وہ رات کو لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھا ہوا تھا۔۔ اسکی حالت کافی حد تک صحیح تھی۔۔ وہ اپنے آپ پر قابو پا چکا تھا۔۔ قسمت سے لڑنے کے بجائے ہار مان لینی چاہیے ورنہ انسان سر ٹکرا ٹکرا کر مر جاتا ہے۔۔ اس نے بھی ہار مان لی تھی۔۔
اشک کی بریسلیٹ اس نے ہاتھ میں پہنی ہوئی تھی۔۔وہ وقت گزاری کے لیے لیپ ٹاپ استعمال کر رہا تھا۔وہ اٹھ کر اپنا ۔۔ کیمرا لے آیا۔۔ لیپ ٹاپ سے کنیکٹ کرتے ہی اسکے سامنے پورا فولڈر کھل گیا۔۔ اس میں ہزاروں تصویریں تھیں۔۔ٹوکیو کی ۔۔ باکو کی۔۔مختلف منا ظر اسکی الٹی سیدھی لی گئ سیلفیاں۔۔۔۔وہ ہنس رہا تھا ۔۔ سٹائل مار رہا تھا۔۔
اسکی نظر بے اختیار بیڈ روم میں لگے قد آدم شیشیے پر گئ۔۔ اسکے حلقے نمایاں تھے۔۔ شیو بڑھی ہوئی تھی۔ڈھیلی ڈھالی شرٹ میں وہ آدھا بیٹھا آدھا لیٹا ہوا تھا۔۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا یہ وہی ڈیوڈ ہے جو تصویروں میں نظر آرہا ہے۔۔۔ اس نے اپنے حلیے سے نظریں چرا کردوبارہ لیپ ٹا پ پر توجہ مر کوز کرلی۔۔
اسنے کلک کیا۔۔ میڈن ٹاور کی تصویر سامنے آگئی۔۔اس نے بے دلی سے تصویر آگے کردی۔۔ اگلی ٹسویر پر وہ چونکا تھا۔۔ تصویر کی سائڈ پر کوئی لڑکی کھڑی تھی۔۔وہ آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی تھی۔۔ ہوا سے اسکا عبایا اڑ رہا تھا،،وہ اسے پہچان چکا تھا وہ اشک ھی تھی۔۔۔۔ اس نے بے تابی سے تصویریں آگے کیں۔۔ پانچ چھ کوششوں کے بعد اسے ایک اور تصویر مل گئ۔ ڈیوڈ نے سیلفی لی ہوئی تھی وہ اسکے پیچھے کھڑی تھی۔۔اس نے پورا فولڈر کھنگال لیا۔۔ اسے اور کوئی تصویر نہیں ملی۔۔ اس نے دوبارہ وہ تصویر کھو ل لی۔۔ اس نے دل سے شکر ادا کیا۔۔وہ تصویر کب کھینچی تھی اسے پتہ نہیں تھا نہ ہی اس کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔۔اس نے وہ تصویریں موبائل میں کر کے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔۔وہ کیتنی ہی دیر اسکی تصویر کہ تکتا رہا۔۔
کاش وہ اسکی ایک تصویر لے ہی لیتا۔۔
وہ انگلیوں کی پشت موبائل کی سکرین پر پھیرنے لگا۔۔ تھکی تھکی سکراہٹ اسکے چھہرے پر پھیل گئ۔۔ اسکے پچھتاووں میں ایک اور پچھتاوے کا اضافہ ہوچکا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعا لی کاارشاد ہے۔۔
جب وقت مقرر آجائے تو نہ تم ایک گھڑی آگے ہو سکتے ہو نہ ایک گھڑی پیچھے
اسکی دعائیں ۔۔ خد مت خیال وقت مقرر کو نہیں ٹال سکی تھیں۔۔دادو ایک ماہ کے بعد انتقل کر گئی تھیں۔۔
