بیٹا میں نے بات کر لی ہے۔۔آپ کل سے جانا شروع کر دیں۔۔
ذیشان صاحب نے بتایا۔۔۔
بابا کہاں جانا ہے۔۔
وہ پر جوش ہوئی۔
ہماری سوسائیٹی میں ہی ہے۔ کل میں آپکو جاتے ہوئے چھوڑ دوں گا واپس آپ خود آجائیے گا۔۔
انہوں نے تفصیل بتائی۔۔
جی بابا۔۔ جزاک اللہ۔۔
اسنے ممنو نیت سے کہا۔۔وہ مسکرا دئے۔۔ان کے درمیان مزید بات نہیں ہوئی۔۔۔ تکلف اب بھی حائل تھا۔۔ بلا ضرورت اب بھی ان کے پاس ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے کچھ نی تھا
اگلے دن ذیشان صاحب اسے جاتے ہوئے چھوڑ گئے تھے۔۔افضال صاحب کا گھر اسکے گھر سے دو بلاک چھوڑ کر تھا۔۔ وہ اندر آئی تو بچیاں قران پاک پڑھ رہی تھیں۔۔حلیمہ آنٹی اپنے نام کی طرح تھیں۔۔ نرم خو۔۔ مخلص اور بے ریا۔۔انہوں نے اسکا خوشدلی سے استقبال کیا۔۔سورۃ الحج کا ترجمہ پڑھا یا جا رہا تھا۔۔وہ بیٹھ کر لیکھنے لگی۔۔حلیمہ باجی ٹھر ٹہر کر پڑھا رہی تھیں۔۔ ایسا لگ رہا تھا قران پاک دل میں اتر رہا ہو۔۔ سکنیت طاری تھی۔۔ اتنی خاموشی تھی جیسے سب سانس رہکے بیٹھے ہوں۔۔ اسکا وہاں سے آنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ٹھیک تو ہو؟؟ اس دن پارٹی چھوڑ کر کیوں آگئے تھے؟؟
ڈینئل نے پوچھا۔۔ وہ ڈیوڈ کے گھر کاؤچ پر بیٹھا سوال کر رہا تھا۔۔
بس میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔
اسنے سگریٹ پھونکتے ہوئے کہا۔۔
کارلا بھی کہہ رہی تھی تم بہت عجیب برتاؤ کر رہے تھے۔۔ وہ کافی ہرٹ ہوئی ہے۔۔
میں اس سے معزرت کر لوں گا۔۔
ڈیوڈ نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔۔
وہ تو اچھی بات ہے۔۔لیکن مجھے بتاؤ تمہیں کیا ہوا ہے۔۔؟؟
وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولا
کچھ نہیں۔۔
اس نے بیزاری سے سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکا۔۔وہ اب نیا نکال رہا تھا۔۔
تمہارا موڈ آج کل خراب رہنے لگا ہے اور تم سگریٹ بھی زیادا پینے لگے ہو۔
تمہیں ایسا کیوں لگا؟؟
وہ لائٹر جلاتے جلاتے رک گیا۔۔
تم دن میں ایک سگریٹ پیتے تھے وہ بھی کبھی کبھی۔۔ اب میرے سامنے بیٹھے تیسراپینے لگے ہو۔۔
ڈینئل نے سنجیدگی سے کہا۔۔ڈیوڈ نے خاموشی سے سگریٹ واپس ڈبی میں رکھ دیا۔۔ وہ کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
واپس آتے ہوئے اس پر گھبراہٹ طاری تھی۔۔وہ تیز تیز چلتے ہوئے آرہی تھی۔۔پاکستان میں دادو اسے اکیلے محلے میں نہیں جانے دیتی تھیں۔ اسکو جلد ہی سانس چڑھ گیا۔۔
تیز چلنے کی عادت انسان کی گھبراہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔۔
