سب آئے تھے وہ نہیں آیا تھا۔۔ اس نے پردے کے پیچھے سے چھپ کر اسے دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن ڈرائینگ روم میں بس ایک وہی نہیں تھا۔۔
آنٹی سب نہیں آئے کیا؟
اس نے حلیمہ باجی سے پوچھا۔۔
نہیں داؤد نہیں آیا۔۔
وہ کیوں؟
اسے بے چینی ہوئی۔۔
اسکی طبیعت بہت خراب تھی۔۔پتہ نہیں کیا ہوا تھا صبح ٹھیک گیا تھا۔۔واپس آیا تو کافی بری حالت تھی۔۔
وہ کھانے کے بعد قہوہ پی رہی تھیں۔۔اسکا چہرہ پیلا پڑ گیا۔۔وہ اسکی اس حالت کی ذمہ دار تھی۔۔
آنٹی یہ کھانا لے جائیں۔۔
وہ نکلنے لگیں تو اس نے ڈبے پیک کر کے دیے۔۔
نہیں بیٹا ۔۔ اسکی کیا ضرورت ہے۔۔ آپ لوگ کھانا۔۔
حلیمہ بیگم نے پیار سے منع کیا۔۔
نہیں آنٹی ہم دو لوگ ہیں اتنا کھانا کیسے کھائیں گے۔۔ آپ لوگ کھائے گا۔۔
اس نے اصرار کیا۔۔وہ داؤد کے لئے کھانا بھیجنا چاہتی تھی۔۔فش رول کا قرض اتارنا چاہتی تھی۔۔
جزاک اللہ بیٹا۔۔
حلیمہ بیگم نے کھانا لیتے ہوئے کہا۔۔ وہ لوگ چلے گئے تو وہ تھوڑا خوش ہوگئی۔۔ اس نے داؤد کا قرض اتار دیا تھا۔۔داؤد نے اس وقت اسے کھلایا تھا جب وہ ایک انجان ملک میں اکیلی تھی اور اسکے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔۔ اور اب جب اسنے اس کے لیئے کھانا بھیجا تھا تو اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔۔ وہ دس دس کھانے بھی بھیج دیتی تو اسکاقرض نہیں چکا سکتی تھی۔۔ وہ بجھ کر رہ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ واپس آئے تو داؤد لاؤنج میں بیٹھا تھا۔۔
کیسے ہو بیٹا؟
حلیمہ بیگم اسے دیکھتے ہی بولیں
اللہ کا شکر ہے بہتر ہوں امی۔۔
وہ مسکرایا ۔۔
یہ کھانا ہے آپکے لیئے۔۔ گرم گرم ہے ابھی کھا لو۔۔
انہوں نے ڈائینگ ٹیبل پر کھانا رکھتے ہوئے کہا۔۔
اسکی کیا ضرورت تھی امی میں گھر سے ہی کھا لیتا کچھ ۔۔
وہ صوفے سے اٹھ کر ڈائینگ ٹیبل پر آگیا۔۔
میں نے بھی منع کیا تھا لیکن اشک اصرار کر رہی تھی تو لے آئی۔۔
حلیمہ بیگم کمرے میں جاتے ہوئے بولیں۔۔ داؤد نے گھبرا کر حنان کو ڈھونڈا۔۔ اسے ڈر تھا وہ نہ سن لے۔۔ لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔۔
حنان کہاں ہے امی؟
وہ نیچے رک گیا اسے کوئی دوست مل گیا تھا ۔۔
انہوں نے کمرے سے ہی جواب دیا۔۔ داؤد نے سکھ کی سانس لی۔۔
کھانا بہت مزے کا بنا ہوا تھا۔۔ اس نے بہت رغبت سے کھایا۔۔وہ اسکے لئے اشک نے بھیجا تھا ۔۔ محبوب کی ایک نگاہ الفت ہی تخت پر بٹھا دیتی ہے۔۔ اوپر سے وہ آپ کے لئے فکر مند بھی ہو اور آپکو تحفہ بھی دے تو انسان خوشی سے مدہوش ہوجاتا ہے۔۔
حنا ن اور افضال صاحب کافی دیر سے آئے۔۔ وہ تقریبا سارا کھانا کھا چکا تھا۔
کھا لیا کھانا
حنان نے اسے انگلیاں چاٹتے دیکھ کر کہا۔۔
ہاں بہت مزے کا تھا۔۔
اسکے لہجے میں عجیب سی خوشی تھی۔۔
تمہارے لئے ایک خوشخبری ہے۔