اسکو لگا اسکی ماں بچھڑ گئی ہے۔۔ وہ دوسری مرتبہ ایسا محسوس کر رہی تھی۔۔ پہلی دفعہ اسے اتنا شعور نہیں تھا لیکن اب اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے زندگی کی بازی ہارتے دیکھا تھا۔وہ چلی گئی تھیں۔۔انہوں نے بہت سکون سے جان دی تھی۔۔ وہ انکی وفات پر رشک کر رہی تھی ۔۔
رو رو کر اسکی آنکھیں سوج گئی تھیں لیکن اس نے اپنے منہ سے ماتم کا کوئی جملہ نہیں نکلنے دیا تھا۔۔ وہ انکی روح کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔۔
دکھ اپنی جگہ تھا۔۔ لیکن انکو کبھی نا دیکھنا۔۔ کبھی بات نہ کرنا یہ تسلیم کرنا بہت مشکل تھا۔۔ کسی شخص کو ہمیشہ کے لیے کھو دینا اور دوبارہ ملنے کی امید بھی نا ہونا۔۔ اس بات کو قبول کر لینا کیتنا اذیت ناک ہوتا ہے اسے ادراک ہو رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی زندگی بے رنگ ہوگئی تھی۔۔وہ ایک بور زندگی گزار رہا تھا۔۔ مسکراہٹ اور خوش اخلاقی جو اسکی شخصیت کا خاصہ تھی۔۔ وہ چڑچڑا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔اشک کے تصویر اس نے اپنے موبائل کے کور پر لگائ ہوئی تھی۔۔وہ اسے سامنے رکھ کر بھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
آفس سے واپسی پر اسکے دماغ میں نہ جانے کیا آیا۔۔ اس نے گاڑی کارلا کے آفس کی طرف موڑ دی۔کارلا جا چکی تھی اسے سارا مل گئی۔۔
ہیلو کیسی ہیں آپ؟
وہ اسے سے اچھے طریقے سے ملا۔۔
فائن ۔۔ آپ کیسے ہیں اور یہاں کیسے آگئے؟
وہ اسکے گلے ملتے ہوئے بولی۔۔ ڈیوڈ کو عجیب سا لگا۔۔وہ مسلم ماں باپ کی بیٹی تھی اسے ایسے نہیں ملنا چاہیئے تھا۔۔
کارلا سے ملنے آٰیا تھا۔۔ مو کہاں ہے؟
وہ تھوڑا پیچھے ہٹ کر بولا۔۔
آپ نے بتایا تھا آپ کے پیرنٹس مسلمان ہیں۔۔ پھر آپ نے کیوں چھوڑا اسلام۔۔
ڈیوڈ نے بےاختیار ہی سوال کر دیا۔۔ سارا نے حیرانی اسے دیکھا وہ شاید ایسے سوال کی امید نہیں کر رہی تھی۔۔
کیونکہ مجھ سے اسکی پابندیاں برداشت نہیں ہوتیں۔۔ وہ ہمیں زندگی جینے نہیں دیتا۔۔ بلکہ ہر چیز سے ترسا ترسا کر مار دیتا ہے۔۔ ہر وقت خوف اور ڈیپرشن میں رکھتا ہے۔۔
سارا نے ناگواری سے کہا۔۔ ڈیوڈ کو سمجھ نہیں آیا وہ کس اسلام کی بات کر رہی۔۔اشک والا ایسا تو نہیں تھا۔۔
اچھا وہ ایک گاؤن پہنتے ہیں نا۔۔ اسلام میں ۔۔ آپ اسے پا بندی کہہ رہیں۔۔ لیکن وہ تو ریپر ہوتا آپ کو دنیا سے بچانے کے لیے۔۔
ڈیوڈ نے اسکی چھوٹی سی سکرٹ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
وہ ریپر دنیا سے بچانے کے لیئے نہیں سو کالڈ ملاؤں سے بچانے کے لیئے ہوتا ہے ان لڑکیوں کے لیے جنکا کیریکٹر تھیک نہیں ہوتا۔۔ وہ خوف سے پہنتی ہیں تاکہ پکڑی نہ جائیں۔۔اپنی حرکتوں کی وجہ سے کوئی انہیں پہچان نہ لے۔۔۔