اس کے ذہن میں کسی کتاب کا جملہ گھوما۔۔اسنے خواد پر قابو پانے کی کوشش کی ۔۔تقریبا ایک دو کوششوں میں اسکی رفتار پر سکون ہوگئی۔۔اسنے آرام سے چلنا شروع کر دیا۔۔وہ اپنی لائن میں آچکی تھی۔۔ نرم گرم دھوپ اچھی لگ رہی تھی۔۔
وہ معارف القرآن اور رجسٹر سینے سے لگائے فٹ پاتھ پر دیکھتے ہوئے چل رہی تھی کہ اسکے پاس سے کوئی گزرا۔۔
بلیک شوز۔۔
اسکو باکو یاد آیا۔۔ اسکے فٹ پاتھ پر با لکل ایسے ہی شوز پہنے داؤد اسکے ساتھ چلتا تھا۔۔ اسکی رفتار تیز ہوتی تھی لیکن داؤد آہستہ چلتا تھا تنگ آکر وہ بھی اسکے ساتھ قدم ملا کر چل پڑتی تھی۔۔ اسے علم نہیں تھا داؤد اسکی وجہ سے آہستہ چلتا تھا۔۔ تاکہ انکا سفر ختم نا ہو۔۔ اسکا ساتھ جلدی نہ چھوٹے۔۔ لیکن جانا تو تھا ہی۔۔ جلدی چلا جائے یا آہستہ سفر تو ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔۔
وہ مسکراتے ہوئے گھر تک آگئی۔۔ اسکا ،موڈ موسم کی طرح خو شگوار ہو چکا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟
ڈیوڈ نے سوال کیا۔۔وہ کارلا کے ساتھ معذرت کے طور پر آیا ہوا تھا۔۔ڈینئل کے علاوہ جین بھی اس پر کارلا کی ناراضگی کی وجہ سے دباؤ ڈال چکی تھی۔۔
آفس فرینڈز کی پارٹی ہے وہیں۔۔
وہ ڈرائیو کرتے ہوئے بولی۔۔ وہ خاموش رہا۔
اوہ مائی نے گلیبٹے۔۔ تم وہاں بلکل بور نہیں ہوگے۔۔
وہ جرمن میں اسے مائی لو کھتے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ گئی۔۔
نو اٹس اوکے۔۔
اسنے نرمی سے ہاتھ پیچھے کیا۔۔
واٹر پارٹی ہے؟
اسنے کارلا کو گاڑی دریائے سپری کے بگ بیچ کی طرف موڑتے دیکھ کر کہا۔۔
ہاں بہت مزا آئے گا۔۔
وہ خوشی سے بولی۔۔ڈیوڈ نے اثبات میں سر ہلادیا۔۔
وہ جلد ہی وہاں پہھنچھ گئے۔۔وہ ہنستے ہوئے ایک گروپ کی طرف بھاگی۔۔ وہ بیزاری سے اسکے پیچھے چل پڑا اسکو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا پارٹی میں۔۔
یہ میرے کولیگز ہیں۔۔
کارلا نے گروپ کی طرف اشارہ کیا۔۔
یہ مو ہے۔۔ یہ سارا ۔۔ یہ جیکسن۔۔۔
وہ باری باری سب سے ملوا رہی تھی۔۔
مو نے سارا کی کمر میں ہاتھ ڈالا ہوا تھا۔۔وہ سب سے ملا ان سب نے سوئم سوٹ پہنے ہوئے تھے۔۔
آپ دونوں جرمن نہیں لگتے؟؟
اسنے مو اور سارا سے پوچھا۔۔
رائٹ۔۔ میرے مام ڈیڈ پاکستان سے ہیں۔۔
تو آپ مسلم ہیں۔۔؟
ڈیوڈ چونکا۔۔
میں تھی۔۔ اب سرف مو ہے۔
اب کی بار سارا بولی۔۔
آپ کیوں نہیں ہیں۔۔؟
ڈیوڈ نے حیرانی سے پوچھا۔۔
میں چھوڑ چکی ۔۔ مجھ سے نہیں برداشت ہوتیں وہ پابندیاں۔۔
وہ ناگواری سے بولی۔۔۔
آپ بھی پاکستان سے ہیں؟
نہیں میں بنگلہ دیش کی ہوں۔۔
تو آپکے پیرنٹس مسلم ہونگے۔؟
