اینڈ تک تم دونوں شادی کرنے والے تھے۔۔
جین نے پوچھا۔۔
کیا مطلب مام؟
اسکے پیرنٹس چاہتے ہیں کہ اب فائنل ہوجانا چاہیئے تم دونوں کی شادی کو۔۔
جین نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔۔وہ داؤد کے تاثرات دیکھ رہی تھی۔۔
آپ ان کو منع کر دیں۔۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے
وہ قطعیت سے بولا۔۔
تھیک ہے تو پھر کب ارادہ ہے؟
جین نے سنجید گی سے پوچھا
میں کارلا سے شادی نہیں کر سکتا۔۔ آپ اسکو اور اسکے پیرنٹس کو منع کر دیں۔۔
وہ کاؤچ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
لیکن کیوں؟ تمہیں تو وہ بہت پسند تھی۔۔ اور سب جانتے تھے کہ تم دونوں شادی کروگے۔۔ اب اچانک دوسری لڑکی جسکا تم نام پتہ کچھ نہیں جانتے کارلا کو ریجیکٹ کر رہے ہو۔۔
جین کوغصہ آگیا۔۔ اگر وہ لڑکیسامنے ہوتی تو وہ ایسا نہیں کرتی۔۔ لیکن اسے اس بات پر غصہ تھا کہ وہ بغیر کسی مضبوط وجہ کے انکار کر رہا تھا۔۔
جو کچھ بھی ہے مام۔۔ اب میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔۔
لیکن کیوں؟
وہ بھی کھڑی ہوگئی۔۔
مام میں۔۔۔۔
وہ بے بس ہوا۔۔
ریلیکس جین ڈارلنگ۔۔۔ کام ڈاؤن۔۔
کارلس نے اسے کندھوں سے پکڑا۔۔
مجھے وجہ بتاؤ۔۔ یا اس لڑکی کو ڈھونڈ کر اس سے شادی کرو۔۔
جین نے کارلس کو نظر انداز کیا۔۔
میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے؟
تو پھر کارلا سے شادی میں کیا حرج ہے۔۔
اب کی بار کارلس بول اٹھا۔۔
کیونکہ میں۔۔۔۔ میں مسلمان ہوچکا ہوں۔۔
اس نے ہمت کر کے کہا۔۔
کب؟
جین نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔
ایک ماہ ہونے والا ہے۔۔میں نے اسلا م قبول کر لیا ہے اسلئے اب میں غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتا۔۔ اور آپ دونو ں بھی اسلام قبول کر لیں۔۔ وہی سچ ہے۔۔
تم نےان دہشتگر دوں کا دین قبول کر لیا ہے؟؟
کارلس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔۔
آپکو میرےہاتھ میں گن نظر آرہی ہے کیا؟
میں ہوں مسلمان۔۔ آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔۔ بتائیں کس بات کی دہشت ہے مجھ میں۔۔
اس نے حتی الا مکان اپنا لہجہ نرم رکھنے کی کوشش کی۔۔
ڈیوڈ۔۔
جین نے بے یقینی سے اسے دیکھا
پلیز مام مجھے داؤد کہیں۔۔
اس نے قطعیت سے انہیں باور کروایا۔۔
اور آپ دونوں بھی اس سچائی کو قبول کر لیں۔۔ یہ دھوکے کی زندگی چھوڑ دیں۔۔ ورنہ مجھ جیسے دہشت گرد کا آپ جیسےامن پرستوں سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔۔
اسکے انداز پر جین دو قد م پیچھے ہٹی ۔۔اسکا منہ کھل گیا تھا۔۔۔ کارلس بھی ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اسکے انداز سے جان چکے تھےکہ وہ فیصلہ کر چکا ہے اب وہ پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنٹی آپ کے بچے نہیں ہیں۔۔
وہ انکے ساتھ بیٹھ کر کافی پی رہی تھی۔۔
ہیں کیوں نہیں۔۔
حلیمہ بیگم نے جواب دیا۔۔
اچھا کتنے؟
اس نے اشتیاق سے پوچھا۔۔
دو بیٹے ہیں۔۔
اور بیٹیاں؟
بہت ساری ہیں۔آپ ہو۔۔ باقی قرآن کلاس والی سب میری بیٹیاں ہی تو ہیں۔۔
انہوں نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ کچھ ہی دنوں میں وہ انہیں بہت عزیز ہوگئی تھی۔اشک کو بھی وہ بالکل اپنی ماں جیسی لگتی تھیں۔۔کلاس کے بعد بھی وہ انہی کے پاس بیٹھی رہتی۔۔
بیٹے کہاں ہوتے ہیں آپ کے؟
ایک امریکا میں سیٹل ہے اور دوسرا اللہ کی راہ میں۔۔
تو وہ گھر نہیں آتے۔۔؟
آتے ہیں۔۔چھوٹا بیٹا کچھ دنوں میں آنے والا ہے ۔۔ پھر یہیں رہے گا۔۔
حلیمہ باجی کے لہجے میں خوشی جھلک رہی تھی۔۔ انکے چہرے پر ممتا کے کھلتے رنگ دیکھ کر اشک بے اختیار مسکرادی۔۔
تو آپ نے تیاری وغیرہ کرنی ہے کوئی