وہ دونوں کرسیاں گھسیٹ کر اس کے پاس ہی بیٹھ گئے۔۔
اچھا وہ کیا؟
اس نے ایکسائٹڈ ہو کر پوچھا۔۔
ذیشان صاحب تمہارے برلن جانے سے پہلے نکاح کے لئے مان گئے ہیں۔۔ ہم نے اگلے ہفتے کی تاریخ مقر ر کی ہے۔۔
وہ بہت خوش تھے۔۔ داؤد کو لگا اسکا سارا کھایا پیا باہر آجائے گا۔۔اس نے حنان کی طرف دیکھا اسکا چہرہ کھل اٹھا تھا۔۔
مبارک ہو بہت بہت ۔۔ یہ تو اچھا ہو گیا۔۔
وہہی جانتا تھا اس نے یہ الفاظ کس ہمت اور طاقت سے کہے تھے۔۔ وہ آپس میں نکاح کےمعاملات ڈسکس کرنے لگے تھے ۔۔ حلیمہ بیگم بھی انکے پاس آبیٹھی تھیں۔۔وہ ان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔۔ لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔۔ وہ باکو میں گھومتی ہوئی اس لڑکی کے ساتھ تھا۔۔ جس نے کچھ گھنٹے پہلے ہی اپنے خون آلود ہاتھوں سے اسے اپنی زندگی سے جانے کے لیئے کہا تھا۔۔ وہ غائب دماغی سے انکی باتیں سن رہا تھا۔۔ کافی دیر بعد وہ ان کو واک کا کہہ کرباہر نکل آیا۔۔ لوگ آجا رہے تھے۔۔ لیکن اسے لگ رہا تھا پوری دنیا مین صرف وہی رہ گیا ہے۔۔ اس کے آس پاس کوئی بھی نہیں ہے۔۔
چلتا چلتا وہ کالونی کے گراؤنڈ میں آگیا۔۔ بے رم پاشا کے ایک طرف باسفورس بہہ رہا تھا۔۔ گراؤنڈ کے دونو ں طرف سڑک اور اسکے بعد بلاکس تھے۔۔وہ اشک کے بلاک کی طرف منہ کر کے بیٹھا تھا۔۔
باسفورس پر سکون تھا لیکن اس کے اندر طوفان برپا تھا۔۔
وہ چاہتا تھا کہ چیخ چیخ کر سب کو بتا دے کہ وہ قمر نہیں ہے۔۔ اشک ہے،، اسکی اشک،،حنان کو بتا دے۔۔ افضال صاحب کو بتا دے۔۔ حلیمہ بیگم کو بتا دے کہ وہ اسکی اشک ہے۔۔۔
ان کا ایک بیٹا دوسرے بیٹے کی اذیت جانتے ہوئے بھی بے خبری میں اسکی محبت میں شادی کرنے جا رہا ہے۔۔
اسکا دل جل رہاتھا۔۔ اسکی رگوں میں محبت تیزاب بن کر دوڑ رہی تھی۔ وہ سلگنے لگا تھا۔۔
اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ حنان کو گریبان سے پکڑ کر بتا دے کہ وہ قمر سے نہیں اشک سے شادی کرنے جا رہا ہے۔۔
وہ اشک جو اسے فلائٹ میں ملی تھی۔۔ جس کے ساتھ وہ دو دن باکو میں رہا تھا۔۔ جسے وہ کیسپئین سی اور میڈن ٹاور پر لے کر گیا تھا۔۔ جسکی وجہ سے وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہواتھا۔۔
وہ رونا چاہتا تھا۔۔ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا تھا لیکن اسے رونا نہیں آرہا تھا۔۔ آنسوؤں کے ساتھ اذیت بہہ جاتی ہے۔۔ لیکن آنسو جب پلکوں پر ٹہر جائیں تو کرچیوں کی طرح چبھتے ہیں۔۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔ وہ بالکونی میں کھڑی تھی۔۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا۔۔وہ چوتھی منزل پر کھڑی تھی۔۔ اسے اسکا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا،، بالکونی کی لائٹ بند تھی۔۔ لیکن وہ اسکے وجود سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ اشک ہی تھی۔۔