ہاں وہ اب تک بیک ورڈ ہیں۔۔
وہ کافی شوخ تھی۔۔ اسکے انداز میں ایک نخرہ تھا۔۔ کارلا کپڑے بدلنے گئی ہوئی تھی۔۔
آپ کا نام یونیک ہے۔۔
ڈیوڈ نے مو کو کہا۔۔
میرا نام اصل میں محمد ہے۔۔ وہ مشکل ہے اسلیئے سب مو بلاتے۔۔
وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔ ڈیوڈ بھی مسکرا دیا۔۔ وہ لوگ اسے عام سے لگے۔۔ ان کے ساتھ اسے ویسا محسوس نہیں ہو رہا تھا جیسے اشک کے ساتھ ہوتا تھا۔۔
اوہو کیا باتیں ہو رہی ہیں۔۔
کارلا نے پیچھے سے آکر اسکی گردن میں بازو ڈالتے ہوئے پوچھا۔۔ وہ کپڑے بدل آئی تھی۔۔
کچھ نہیں انٹر ویو چل رہا ہے۔۔
سارا نے کہا تو وہ سب ہنس پڑے۔۔
چلو چلتے ہیں۔۔
ان کے ایک دوست نے کہا۔
ہاں ڈیوڈ ت بھی آؤ نا۔۔ مزا آئے گا۔۔
مو نے انوائٹ کیا۔۔
نہیں میرا وڈ نہیں۔۔ میں سن باتھ لوں گا۔۔
وہ بیٹھتے ہوئے بولا۔وہ سب پانی کی ظرف چلے گئے۔۔ وہ انکو جاتا دیکھتا رہا۔۔ برلن کو دریائے سپری نے گھیرا ہوا ہے۔ اسکا نیلگوں پانی ایک نہر کی صورت پورے شہر میں سے گزرتا ہے۔۔اکثر جگھہوں پر اسکا دہانہ تنگ تھا۔۔لیکن بعض جگہوں پر ئسے باقاعدہ بیچ کی شکل دی گئی ہے جسکو ہر طرف سے ریسٹورینٹس نے گھیرا ہوا ہے۔۔
آخری دفعہ وہ ساحل پر اشک کے ساتھ آیا تھا۔۔
اشک۔۔ وہ پھر اسے یاد آگئی۔۔اسکا سراپا اسکے ذہن میں گھوم گیا۔۔ اسنے پانی کی طرف دیکھا۔۔ وہ سب پانی میں کھیل رہے تھے۔۔ ایک دوسرے کو پھینک رہے تھے۔۔ اسکے سامنے سب تھے۔۔
یہ کیسے مسلمان تھے۔۔ وہ حیران ہوا۔۔ جنہیں اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی تھی۔۔اس نے سارا کو دیکھا۔۔ اس میں اور کارلا میں کوئی فرق نہیں تھا۔۔ وہ دونوں ایک جتنی برہنہ تھیں۔۔اسکے پیرنٹس بھی مسلمان تھے اور اشک کے بھی۔۔ پھر بھی اتنا فرق۔۔ وہ الجھ رہا تھا۔۔وہ اسکے سامنے ہی تھی۔۔ مو کے بازوؤں میں۔۔سرے عام اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے۔۔
اور اشک ۔۔۔ وہ پانی پر وضو کرتے ہوئے اسکے سامنے آگئی۔۔باقی سب غائب ہوگئے تھے۔۔وہ وضو کر کے نماز پڑھنے چلی گئی۔۔ اسنے گردن موڑ کر دیکھا۔۔ باکو میں اسکے پیچھے درخت تھے لیکن یہاں ایسا نہیں تھا۔۔وہ سجدے میں جاتے ہوئے۔۔ دعا مانگتے ہوئے اسکی نظروں کے سامنے گھوم رہی تھی۔۔ وہ مسکرا اٹھا۔۔
وہ جب اٹھ کر گئی تھی۔۔ اسکا پرس گرا تھا۔۔
اسے ایک ایک بات یاد آرہی۔۔پرس میں سے کارڈ گرا تھا۔۔
کارڈ۔۔۔۔
اسکے ذہن میں جھماکا ہوا۔۔ اس پر استنبول کا ایڈریس اور نمبر لکھا تھا۔۔اشک کے فادر کا نمبر۔۔
اوہ گاڈ مجھے وہ کارڈ سنبھالنا چاہیے تھا۔۔
وہ بے اختیار کھڑا ہو گیا۔۔
کارلا!!!