سارا نے غصے سے کہا۔۔ ڈیوڈ حیرت سے اسکی باتیں سنتا رہا۔۔
ایسی لڑکیاں خراب کیر یکٹر کی ہوتی ہیں کیا؟؟
اس نے موبائل کی سکرین سامنے کی ،، وہان اشک کی تصویر جگمگا رہی تھی۔۔
آف کورس ۔۔ اسکے کئ بوائے فرینڈ ہونگے جن سے چھپنے کے لیے یہ پہنتی ہوگی۔۔تاکہ ایک کے ساتھ ہوتے ہوئے دوسرا نہ پہچان لے۔۔
سارا کے لہجے میں عجیب سی جیلسی در آئی تھی۔۔ ڈیوڈ کا دل کیا اسکے منہ پر تھپڑ مار دے وہ کیتنے اطمینان سے اشک کا کیریکٹر خراب بتا رہی تھی۔۔
اوکے تھینکس۔۔
وہ مہبائل جیب میں ڈال کر مڑ گیا۔۔
ڈیوڈ۔۔۔۔
سارا نے پکارا تو وہ مڑ کر سوالیہ انداز سے دیکھنے لگا۔۔ وہ دو قدم آگے بڑھ آئی۔۔
اگر کبھی کوئی اور بات کرنی ہو تو بھی مجھ ایزی ہوکر کال کر سکتے ہو۔۔وہ اسکے قریب ہوکر ٹائی پر انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی۔۔
ہاں کرنی ہے ایک اور بات۔۔
وہ اسکی پشت پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔۔
تو کرو نا۔۔ کہاں کرنا چاہتے میرے یا اپنے ابارٹمنٹ میں۔۔
وہ مزید ساتھ لگ گئی۔۔ ڈیوڈ اسکی اداؤں پر ہنس پڑا۔۔
مو آپکا فیانسی ہے۔۔ کارلا میری گرل فرینڈ ہے۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی آپ مجھے ایسی آفر کر رہی ہیں۔۔اپنے کیریکٹر کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔
وہ اسے ایک جھٹکے سے پیچھے کرتا ہوا بولا۔۔وہ لڑکھڑا کر رہ گئی۔۔ ڈیوڈ مڑ کر واپس چلا آیا۔۔ اسے اب مزید نہ کچھ سننا تھا نہ دیکھنا تھا۔۔۔
دادو جا چکی تھیں۔۔۔ سوگ کے تین دن پورے ہونے کے بعد سب مھمان بھی جا چکے تھے۔۔اشک بھی تھوڑا سنبھل گئی تھی ۔۔ آنسو رک گئے تھے لیکن زخم ابھی بھی تازہ تھا۔۔وہ دادو کے کمرے میں آگئی۔۔ انکی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔۔ ان کی تسبیح،، انکا قرآ ن پاک،، دوائیاں،، جائے نماز۔۔۔۔ کپڑے۔۔۔۔
آنسو پھر سے جاری ہوگئے تھے۔۔واپس جانے سے پہلے اسنے دادو کی چیزوں کو سمیٹ کر جانا تھا۔۔الماری کھول کر وہ انکے کپڑے نکالنے لگ گئی۔۔ اسے وہ سب صدقہ کر کے جانے تھے۔۔ کپڑوں کے ساتھ ساتھ انکا موبائل بھی نکل آیا۔۔ وہ مو بائل لیکر بیڈ پر آگئی۔۔اس میں دادو کی تصویریں تھیں۔۔۔ اسکے آنسو پھر سے بہنے لگے۔۔۔ وہ ایک ایک کر کے تصویریں ڈیلیٹ کر رہی تھی۔۔ موبائل میں جامد تصویر نہ ہونے کی وجہ سے چاہے علماء نےویسی تصویریں بنانے میں رعایت دی ہے لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ دادو کسی وبال کا شکار ہوجائیں۔۔۔