وہ آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ اسے بھی ذیشان صاحب ڈیٹ پکی ہونے کا بتا چکے تھے۔۔ وہ اکسی موجودگی سے بے خبر تھے۔۔ وہ بس خالی نظروں سے تاروں کوگھور رہی تھی۔۔وہ اپنی ذات سے بھی بے خبر تھی۔۔ اس نے نیچے دیکھنے کی کو شش نہیں کی۔۔ رات اداس تھی۔۔
وہ نیچے بینچ پر بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔۔ یاسیت نے ان دونوں کو اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا۔۔ خاموشی رات کی طرح ان کے اندر اتر رہی تھی۔۔اسے آج بھی وہ اپنے سے بہت بلند محسوس ہو رہی تھی جستک پہنچھنا اسکی دسترس سے باہر تھا۔۔
وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ہی رہے۔۔ رات ڈھلتی رہی خاموش اور گم صم۔۔ لمحہ لمحہ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔ حلیمہ بیگم ابھی ابھی اسے اسکے کمرے تک پہنچھا کر گئی تھیں۔۔ ایک ہفتہ کب کیسے گزرا اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔۔ وہ بس ایک روبوٹ کی طرح سارے کام انجام دیتی گئی تھی۔۔ذیشان صاحب اور افضال صاحب کی مشترکہ خواہش پر انکا نکاح مسجد میں ہوا تھا۔۔ اسکے پاس گھر میں رجسٹر لایا گیاتھا ۔۔ اس نے بغیر دیکھے سائن کر دیے تھے۔۔ اب وہ انتظار کر رہی تھی اپنے شوہر کا جو پورے جائز حق سے اسے اپنے نام کر چکا تھا۔۔
ڈور ناب کی آواز سے اسکے خیالات کاسلسلہ ٹوٹا۔۔ وہ اپنے اندر سمٹ گئی۔۔ اس نے وائٹ فراک پہنا ہوا تھا۔۔ ترک دلہنوں کا لباس کرسچن دلہنوں کے ہی مشابہ تھا۔۔ بس فرق یہ تھا کہ اسکے اوپر حجاب لپٹا ہوا تھا اور سرخ کامدار گھونگٹ پڑا ہوا تھا۔۔
السلام علیکم۔۔
آنے والے نے سلام کیا۔۔ اس نے سرہلا کر جواب دیا۔۔ آواز حلق میں پھنس گئی تھی۔۔ وہ مزید کوئی بات کیئے بغیر اب شکرانے کے دو نفل ادا کر رہا تھا۔۔
نماز پڑھ کر وہ بیڈ پر آبیٹھا۔۔
شادی مبارک ہو۔۔
اسکی آواز کتنی اپنی اپنی سی تھی۔۔ وہ خاموش رہی۔۔ وہ اب اسکا برف ہوتا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔۔اس کے اندر کرنٹ دوڑ گیا۔۔وہ اب اسکے ہاتھ میں کچھ پہنا رہا تھا۔۔
پتہ نہیں مجھے کب سے اس بات کا انتظار تھا۔۔ آج جب وہ وقت آگیا ہے تو۔۔۔۔
وہ رکا۔۔ اشک کو بے چینی ہوئی۔۔
تو ایسا لگ رہا ہے کہ ایک خواب ہے جو آنکھ کھلنے پر ٹوٹ جائے گا۔۔
اسکی گرفت اسکے ہاتھ پر سخت ہو گئی۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا کہ واقعی تم میرے سامنے ہو۔۔ میری ہو کر۔۔ میں اس قابل ہوں کہ تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا گیاہے۔۔
وہ مدھم انداز میں بول رہا تھا۔۔ا شک کے دل کی کیفیت بد ل رہی تھی وہ معمول سے زیادہ تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔ اس نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نہیں کھینچا تھا۔۔