اس نے پانی کے پاس آکر پکارا۔۔ وہ کافی آگے تھی۔۔
کارلااااا۔۔۔۔۔۔
اسنے دوبارا آواز دی۔۔ وہ غوطے لگا رہی تھی۔۔ اسکو ڈیوڈ کی آواز نہیں گئی۔۔
کیا آپ پلیز کارلا کو بتا دینگے کہ میں جا رہا ہوں۔۔
اسے اسکا کولیگ نظر آیا۔۔
ہاں کیوں نہیں۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔ ڈیوڈ بھاگتے ہوئے مین روڈ پر آیا۔۔ ٹیکسی لیکر وہ سیدھا جین کے گھر پہنچا۔۔وہ کچن میں تھی۔۔اسکو اچانک دیکھ کر وہ حیرت کا شکار ہوئی۔۔ وہ کبھی ویک اینڈ یا بغیر بتائے نہیں آتا تھا۔۔
واؤ۔۔ واٹ اے سرپرائز سن۔۔
وہ خوشگوار حیرت سے بولی۔۔
مام میررے کپڑے کہاں ہیں جو آپ نے لانڈری کے لیے بھجوائے تھے۔۔؟
اس نے چھوٹتے ہی سوال کیا۔۔
سب ٹھیک ہے نا۔۔
وہ پیشان ہوئی۔۔
مام میرے کپڑے کہاں ہیں ؟
اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
اندر تمہاری وارڈروب میں۔۔
وہ اسکی بات پوری سنے بغیر ہی تیزی سے کمرے میں چلاگیا۔۔ جین اسکے پیچھے اندر آگئی۔۔ اسنے الماری کھولی۔اندر کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔۔اس نے سارے کپڑے نکال کر بیڈ پر پھینک دیے۔۔
ڈیوڈ یہ کیا کر رہے ہو؟
جین نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔اس نے جواب دیے بغیر پینٹس کی جیبیں چیک کرنی شروع کر دیں۔۔ وہ ایک ایک پاکٹ چیک کر کے پینٹ زمین پر پھینکتا جارہا تھا۔۔
ڈیوڈ کیا ہوا ہے؟ کیا ڈھونڈ رہے ہو؟
جین پریشان ہوگئی۔۔ زمین پر کپڑوں کا ڈھیر لگتا جارہا تھا۔۔
مام پلیز۔۔
وہ جھنجھلایا ہوا تھا۔۔ اسے یاد نہیں تھا کہ اس دن اس نے کون سے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
ڈیوڈ کچھ بتاؤ تو۔۔
ایک کارڈ تھا وائٹ کلر کا۔۔ آپ نے نکالا تو نہیں؟؟
وہ چیک کرتے ہوئے بولا۔۔
نہیں کچھ چیزیں تمہاری پاکٹ سے نکلی تھیں۔ اس میں کارڈ کوئی نہیں تھا۔
جین نے سوچتے ہوئے کہا۔۔
اوہ مائی گاڈ۔
وہ پاگل ہو رہا تھا۔۔ اسنے سارے کپڑے زمین پر پھینک دیے ۔۔
کہاں جا سکتا ہے وہ؟
اس نے خود کلامی کی۔۔ اسکو خود پر سخت غصہ آرہا تھا۔ جین نے زمین پر پڑے کپڑے اٹھا کر چیک کرنے شروع کر دیے
کیا بہت امپورٹنٹ تھا۔۔؟
وہ چیک کرتے ہوئے بولی۔۔ڈیوڈ سر پکڑ کر دھم سے بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔
ہاں بہت۔۔
یہ تو نہیں ہے۔۔
