وہ آفس سے واپس آیا تو سامنے کارلا براجمان تھی۔۔ وہ اسکے گھر کا پاسورڈ جانتی تھی اسلئے اطمینان سے اندر آگئی تھی۔۔ ڈیوڈ کا موڈ خراب ہوا ۔۔وہ اس سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔۔
گڈ نون۔۔
کارلا نے مسکرا کر کہا۔۔ جوابا وہ سر ہلا گیا
تم میری کالز کیوں نہیں اٹینڈ کر رہے اتنے دنوں سے؟
کارلا نے چھوٹتے ہی سوال کیا۔۔
مو بائل خراب تھا۔۔
وہ مختصر جواب دے کر کوٹ اتارنے لگا۔
اور اس دن تم اچانک واپس کیوں چلے گئے تھے؟
وہ غصے سے بولی اسکا بھی موڈ خراب تھا
کام تھا ایک۔۔
وہ بیڈ روم میں جاتے ہوئے بولا۔۔ وہ واضح طور پر اسے اگنور کر رہا تھا۔
ایسا کون سا کام تھا جو تم نے میرے واپس آنے کا بھی انتظار نہیں کیا۔۔
وہ بھی اندر آگئی۔۔
اچا نک یاد آگیا تھا۔۔
ڈیوڈ نے خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی ۔۔اسے کارلا کی موجودگی سخت کھل رہی تھی۔۔
کیا کام تھا؟
thats non of your busniss.
وہ گلاس بناتے ہوئے بولا۔۔
یہ کس کی ہے؟
کارلا نے اسکا جواب نہیں سنا تھا وہ کچھ اور پوچھ رہی تھی۔۔
کیا؟ وہ گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔۔ وہ ابھی تک دوسری طرف منہ کیے کھڑا تھا۔۔
یہ بریسلیٹ۔۔
کارلا کی بات سن کر وہ گھوما۔۔ وہ اشک کی بریسلیٹ لیے کھڑی تھی۔۔
کسی کی ہے؟
اسنےتیزی اسکے پاس آکر بریسلیٹ لینے کی کوشش کی۔۔کارلا نے ایک دم ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔
کس کی؟
دوست کی ہے؟
تھیک ہے یہ تم ممجھے دے دو اسے نئی دے دینا۔۔
وہ اپنے ہاتھ میں پہنتے ہوئے بولی۔
نہیں میں یہ تمہیں نہیں دے سکتا۔۔
ڈوڈ نے سختی سے واپس کھینچی۔۔
کیوں نہین دے سکتے؟ کس کی ہے ۔۔اور تمہارے بیڈ روم میں کیا کر رہی ہے؟؟
وہ چیخی۔۔
تمہیں بتانا ضروری نہیں ہے۔۔ مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔
کیا تم انٹرسٹڈ ہو کسی میں؟؟
وہ جواب دیے بغیر رخ موڑ گیا۔۔
مجھے بتاؤ۔۔ تم مجھے چیٹ کر رہے ہو۔۔ تم کسی اور کے ساتھ انوالو ہو؟
کارلا نے اسکا کالر پکڑ کر ایک جھٹکے سے اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔۔
ہاں میں ہوں۔۔ کیا اب تم جھے اکیلا چھوڑ دوگی۔۔ میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔۔
وہ حلق کے چلایا۔۔ اسکا دل کر رہا تھا اس نیم برہنہ لڑکی کو دھکے دے کر نکال دے۔۔
کارلا نے جوابا ہاتھ گھما کر اسکے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔۔ڈیوڈ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔
گیٹ آؤٹ۔۔ گیٹ آؤٹ ناؤ۔۔ دفع ہو جاؤ ممیرے سامنے سے۔۔ جاؤ جاؤ یہاں سے۔۔
وہ اسکا بازو پکڑ کر بیڈ روم سے باہر نکالتے ہوئے چیخا۔۔ کارلا سہم کر پیچھے ہوئی پھر اپنا بیگ اٹھا کر بھاگتی ہوئی چلی گئی۔۔
گااااااااڈڈڈڈ!!!