میں جب سے تہمہیں جانتا ہوں تب سے لیکر آج تک تم سے بن دیکھے محبت کی ہے۔۔ تمہیں ہر دعا میں مانگا ہے۔۔ لیکن آج جب مجھے حق ہے کہ تمہارا چہرہ دیکھوں تو مجھے سمجھ نہیں آرہا کہتمہیں دیکھ کر کیا ری ایکٹ کرو ں گا۔۔
اشک کے دل کے تار جھنجھنا اٹھے ۔۔کیتنا خوبصورت احساس تھا اپنے ہمسفر سے سننا کہ وہاسے دعاؤں میں مانگتا رہا تھا۔۔
اگر تمہرای اجزت ہوتو میں۔۔
وہ چپ ہو گیا۔۔ یقینا وہ اسکا گھونگٹ اٹھانے کی بات کر رہا تھا۔۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔ اسکے شوہر نے آہستگی سے اسکا ہا تھ لبوں کو لگا یا اور چوم کرچھوڑدیا۔۔ وہ اب دونوں ہاتھوں سے اسکے چہرے پر پرا سکارف اٹھا رہا تھا۔۔اشک نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا ۔۔ اسکا لمس ابھی تک اسکے ہاتھ پر تھا۔۔ وہ یک ٹک اپنے ہاتھ کو دیکھ گئی۔۔۔۔
میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا دوبارہ۔۔
یہ داؤد کی ہی آواز تھی۔۔ حنان اپنے قدموں پر جم گیا۔۔
میں انگیجڈ ہوں۔۔
وہ دونوں سیڑھیوں میں کھڑے ہو کر بات کررہے تھے۔۔ حنان ریلنگ کے دوسری طرف کھڑا تھا۔۔وہ داؤد کے پیچھے آیا تھا۔۔
حلیمہ باجی اور افضال انکل میرے لئے محترم ہیں۔۔میں ان کے پر پوزل کا انکار کر کے ان کا دل نہیں توڑ سکتی۔۔
اس لڑکی کی آواز آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔وہ وہیں سے پلٹ گیا۔۔ اس نے مزید کچھ سننے کی کوشش نہیں کی۔۔
امی ۔۔۔
وہ سیدھا گھر آیا۔
ذیشان صاحب کی بیٹی کا نا م کیا ہے؟
خیریت بیٹا۔۔ کیوں پوچھ رہے ہو؟
حلیمہ بیگم کے ساتھ ساتھ افضال صاحب بھی حیران ہوئے تھے۔۔
آپ بس مجھے بتائیں۔۔ ان کی بیٹی کا نام کیا ہے؟
قمر۔۔
پورا نام کیا ہے؟اور کوئی نک نیم وغیرہ ہے اسکا۔۔
اس نے بے تابی سے پوچھا۔۔
تم نے کیا کرنا ہے اسکا نام۔۔
افضال صاحب نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
ابو یہ بہت ضروری ہے ہم سب کے لئے۔۔ امی پلیز بتائیں۔۔
اسکا پورا نام اشک قمر ہے۔۔ میں اسے قمر بلاتی ہوں۔۔
اللہ اکبر۔۔
حنان نے کارپٹ پر ہی سجدہ ادا کر لیا۔۔
سب ٹھیک تو ہے نا۔۔ کیا معاملہ ہے یہ۔۔
افضال صاحب سخت حیرا ن تھے۔۔
ابو جسکی وجہ سے داؤد نے اسلا م قبول کیا وہ اشک قمر ہی ہے۔۔ ذیشان صاحب کی بیٹی۔۔ اور وہ یہ بھی جان چکا ہے اسکی شادی مجھ سے ہو رہی ہے ۔۔
وہ ایک سانس میں بولتا چلا گیا۔۔ افضال صاحب اور انکی بیگم ہکا بکا اسے دیکھ رہے تھے۔۔
وللہ۔۔۔
افضال صاحب کے منہ سے نکلا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے ہاتھ کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔
ماشاءللہ ۔۔ الحمد للہ۔۔مجھے تو دنیا میں ہی حور عطا کر دی گئی ہے۔۔