اسنے ایک پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر کہا۔۔
کہاں؟
وہ بےقراری سے اٹھ کر آگے آیا۔۔
یہ دیکھو۔۔
جین نے پاکٹ سے ہاتھ نکالا۔۔ ڈیوڈ نے دیکھا وہ دھل کر اکڑ چکا تھا۔۔ اس پر لکھے الفاظ مٹ چکے تھے۔۔ اسے لگا اشک تک پہنچھنے کا راستہ بھی مٹ گیا ہے۔۔ اس نے کارڈ مٹھی میں بھینچ لیا۔۔
اوہ ڈیئر۔۔ اور کوئی نہیں ہے تمہارے پاس۔۔
جین نے افسوس سے کہا۔۔
نہیں۔۔ اور آپ صحیح سے پاکٹ نہیں دیکھ سکتی تھیں۔۔ آپکو اندازہ ہے آپ نے کیا کیا ہے؟؟
وہ پوری آواز سے چلایا۔۔ جین نے چونک کر دیکھا۔۔ وہ سرخ پڑ چکا تھا۔۔
تو جس سے پہلے لیا تھا اس سے دوبارہ لے لو۔۔
اس نے نرمی سے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔۔
میں اس سے کبھی نہیں مل سکتا۔۔ کبھی نہیں ۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔
وہ دروازہ دھاڑ سے بند کرتے ہوئے چلاگیا۔۔جین سہم کر رہ گئی۔۔ اسکا یہ روپ بلکل نیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان صاحب آفس جا چکے تھے۔۔ وہ گھریلو کام نپٹا رہی تھی۔۔ قرآن کلاس میں ابھی کافی ٹائم تھا
فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔۔ وہ ہاتھ خشک کرتے ہوئے کچن سے نکلی۔
السلام علیکم۔۔۔
اس نے فون اٹھایا۔اگلی بات سن کر اسکا رنگ فق ہوگیا۔۔
آپ فکر نہ کریں۔۔ میں بابا سے بات کر کے آپکو بتاتی ہوں۔۔
اس نے بے چینی سے جواب دیا۔۔
نہیں وہ نہ آئے تو میں آجاؤں گی۔۔
اسنے مخاطب کی بات سننے کے بعد کہا۔۔
جی ٹھیک۔۔
کچھ رسمی باتوں کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔۔وہ وہیں فون کے پاس بیٹھ گئی۔۔ اسکے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔۔ اسے اب ذیشان صاحب کا انتظار تھا۔۔
دادہ ہاسپٹل میں ایڈ مٹ تھیں۔۔ پاکستان میں کوئی بھی اشک جیسا انکا خیال نہیں رکھ سکا تھا۔۔ انکی طبیعت بگڑ گئی تھی۔۔ ایک ماہ میں ہی وہ ہاسپٹل پہنچھ گئی تھیں۔۔ انہیں اشک کی جدائی راس نہیں آئی تھی۔۔اشک کا بس نہیں چل رہا تھا اڑ کر انکے پاس پہنچ جائے۔۔ وہ شام تک انکی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہی ۔۔ وہ حلیمہ باجی کے پاس بھی نہیں جا سکی حالنکہ وہ کبھی چھٹی نہیں کرتی تھی۔۔ اسکے لیے ایک ایک منٹ گزارنا مشکل تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