ڈیوڈ نے ہاتھ مار کر کاؤنٹر پر پڑے سارے گلاس گرا دیے۔۔ شیشے کے گلاس گرتے ساتھ ہی چکناچور ہو گئے۔۔اسے لگا اسکا وجود بھی ایسے ہی کرچیوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔۔وپ انہیں روندتا ہوا لاؤنج میں آگیا۔۔اسنے دونوں ہاتھوں میں بوتلیں پکڑی ہوئی تھیں۔۔ اسنے ایک بوتل کھول کر منہ کو لگالی۔۔ وہ اسمیں پانی ملائے بغیر ایک سانس میں پی رہا تھا۔اس نے بوتل ختم ہونے تک اسے منہ سے نہیں ہٹایا۔۔ اسکا سر پھٹ رہا تھا۔ کڑواہٹ اور تیزی سے اسکی آنکھوں سے پانی نکلنے لگ گیا ۔۔ بوتل ختم ہوئی تو اسنے اسے دیوار میں مار دیا۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا ہر چھیز توڑ دیتا۔۔۔آدھے گھنٹے میں وہ تین بوتلیں چھڑھا چکا تھا۔۔ وہ چوتھی لینے کے لیے اٹھا لیکن اسکے سر اور جسم نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا۔۔ وہ وہیں لاؤنج میں ہی بے سدھ ہوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اور ذیشان صاحب پاکستان جا رہے تھے۔۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔پچھلی دفعہ وہ دادو سے دور جانے کی وجہ سے رہ رہی تھی اور اب وہ انکے پاس جانے کے لیے رو رہی تھی۔۔ذیشان صاحب کو امرجنسی ویزہ ملنے کے باوجود اپنی کاروائی مکمل کرتے کرتے 5 دن لگ گئے تھے۔۔
اللہ جی جلدی سے پاکستان آجائے۔۔
اس نے دعا مانگی تو اسے بے اختیار یاد آیا پچھلی دفعہ وہ یہی دعا ترکی کے لیے مانگ رہی تھی۔۔ جب ڈیوڈ اسکے ساتھ آکر بیٹھا تھا۔۔ جب جہاز کو جھٹکا لگا تھا۔۔اس نے کتنی مہربانی سے اسکا حال پوچھا تھا۔۔ اسنے بے اختیار گردن موڑ کر اپنے ساتھ والی سیٹ پر دیکھا۔۔ وہاں ذیشان صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔۔ انکے لب ورد کر رہے تھے۔۔پریشانی انکے چہرے سے عیاں تھی۔۔
ماں سے بچھڑنے کا خوف وہ جانتی تھی۔وہ اس حالت سے گزر چکی تھی،،وہ ان کی حالت سمجھ رہی تھی۔۔۔اسکی اپنی کیفیت بھی یہی تھی۔۔ مام کے بعد دادو نے ہی اسے ماں بن کر پالا تھا۔۔ وہ بھی دعاؤں میں مشغول ہوگئی۔۔
پاکستان پہنچھنے پر اسنے سکون کا سانس لیا۔۔وہ اب کم از کم دادو کے قریب تو تھی۔۔ وہ ائر پورٹ سے ہی ہاسپٹل جانا چاہتی تھی۔۔لیکن ذیشان صاحب نے پہلے گھر جانے کو ترجیح دی۔۔
تقریبا دو تین گھنٹے آرام کر کے وہ ہاسپٹل گئے۔۔دادو آئی سی یو میں تھیں۔۔ وہ انہیں شیشے سے ہی دیکھ کر رو پڑی۔۔اسکا دل گھبرا رہا تھا۔۔ذیشان صاحب اندر چلے گئے۔۔وہ کافی دیر بعد باہر آئے۔انکی آنکھیں سرخ تھیں۔۔
جاؤ بیٹا آپ بھی مل آؤ۔۔
عثمان صاحب نے کہا تو وہ بےقراری سے اندر بھاگی۔۔
دادو جانی۔۔
اس نے آہستگی سے ان کو آواز دی۔۔ دادو نے آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھا۔۔ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
اشک میری۔۔بچی۔۔۔۔
انہوں نے نواہت سے کہا۔انہوں نے ڈرپ لگا ہوا ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی۔۔اس نے آگے بڑھ کر ان کو تھام لیا۔۔ اسکے آنسو بہنے لگے۔۔
دادو دیکھیں میں آگئی ہوں ۔۔ اب آپ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں ۔۔
اشک نے انکا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔۔وہ مسکراتی رہیں۔۔اشک کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔۔
دادو آپ جلدی سے گھر آجائیں نا۔۔ میں اب آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤنگی۔۔
وہ یقین دہانی کرا رہی تھی۔۔
میں نے کہا تھا نا میں نہیں جاتی۔۔ آپ نے خود ہی نہیں مانا۔۔ دیکھا خود بیمار ہوگئیں۔۔
وہ شکوے کر رہی تھی۔۔اسکو احساس ہوا۔۔دادو اسکی بات نہیں سن رہیں
دادو۔۔ اس نے انہیں پکارا۔۔دادو غنودگی میں تھیں۔۔وہ لرزتی ٹانگوں سے واپس آگئی۔۔
مل لیا آپ نے؟
جی بابا وہ سو گئی ہیں۔۔
اس نے آنکھیں رکڑتے ہوئے کہا۔۔
آپ دعا کریں بیٹا۔۔ ان کو آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔۔
ذیشان صاحب نے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
جی بابا انشاء اللہ۔
آپ دونوں رکنا چاہیں گے یا واپس جائیں گے۔۔
ذیشان صاحب کے چھوٹے بھائی نے پوچھا۔۔وہ ہی انکو ہاسپٹل لے کر آئے تھے۔۔
میں رکونگی۔۔
اشک نے قطعیت سے کہا۔
میں بھی رک جاتا ہوں۔۔
ذیشان صاحب نے کہا۔۔وہ بھی اپنی ماں سے دور نہیں جانا چاہ رہے تھے۔۔
چلیں ٹھیک ہے کھانا وغیرہ رکھا ہے آپ آرام سے رہیں۔۔
وہ چلے گئے ۔۔اشک نے کاریڈور میں جائے نماز بچھا لی۔۔ وہ ساری رات دعاؤں میں مشغول رہی۔۔اسے اس وقت دادو کی زندگی سے زیادہ کچھ نہیں چاہیئے تھا۔۔
کارلس نے ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھل گیا۔۔ جین نے پریشانی سے اسکی طرف دیکھا۔گھر لاک نہیں تھا۔۔وہ دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوگئے۔۔سامنے ہی لاؤنج یں ڈیوڈ زمین پر اوندھے منہ گرا ہوا تھا۔۔فرش پر ٹوٹی ہوئی بوتلیں گری ہویئں تھیں۔۔ ٹی وی چل رہا تھا۔۔
ڈیوڈ ۔۔۔ میرے بچے۔۔ ڈیوڈ۔۔
جین نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے ہلایا۔۔وہ کسمسا کر کروٹ بدل گیا۔۔کار لس کچبن میں چلا گیا۔۔فریج خالی تھا۔۔ کچن میں پڑا پاستہ بس چکا تھا۔۔
کارلس اسے بیڈ روم میں لے جاتے ہیں۔۔
ہاں صحیح۔۔
اس آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔۔ دوسری طرف سے جین نے پکڑ لیا۔۔وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو بیڈ روم کی حالت لاؤنج سے زیادہ ابتر تھی۔۔وہ دونوں کرچیوں پر چلتے ہوئے اسے اندر لے آئے۔۔زمین پر کئی گلاس ٹوٹے ہوئے تھے۔۔مختلف قسم کے فلیورز گرنے کی وجہ سے کمرے میں عجیب سی بساند پھیلی ہوئی تھی۔۔ڈیوڈ کی شرٹ بھی داغدار تھی۔۔جین بمشکل ضبط کر رہی تھی۔۔
میں اسکے کپڑے بدل دیتا ہوں۔تم روم صاف کردو۔۔
کارلس نے وارڈروب کھولتے ہوئے کہا۔۔جین خاموشی سے کام میں لگ گئی۔۔ تقریبا آدھے گھنٹے میں وہ دونوں اپنا اپنا کام کر چکے تھے۔ کارلس نے پانی کا گلاس بھر کر اس پر الٹا دیا۔۔ ڈیوڈ ہڑبڑا کر اٹھا۔۔
مام۔۔۔ڈیڈ
اسکو ابھی تک خمار چڑھا ہوا تھا۔
میرا بچہ۔۔ تم ٹھیک تو ہو؟؟
جین بے قراری سے اسکی طرف بڑھی۔۔ڈیوڈ نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔ اسکے حواس بحال ہورہے تھے۔۔
آپ لوگ یہاں۔۔۔۔۔۔
اس نے ناسمجھی سے کہا۔۔
اس دن تم اچانک چلے گئے تھے۔۔ پھر ویک اینڈ پر بھی نہیں آئے۔۔کالز بھی اٹینڈ نہیں کر رہے تھے تو ہم پریشان ہوگئے تھے۔۔
جین اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔
ویک اینڈ ۔۔۔۔۔۔۔ آج کیا دن ہے؟
وہ حیرانی سے بولا۔۔
آج بدھ ہے۔۔
جین نے پریشانی سے کہا۔۔
اوہ پانچواں دن۔۔۔۔