اشک نے پوچھا۔۔
ہاں سوچ تو رہی ہوں ۔۔ کچھ سیٹنگ وغیرہ چینج کر دوں۔۔ لیکن اکیلی ہوں زیادہ نہیں کر پاتی۔۔
تو میں آجاؤں گی نا ۔۔ میں کروا دوں گی۔۔
وہ پر جوش انداز میں بولی۔۔۔
ہاں ضرور ۔۔ مجھے بھی مدد مل جائے گی
وہ خوشدلی سے بولی۔۔۔
وہ کچھ دیر انکے پاس بیٹھ کر گھر واپس آگئی۔گھر میں کوئی نہیں تھا۔۔ تھوڑی ہی دیر میں اسے تنہائی سے وحشت ہونے لگی۔۔ اس نے لیپ ٹاپ آن کر لیا۔۔ اسکی قسمت پاسورڈ کھولتے ساتھ ہی ڈیوڈ کی تصویریں سامنے آگئیں۔۔
اس دن جلدی میں اس نے لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن نہیں کیا تھا ویسے ہی بند کر دیا تھا۔۔
اس نے جی جان سے اللہ کا شکر ادا کیا کہ لیپ ٹاپ اسی نے کھولا تھا۔۔ ذیشان صاحب نے نہیں۔۔
اس نے جلدی جلدی لاگ آؤٹ کر کے ہسٹری ڈیلیٹ کردی۔۔ ایک بار پھر باکو کی باتیں اس کے ذہن میں گھوم گئیں۔۔ وہ انہیں لیپ ٹاپ کی ہسٹری کی طرح ڈیلیٹ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
عجیب بات تھی کہ وہ اسکی سنگت میں محفوظ محسوس کرتی تھی۔۔ وہ جب بھی اسکے ساتھ گئی تھی اسے خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔۔لیکن اب وہ اس سے ڈرنے لگی تھی۔۔ اسکے خیالات سے اسکی باتوں سے بھاگنے لگی تھی۔۔۔وہ اسکے وجود سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔۔ اس کوشش میں وہ اندر سے مر تی چلی جارہی تھی۔
بابا میں کوئی انسٹیٹیوٹ جوائن کرنا چاہتی ہوں۔۔
اس نے اسی شام ذیشان صاحب سے بات کر لی۔۔
خیریت ہے بیٹا۔۔
وہ چونکے۔۔
میں اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہوں۔۔سارا دن گھر میں اکیلا نہیں رہا جاتا۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے میں آپکو پراسپیکٹس لا دوں گا آپ سلیکٹ کر لیجیےگا۔۔
ذیشان صاحب کو اسکی تنہائی کا احساس تھا وہ جوائینٹ فیملی سے آئی تھی۔۔
جی جزاک اللہ بابا۔۔ مجھے ایوننگ کلاسز کا شیڈول چاہیے میں تفسیر کلاس نہیں چھوڑ سکتی۔۔
ٹھیک ہے بیٹا جو آپ پسند کرتی ہیں کر لیں۔۔
ذیشان صاحب نے بات ختم کر دی۔ وہ مسکرا دی۔۔ اسے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔وہ بس مصروف ہونا چاہتی تھی۔۔اسے اپنی سوچوں اور خیا لوں سے پیچھا چھڑانا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہینہ ختم ہوچکا تھا۔۔ حنان کی اگلی تشکیل برلن سے باہر ہوئی تھی۔۔داؤد سخت پریشان تھا۔۔ وہ اشک کی طرح اب حنان سے دور نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو؟
حنان نے اسے منہ لٹکائے دیکھا تو پوچھ لیا۔۔
سوچ رہا ہوں تم چلے جاؤگے تو میرا کیا ہوگا۔۔
وہی جو منظو ر خدا ہوگا۔۔
حنان نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ وہ اسکی حالت سمجھ رہا تھا۔۔
سمجھ نہیں آرہا کیا کروں؟
داؤد پیشانی مسلتے ہوئے بولا۔۔
تم پریشان نہ ہو۔۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔۔میں کسی کی ڈیوٹی لگا کر جاؤں گا۔تمہارے لیئے۔۔
کیا میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا؟
داؤد نے اچانک کہا۔۔
میرے ساتھ۔۔۔
حنان سوچ میں پڑ گیا۔۔
ہاں اگر میں تمہارے ساتھ چلوں تو میں تم پر بلکل بوجھ نہیں بنوں گا۔۔
داؤد نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔
مجھے مرکز والوں سے اجازت لینی پڑےگی
حنان نے سوچتے ہوئے کہا۔۔
پلیز پلیز پلیز پوچھ لو۔۔
داؤد نے منت کی
ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں۔۔
حنان نے کہا تو جوش سے داؤد اسے گلے لگ گیا۔۔
تم میرے سب سے بہترین دوست ہو۔۔
وہ اسکے گلے لگ کر بولا۔۔
تم بھی۔۔۔
حنان بے اختیار مسکرا اٹھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