سرخ کامدار سکارف میں حیا اور پاکیزگی سے دمکتے چہرے کو وہ دیکھتے ساتھ بولا۔۔ اشک نے اسکا چہرہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔۔ وہ بس اپنے ہاتھ میں پہنائی گئی بریسلیٹ دیکھ رہی تھی۔۔
وائٹ سٹونز والی بریسلیٹ۔۔
جو حیات ریجنسی میں اسکی کلائی سے کھل کر گر گئی تھی۔۔۔
اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔خوشی سے اسکی آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی پاکیزہ بچیاں آج بھی موجود ہیں ۔۔ جنکے کردار سے ہی اللہ دوسروں کو ہدایت دے دیتا ہے۔۔
افضال صاحب نے رشک سے کہا۔۔
مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آرہا ۔۔
حلیمہ بیگم کے منہ سے نکلا۔۔
ابو امی۔۔ آپ دونوں نے با لکل ظاہر نہیں کرنا کہ ہمیں یہ بات پتہ چل گئی ہے۔۔
حنان نے قطعیت سے کہا۔۔
تم فکر نہ کرو انشاءللہ اسکا بھرم نہیں ٹوٹے گا۔۔
میں آج ہی ذیشان صاحب سے بات کروں گا۔۔
افضال صاحب نے کہا۔۔
ہاں صحیح ہے۔۔
حلیمہ بیگم نے تائید کی ۔۔ ان کے چہروں پر سکون پھیل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایسے اچھلی جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔۔
تت۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔
اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپاتے ہوئے وہ بیڈ پر کھڑی ہوگئی۔۔ اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔۔
اپنی بیوی سے بات کر رہا ہوں اور کیا؟
اس نے منہ بنایا اسے اشکی حالت دیکھ کر ہنسی آرہی تھی۔۔
بیوی۔۔۔ تم۔۔۔ میں ۔۔۔ یہ سب کیسے؟
مارے حیرت کے اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔
بس اللہ نے میری دعائیں قبول کر لیں۔۔
وہ اطمینان سے بولا۔۔
داؤد ۔۔۔ مجھے بتاؤ تم میرے شوہر کیسے بن گئے۔۔
تم نے نکاح نامہ نہیں پڑھا تھاکیا؟
وہ ابھی تک منہ چھپائے کھڑی تھی۔۔ اسے اندازہ ہو رہاتھا وہ تب سے اس سے انگریزی میں بات کررہا تھا۔۔
نہیں۔۔
اس نے اعتراف کیا۔۔
اسی لئے تم اتنا حیران ہو رہی ہو۔۔ اب بیٹھ بھی جاؤ۔۔
وہ جھنجھلایا ۔۔ اشک خفگی سے بیٹھ گئی۔۔
کیا ہو گیا ہے پہلے ہی ترس ترس کر ملی ہو اور اب چہرہ چھپا رہی۔۔۔
داؤد نے کہتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ہٹا دیے۔۔اس کے انداز مین اتی وارفتگی تھی کہ اشک بے اختیار سر جھکا گئی۔۔ اس کے گال سرخ پڑ رہے تھے۔۔۔اگلے ہی لمحے اسے اپنی بات یاد آئی۔۔
مجھے بتاؤ یہ سب ہوا کیسے؟
وہ اس بات کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھی۔۔
پتہ نہیں مجھے تو آج صبح بابا نے بتایا۔۔
کیا بتایا؟
یہی کہ حنان کی جگہ انہوں نے میرا رشتہ طے کیا ہے تمہارے ساتھ۔۔ اور تمہارے بابا اس شرط پر مانیں ہیں کہ ہر چھ ماہ بعد انکی بیٹی کو ان سے ملوانے لاؤں گا۔۔
اس نے تفصیل بتائی۔۔ اشک کے حواس واپس آئے۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا۔۔
وہ سر جھکا کر بولی۔