ڈیوڈ نے خود کلامی کی۔۔جین نے پریشانی سے کارلس کی طرف دیکھا۔
تمہیں کیا مسلہ ہے؟ تم کبھی اتنی نہیں پیتے۔۔ اور اب تم پانچ دن سے گھر کھلا چھوڑ کر بےہوش پرے تھے۔۔
کارلس نے ڈانتے ہوئے کہا۔۔
کچھ نہیں۔۔
ڈیوڈ نے اٹھ کر سگریٹ سلگالیا۔۔
تم پاگل ہوگئے ہو۔۔کیوں اپنے آپ کو برباد کر رہے ہو؟ تم مر سکتے تھے ۔۔
جین کا ضبط ٹوٹ گیا تھا
کیونکہ میں جینا نہیں چاہتا۔۔
وہ اطمینان سے بولا۔۔
لیکن کیوں ؟؟
آپ نہیں سمجھ سکتیں۔۔
مجھے بتاؤ میرے بچے ۔۔ ہم کوئی حل نکال لیں گے۔۔
جین نے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔۔
میں سکون چاہتا ہوں۔۔
کیسا سکون۔۔ تمہارے پاس ہم ہیں۔۔کارلا ہے ڈینئل ہے۔۔ جاب ہے گھر ہے۔۔ ہر چیز ہے جہ ایک پرسکون زندگی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔۔
کارلس جھنجھلا اٹھا۔۔
وہ سکون۔۔۔ وہ جو میں نے اسکے ساتھ محسوس کیا تھا۔۔۔۔۔ جب وہ میرے ساتھ تھی۔۔۔
اوہ۔۔ تمہیں محبت ہوگئی ہے۔۔
کارلس نے سمجھتے ہوئے کہا۔۔
آپ کہہ سکتے ہیں۔۔
تو جاؤ اور اسے حاصل کر لو۔۔
جین نے آرام سے کہا۔۔
میں اسکے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔۔ بس نام پتہ ہے۔۔ میں نے اسکا چہرہ تک نہیں دیکھا۔۔
تو تمہیں اس سے محبت کیسے ہوئی؟
پتہ نہیں ۔۔ وہ پلین میں میرے ساتھ تھی۔۔ پھر باکو میں۔۔ کیسپئن کے ساحل پر بھی۔۔ میڈن ٹاور پر بھی۔ اسکے پاس پتہ نہیں کیا تھا۔۔ اس سے بات کرنے کا دل کرتا تھا۔۔ اسکے قریب رہنے کا۔۔ اسے دیکھنے کا۔۔ سننے کا۔۔ وہ گئ ہے نا جب سے مام۔۔ میں اندر سے خالی ہوگیا ہوں۔۔ ڈیوڈ کارلس کی روھ اسکے ساتھ ہی چلی گئی ہے۔۔
وہ کھوئے کھوئے انداز میں بول رہا تھا۔۔جین کے آنسو بہہ رہے تھے۔
وہ نا ایسے ہاتھ اٹھاتی تھی مام۔۔
اس نے دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی۔
ایسا لگتا تھا ساری کائنات کی خوبصورتی اسکے ہاتھوں میں سماگئی ہے۔۔ مجھے لگتا ہے مام اس نے نا اپنے گاڈ سے میری روح بھی مانگ لی تھی۔۔
وہ خوفزدگی سے بولا۔۔
مجھے لگ رہا ہے میں مر رہا ہوں۔۔ مجھ میں جینے کا حوصلہ ختم ہو رہا ہے۔۔میں اسے کبھی نہیں پا سکتا۔۔۔ لیکن وہ ہر واقت میرے پاس ہوتی ہے۔۔ ہر جگہ ہر کام میں ،، اسی کا خیال ہوتا ہے۔۔
وہ مدر میری (حضرت مریم عل) کی طرح تھی۔۔ پاک،، اور معصوم۔۔ اگر آپ ایک منٹ کے لیے وہ چیز محسوس کرلیں نا جو میں نے اسکے پاس محسوس کی تھی۔۔ میں قسم کھاتا ہوں آپکی حالت میڑے سے زیادہ بری ہوگی۔۔
اسکے آنسو گالوں پر لڑھک رہے تھے۔۔ جین منہ کھولے اسے تک رہی تھی۔۔وہ بچپن میں بھی بہت کم رویا تھا وہ اسے پچیس سال بعد روتے دیکھ رہی تھی۔۔ کارلس بھی فکرمندی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اسکی بات اور حالت سمجھنے کی کہشش کر رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادو کی طبیعت سنبھل گئی تھی۔۔وہ لوگ انہیں گھر لے آئے تھے۔۔ ذیشان صاحب دس سال بعد پاکستان آئے تھے اسلیئے انکو لمبی چھٹی مل گئی تھی۔۔ اشک دادو کا پورا خیال رکھ رہی تھی ۔۔وہ اس حالت میں نہیں تھی کہ اپنا کام خود کر سکتیں۔۔ انکو باتھ روم لے جانا اور کھانا کھلانا وغیرہ سب کچھ اشک کے ہی ذمے تھا۔۔ وہ واپس آکر بہت خوش تھی،، دادو اٹھتے بیٹھتے اسے دعائیں دیتی تھیں۔۔اور اشک کا سیروں خون بڑھ جاتا تھا۔۔۔