تصویریں ڈیلیٹ کر کے وہ انکے کانٹیکٹ نمبرز دیکھنے لگ گئی۔۔۔ اسے ان تمام نمبروں پر اطلاع کرنی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آرام آرام سے بیٹھا کام کر رہا تھا۔۔ پچھلے کئی ماہ کی طرح آج بھی اسکا کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے؟
ڈینئل نے تقریبا پندرہ منٹ اسے ایک ہی لائن کو گھورتے دیکھ کر پوچھا۔۔
میں پاگل ہونے والا ہوں۔۔۔
ڈیوڈ مسکرا کر بولا۔۔
وہ تو مجھے نظر آہی رہا تم چاہتے کیا ہو؟
تم اس میں میری مدد نہیں کر سکتے۔۔
وہ فائل بند کرتے ہوئے بولا۔۔
میں کرنے کی کوشش کروں گا ۔۔ مجھے بتاؤ۔۔
ڈینئل نے یقین دلانے کے انداز میں کہا۔۔
چلو گھر چلیں۔۔
ڈیوڈ اپنا کام ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
تم مجھے بتاؤ۔۔ ورنہ میں خود تمہیں پاگل خانے چھوڑ آؤں گا۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا۔
میں کسی مسلمان سے ملنا چاہتا ہوں۔
وہ جانتا تھا ڈینئل جان نہیں چھوڑے گا۔۔
بس اتنی سی بات۔۔
ہاں
کارلا کے آفس میں ہیں کچھ مسلمز۔۔۔
نہیں ویسے نہیں۔۔
ڈیوڈ نے اسکی بات کاٹی
پھر کیسے؟؟
دوسرے والے۔۔
وہ القاعدہ والے؟؟
نہیں صحیح والے۔۔
ڈیوڈ نے سنجیدگی سے کہا۔۔
جنکو بتانا نہ پڑے کہ وہ مسلمان ہیں۔۔ان کے پاس جا کر خوف نہیں سکون محسوس ہو۔۔ انہیں اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی نہ ہو۔۔
کہاں ملیں گے ایسے مسلمان۔۔ وہ بھی جرمنی میں؟؟
ڈینئل نے حیرانی سے کہا۔۔
جس سے قسمت نے ایک بار ملایا وہی دوبارہ بھی ملا دے گی۔۔
وہ گہری سانس لیکر بولا۔۔اسکا فون بجنے لگا تھا۔۔ اسنے موبائل دیکھا عجیب سا نمبر جگگا رہا تھا۔۔ اس نے فون کاٹ دیا۔۔
کس کا فون ہے؟
ڈینئل نے سوال کیا۔۔ بیل دوبارہ بجنے لگی تھی۔۔
پتہ نہیں انجان نمبر ہے کوئی۔۔
تو اٹھا لو۔۔
نہیں کسی کمپنی کا ہوگا گھر جا کر دیکھوں گا۔۔
فون بند ہوچکا تھا۔۔ گاڑی میں اب خا موشی تھی۔۔ تھوڑی دیر بعد بیل دوبارہ بجنے لگی۔۔
ڈینی سائلنٹ کردو موبا ئل۔۔
ڈیوڈ نے بیزاری سے کہا۔۔ ڈینئل نے موبائل سائلنٹ پر لگا دیا۔۔
گاڑی آئس کریم پارلر پر رہک لو میرا ریفریشمنٹ کا موڈ ہے۔۔
ڈینئل کے کہنے پر ڈیوڈ نے خاموشی سے موڑ لی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں کیسا نمبر ہے۔۔ کوئی ریسیو بھی نہیں کر رہا۔۔
اشک نے فون بند کر دیا۔۔ اسے کال ہسٹری میں وہ نمبر نظر آیا تھا تو اس نے ملا دیا۔۔ اسے پر تقریبا 2 کالز ہوئ تھیں۔۔ جینکا دورانیہ دس سے پندرہ منٹ تھا۔۔ وہ تمام نمبرز ہر اطلاع کر رہی تھی تو اس نے اس نمبر بھی کال کر دی۔۔ لیکن آگے سے بزی ہونے پر اس نے کوشش چھوڑ دی۔۔۔۔