مجھے بھی۔۔ اب تم سے بہت باتوں کے حساب لینے ہیں۔۔
داؤد کا لہجہ بدلا۔۔
کن باتوں کا۔۔
وہ پریشان ہوئی۔۔
تم مجھے باکو میں سوتا چھوڑ کر کیوں گئی تھیں؟
اس نے اشک کو کندھوں سے پکڑا۔۔
فلائٹ کا ٹائم ہوگیا تھا۔۔
وہ سہم گئی۔۔
مجھے اٹھا نہیں سکتی تھی۔۔ بتا نہیں سکتی تھی۔۔ ہاں
تم۔۔۔ تھکے ہوئے تھے۔۔ میں نے سوچا ۔۔۔
کیا سوچا تم نے ۔۔ بولو۔۔۔
اشک کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔ داؤد کو اسکا ڈرا سہما روپ ھد درجے پیارا لگ رہا تھا۔۔ وہ اسے یک ٹک دیکھ گیا۔۔
تم پریشان ہوجاؤگے۔۔
داؤد نے اسکے انداز پر بے اختیار اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔ سانس ایک دم رک گئی تھی۔۔ اسکاپورا جسم کانپ گیا۔۔
گھڑی کی سوئیاں اپنی رفتار کھو بیٹھی تھیں۔۔ داؤد کو لگا اسکا جلتا ہوا دل پرسکون ہونے لگا۔۔ محبت پھوار بن کر انکے وجود کو بھگو رہی تھی۔۔
تمہیں پتہ تمہارے بعد میں کتنا پریشان ہوا تھا۔۔ میرا دل چاہتا تھا مر جاؤں خود کو مار لوں ۔۔ ہر پل اذیت ہوتی تھی۔۔ پتہ نہیں میں کیسے یہاں تک پہنچا ہوں۔۔ اور اب تم مل گئی ہو تو ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کائنات جیت چکا ہوں۔۔ میں اب کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا ۔۔ تمہاری آنکھوں مین آنسو نہیں آنے دوں گا۔۔ تئمہاری چوڑیاں نہیں ٹوٹنے دوں گا۔۔ تمہیں کبھی گرنے نہیں دو ں گا۔۔
وہ وعدہ کر رہا تھا۔۔ اعتراف کر رہا تھا۔۔ اسے یقین دلا رہا تھا۔۔ وہ اسکی دھڑکنیں سن رہی تھی۔۔ دنیا میں صرف وہی آواز باقی تھی۔۔ صرف وہ دو نفوس باقی تھے۔۔ وہ انکی زندگی کا سب سے حسین لمحہ تھا۔۔ سب سے خوبصورت پل۔۔۔۔اسے اپنا وجود بادلوں مین محسوس ہو رہا تھا۔۔ زمیں جیسے اپنی کشش چھوڑ گئی تھی۔۔
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔بہت زیادہ۔۔ تم بھی مجھ سے کرتی ہو نا؟
اس نے اپنا چہرہ اٹھا یا۔۔ اسکی آنکھوں میں ہیرے چمک رہے تھے۔۔وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔
تم کب سے محبت کرتی ہو مجھ سے؟
بب۔۔۔ باکو سے۔۔
وہ ہنستے ہوئے اسکے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔ داؤد نے مسکرا کر اسے اپنے بازوؤں میں بھر تے ہوئے اسکے ماتھے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کردی۔۔
وہ دونو ں مقتدئ محبت تھے۔۔ محبت کی,اقتدا کرنے والے۔۔ پیروی کرنے والے۔۔ انکی محبت انہیں صراط مستقیم تک لے آئی تھی۔۔ عشق جب پورے صدق سے مجازی سے حقیقی کا سفر طے کرتا ہے تو اللہ کا وعدہ سچا ہو کر رہتا ہے اور اللہ کا وعدہ ہے کہ ہوگا وہی جو میری چاہت ہے اگر تم سپرد کر دوگے اپنے آپ کو میری چاہت کے تو میں تم کو وہ بھی دونگا جو تیری چاہت ہے۔۔۔ محبت پورے شرعی حق کے ساتھ اپنی منزل پانے کے ساتھ کامیاب ہوچکی تھی۔۔۔۔
ختم شد